عدلیہ میں عمران خان کی سہولت کاری
سپریم کورٹ
عین اس وقت جب پی ٹی آئی ملک بھر میں حملے کر رہی تھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کو ججوں کے خصوصی راستے سے سپریم کورٹ میں بلوایا اور انکو 'گڈ ٹو سی یو' کہا۔ پھر درخواست کی کہ یہ جو حملے جاری ہیں انکی مذمت کر دیں۔ عمران خان نے نہایت رعونت سے انکار کیا۔ جس کے بعد عمران خان کو کہا کہ جائیں کچھ دوستوں کو بھی بلوا لیں اور مٹن گوشت کھائیں۔
25 مئی کو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ عمران خان اپنا 'آزادی مارچ' جی نائن اور ایچ نائن سے آگے نہیں لائیگا۔ لیکن عمران خان ڈی چوک کی طرف روانہ ہوا اور بلو ایریا کے قریب پہنچ گیا اور عدالتی حکم ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ بعد میں عمران خان نے جھوٹ بولا کہ مجھ تک عدالتی حکم پہنچا ہی نہیں۔ اس جواب پر سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی روک دی۔ [1]
اسلام آباد ھائی کورٹ
11 اپریل کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے جرمانہ کر دیا جو 15 دن میں جمع کرانا ہوگا۔ [2]
31 اگست کو جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس زیبا دھمکی کیس میں عمران خان کے مضحکہ خیز تحریری جواب پر پی ٹی آئی کو ایک اور موقع دیتے ہوئے کہا کہ یہ جواب پھر اچھے سے لکھ کر لائیں۔ اس والے جواب سے دکھ ہوا۔ [3]
15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں گرفتار شہباز گل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ جو اس وقت امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دن رات زہر اگل رہا ہے۔ [4]
2 اکتوبر کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی۔ [5]
24 اکتوبر کو الیکشن کمیشن سے سزا پانے کے باؤجود اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کو ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دے دیا۔ [6]
28 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے وفاقی حکومت کے خلاف سخت ریمارکس دئیے۔ [7]
9 جنوری کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کے معاملے میں عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔ [8]
2 فروری کو ٹیریان کیس میں عمران خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا۔ [9]
22 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کی جانب سے بینکنگ کورٹ سے عمران خان کی ضمانت منظور ہونے کے خلاف درخواست مسترد کردی۔ [10]
17 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا۔ [11]
27 مارچ کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے بیک وقت 7 مقدمات میں عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی۔ عمران خان کو یہ ضمانتیں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دے دیں گئیں۔ [12]
6 اپریل کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان نے سیکیورٹی واپس لینے کو قابل تشویش قرار دیا۔ [13]
4 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکیل کو قتل کرنے کے الزام سمیت 7 مقدمات میں عمران خان کی 14 دن کی حفاظتی ضمانت کی منظور کر لی۔ [14]
10 مئی کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کے ٹیریان کیس خارج کر دیا۔ درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ عمران خان نے اپنی بیٹی اپنے کاغذات میں ظاہر نہیں کی ہے جس کہ اس حوالے سے امریکی عدالت کا فیصلہ موجود ہے۔ [15]
12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں دو ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی نئے مقدمے میں بھی 15 مئی تک گرفتار نہ کیا جائے۔ [16]
29 اگست کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کر دی۔ [17]
25 ستمبر کو عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کو اے کلاس دلوانے کے لیے اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کروانے کا حکم دے دیا۔ [18]
30 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشری بی بی کی زلفی بخاری کے ساتھ آڈیو لیک معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے اور وفاق سے جواب طلب کیا کہ یہ کون کر رہا ہے اور کیوں؟ [19]
28 دسمبر کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل 11 جنوری تک رکوا دیا۔ [20]
29 دسمبر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان کو مختلف سیاسی امور میں عمران خان سے مشاورت کی اجازت دے دی۔ [21]
26 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو اپنے وکلا سے تنہائی میں ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔ [22]
1 مارچ کو اسلام آباد ھائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے شہریار آفریدی کو گرفتار کرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ایس ایس پی آپریشن اور تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ او کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قید و جرمانے کی سزا سنادی۔ [23]
27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو سیکیورٹی خدشات کے باؤجود تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو 30 مارچ کے جلسے کی اجازت دینے کی ہدایت کردی۔ [24]
سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اڈیالہ جیل میں پندرہ دن کے لیے ملاقاتوں پر پابندی لگائی گئی۔ اسلام آباد ھائی کورٹ نے حکم دیا کہ عمران خان کو پھر بھی ملاقاتیں کرائی جائیں ورنہ آن لائن ملاقاتیں کروائیں جائیں۔ جب وہ نہیں کرائیں گئیں تو عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ پر توہین عدالت لگا دی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو غیر مشروط معافی مانگنی پڑی۔ [25]
لاہور ھائی کورٹ
گورنر پنجاب نے چودھری پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا۔ چودھری پرویز الہی نے ووٹ نہیں لیا جس پر چیف سیکٹری نے قانون کے مطابق حکومت معطل کر دی۔ گورنر پنجاب اور چیف سیکٹری کے ان احکامات کے خلاف پرویز الہی نے لاہور ھائی کورٹ سے تین ہفتے کا سٹے لے لیا۔ تین ہفتوں میں اس نے ادھر ادھرے سے بھاگ دوڑ کر کے اپنے بندے پورے کر لیے۔ اس کے بعد لاہور ھائی کورٹ نے اس کو ایک ہفتہ مزید دیا۔ جب بندے پورے ہوگئے تو اس نے اعتماد کا ووٹ لیا اور جج نے سٹے ختم کر دیا۔ [26]
لاہور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس کا داماد علی افضل ساہی پی ٹی آئی کا وزیر تھا۔ ان دنوں لاہور ھائی کورٹ کو داماد ھائی کورٹ بھی کہا جاتا تھا۔
پشاور ھائی کورٹ
20 فروری کو پشاور ھائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے کامران بنگش کےخلاف چترال, لوئر کوہستان میں درج مقدمات منسوخ کرنے کا حکم دےدیا۔ [27]
27 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔ [28]
1 اپریل کو پشاور ھائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے ان راہنماؤں جنہوں نے 9 مئی حملے کیے تھے بشمول مراد سعید، اعظم سواتی، فیصل جاوید، خرم ذیشان اور اظہر مشوانی کی کاغذات منظوری کے خلاف درخواستیں خارج کردیں۔ [29]
2 اپریل کو پشاور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم خان نے 10 منٹ میں پی ٹی آئی کو 51 ضمانتیں دے دیں۔ [30]
چیف جسٹس ابراہیم خان نے رات 10 بجے عدالت کھول کر زرتاج گل کو ضمانت دی اور ساتھ ساتھ اس کو کسی اور کیس میں گرفتاری سے بچانے کی پیشکش بھی کی۔
دیگر
عدلیہ کی بدولت عمران خان کو جیل میں جتنی سہولیات دی گئی ہیں یہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی کو نہیں ملیں۔ [31]
عمران خان کو اپنے سیل کے علاوہ چھ سیل مزید الاٹ کیے گئے ہیں جو آج تک کسی اور کو الاٹ نہیں ہوئے ہیں۔ عمران خان کے لیے الگ کچن بنایا گیا ہے۔ جس میں صرف عمران خان کے لیے کھانا بنتا ہے اور وہاں کسی اور کا کھانا نہیں بنتا۔ صرف اس کچن کا ماہانہ خرچ 12 لاکھ روپے ہے۔ ان کو ورزش کرنے والا سامان اور سائیکل بھی ملی ہے۔
جیل میں دس ملزموں کے لیے ایک سیکیورٹی گارڈ ہوتا ہے۔ جب کہ عمران خان کے لیے الگ سے 14 سیکیورٹی گارڈ تعئنات کیے گئے ہیں۔ [32]
ڈسٹرکٹ ایند سیشن جج ملک اعجاز آصف نے عمران خان کے خلاف 9 مئی کے کیسز سننے تھے۔ موصوف پہلے دن عمران خان کے سیل کے پاس گئے کہ میں آپ کو بہت بڑا فین ہوں اور آپ کو ہیرو سمجھتا ہوں۔ مجھے بتائیں میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں۔ عمران خان نے فریج مانگا تو جج موصوف نے فوراً ان کو فریج دینے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی اپنے ساتھیوں کی تلاشی لینے پر جیل پولیس ایس پی اور وارڈن وغیرہ کو شوکاز نوٹس جاری کی اور انکو حکم دیا کہ وہ میری عدالت میں جوتے، ٹوپی، موزے حتی کہ اپنی بیلٹ بھی اتار کر آئنگے۔ [33]
عمران خان نے جج سے شکایت کی کہ دیکھیں جی میں میڈیا سے بات نہیں کرپاتا۔ شیشہ لگا دیا گیا ہے۔ جج نے کہا جب تک شیشہ نہیں ہٹے گا میں عدالت نہیں لگاؤنگا۔ جس کے بعد اسی وقت شیشہ ہٹا دیا گیا۔ یہ حکم بھی دیا کہ جہاں بشری بی بی چاہیں گی وہاں سے انکا علاج کروایا جائے۔ [34]
معروف تجزیہ کار مزمل سہروردی کے مطابق عدلیہ میں عمران خان کی سہولت کاری ہورہی ہے۔ فوج چاہتی ہے کہ سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو سزائیں دی جائیں اور ملزموں کی ضمانتیں نہ ہوں۔ لیکن پاکستان کی عدلیہ میں بیٹھے ججوں کی بڑی تعداد 9 مئی حملوں کو کوئی بڑا جرم نہیں سمجھتی۔ [35]
عمران خان نے بارہا ججوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اسکو کچھ نہیں کہا گیا۔ لیکن اداروں نے پی ٹی آئی کے حامی جج جسٹس بابر ستار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو ان کو اسی جج نے جرمانہ کر دیا۔
علی امین گنڈا پور پر 22 کیسز تھے۔ لیکن انہوں نے عدلیہ کی مدد سے الیکشن بھی لڑا اور وزیراعلی بھی بن گئے۔
عمر ایوب پر 23 مقدمات تھے اور انہوں نے الیکشن بھی لڑ لیا اور آج ریاست اور فوج کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔
شہریار آفریدی کی ویڈیو جی ایچ کیو حملے کی ویڈیو موجود ہے۔ لیکن اس کی ایم پی او میں ھائی کورٹ نے ضمانت دے دی۔
شاندانہ گلزار نے کہا تھا کہ عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں۔ وہ بھی آج ایم این اے ہیں۔
کئی ججز کی آڈیوز موجود ہیں جن کے بیوی بچے ان پر دباؤ ڈالتے ہیں عمران خان کو سپورٹ کرنے کے لیے۔
عمران خان نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے چیف جسٹس کو لندن پلان کا حصہ اور سہولت کار قرار دیا۔ اسی طرح جنرل سیکٹری رؤف حسن نے بھی ججوں اور چیف جسٹس پر بدترین تنقید کی تھی۔ اس کو آزادی اظہار کہا گیا۔ لیکن جب فیصل واوڈا نے دہری شہریت پر سوالات اٹھائے تو ججوں اور پی ٹی آئی نے اس پر زبردست تنقید کی۔
کئی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کو جو سہولیات دی جارہی ہیں ایسی پاکستان تو کیا دنیا میں کسی مجرم کو کبھی نہیں دی گئیں۔ [36]
پی ٹی آئی نے جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس عامر فاروق کے خلاف بار بار مہم چلائی اور ہر قسم کی الزام تراشی کی۔ لیکن کسی جج نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔
حوالہ جات
- ↑ 25 مئی عدالتی حکم ردی کی ٹوکری میں
- ↑ عمران خان کے خلاف درخواست پر جرمانہ
- ↑ جسٹس زیبا دھمکی دوبارہ جواب لکھیں
- ↑ شہباز گل کی ضمانت منظور
- ↑ عبوری ضمانت منظور
- ↑ عمران خان ضمنی الیکشن کے لیے اہل
- ↑ بلدیاتی انتخابات کیس
- ↑ حاضری سے استثنی سے درخواست منظور
- ↑ ٹیریان کیس میں مرضی کا بنچ تشکیل
- ↑ ضمانت منظوری کے خلاف درخواست مسترد
- ↑ پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا
- ↑ بیک وقت 7 مقدمات میں ضمانتیں
- ↑ سیکیورٹی واپس لینے پر تشویش
- ↑ وکیل قتل کیس ضمانت منظور
- ↑ ٹیریان کیس خارج
- ↑ القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت منظور
- ↑ توشہ خانہ کیس میں سزا معطل
- ↑ اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل
- ↑ آڈیو لیکس بابر ستار بشری بی بی
- ↑ سائفر کیس کا ٹرائل رکوا دیا
- ↑ عمران خان سے مشاورت کی اجازت
- ↑ وکلاء سے تنہائی میں ملاقات کی اجازت
- ↑ شہریار آفریدی کی گرفتاری ڈی سی کو سزا
- ↑ جلسے کی اجازت
- ↑ جیل سپرنٹنڈنٹ کی معافی
- ↑ لاھور ھائی کورٹ پرویز الہی اعتماد کا ووٹ
- ↑ کامران بنگش کے خلاف مقدمات منسوخ
- ↑ پشاور ھائی کورٹ بلے کا نشان واپس
- ↑ 9 مئی حملہ آؤروں کی سہولت کاری
- ↑ 10 منٹ میں 51 ضمانتیں
- ↑ مزمل سہروردی عمران خان جیل سہولیات
- ↑ عمران خان کو جیل میں حاصل سہولیات
- ↑ سیشن جج عمران خان کو فریج
- ↑ شیشہ ہٹانے کا حکم اور میڈیا سے بات کرنے کی اجازت
- ↑ 9 مئی بڑا جرم نہیں
- ↑ عمران خان کو سب سے زیادہ سہولیات