سقوط ڈھاکہ
سن 40 میں جو قرارداد پاس ہوئی تھی اس میں ریاستوں کا ذکر تھا ایک ملک کا نہیں۔ بعد میں ایک ملک کا مطالبہ پیش کیا گیا جو اس وقت بھی کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا اور علیحدگی کا بیج اسی وقت پڑ گیا۔
اس وقت کوئی حقوق وغیرہ کا مسئلہ نہیں تھا!
پاکستان بنتے ہی مولانا بھاشانی (کمیونسٹ سرخہ) نے جو کہ ایک بڑا بنگالی لیڈر تھا پاکستان سے الگ ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ شیخ مجیب اسی کا شاگرد اور منشی تھا۔ اس وقت بھی کوئی حقوق کا مسئلہ نہیں تھا۔
سن 66 میں اگرتلہ سازش پکڑی گئی جس میں شیخ مجیب انڈین خفیہ ایجنسی را کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کی سازش میں مصروف تھا۔ جنرل ایوب نے شیخ مجیب کو غداری کے جرم میں سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
بھٹو نے جو جمہوریت کے ذریعے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر رہا تھا جنرل ایوب خان کے اس فیصلے کے خلاف شیخ مجیب کے حق میں ملک گیر مہم چلائی۔ عوام کو ایوب خان کے خلاف اکسایا کہ "ایک آمر نے ایک جمہوری لیڈر کو قید کر رکھا ہے اور اس کو قتل کرنے لگا ہے اسکو رہا کیا جائے۔"
اسی دوران بھارت کے جنرل اوبین نے مکتی باہنی نامی گوریلا فوج تشکیل دی جو پاکستان دشمن لوگوں پر مشتمل تھی۔ انکی تعداد ابتداء میں ایک لاکھ پچھتر ہزار تھی جو بعد میں ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔
مکتی باہنی نے بنگال بھر میں پاک فوج اور پاکستان کے حامیوں پر جگہ جگہ حملے شروع کر دئیے۔
مکتی باہنی کی سربراہی پاک فوج سے باغی ہونے والے بنگالی کرنل عثمانی کر رہے تھے۔
ان حالات بھٹو نے انتخابات کا مطالبہ کر دیا اور عوامی دباؤ کے ذریعے ایسی حالت میں انتخابات کروائے گئے جب بنگلہ دیش کے ایک ایک پولنگ سٹیشن کو مکتی باہنی کے گوریلےاور غنڈے کنٹرول کر رہے تھے۔
لوگ پاکستان کا نام تک لیتے ہوئے ڈرتے تھے۔ عوامی لیگ کے خلاف کسی میں امیدوار تک کھڑا کرنےکی ہمت نہ تھی۔
اسکی وجہ سے شیخ مجیب نے بنگال میں کلین سویپ کردیا اور مجموعی طور پر بھٹو پر دگنی اکثریت حاصل کی۔ تب جمہوریت کے چیمپئن ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ اس ملک میں دو وزیراعظم ہونگے۔
ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا۔
شیخ مجیب جو اسی انتظار میں تھا نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ جگہ جگہ شورشیں پھوٹ پڑیں۔ حالات بدترین ہوگئے مجبوراً پاک فوج نے بنگلہ دیش میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور پاکستان دشمن عناصر اور مکتی باہنی کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔
ان حالات میں پچاس ہزار کے قریب بنگالی فوجی باغی ہوکر مکتی باہنی سے مل گئے یوں باغیوں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی۔
یہ جھوٹ ہے کہ اس وقت 90 یا 93 ہزار پاک فوج بنگلہ دیش میں موجود تھی۔
اس وقت مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی صرف ایک کور موجود تھی جو27 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی۔
نومبر کے آخر تک پاک فوج کی کل تعداد بڑھا 45 ہزار کر دی گئی جن میں صرف 34 ہزار مسلح ڈیوٹی پر تھے۔ جب کہ باقی 11 ہزار سی اے ایف، مغربی پاکستان کے سویلین پولیس کے اہلکار، ایچ ایل، ایم ایل اے، ڈپو، تربیتی ادارے، ورکشاپ، نرس، لیڈی ڈاکٹرز، حجام، خاکروب، باورچی وغیرہ تھے۔
اس وقت ڈھاکہ میں 20 سے 25 ہزار فوج تھی جب کہ باقی 15 تا 20 ہزار فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں بنگال بھر میں بکھری ہوئی تھی جنکے پاس صرف ہاتھ میں چلانے والے ہلکے ہتھیار تھے۔
یہ مشکل ترین جنگ تھی۔ پورا بنگال جنگل اور دلدلی علاقوں پر مشتمل ہے۔ جن کے راستے، زبان اور ہر چیز پاک فوج کے لیے اجنبی تھی۔
ہر چیز اس وقت فوج کی دشمن بنی ہوئی تھی۔
جن گوریلوں سے مقابلہ تھا وہ ان سب چیزوں کے ماہر تھے۔ ان کو مقامی آبادی کا مکمل تعاؤن حاصل تھا اور وہ عام لوگوں کے بھیس میں تھے۔
مرکز یعنی ڈھاکہ سے نہ تازہ کمک مل رہی تھی نہ ہی بھاری ہتھیار۔
(مکتی باہنی پاک فوج کی وردیان پہن کر عورتوں کی عزتیں لوٹنے لگی اور اس کا الزام فوج پر لگا لگا کر بنگال بھر میں مسلسل آگ لگاتی رہی۔ اس کا اعتراف آج انڈین جرنیل اور مصنف خود کر رہےہیں کہ وہ انڈیا ہی کی شرارت تھی۔)
ان حالات میں پاک فوج دم لیے بغیر مسلسل 9 مہینے لڑتی رہی جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور ناقابل یقین طور پر کم ہتھیاروں، قلیل تعداد اور انتہائی نامساعد حالات میں وہ مکتی باہنی پر قابو پانے لگی۔
انڈیا جو اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لے رہا تھا اس کو بنگلہ دیش ہاتھ سے پھسلتا نظر آیا۔ اس نے فوری طور پر روس سے 20 سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا کہ مجھ پر حملہ ہوا تو روس پر حملہ تصور ہوگا تاکہ آنے والی جنگ میں پاکستان کے لیے چین کی مدد کو روکا جا سکے۔
(بعد میں اسکا بدلہ جنرل ضیاء نے روس کو توڑ کر اس سے لے لیا)
مغربی پاکستان 65ء کی جنگ میں اپنا اکثر گولہ بارود استعمال کر چکا تھا اس کے پاس صرف چھ دن جنگ جاری رکھنے کا سامان تھا۔
انڈیا نے ڈھائی لاکھ فوج کی مدد سے بنگلہ دیش پر تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ جبکہ بنگلہ دیش کے اندر سے اسکو تین لاکھ گوریلوں کی مدد حاصل تھی۔ جن کے مقابلے پر پورے بنگال میں لڑنے والی پاک فوج کی تعداد کسی بھی طرح15 یا 20 ہزار سے زائد نہ تھی بقیہ 25000 ڈھاکہ میں مرکز میں تھی۔
انکے پاس صرف ہاتھ میں اٹھانے والے ہلکے ہتھیار تھے اور توپوں اور ٹینکوں سے یکسر محروم تھی۔
لیکن اس کے باؤجود پاک فوج دیوانوں کی طرح لڑی۔ یہاں تک کہ اس وقت کے انڈین جرنیل اپنی کتابوں میں اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔
وہ لکھتے ہیں کہ وہ پورے بنگال میں کہیں بھی کہیں بھی پاک فوج کو روند کر آگے نہیں جا سکے۔ لیکن چونکہ وہ بہت تھوڑی تعداد میں تھی اور ان کے درمیان گیپ بہت تھے اس لیے زیادہ تر ہم ان کو بائی پاس کر جاتے تھے۔
انڈین آرمی چیف سم مانک شا نے بھی اس جنگ میں پاک فوج کی بہادری کا اعتراف کیا اور اس کا انٹرویو اج بھی موجود ہے۔
ساری فوج کا مرنا یقینی تھا اور ان سولین خاندانوں کا بھی جو اس وقت مغربی پاکستان میں گھرے ہوئے تھے۔ کوئی امید نہ تھی۔ لہذا ہتھیار ڈالنے کا حکم ہوا اور پاک فوج میں پہلی بار ڈسپلن کی خلاف ورزی ہوئی اور کئی افسروں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ ملک احسن 15 دن تک لڑتے رہے جسکی وجہ سے انڈیا کے آرمی چیف نے اس کے حق میں پاک فوج کو تعریفی خط بھی لکھا۔
ایک برگیڈئرصاحب ایک جگہ پر کچھ فوجیوں کے ساتھ گھر گئے۔ ان کو ہتھیار ڈالنے کا کہا تھا لیکن وہ مسلسل لڑتے رہے یہاں تک کہ اگلے دن اس کے شہادت کی خبر ریڈیو پر نشر کی گئی۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پاکستانی نام لیواووں پر جو ظلم کیا گیا وہ خون اور آنسووں کی ایک الگ تاریخ ہے اور ناقابل بیان ہے۔
شیخ مجیب نے اقتدار ملتے ہی صرف تین سال میں اتنی کرپشن کی کہ اس کے اپنے لوگوں نے اسکو پورے خاندان سمیت قتل کر دیا اور اس کے حق میں پورے بنگال میں کوئی ایک آواز نہیں اٹھی!
یہاں پر بھٹو نے ایک پاک فوج مخالف بنگالی جج حمود الرحمن کی قیادت میں ایک یک رکنی کمیشن تشکل دیا۔ حمودالرحمن کو یہ ٹاسک نہیں ملا کہ بنگال کیوں ٹوٹا بلکہ اس کا ٹاسک یہ تھا کہ اس میں پاک فوج کی کیا کیا غلطیاں تھیں۔ لہذا اس کمیشن نے جی بھر کر صرف پاک فوج میں ہی کیڑے نکالے۔
اندرا گاندھی نے خوش ہوکر کہا کہ " آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔"
( اس دو قومی نظریے کو آج مودی دوبارہ انڈیا میں زندہ کر چکا ہے)
سقوط ڈھاکہ ایک سبق ہے۔ اس میں بہت سی سچائیاں توڑ مروڑ کر بتائی گئیں اور بہت سے سچ چھپائے گئے۔
یہ غیروں کی مکاری اور اپنوں کی غداری کا ایک سیاہ باب ہے اور اس کا فریب آج بھی لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔
انڈیا آج اس کو دوبارہ بلوچستان اور فاٹا میں دہرانا چاہتا ہے۔ لیکن آج بہت کچھ بدل چکا ہے۔