تحریک عدم اعتماد

Shahidlogs سے

5 فروری 2022

پی ڈی ایم راہنماؤں نے ملاقات کی اور تحریک عدم اعتماد پر مشاورت کی۔ جس کے بعد بلاؤل بھٹو نے بیان جاری کیا کہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے ہم سب اکھٹے ہیں۔ [1]

8 فروری 2022

ن لیگ کے جاوید لطیف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں۔ [2]

11 فروری 2022

پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ [3]

17 فروری 2022

حکومت نے تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کر لی۔ [4]

18 فروری 2022

عمران خان نے منڈی بہاؤالدین میں جلسہ کیا اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'نواز شریف کو باہر جانے دینا بڑی غلطی تھی۔' [5]

23 فروری 2022

عمران خان روس کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ جب کہ تمام اخبارات لکھ رہے تھے کہ روس اور یوکرین کی تناؤ بلند ترین سطح پر ہے اور کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ [6] فواد چودھری نے دعوی کیا کہ ہمارے تین ممبران کو تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کے لیے رقم کی پیشکش کی گئی ہے۔ [7]

25 مارچ 2022

عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کے لیے کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔ [8]

27 مارچ 2022

پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کراچی سے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم عوامی طاقت کے ذریعے اس سلیکٹڈ حکومت کو ہٹائیں گے، اسلام آباد پہنچ کر اس حکومت پر حملہ کریں گے۔ [9]

1 مارچ 2022

شیخ رشید نے عمران خان سے ملاقات کے بعد کہا تحریک عدم اعتماد ٹھس ہوچکی ہے اور ہمارے ممبرز پورے ہیں۔ [10] اسی تاریخ کو پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکٹریٹ میں جمع کروا دی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 'اگر اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دیا تو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد لازمی کامیاب ہو گی۔' [11] عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں پرویز الہی اور چودھری شجاعت سے ملاقات کی۔ [12]

2 مارچ 2022

پیپلز پارٹی کے مارچ کے جواب میں پی ٹی آئی نے سندھ میں 'سندھ حقوق مارچ' کے نام سے مار چ شروع کیا۔ [13]

3 مارچ 2022

اپوزیشن راہنماؤں نے ملاقات میں طے کیا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں فوری انتخابات کروائے جائنگے۔ نواز شریف نے گرین سگنل دے دیا۔ [14]

4 مارچ 2022

پی ٹی آئی کے گورنر سندھ عمران اسمعیل نے کہا کہ عمران خان ایم کیو ایم کو منانے کے لیے خود آئیں گے۔ [15] عارف حمید بھٹی نے کہا کہ عمران خان کسی کو لفٹ نہیں کراتے تھے اب سب سے خود ہی ملنے پہنچ رہے ہیں۔ عمران خان گھبرائے ہوئے ہیں۔ [16]

5 مارچ 2022

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے دعوی کیا کہ اپوزیشن کے 7 ارکان کی جانب سے حکومت کو مکمل حمایت حاصل ہے۔ [17] عمران خان نے پہلی بار کسی بیرونی سازش کی طرف اشارہ کیا۔ [18] [19]

6 مارچ 2022

عمران خان نے میلسی جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گئی تو کیا آپ تیار ہیں اس کے لیے جو میں آپ کے ساتھ کروں گا؟' [20] اسی تقریر میں عمران خان نے فوج کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ 'نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔' یعنی فوج مجھے سپورٹ کرے۔ [21] بلاؤل بھٹو نے کہا کہ اسلام آباد پہنچ کر تحریک عدم اعتماد لے آئنگے۔ [22]

7 مارچ 2022

شہباز گل سمیت کئی پی ٹی آئی ٹرولز نے دعوی کیا کہ تحریک عدم اعتماد بیرونی سازش ہے۔ میبنہ طور پر مقصد یہ کہ فوج کو مداخلت کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ [23] [24] عمران خان نے جنرل باجوہ سے ملاقات کر کے مبینہ طور پر تحریک عدم اعتماد کے خلاف مدد مانگی۔ [25]




اپریل 2022ء میں پی ڈی ایم اتحاد نے ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کی مدد سے عمران خان کی حکومت گرا دی اور خود اقتدار میں آگئی۔ حکومت گرنے کے بعد عمران خان نے الزام لگایا کہ ان کی حکومت امریکہ کے حکم پر جنرل باجوہ کی مدد سے گرائی گئی ہے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے پاک فوج کے خلاف ایک بہت بڑی سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا گیا۔ افواج پاکستان کے ترجمان نے اس کو ایک بےبنیاد الزام قرار دیا۔ لیکن پی ٹی آئی کی مہم جاری رہی جس کے نتیجے میں عوام کی ایک بڑی تعداد اس بات پر یقین کرنے لگی اور اپنی فوج سے متنفر ہوگئی۔

سال 2018ء کے انتخابات میں عمران خان نے اکثریت حاصل کی۔ عمران خان کو 155 سیٹیں ملیں۔ پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں کل 342 سیٹس ہوتی ہیں اور حکومت بنانے کے لیے کم از کم 172 سیٹیس درکار ہوتی ہیں۔ عمران خان نے کچھ چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملایا۔ یوں وہ 178 سیٹوں کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔ لیکن یہ ایک کمزور حکومت تھی جو محض 6 سیٹوںکی برتری پر کھڑی تھی۔

تحریک عدم اعتماد کے خلاف عمران خان نے 6 مارچ کو ملیسی میں جلسہ کیا جو ڈونلڈ لو اور اسد مجید کی میٹنگ سے بھی پہلے کا تھا۔

8 مارچ کو اپوزیشن راہنماؤوں نے اسمبلی میں مطالبہ کیا کہ عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد لانی چاہیے۔ عمران خان کے خلاف تمام اپوزیشن پارٹیوں نے پی ڈی ایم یعنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اتحاد بنا لیا۔ پی ڈی ایم تقریباً ڈیڑھ سال سے دھرنے اور ریلیاں کر رہی تھی۔

مارچ 2021ء میں پاکستان کے وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ نے سینٹ کے الیکشن میں حصہ لیا۔ عمران خان نے ان کے لیے بھرپور مہم چلائی لیکن عبدالحفیظ شیخ اپنی سینٹ کی سیٹ ہار گئے۔ پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی یہ الیکشن جیت گئے۔ یہ عمران خان حکومت کے لیے ایک دھچکا تھا کہ ان کا وزیرخزانہ الیکشن ہار گیا جب کہ وہ خود اس کےلیے مہم چلا رہے تھے۔ اس شکست پر اپوزیشن مطالبہ کرنے لگی کہ عمران خان کو استعفی دے دینا چاہئے۔ وہ نیشنل اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر عمران خان نے خود ہی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔

یہ پاکستان کی تاریخ میں صرف دوسری بار تھا کہ کسی نے خود ہی اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہو۔ ووٹنگ ہوئی تو عمران خان کو پورے 178 ووٹ ملے۔ لیکن ایک سال گزرا تو پانسہ پلٹ چکا تھا۔ 8 مارچ کو اپوزیشن نے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کیا۔ 10 مارچ کو اسلام آباد پولیس نے پارلیمنٹ لاجز میں ریڈ کی اور اپوزیشن کے کئی لوگوں کو پکڑ کر لے جایا گیا۔ اس پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ پی ٹی آئی حکومت کا موقف تھا کہ یہ ضروری تھا اور جے یو آئی نجی لشکر لے کر آئی تھی۔ جس کی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت پاک فوج نے کہا کہ ہم نیوٹرل رہیں گے۔ اس پر عمران خان کو بہت غصہ آیا اور اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ 'صرف جانور نیوٹرل ہوتے ہیں۔'

یہ عمران خان کے لیے جھٹکا تھا کیونکہ یہ مانا جاتا تھا کہ وہ آرمی کی سپورٹ سے ہی اقتدار میں آئے اور ان کی سپورٹ سے ہی اپوزیشن کا مقابلہ کر رہے تھے۔ پھر 18 مارچ کو عمران خان کو ایک اور جھٹکا لگا۔ ان کے اپنی ہی پارٹی کے لوگ باغی ہوگئے۔ راجہ ریاض نے جیو نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے 24 ایم این ایز باغی ہوچکے ہیں پی ٹی آئی سے۔

یہ سب سن کر عمران خان نے جواب میں کہا کہ سندھ ھاؤس ھارس ٹریڈنگ کا مرکز بن چکا ہے۔ کچھ لوگوں نے سندھ ھاؤس پر حملہ بھی کیا۔ اگلے دن 19 مارچ کو عمران خان نے کہا کہ جو این ایز باغی ہوچکے ہیں وہ واپس آجائنگے۔ 20 مارچ کو ایم این ایز کو پیشکش کی کہ واپس پارٹی میں آجائیں ہم تمہیں معاف کردینگے۔ 21 مارچ کو باغی این این ایز نے معافی کی پیشکش مسترد کر دی۔ رمیش کمار نے دعوی کیا کہ باغی ایم این ایز 35 ہوگئے ہیں۔

باغی ایم این ایز کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے۔ جس کے جواب میں ان ایم این ایز نے کہا کہ ہم نے تو پارٹی نہیں چھوڑی۔ 23 مارچ کو مشکلات اور بڑھ گئیں جب عمران خان کے اتحادیوں نے بھی اس کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ پی ایل کیو، ایم کیو ایم پی اور باپ پارٹی نے کہا کہ ہم اب پی ٹی آئی کو سپورٹ نہیں کرینگے۔ عمران خان نے انکو روکنے کے لیے مختلف طرح کی پیششکیں کیں۔ پی ایم ایل کیوں پنجاب کی وزارت اعلی پر مان گئے۔ ایم کیو ایم کو گورنر شپ اور شپنگ کی منسٹری کی پیشکش کی۔ لیکن ایم کیو ایم نے پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ آخری بال تک کھیلیں گے۔

اس کے بعد عمران خان نے بیرونی سازش کا نعرہ لگایا اور اپنے کارکنوں کو بتانے لگا کہ چونکہ میں نے روس کا دورہ کیا تھا تو اس پر امریکہ کو غصہ آیا ہے اور انہوں نے میری حکومت گرائی ہے۔ اپوزیشن والے سارے امریکہ سے ملے ہوئے ہیں۔ یو ایس سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور اپوزیشن نے اس دعوے کو بکواس قرار دیا۔

پھر 3 اپریل کا دن آیا جس دن ووٹنگ ہونی تھی۔ ڈپٹی سپیکر نے بیرونی سازش اور آئین کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دے کر تحریک عدم اعتماد کی قرار داد مسترد کر دی۔ جس کا کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس رولنگ کے بعد عمران خان نے صدر پاکستان کو خط لکھا کہ وہ اسمبلیاں توڑ دیں اور نئے انتخابات کا اعلان کریں۔ عارف علوی نے فوراً یہ کر دیا۔

اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عطا بندیال نے سوموٹو ایکشن لیا۔ 7 اپریل کو سپریم کوٹ کے 5 ججز نے فیصلہ سنایا کہ عمران خان کی حکومت نے جو کیا ہو غیر آئینی اقدام ہے۔ اسمبلی بحال ہوگئی اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا گیا۔ 9 اپریل کو ووٹنگ کی گئی۔ عمران خان یہ تحریک عدم اعتماد کا ووٹ ہار گیا۔ پی ڈی ایم نے 174 ووٹ حاصل کیے۔

یہ پاکستان میں پہلی بار ہوا کہ کوئی وزیراعظم تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت سے گئے۔ فوج غیر جانبدار تھی اور عدلیہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور آئینی طریقے سے عمران خان کی حکومت گرائی گئی۔

دیگر

مارچ میں کئی تقاریر میں عمران خان نے کہا کہ میں اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ یہ عدم اعتماد میرے خلاف کریں۔ مجھے موقع ملا ہے کہ میں اب ایک گیند سے تین وکٹیں گراؤنگا۔ یہ کپتان کے ٹریپ میں آگئے ہیں۔ [26]

عمران خان کہتا ہے مجھے جولائی سے پتہ چلنا شروع ہوا تھا کہ میری گورنمنٹ گرانے والے ہیں۔ تبھی ڈی جی آئی ایس آئی کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا تھا کہ سب سے مشکل ٹائم میں اس کو ہونا چاہئے۔ [27]

عدم اعتماد 6 فروری کو اسمبلی میں پیش ہوچکی تھی۔

شاہ محمود، اسد عمر اور پرویز خٹک اتحادیوں کے منت ترلے کر رہے تھے۔

امریکہ نے سازش ہی کرنی تھی تو وہ سائفر کے ذریعے عمران خان اور پی ٹی آئی کے زریعے پیغام بھیجتا؟

عمران خان نے سائفر کی کہانی میں بار بار تبدیلیاں کیں۔ [28]

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ چلیں مان لیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس پر سازش نہیں کی ہوگی۔ لیکن وہ روک تو سکتی تھی نا۔ [29]

تحریک عدم اعتماد روس کے دورے سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔

حوالہ جات