جسٹس اطہر من اللہ
انصاف کا دہرا معیار
فیصل واوڈا کی پریس کانفرس پر جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ "ججوں کوپراکسی کے ذریعے دھمکانا شروع کردیا ؟ کیا آپ پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے؟اس سے نہ تو کوئی جج متاثر ہوگا، نہ ہراساں۔" [1] حالانکہ فیصل واوڈا نے صرف جسٹس بابر ستار کی دہری شہریت پر سوال اٹھایا تھا۔ جب کہ جسٹس اطہر من اللہ نے آزادی اظہار کے نام پر ہر اس شخص کو ریلیف دیا جس نے پاک فوج پر الزام تراشی کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کو درست اور قابل تحسین فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے کوئی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ لیکن پھر اسی اطہر من اللہ نے عمران خان کو جیل سے لائیو دیکھانے کی حمایت کی تھی۔ [2]
پی ٹی آئی کی سہولت کاری
شہباز گل کا دو روزہ ریمانڈ منظور کرنے پر عمران خان نے سیشن جج زیبا چودھری کو نام لے کر کہا کہ 'ہم تمہیں بھی نہیں چھوڑینگے۔' اس مقدنے میں جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کو ریلیف دیا۔ [3]
دیگر
پرویز مشرف کی حکومت میں 2002 سے 2004 تک جسٹس اطہر من اللہ وزیر قانون تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سپریم کورٹ کی کاروائی کی دوران اعتراف کیا کہ میرے دور میں عدلیہ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ کی بہن ثمر من اللہ نے سوات میں لڑکی کو کوڑے پڑنے کی جعلی ویڈیو شائع کی تھی۔
سوشل میڈیا پر اس پر تنقید ہوئی کہ جسٹس بابر ستار نے اپنی امریکی شہریت کیوں چھپائی تو جج نے جواب دیا کہ میں نے اپنے کولیگ جسٹس اطہر من اللہ کو بتا دیا تھا۔ اس بھونڈے جواب پر مزید تنقید ہوئی کہ اطہر من اللہ کو بتانے کی کیا تک تھی؟ متعلقہ اداروں کو کیوں نہیں بتایا؟ اطہر من اللہ پر بھی اعتراضات اٹھے کہ اس نے یہ بات چھپائی کیوں؟ یہ بھی کہ محض اقامہ چھپانے پر ایک وزیراعظم نااہل ہوگیا تھا یہ تو امریکی گرین کارڈ کا معاملہ ہے۔ [4]
اطہرمن اللہ نے فیصل واوڈا کو پراکسی کہا جس پر فیصل واوڈا نے جسٹس اطہر من اللہ سے ثبوت مانگنے کا فیصلہ کر لیا۔ [5]