حمود الرحمن کمیشن رپورٹ
حمود الرحمن کمیشن کو یہ ٹاسک نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اسباب تلاش کرے جن کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا۔ بلکہ ان کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا فوج نے کیوں سرنڈر کیا؟ تو اس نے سارا فوکس فوج پر ہی رکھا۔
یہ کمیشن تین ججوں پر مشتمل تھا۔ کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس سپریم کورٹ حمود الرحمن کر رہے تھے جو ایک بنگالی جج تھے۔
کمیشن کو تین ماہ کا وقت دیا گیا۔
31 دسمبر 1971ء کو کمیشن کا پہلا غیر رسمی اجلاس ہوا جس میں کام کا طریقہ کار طے کیا گیا۔
فیصلہ کیا گیا کہ حمود الرحمن کمیشن کی تمام کاروائی خفیہ رکھی جائیگی۔
10 جنوری 1972ء کو کمیشن نے فوج اور عوام سے اپیل کی کہ کسی کے پاس کوئی بھی معلومات ہوں وہ کمیشن کو آگاہ کریں۔
20 جنوری 1972ء کو حمود الرحمن کمیشن نے سیاسی راہنماؤں کو خطوط لکھے کہ وہ شہادتیں پیش کریں۔ لیکن اکثر سیاسی راہنماؤں نے اصرار کیا کہ حمود الرحمن کمیشن کو سقوط ڈھاکہ کے فوجی پہلؤوں پر ہی ملحوظ رکھا جائے۔
15 جنوری کو کمیشن نے مختلف سیکٹرز کا دورہ کیا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ جنگ کے دوران فوجی پوزیشن کیسے سنبھالتے ہیں۔
دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
حمود الرحمن کمیشن میں 15 جرنیلوں کا سزائیں دینے کی سفارش کی گئی تھی۔