جسٹس بابر ستار

Shahidlogs سے

امریکی گرین کارڈ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دسمبر 2020 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات ہونے والے جج بابر ستار 22 ستمبر 2005 سے امریکی شہریت رکھتے ہیں لیکن انھوں نے اس کا ذکر اپنی کسی بھی سرکاری دستاویز میں نہیں کیا۔ [1]

جسٹس بابر ستار نے امریکی شہریت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی وفاداری چھوڑنے اور امریکا کا وفادار رہنے کا حلف اٹھایا ہے۔ [1]

جسٹس بابر ستار نے یہ حلف بھی اٹھایا ہوا ہے کہ امریکی فوج انہیں کہے تو وہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف ہتھیار لے کر لڑے گا۔ [1]

سوشل میڈیا پر اس پر تنقید ہوئی کہ جسٹس بابر ستار نے اپنی امریکی شہریت کیوں چھپائی تو جج نے جواب دیا کہ میں نے اپنے ساتھی جج جسٹس اطہر من اللہ کو بتا دیا تھا۔ اس بھونڈے جواب پر مزید تنقید ہوئی کہ اطہر من اللہ کو بتانے کی کیا تک تھی؟ آپ کو کاغذات میں ظاہر کرنا ہوتا ہے اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

اطہر من اللہ پر بھی اعتراضات اٹھے کہ اس نے یہ بات چھپائی کیوں؟ خیال رہے کہ پاکستان میں محض دبئی کا اقامہ چھپانے پر ایک وزیراعظم کو نااہل کر دیا گیا تھا یہ تو پھر امریکی گرین کارڈ کا معاملہ ہے۔ [2]

بابر ستار نے یہ بھی کہا کہ جب میں امریکہ میں پڑھ رہا تھا تب گرین کارڈ لیا۔ حالانکہ پڑھائی سٹوڈنٹ ویزہ پر بھی ہوجاتی ہے۔ [3]

اسی گرین کارڈ والے معاملے پر جسٹس بابر ستار بطور تجزیہ کار جیو نیوز کے ایک پروگرام میں بڑا سخت موقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ کی نیشنلٹی کا پراسیس بھی سٹارٹ ہو تب بھی آپ کوئی پبلک آفس ہولڈ نہیں رکھ سکتے۔ [4]

فیصل واوڈا کے سوال پر اسلام آباد ھائی کورٹ نے تحریری جواب دیا کہ آئین میں جج کے لیے دہری شہریت نہ رکھنے کی کوئی قدغن نہیں۔ نیز جسٹس بابر ستار کی گرین کارڈ کے حوالے سے کوئی تحریری بات موجود نہیں کہ انہوں نے آگاہ کیا تھا۔ [5] اسلام آباد ھائی کورٹ کے اس جواب پر سوشل میڈیا پر تنقید اٹھی کہ اس طرح تو کوئی جرنیل اور سیاستدان بھی رکھ سکتا ہے دہری شہریت!

عین اس وقت جب جسٹس بابر ستار کی امریکی شہریت پر تنقید زوروں پر تھی جسٹس موصوف امریکہ پہنچ گئے۔

دولت و کاروبار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلور آکس نامی سکول چین جسٹس بابر ستار کی ہے۔ جس کی 32 برانچز ہیں۔ ایک برانچ دبئی میں بھی ہے۔

جسٹس بابر ستار کی ساس کو سکول کے لیے ایک کروڑ روپے مالیت کا کمیونٹی پلاٹ الاٹ ہوا۔ انہوں نے سکول نہیں بنایا تو وہ پلاٹ سی ڈی اے نے منسوخ کر دیا۔ جب اس پلاٹ کی مالیت 6 ارب روپے ہوگئی تو اس پلاٹ کے حصول کے لیے جسٹس بابر ستار نے چیئرمین سی ڈی اے کو عدالت بلوانا شروع کر دیا۔ پھر اس کو کسی افسر نے مشورہ دیا کہ جسٹس بابر ستار کی ساس کا پلاٹ دوبارہ الاٹ کردیں۔ اس نے پلاٹ الاٹ کر دیا جس کی قانون میں گنجائش نہیں تھی اور یوں اسکی جان چھوٹ گئی۔ [6]

چند نمایاں فیصلے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

  1. جسٹس بابر ستار خود اپنے ہی خلاف چار اداروں کی اعتراض پر مبنی درخواستوں کی سماعت کی اور درخواستیں خارج کر دیں۔ ساتھ ہی درخواست گزاروں کو جرمانہ بھی کیا۔ نیز یہ دھمکی آمیز سوال بھی کیا کہ میرے خلاف درخواستیں کس نے منظور کی تھیں؟ [7]
  2. شہریار آفریدی نے ایک جتھے کو لے کر باقاعدہ جی ایچ کیو پر حملہ کردیا۔ اسکو ریلیف دے کر بابر ستار نے شہریار آفریدی کی گرفتاری کا حکم جاری کرنے والے ڈی سی کو پیش ہونے کا حکم جاری کردیا۔ وہ پیش نہ ہوا تو ای سی ایل میں نام ڈلوا چاروں آئی جیز اور ایف آئی اے کو حکم دیا کہ جہاں نظر آئے گرفتار کریں۔ گویا اصل دہشتگرد شہریار آفریدی نہیں بلکہ اسکی گرفتاری کا حکم جاری کرنے والا ڈی سی ہے۔

ثاقب نثار اور بشری بی بی کی آڈیو لیکس کا کیس[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جسٹس بابر ستار کے پاس کیس گیا کہ جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کے پی ٹی آئی کے ٹکٹس بیچے ہیں۔ ان کی اڈیو لیک ہوئی ہے۔ انہوں نے تمام اداروں کو طلب کر کے سوال کرنا شروع کیا کہ آڈیو کس نے ریکارڈ کی اور کیوں کی؟

جب جج موصوف نے اصل کیس چھوڑ دیا تو کچھ اداروں نے درخواست دائر کی کہ آپ ٹکٹیں بیچنے کا کیس نہ سنیں۔ اس درخواست کی بھی خود سماعت کی اور متعلقہ اداروں پر توہین عدالت لگا کر انکو جرمانہ کر دیا۔ حالانکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ کسی جج پر عدم اعتماد کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔ [8]

دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جسٹس بابر ستار نے بھارت کے دورے کیے۔ لیکن انکی وجوہات نہیں بتا رہا۔

جسٹس بابر ستار جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں بطور سیاسی تجزیہ کار پیش ہوتے رہے۔

الزام ہے کہ وہ سیاسی وابستگی کی بنا پر ایڈیشنل جج تعئنات ہوئے۔

جسٹس بابر ستار ان چھ ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے جسٹس محسن اختر کیانی کی قیادت میں سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ [9]

ججوں نے ان صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو گرفتار کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوے فوری انکی رہائی کے احکامات جاری کئیے تھے جنھوں نے فوج اور اس کی قیادت کے خلاف بدترین تضحیک امیز مہم چلائی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ وغیرہ نے اسے آزادی اظہارِ رائے قرار دیا تھا۔ لیکن جسٹس بابر ستار کے خلاف جب سوشل میڈیا پر ایسے ہی سوالات اٹھے تو ججوں نے اس کو عدالت پر حملہ قرار دیا۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]