پی ٹی ایم

Shahidlogs سے
نظرثانی بتاریخ 09:19، 10 اکتوبر 2024ء از Shahidkhan (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏غیر ملکی پراکسی)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

پاکستان دشمنی

منظور پشتین نے اپنی ایک تقریر میں پاکستان کو دہشتگرد ریاست قرار دے کر 'پاکستان دہشتگرد' کے نعرے لگوائے۔

دہشتگردی اور پرتشدد کاروائیاں

پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی گٹھ جوڑ

پی ٹی ایم کے ٹی ٹی پی کی سہولت کاری پر مبنی مطالبات

پی ٹی ایم وزیرستان اور قبائیلی اضلاع سے پاک فوج کا انخلاء چاہتی ہے۔ ٹی ٹی پی بھی ان علاقوں سے پاک فوج کا انخلاء چاہتی ہے تاکہ وہ واپس آکر دوبارہ ان علاقوں پر قابض ہوسکے جو پاک فوج نے اپنی جانیں دے کر ان سے چھڑائے ہیں۔

پی ٹی ایم کا مطالبہ ہے کہ چیک پوسٹیں ختم کی جائیں یا کم ضرور کی جائیں۔ نیزچیک پوسٹوں سے فوج ہٹائی جائے۔ چیک پوسٹوں کی وجہ سے سڑکوں کے راستے دہشتگردوں اور دہشتگردی میں استعمال ہونے والے سازو سامان کی نقل و حرکت تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔ لہذا چیک پوسٹیں ختم کرنا ٹی ٹی پی کی اہم ترین ضرورت ہے۔

پی ٹی ایم دہشتگردی کے الزام میں پکڑے گئے تمام افراد کی رہائی چاہتی ہے یا پھر انہیں سولین عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ شائد آپ کو یاد ہو کہ ٹی ٹی پی بھی یہی مطالبہ کرتی تھی بلکہ ان کے پکڑے گئے دہشتگرد خود کہتے تھے کہ ہمیں سول عدالتوں کے حوالے کیا جائے۔ سول عدالتوں سے دہشتگردوں کو ہمیشہ ریلیف ملا حتی کہ آرمی عدالتوں سے موت کی سزائیں پانے والوں کو بھی سوال عدالتوں نے رہا کیا۔ کسی دور میں چیف جسٹس افتخار چودھری کو پاکستان میں ٹی ٹی پی نے اپنی پسندیدہ ترین شخصیت قرار دیا تھا۔

پی ٹی ایم ٹی ٹی پی کی لگائی ہوئی بارودی سرنگوں کا ذمہ دار بھی پاک فوج کو قرار دیتی ہے۔ حالانکہ پاک فوج ان کی صفائی کر رہی ہے اور صفائی کرتے بھی کئی فوجیوں نے جانیں دی ہیں۔ یوں پی ٹی ایم ٹی ٹی پی پر لگا داغ صاف کر رہی ہے۔

پی ٹی ایم وزیرستان میں سرچ آپریشنز کے خاتمے کا ہمیشہ مطالبہ کرتی ہے۔ ٹی ٹی پی کے مراکز ختم ہونے کے بعد دہشتگرد مقامیوں میں گھل مل گئے۔ آج بھی مقامی لوگ ان کو پناہ فراہم کرتے ہیں۔ سرچ آپریشنز میں وہ پکڑے جاتے ہیں۔ پی ٹی ایم کا یہ مطالبہ ٹی ٹی پی کی درینہ ضرورت ہے۔

پی ٹی ایم ٹی ٹی پی کے خلاف بنائے گئے امن لشکروں کو دہشتگرد کہتی ہے۔ پی ٹی ایم نے ایک دو بار جتھے کی شکل میں ان امن لشکروں کے دفاتر پر بھی حملے کیے۔ یہ مقامی لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں تھیں جو اپنی مدد آپ کے تحت ٹی ٹی پی سے اپنا بچاؤ کرتی تھیں۔ ان کو پاک فوج کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے لیے ان دیہاتوں میں گھسنا مشکل تھا۔ ان امن لشکروں کو جیسے ٹی ٹی پی اپنا دشمن سمجھتی ہے ویسی ہی پی ٹی ایم بھی دشمن سمجھتی ہے۔

ٹی ٹی پی نے پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کو ظلم قرار دیا تھا۔ پی ٹی ایم بھی اس آپریشن کو ظلم قرار دیتی ہے اور اس آپریشن پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یاد رکھیں ججوں کی اکثریت سرخوں پر مشتمل ہے اور فوج مخالف ہےجو حمود الرحمن کمیشن کی طرح کوئی بھی چیز بنا کر پیش کردینگے۔

پاکستان کے حوالے سے طرز عمل

پاکستان اور افواج پاکستان کے حوالے سے دونوں تنظمیوں کا طرز عمل بلکل ایک جیسا ہے۔ پی ٹی ایم پاکستان کو ظالم ریاست کہتی ہے۔ ٹی ٹی پی بھی پاکستان کو ظالم ریاست کہتی ہے۔

ٹی ٹی پی پاکستان اور پاک فوج پر حملے کرتی ہے تو پی ٹی ایم بھی عوام کو افواج پر حملوں کے لیے اکساتی رہتی ہے۔ خڑ کمر چیک پوسٹ پر حملے کرنے کے علاوہ فوجی دستوں پر پتھراؤ بھی کراتی رہتی ہے۔

ٹی ٹی پی اپنے ہر مخالف کو قتل کر دیتی تھی۔ جب کہ آج تک جس بھی مقامی شخص نے پی ٹی ایم پر تنقید کی اس کو پی ٹی ایم نے قتل کروا دیا۔ ملک عباس اور ملک متوڑکے کو پی ٹی ایم نے مخالفت پر قتل کروایا۔ جانی خیل میں ملک گل نصیب کو قتل کیا جس نے جانی خیل میں پی ٹی ایم تحریک ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ نقیب اللہ جس کے نام پر انہوں نے اپنی تحریک بنائی تھی اس کے والد کو بھی نہ بخشا اور اس کو بھی دھمکیاں دیں تھیں۔

دیگر

اس حوالے سے سابق ڈی ج آئی ایس پی آر اور موجودہ حکومتی ترجمان عطار تارڑ کے بیانات موجود ہیں اور ایجنسیوں کے پاس اس حوالے سے تمام شواہد بھی موجود ہیں۔

دونوں تنظمیوں کے مقاصد بھی ایک ہیں۔ یعنی پاکستان کو تباہی و بربادی اور پاک فوج کو کسی بھی طرح ختم یا کمزور کرنا۔

منظور پشتین نے آج تک ٹی ٹی پی کو نام لے کر دہشتگرد نہیں کہا۔  

ٹی ٹی پی نے آج تک پی ٹی ایم کے کسی کارکن کو نشانہ نہیں بنایا۔

ٹی ٹی پی کے امیر نے منظور پشتین کے حق میں پوری ایک کتاب لکھی ہے۔

ٹی ٹی پی نے ہمیشہ پی ٹی ایم کے مخالفین کو نشانہ بنایا جیسے ملک متوڑکے اور ملک عباس وغیرہ!

پرتشدد کاروائیاں

محسن داؤڑ کا فوجی کیمپ پر حملہ

محسن داوڑ نے الیکشن میں شکست پر ایک ہجوم اکھٹا کر کے ان کو فوجی کیمپ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ ان کی فائرنگ سے سیکیورٹی پر معمور تین پولیس والے شہید ہوگئے۔ جوابی فائرنگ میں محسن داؤڑ معمولی زخمی ہوا۔ [1]

غیر ملکی پراکسی

افغانستان پراکسی

افغانستان میں پی ٹی ایم راہنماؤں کا استقبال

محسن داؤڑ اور علی وزیر نے افغانستان کا دورہ کیا جہاں افغان فوج کے اعلی افسر نے انکا خصوصی استقبال کیا اور ان کو ہیلی کاپٹر میں لے جایا گیا۔ پاک فوج کو گالیاں دینے والے ان دونوں پی ٹی ایم راہنماؤں کی افغان فوج کے افسروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے کئی تصاویر وائرل ہوئیں۔ [2]

پی ٹی ایم کے جلسوں میں افغانستان کے جھنڈے

پی ٹی ایم کے جلسوں میں ہمیشہ افغانستان کے جھنڈلے لہرائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا جھنڈا لہرانے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

افغان صدر اشرف غنی کی حمایت

سابق افغان صدر اشرف غنی نے بطور صدر افغانستان پی ٹی ایم کے احتجاج کی حمایت میں ٹویٹس کیں۔ جس پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے سخت ردعمل دیتے ہوئے اشرف غنی کی ٹویٹس مسترد کر دیں۔ [3]

اشرف غنی کی پی ٹی ایم کی علامتی ٹوپی پہنے کئی تصاویر بھی وائرل ہوئیں۔

حامد کرزئی کی حمایت

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے گوبل میڈیا فورم کے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی پشتون تحفظ موومنٹ خطے میں قیام امن کے لیے ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ [4]

کرکٹ پر مبارکباد

منظور پشتین نے انگلینڈ کے خلاف جیت پر افغانستان کو مبارک باد پیش کی۔ لیکن منظور پشتین یا علی وزیر وغیرہ نے کبھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو مبارک باد نہیں دی! [5]

پی ٹی ایم اور افغانستان گٹھ جوڑ پر تفصیلی صفحہ ملاحظہ کیجیے۔

انڈیا سے روابط

پی ٹی ایم مشر محسن داؤڑ "فنڈ ریزنگ" مہم کے سلسلے میں انڈیا گئے جہاں حیران کن طور پر انکی فنڈ ریزنگ مہم کا اہتمام انڈینز نے کرایا۔ اس دوران انڈین پروفیسر اور انٹرنیشنل ریلیشنز خاص طور پر فالٹ لائنز کے ماہر دبیش آنند کے ساتھ محسن داؤڑ کی خوشگوار موڈ میں کئی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔ [6]

سی آئی اے روابط

‏پی ٹی ایم کراچی کے صدر نوراللہ ترین نے امریکی سفارتخانے کے اہلکاروں سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ پی ٹی ایم دو جنوری کو کراچی میں لانگ مارچ کرے گی۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کافی بحث ہوئی کہ پی ٹی ایم براہ راست سی آئی اے کی ہدایات پر چلتی ہے۔ [7]

پی ٹی ایم کے حوالے سے کچھ واقعات

خیسور واقعہ

ٹی ٹی پی کمانڈر شاکراللہ نے چار بندے تاوان کے لیے اغواء کیے، ان کو اپنے گھر میں رکھا، تاوان نہ ملنے پر ان میں سے تین کو زندہ جلا دیا، شاکراللہ کا باپ تاوان کی رقم کے لیے مزاکرات کرتا رہا،

جب آپریشن ہوا اور شاکراللہ بھاگا تو فوج مخبری ملنے پر اس گھر پر چھاپہ مارتی ہے جہاں کچھ عرصہ مغویوں کو بھی رکھا گیا تھا۔ پی ٹی ایم اس چھاپے کو ظلم عظیم قرار دیتے ہوئے پاک فوج کے خلاف خوب پراپگینڈا کرتی ہے حتی کہ یہ الزام بھی لگا دیتی ہے کہ فوج گھر میں عورتوں کی عزتیں لوٹنے آئی تھی۔

جس پر شاکراللہ کا بھائی اور سگا ماموں متوڑکے پی ٹی ایم کو جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ جواباً ملک متوڑکے کو پی ٹی ایم قتل کروا دیتی ہے اور علی وزیر دو اور ملکوں کے گھر مسمار کرنے کا اعلان کرتا ہے جو معافی مانگ کر اپنا گھر بچا لیتے ہیں۔

شاکراللہ کے گھر والے فوج کو جرگے کے سامنے سٹامپ پر لکھ کر دیتے ہیں کہ فوج نے کسی عورت پر بری نظر نہیں ڈالی۔

پی ٹی ایم نے ایک بار بھی شاکراللہ کے خاندان یا خود شاکراللہ سے اپیل نہیں کی کہ آپ کے پاس جو مغوی زندہ ہے اس کو تو اللہ کے نام پر رہا کردیں۔ اس کے گھر والے آج بھی اس کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

حیات آباد آپریشن

حیات آباد کے ایک گھر میں دہشت گردوں کی اطلاعات ملتی ہیں۔

پولیس تفتیش کرنے پہنچتی ہے تو دہشت گرد ایک پولیس والے کو شہید کر دیتے ہیں۔

جس کے بعد فورسز پہنچتی ہیں۔

پی ٹی ایم فوراً دہشت گردوں کو معصوم قرار دینا شروع کر دیتی ہے۔

یہ اعلان کرتی ہے کہ یہ تو یورپ کے چکر لگا چکے ہیں اور ان کے چھوٹے بچے بھی ہیں لہذا یہ معصوم ہیں۔

اسی اثناٰ میں دہشت گردوں میں سے ایک کے بھائی کو ادارے بلوا کر اپنے بھائی سے بات کرواتے ہیں تاکہ وہ سرنڈر کریں لیکن وہ سرنڈر کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

کل سترہ گھنٹے وہ سیکیورٹی فورسز سے مقابلہ کرتے ہیں اور اس دوران اپک فوج کے ایک جوان کو بھی شہید کر دیتے ہیں۔

سترہ گھنٹے بعد ان دہشت گردوں کو شکست دی جاتی ہے اور اس گھر میں لگے بم کو ڈیٹونیٹ کیا جاتا ہے تو پورا گھر بیٹھ جاتا ہے۔

پی ٹی ایم کے کارکن باڑہ پہنچتے ہیں اور لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوجائیں اس آپریشن کے خلاف۔

پی ٹی ایم دہشت گردوں کی حمایت میں بھرپور مہم چلاتی ہے۔

اسی اثناٰ میں اطلاع ملتی ہے کہ ایک دہشت گرد زندہ بھی پکڑا گیا تھا۔

جس پر پی ٹی ایم کو فوراً سانپ سونگھ جاتا ہے۔

اس سے اگلے دن وہ دہشت گرد عدالت میں جج کے سامنے اعتراف کرتا ہے کہ وہ لوگ یہاں بیٹھ کر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور کچھ ھائی ویلیو ٹارگٹس ان کا نشانہ تھے۔

تب پی ٹی ایم اپنی حرکت پر شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کرتی۔

خڑ کمر واقعہ

اس علاقے میں پاک فوج کے کانوائے پر حملہ کیا جاتا ہے جس میں پاک فوج کی کئی شہادتیں ہوتی ہیں۔

پی ٹی ایم کا سوشل میڈیا اس پر خوشی کا اظہار کرتا ہے۔

مخبر قریب کے گاؤں میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی موجودگی کی اطلاع دیتے ہیں۔

فوج ان میں سے دو کو پکڑ لیتی ہے۔

پی ٹی ایم ان سہولت کاروں کو رہا کرانے کا اعلان کرتی ہے بصورت دیگر پاک فوج کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتی ہے۔

اس سے اگلے دن پی ٹی ایم کے علی وزیر اور محسن داؤڑ خود پہنچتے ہیں ان سہولت کاروں کو چھڑانے۔

ویڈیوز میں وائرل ہونی والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کارکنوں کا ہجوم چیک پوسٹ پر ہلہ بول دیتا ہے۔ وہ "مارو مارو" کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔

اس کے بعد فائرنگ کی آوازیں آتی ہیں۔

پی ٹی ایم کے جو کارکن ویڈیوز بنا رہے ہوتے ہیں ان کی کئی ویڈیو میں فائرنگ کرنے کی آواز اس موبائل فون کے بلکل پاس سے آتی ہے جو ویڈیو بنا رہا ہوتا ہے۔

اس واقعہ میں ایک فوج اور تیرہ سولینز کی موت ہوتی ہے۔

پی ٹی ایم اس کو پوری طرح سوشل میڈیا پر کیش کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔

تاہم اس واقعہ کے بعد پہلی بار پی ٹی ایم کمانڈروں کی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں۔

محسن داؤڑ گرفتاری سے پہلے بیان جاری کرتا ہے کہ ایک بھی فوجی کو وزیرستان سے زندہ واپس نہیں جانے دیا جائیگا۔

سپین وام واقعہ

سپین وام کے علاقے میں فوج معمول کے گشت پر تھی۔

یہ دو تین فوجی ہوتے ہیں اکثر۔

اچانک ان پر فائرنگ شروع کر دی گئی گو کہ فوجیوں نے چند بار پکارا بھی اور فائرنگ بند کرنے کا کہا۔

فوجیوں نے بھی جوابی فائرنگ کی اور دو حملہ آور ہلاک ہوگئے۔

حسب معمول اس واقعہ کو سب سے پہلے پی ٹی ایم نے سوشل میڈیا پر وائرل کیا اور اعلان کیا کہ فوجی دراصل حملہ آور تھے اور حملہ آور معصوم تھے اور رات کے اس پہر باہر مٹر گشت کر رہے تھے۔

یہ بھی کہ ان میں سے ایک خلیج سے آیا تھا لہذا بلکل معصوم ہے۔

مقامی افراد کے مطابق ہلاک شدگان دونوں پی ٹی ایم کے سرگرم کارکن تھے۔

جس وقت پی ٹی ایم نے ایشو اٹھایا اسی وقت انڈیا میں بیٹھے میجر گورو آریا نے بھی وہی کچھ لکھا جو منظور پشتین کہہ رہا تھا۔

نیز میجر گوروو نے اپیل کی کہ اب پشتون ریاست پاکستان اور پاک فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

یہاں پی ٹی ایم کے تمام افغان اکاؤنٹس سے پشتونوں کو پاک فوج کے خلاف جنگ کرنے کی اپیلیں ہونے لگیں۔

پی ٹی ایم نے شہید ہونے والی فوجی کی لاش کی خوب بے حرمتی کی اور اس کی ویڈیو بنا کر وائرل کی۔

ہر واقعہ کی طرح یہاں بھی ٹی ٹی پی نے پی ٹی ایم کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتےہوئے پاک فوج سے بدلہ لینے کا اعلان کیا۔

دیگر

احمد شاہ ابدالی اور پاکستان

منظور پشتین نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان جتنی مرضی کوشش کر لے احمد شاہ ابدالی کو ہمارے ذہنوں سے نہیں نکال سکتا۔ حالانکہ پاکستان نے تو اپنے میزائل کا نام بھی ابدالی رکھا ہے اور مطالعہ پاکستان میں احمد شاہ ابدالی کو بطور ہیرو پڑھایا جاتا ہے۔ [8]

افغان فورسز پر اعتراض نہ کرنا

افغان فورسز کی افغانیوں پر بےشمار مظالم رپورٹ ہوئے اور ویڈیوز بھی آئیں۔ لیکن افغانوں کے خودساختہ ترجمان منظور پشتین نے کبھی افغان فورسز پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ [9]

چمن میں بچے کا واقعہ

چمن میں ایک بچے ایک کار حادثے میں جانبحق ہوگیا۔ پی ٹی ایم نے فوراً اس کے لیے پاک فوج کو ذمہ دار قرار دے کر پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ لیکن اس لڑکے کے والد خود بیان دیا کہ میرا بیٹا گاڑی کے حادثے میں جانبحق ہوا ہے۔ [10]

حوالہ جات