سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملہ

Shahidlogs سے

سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ اور پاک فوج کے 28 جوانوں کی شہادت معاملے کا صرف ایک رخ ہے۔ کچھ پاکستانی عسکری ذرائع، افغانستان میں موجود نیٹو فورسز اور کچھ امریکن دفاعی تجزیہ نگار اس کہانی کا ایک اور رخ بھی بتاتے ہیں۔ جو امریکنز کے فضائی حملے سے پہلے پاک فوج اور امریکن سپیشل فورسز کے درمیان ایک خونریز جھڑپ کی کہانی ہے۔

چھبیس نومبر 2011 کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب امریکی سپیشل فورسز (امریکی کمانڈوز) کا ایک بڑا دستہ ہیلی کاپٹرز کی مدد سے پاکستانی سرحد کے قریب اترا۔

ہیلی کاپٹر کی آواز سن کر پاک فوج الرٹ ہوگئی فوری طور پر علاقے میں گشتی پارٹیاں بھیج دیں۔ اسی دوران امریکن سپیشل فورسز کی ٹیم سرحد عبور کر کے پاکستانی علاقے میں داخل ہوئی تو سامنے پاکستانی فوجی تیار کھڑے تھے جنہوں نے پاکستانی سرحد کے اندر چند سو میٹرز تک گھس جانے والے امریکن فورسز پر حملہ کر دیا۔ یوں ایک خونریز جھڑپ شروع ہوگئی۔

وہاں کل 40 پاکستانی فوجی تھے جبکہ امریکن فورسز اور ان کے ساتھ موجود سول کپڑوں میں ملبوس جنگجوؤں کی تعداد 100 سے اوپر تھی۔  

زبردست جانی نقصان کے بعد امریکی دستے نے فضائی مدد طلب کی۔ جس کے بعد امریکن گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جیٹ طیاروں نے موقع پر پہنچ کے وہاں موجود پاک فوج کی دونوں چیک پوسٹوں پر بمباری کی جس سے اکثر پاکستانی فوجی شہید ہوگئے اور دونوں چیک پوسٹیں تباہ ہوگئیں۔

اس فضائی حملے میں امریکہ کے دو اپاچی ہیلی کاپٹرز، ایک اے سی ون تھرٹی گن شپ ہیلی کاپٹر اور دو ایف 15 ایگل نامی لڑاکا طیاروں نے حصہ لیا۔

اس ساری جھڑپ میں 56 امریکی اور سول کپڑوں میں ملبوس 24 دہشت گرد (مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے) ہلاک ہوئے جس میں کئی افغان ایجنسی این ڈی ایس کے اہلکار بھی تھے جنہیں فضائی حملے کے بعد امریکی ہیلی کاپٹر اٹھا کر لے گئے۔ امریکنز اپنے پیچھے اپنا سارا سامان چھوڑ گئے تھے جو صبح مقامی قبائل نے پہنچ کر اکھٹا کیا اور پاک فوج کے حوالے کیا۔

مقامی قبائل نے امریکہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی انہیں یقین تھا کہ پاک فوج  کے جوان انہیں امریکی حملے سے بچاتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔

نیٹو کے ترجمان تصدیق کر چکے ہیں کہ علاقے میں امریکن فوجی دستے موجود تھے اور انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے حملے کے جواب میں امریکن ہیلی کاپٹرز طلب کیے تھے۔

آئی ایس اے ایف (ایساف) کے ترجمان نے بھی انہی دنوں یہ انکشاف کیا تھا کہ فضائی حملہ دراصل علاقے میں موجود ایساف کی گراؤنڈ فورسز پر ہونے والے حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔

امریکن فورسز کا مشن سرحد کے قریب ایک پاکستانی گاؤں پر شب خون مارنا اور سول کپڑوں میں ملبوس داڑھیوں اور پگڑیوں والے کچھ لوگوں کو پاکستانی سرحد پار کرانا تھا۔

اسکی کچھ تفصیل باب ووڈ ورڈز کی کتاب میں بھی موجود ہے۔

لیکن اس سارے معاملے کا ایک پس منظر بھی ہے جس کو مختصراً سمجھ لیں۔

جنرل کیانی نے حقانی نیٹ ورک سمیت ان طالبان کے خلاف کاروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا جو پاکستان سے جنگ نہیں کر رہے۔ اس معاملے میں پاک فوج کا موقف تھا کہ امریکہ اپنی جنگ خود لڑے پاکستان اپنے لیے مزید دشمن پیدا نہیں کر سکتا۔

پاک فوج کے اس کورے جواب کے بعد امریکہ نے فوری طور پر مہمند ایجنسی سے متصل افغان صوبے کنٹر سے اپنی چوکیاں ختم کر دیں جس کے بعد اچانک وہاں سے مہمند، باجوڑ اور مالاکنڈ میں پاک فوج پر حملے شروع ہوگئے۔

جواباً پاک فوج نے علاقے میں اپنی نفری بڑھا دی اور کاروائیاں تیز کر دیں۔ اس علاقے میں دہشت گردوں کا اس حد تک صفایا ہوگیا کہ پاک فوج نے صحافیوں کی ایک ٹیم کو مہمند ایجنسی کا دورہ بھی کرایا۔

ایسے ہی ایک دورے کے دوران میجر جنرل نادر زیب خان نے سلالہ چیک پوسٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ چیک پوسٹ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں کنٹر سے پاکستان میں گھسنے والے دہشت گردوں پر اچھی طرح نظر رکھی جا سکتی ہے۔  یہ پوسٹ بڑی مشکل سے قائم کی گئی ہے اور اس تک لاجسٹکس پہنچانا بھی ایک بہت مشکل کام ہے۔

صحافیوں کے اسی دورے میں پاک فوج کی مقامی قیادت نے شکایت کی کہ کنٹر سے پاکستان میں حملے کرنے والے ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں سے ہم بارہا امریکنز کو آگاہ کر چکے ہیں لیکن وہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے پر تیار نہیں۔

امریکن فورسز کا دعوی ہے کہ انکی فورسز پر حملہ افغان سرحد کے اندر کیا گیا تھا۔ جبکہ پاک فوج ایسے کسی بھی حملے کو مسترد کرتی ہے۔ پاک فوج کا دعوی ہے کہ ہماری فوجیوں پر اس وقت امریکنز نے پاکستانی حدود کے اندر حملہ کیا جب وہ آرام کر رہے تھے۔

پاک فوج نے امریکہ کو چیلنج کیا تھا کہ اگر ان کے فوجی مرے ہیں تو انکی لاشیں کہاں ہیں؟

نیز امریکنز اس علاقے سے اپنی چوکیاں ختم کروا چکے تھے تب رات کے اندھیرے میں پاکستانی سرحد کے قریب وہ کیا کر رہے تھے؟

پاک فوج کا موقف ہے کہ امریکنز کو پاکستانی کی اعلی عسکری قیادت کی جانب سے حملہ روکنے کا کہا گیا تب بھی انکا حملہ کافی دیر تک جاری رہا۔

شاید یہ ان کے شدید غصے کا نتیجہ تھا۔

سلالہ حملے کے بعد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پاکستان نےنیٹو سپلائی معطل کر دی۔

امریکہ سے شمسی ائر بیس خالی کروا لیا۔

پاکستان نے پہلی بار افغان سرحد پر ائر ڈیفنس کو منظم کیا جس میں کندھے پر رکھ چلائے جانے والے اینٹی ائر کرافٹس راکٹس کا اضافہ شامل ہے۔

سپلائی لائن کی معطلی کی نتیجے میں امریکن اخراجات 6 گنا بڑھ گئے جس کے بعد امریکہ نے افغانستان میں اپنی فورسز کم کرنے کا فیصلہ کیا۔

3 جولائی 2012 کو امریکن سیکٹری سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے پاکستان سے سلالہ حملے پر معافی مانگ لی!