سقوط ڈھاکہ

Shahidlogs سے

قیام پاکستان کے وقت سے درپیش خطرات

سن 40 میں جو قرارداد پاس ہوئی تھی اس میں ریاستوں کا ذکر تھا ایک ملک کا نہیں۔ بعد میں ایک ملک کا مطالبہ پیش کیا گیا جو اس وقت بھی کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا اور علیحدگی کا بیج اسی وقت پڑ گیا۔

پاکستان بننے کے خلاف اتنی زیادہ قوتیں متحرک تھیں کہ اسکا بننا معجزہ کہلاتا تھا۔ وہ قوتیں بعد میں بھی متحرک رہیں اور نہ صرف پاکستان کو توڑا بلکہ آج تک اس کے وجود کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت بھی پاکستان کے بہت سے اثاثے دبائے گئے، اہم مسلم علاقے انڈیا کو دئیے گئے اور پاکستان بنتے ہی یہاں شورشیں برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔

عوامی لیگ کے الزامات

بنگالیوں کے وسائل کا استحصال

مشرقی اور مغربی پاکستان میں اتنا ہی فرق تھا جتنا قیام پاکستان سے پہلے تھا اور یہ تاریخی ہے۔ یہی فرق پنجاب کا مغربی پاکستان کے دیگر صوبوں سے تھا۔ پنجاب پاکستان کے قیام سے پہلے بھی باقی صوبوں اور بنگلہ دیش سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ یہ فرق مٹانے میں وقت لگتا ہے۔ بنگلہ دیش کو مسلسل سیلابوں نے بھی تباہ رکھا۔

مشرقی پاکستان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے

1961ء میں ایوب خان کے دور میں مشہور زمانہ بنگلہ دیش کے پارلیمنٹ کی بلڈنگ بنائی گئی۔ مغربی پاکستان کی صرف تین بڑی کمپنیوں کی لگائی ہوئی پٹ سن ملوں میں 26000 بنگالیوں کو نوکریاں ملیں۔ قیام پاکستان سے پہلے پورے بنگلہ دیشں میں پٹ سن کی ایک بھی مل نہیں تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے خام پٹ سن انڈیا جاتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد مقامی سطح پر پٹ سن کی صنعت پر توجہ دی گئی۔

ایوب خان کی آدھی کابینہ اور بڑی تعداد میں سیکٹریز مشرقی پاکستان سے تھے۔

ایوب خان کے دور میں چٹانگ پورٹ، چندگونا پیپر ملز، دی فینوگینگ فرٹلائزر کمپلیکس، پاکستان کی پہلی سٹیل مل، ریلوے، روڈ اور ائرلائن کی تعمیر کے علاوہ دریاؤں کے نیٹورک کو بھی منظم کیا گیا۔

مشرقی پاکستان میں قیمتیں اس لیے بڑھ گئ تھیں کہ مقامی ہندو مارواڑیوں نے زیادہ منافع کے چکر میں بڑے پیمانے پر اشیاء کو ذخیرہ کرنا شرو ع کر دیا تھا۔ مقامی انتظامیہ انڈیا کے زیر اثر عوام کا غصہ بڑھانے کے لیے اس ذخیرہ اندوزی کو روکنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔

مغربی پاکستان اپنا کلچر زبردستی نافذ کر رہا تھا

یہ الزام خاص طور پر اردو کو قومی زبان قرار دینے پر لگتا ہے۔ لیکن یہاں ایک بہت بڑی حقیقت نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ اردو تو مغربی پاکستان میں بھی کسی صوبے کی زبان نہیں تھی۔ یہ تو قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں کی زبان قرار دی جاتی تھی اور چونکہ پورے برصغیر میں سمجھی جاتی تھی لہذا پاکستان بننے پر اردو کو ہی قومی زبان بنانا قدرتی تھا۔

اگرتلہ سازش مغربی پاکستان کا ڈرامہ تھا

انڈین صحافی اور مصنف سوبر بھامک اپنی کتاب 'Agartala Doctrine: A Proactive North-East in Indian Foreign Policy' میں تفصیل سے بتاتے ہیں کہ یہ سازش انڈیا نے کیسے تھی۔ [1] اس کے علاوہ انڈین فوجی افسران اور سیاستدانوں کے اعترافات کی بھرمار ہے کہ مشرقی پاکستان کو انڈیا نے الگ کرنے کے لیے کیا کیا۔

تاہم زبردست سیاسی دباؤ کی وجہ سے یہ کیس واپس لینا پڑا۔ اگرتلہ سازش کیس جن 35 افراد کے خلاف بنایا گیا تھا ان میں سے شیخ مجیب اور کمال حسین کے سوا باقی سارے انڈیا بھاگ گئے تھے۔

شیخ مجیب الرحمن نے آزادی کی جنگ لڑی

دنیا بھر میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ شیخ مجیب الرحمن جنگ آزادی کا سپاہی تھا جس نے ایک غاصب ریاست سے بنگلہ دیش کا آزادی دلوائی۔ شیخ مجیب شروع سے ہی پاکستان کے خلاف رہا۔ انتخابات میں اس کو اس کے مقابل امیدواروں کی نسبت زیادہ فنڈز انڈیا سے ملے۔

اعترافات

"اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری آزادی کی جنگ میں را نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ بظاہر ان کا مقصد اپنے حریف پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ہر قیمت پر دو لخت کرنا تھا۔ لیکن ان کا پوشیدہ مقصد غیر منقسم ہندوستان دوبارہ قیام ہے جسے وہ ’اکھنڈ بھارت ماتا‘ کہتے ہیں۔" میجر جنرل ریٹائرڈ زیڈ اے خان سابق ڈائرکٹر ڈی جی ایف آئی بنگلہ دیش [2]

"مکتی باہنی کے بھیس میں انڈیا کی باقاعدہ افواج نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ساتھ جنگ کی۔ اپنے 5000 فوجی مراونے کے بعد انڈیا نے کھلی جنگ کا اعلان کر دیا۔"

انڈیا کے سابق وزیراعظم میرار جی ڈیسائی اوریانا لک 1984 [2]

"میں بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کرنے کا سارا کریڈٹ انڈیا کو دونگا۔"

بنگالی پارلیمنٹ کا ڈپٹی سپیکر شوکت علی [2]

"بنگلہ دیش کی مزاحمتی تحریک مکتی باہنی کے تربیتی مراکز، ہسپتالوں اور سپلائیز کے لیے دستیاب رہی۔ انڈیا درحقیقت پاکستان کے خلاف مکتی باہنی کی شکل میں ایک پراکسی جنگ لڑ رہا تھا۔"

ڈھاکہ میں تعئنات امریکی سفیر آرچر بلڈ کی کتاب The Cruel Birth of Bangladesh میں اس کی یاداشتیں [2]

"1971ء میں اندرا جی نے شیخ مجیب الرحمن کی مدد کا فیصلہ کیا تھا تاکہ بنگالیوں کے لیے بنگلہ دیش بنا سکیں۔ ساتھ ہی وہ مغربی پاکستان پر بھی حملے کا سوچ رہی تھیں تاکہ پاکستان کے ٹکڑے کر کے آزاد کشمیر پر بھی قبضہ کر سکیں۔"

ایل کے ایڈوانی، بی جے پی لیڈر اپنے 2010ء کے بلاگ میں [2]

سقوط کے بعد

جولائی 1974ء کے ذولفقار علی بھٹو کے پہلے دورے کے بارے میں انڈین سفیر جے این ڈکشٹ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بنگالی پاکستان کے حق میں اور انڈیا کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور انہوں نے شیخ مجیب کی گاڑی پر جوتے بھی پھینکے۔ [3]

مکتی باہنی

انڈیا میں مکتی باہنی کے گوریلوں کی تربیت کے لیے 186 کیمپ بنائے گئے تھے۔ [4]

ناکامی

سیاست دان عوام کو اکھٹا رکھنے میں ناکام رہے۔ بلکہ ان کو تقسیم کی کوشش میں رہے۔

میڈیا انڈین پروپیگنڈا کا مقابلہ نہ کر سکا۔ بلکہ زیادہ تر نے اسکا ساتھ دیا۔

سفارت کار دنیا میں پاکستان کی پوزیشن بتانے میں ناکام رہے۔

کچھ مزید

شیخ مجیب نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ وہ شروع سے ہی پاکستان توڑنے کے لیے کوشاں تھے۔ [5]

معروف انڈین سکالر شرمیلا بھوس کے مطابق 'یہ کیسے ممکن تھا کہ 34000 پاکستانی فوج 2 لاکھ بنگالی عورتوں کا ریب کر دیتی جب کہ وہ انڈین فوج اور مکتی باہنی کے گوریلوں سے بھی لڑ رہے تھے؟ [6]

مکتی باہنی کے ہاتھوں بہاریوں کی 20٪ آبادی قتل کر دی گئی تھی۔ [6]

پاکستان بنتے ہی مولانا بھاشانی (کمیونسٹ سرخہ) نے جو کہ ایک بڑا بنگالی لیڈر تھا پاکستان سے الگ ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ شیخ مجیب اسی کا شاگرد اور منشی تھا۔ اس وقت بھی کوئی حقوق کا مسئلہ نہیں تھا۔

سن 66 میں اگرتلہ سازش پکڑی گئی جس میں شیخ مجیب انڈین خفیہ ایجنسی را کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کی سازش میں مصروف تھا۔ جنرل ایوب نے شیخ مجیب کو غداری کے جرم میں سزا دینے کا فیصلہ کیا۔

بھٹو نے جو جمہوریت کے ذریعے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر رہا تھا جنرل ایوب خان کے اس فیصلے کے خلاف شیخ مجیب کے حق میں ملک گیر مہم چلائی۔ عوام کو ایوب خان کے خلاف اکسایا کہ "ایک آمر نے ایک جمہوری لیڈر کو قید کر رکھا ہے اور اس کو قتل کرنے لگا ہے اسکو رہا کیا جائے۔"

اسی دوران بھارت کے جنرل اوبین نے مکتی باہنی نامی گوریلا فوج تشکیل دی جو پاکستان دشمن لوگوں پر مشتمل تھی۔ انکی تعداد ابتداء میں ایک لاکھ پچھتر ہزار تھی جو بعد میں ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔

مکتی باہنی نے بنگال بھر میں پاک فوج اور پاکستان کے حامیوں پر جگہ جگہ حملے شروع کر دئیے۔

مکتی باہنی کی سربراہی پاک فوج سے باغی ہونے والے بنگالی کرنل عثمانی کر رہے تھے۔

ان حالات بھٹو نے انتخابات کا مطالبہ کر دیا اور عوامی دباؤ کے ذریعے ایسی حالت میں انتخابات کروائے گئے جب بنگلہ دیش کے ایک ایک پولنگ سٹیشن کو مکتی باہنی کے گوریلےاور غنڈے کنٹرول کر رہے تھے۔

لوگ پاکستان کا نام تک لیتے ہوئے ڈرتے تھے۔ عوامی لیگ کے خلاف کسی میں امیدوار تک کھڑا کرنےکی ہمت نہ تھی۔

اسکی وجہ سے شیخ مجیب نے بنگال میں کلین سویپ کردیا اور مجموعی طور پر بھٹو پر دگنی اکثریت حاصل کی۔ تب جمہوریت کے چیمپئن ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ اس ملک میں دو وزیراعظم ہونگے۔

ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا۔

شیخ مجیب جو اسی انتظار میں تھا نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ جگہ جگہ شورشیں پھوٹ پڑیں۔ حالات بدترین ہوگئے مجبوراً پاک فوج نے بنگلہ دیش میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور پاکستان دشمن عناصر اور مکتی باہنی کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔

ان حالات میں پچاس ہزار کے قریب بنگالی فوجی باغی ہوکر مکتی باہنی سے مل گئے یوں باغیوں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی۔

یہ جھوٹ ہے کہ اس وقت 90 یا 93 ہزار پاک فوج بنگلہ دیش میں موجود تھی۔

اس وقت مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی صرف ایک کور موجود تھی جو27 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی۔

نومبر کے آخر تک پاک فوج کی کل تعداد بڑھا 45 ہزار کر دی گئی جن میں صرف 34 ہزار مسلح ڈیوٹی پر تھے۔ جب کہ باقی 11 ہزار سی اے ایف، مغربی پاکستان کے سویلین پولیس کے اہلکار، ایچ ایل، ایم ایل اے، ڈپو، تربیتی ادارے، ورکشاپ، نرس، لیڈی ڈاکٹرز، حجام، خاکروب، باورچی وغیرہ تھے۔

اس وقت ڈھاکہ میں 20 سے 25 ہزار فوج تھی جب کہ باقی 15 تا 20 ہزار فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں بنگال بھر میں بکھری ہوئی تھی جنکے پاس صرف ہاتھ میں چلانے والے ہلکے ہتھیار تھے۔

یہ مشکل ترین جنگ تھی۔ پورا بنگال جنگل اور دلدلی علاقوں پر مشتمل ہے۔ جن کے راستے، زبان اور ہر چیز پاک فوج کے لیے اجنبی تھی۔

ہر چیز اس وقت فوج کی دشمن بنی ہوئی تھی۔

جن گوریلوں سے مقابلہ تھا وہ ان سب چیزوں کے ماہر تھے۔ ان کو مقامی آبادی کا مکمل تعاؤن حاصل تھا اور وہ عام لوگوں کے بھیس میں تھے۔

مرکز یعنی ڈھاکہ سے نہ تازہ کمک مل رہی تھی نہ ہی بھاری ہتھیار۔

(مکتی باہنی پاک فوج کی وردیان پہن کر عورتوں کی عزتیں لوٹنے لگی اور اس کا الزام فوج پر لگا لگا کر بنگال بھر میں مسلسل آگ لگاتی رہی۔ اس کا اعتراف آج انڈین جرنیل اور مصنف خود کر رہےہیں کہ وہ انڈیا ہی کی شرارت تھی۔)

ان حالات میں پاک فوج دم لیے بغیر مسلسل 9 مہینے لڑتی رہی جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور ناقابل یقین طور پر کم ہتھیاروں، قلیل تعداد اور انتہائی نامساعد حالات میں وہ مکتی باہنی پر قابو پانے لگی۔

انڈیا جو اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لے رہا تھا اس کو بنگلہ دیش ہاتھ سے پھسلتا نظر آیا۔ اس نے فوری طور پر روس سے 20 سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا کہ مجھ پر حملہ ہوا تو روس پر حملہ تصور ہوگا تاکہ آنے والی جنگ میں پاکستان کے لیے چین کی مدد کو روکا جا سکے۔

(بعد میں اسکا بدلہ جنرل ضیاء نے روس کو توڑ کر اس سے لے لیا)

مغربی پاکستان 65ء کی جنگ میں اپنا اکثر گولہ بارود استعمال کر چکا تھا اس کے پاس صرف چھ دن جنگ جاری رکھنے کا سامان تھا۔

انڈیا نے ڈھائی لاکھ فوج کی مدد سے بنگلہ دیش پر تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ جبکہ بنگلہ دیش کے اندر سے اسکو تین لاکھ گوریلوں کی مدد حاصل تھی۔ جن کے مقابلے پر پورے بنگال میں لڑنے والی پاک فوج کی تعداد کسی بھی طرح15 یا 20 ہزار سے زائد نہ تھی بقیہ 25000 ڈھاکہ میں مرکز میں تھی۔

انکے پاس صرف ہاتھ میں اٹھانے والے ہلکے ہتھیار تھے اور توپوں اور ٹینکوں سے یکسر محروم تھی۔

لیکن اس کے باؤجود پاک فوج دیوانوں کی طرح لڑی۔ یہاں تک کہ اس وقت کے انڈین جرنیل اپنی کتابوں میں اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔

وہ لکھتے ہیں کہ وہ پورے بنگال میں کہیں بھی کہیں بھی پاک فوج کو روند کر آگے نہیں جا سکے۔ لیکن چونکہ وہ بہت تھوڑی تعداد میں تھی اور ان کے درمیان گیپ بہت تھے اس لیے زیادہ تر ہم ان کو بائی پاس کر جاتے تھے۔

انڈین آرمی چیف سم مانک شا نے بھی اس جنگ میں پاک فوج کی بہادری کا اعتراف کیا اور اس کا انٹرویو اج بھی موجود ہے۔

ساری فوج کا مرنا یقینی تھا اور ان سولین خاندانوں کا بھی جو اس وقت مغربی پاکستان میں گھرے ہوئے تھے۔ کوئی امید نہ تھی۔ لہذا ہتھیار ڈالنے کا حکم ہوا اور پاک فوج میں پہلی بار ڈسپلن کی خلاف ورزی ہوئی اور کئی افسروں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ ملک احسن 15 دن تک لڑتے رہے جسکی وجہ سے انڈیا کے آرمی چیف نے اس کے حق میں پاک فوج کو تعریفی خط بھی لکھا۔

ایک برگیڈئرصاحب ایک جگہ پر کچھ فوجیوں کے ساتھ گھر گئے۔ ان کو ہتھیار ڈالنے کا کہا تھا لیکن وہ مسلسل لڑتے رہے یہاں تک کہ اگلے دن اس کے شہادت کی خبر ریڈیو پر نشر کی گئی۔

بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پاکستانی نام لیواووں پر جو ظلم کیا گیا وہ خون اور آنسووں کی ایک الگ تاریخ ہے اور ناقابل بیان ہے۔

شیخ مجیب نے اقتدار ملتے ہی صرف تین سال میں اتنی کرپشن کی کہ اس کے اپنے لوگوں نے اسکو پورے خاندان سمیت قتل کر دیا اور اس کے حق میں پورے بنگال میں کوئی ایک آواز نہیں اٹھی!

یہاں پر بھٹو نے ایک پاک فوج مخالف بنگالی جج حمود الرحمن کی قیادت میں ایک یک رکنی کمیشن تشکل دیا۔ حمودالرحمن کو یہ ٹاسک نہیں ملا کہ بنگال کیوں ٹوٹا بلکہ اس کا ٹاسک یہ تھا کہ اس میں پاک فوج کی کیا کیا غلطیاں تھیں۔ لہذا اس کمیشن نے جی بھر کر صرف پاک فوج میں ہی کیڑے نکالے۔

اندرا گاندھی نے خوش ہوکر کہا کہ " آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔"

حوالہ جات