جسٹس محسن اختر کیانی

Shahidlogs سے
نظرثانی بتاریخ 13:57، 24 مئی 2024ء از Shahidkhan (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏حوالہ جات)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

جسٹس محسن اختر کیانی بطور وکیل اسلام آباد بار کے صدر تھے۔ ان پر الزام ہے کہ اپنے اسی اسرورسوخ کو استعمال کر کے وہ اسلام آباد ھائی کورٹ کے جج بنے۔

بطور صدر اسلام آباد بار اس نے اسلام آباد ھائی کورٹ سے خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ججوں کو نکالنے کے لیے بھی پیٹیشن دائر کی تھی۔ [1]

اسلام آباد ھائی کورٹ کا جج بننے کے بعد اس نے جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ ملکر متعدد عہدے اپنے پاس رکھے اور اسلام آباد ھائی کورٹ سے بلوچستان اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے کئی ججوں کو نکلوایا۔ [1]

اسلام آباد ھائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشنل کاؤنسل میں زمینوں پر قبضے، اثاثہ جات چھپانے اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا ریفرنس دائر کیا گیا۔ [2]

جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کاؤنسل میں دائر ریفرنس کے مطابق موصوف نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کی مالیت 5 سے 6 کروڑ روپے ظاہر کی جبکہ ان کے اصل اثاثوں کی مالیت ایک ارب 87 کروڑ 70 لاکھ روپے ہے۔ [2]

اسی ریفرنس کے مطابق غیر ملکی دوروں پر جسٹس محسن اختر کیانی نے 2 کروڑ روپے خرچ کیے۔ [2]

محسن اختر کیانی ان چھ ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایجنسیوں پر الزام لگایا کہ وہ ان پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ یہ الزام انہوں نے سپریم جوڈیشل کاؤنسل میں دائر ریفرنس کے ایک سال بعد لگایا۔

لیکن نچلی عدالتوں کے کچھ سول اور سیشن ججوں نے اسلام آباد ھائی کورٹ کے چیف جسٹس کو جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف خط لکھا کہ وہ ہمارے مقدمات میں بےجا مداخلت کرتے ہیں۔ اپنے مرضی کے ججوں اور وکیلوں کو پروموٹ کرتے ہیں اور اپنے مرضی کے فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ [1]

جسٹس محسن اختر کیانی پر جج ہونے کے باوجود ایک اپنے حامی وکلاء اور ججوں کا ایک پریشر گروپ بنانے کا الزام ہے جن کی مدد سے وہ دیگر ججز اور وکلاء پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ [1]

جسٹس محسن اختر کیانی کے دست راست سمجھے جانے والے سیشن جج طاہر محمود نے تھانہ رمنا پولیس اسٹیشن میں چوری کی ایف آئی آر کاٹی ہوئی ہے جس میں 55 لاکھ روپے، 15 ہزار ڈالر اور 4 ہزار پاؤنڈ رقم کیش اور 19 تولہ سونا چوری ہونے کا مقدمہ درج کیا ہے۔ یہ اس کے ظاہر کردہ اثاثوں سے بہت زیادہ ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی کے بارے میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ تاجی کھوکر گروپ کو ایک بیرسٹر کے قتل کے مقدمے میں ریلیف دینے میں اسکا بنیادی کردار تھا۔ [1]

ان کا اصل نام جسٹس محسن اختر کیانی ہے۔ لیکن وکلاء برادری میں انکو 'محسن پلاٹیا' کہا جاتا ہے۔ [3]

اپنے چیمبر میں بلوا کر پلاٹوں کی ڈیلیں کرواتے ہیں۔

محسن اختر کیانی ایک سوسائیٹی کے مالک ہیں۔

800 کنال سی ڈی اے کی زمین پر قابض ہیں لیکن کسی کی مجال نہیں جو پوچھے۔ [3]

محسن اختر کیانی راولپنڈی اسلام آباد کے سب سے بڑے بدمعاش اور قبضہ گروپ تاجی کھوکھر کے وکیل تھے اور ان کے دست راست کہلاتے تھے۔ اپنے چیمبر کے وکیلوں کو جج بنوا چکے ہیں۔ جن سے بعد میں بڑے بڑے 'کام' لیے جاتے ہیں۔

رفعت نامی خاتوں کے ساتھ انکا معاشقہ کافی مشہور ہوا۔ [3]

زانی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شراب نوشی بھی مشہور ہے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے جس ان پر منظورِنظر وکلا پر نوازشات، علاقائی تعصب، ڈسٹرکٹ ججوں کی ترقیوں میں رکاوٹیں ڈالنے، متعصب سیشن ججوں کی سرپرستی، ماتحت افسران کی پرفارمنس رپورٹ کو خراب کرنے، اختیارات سے تجاوز، دھمکیاں دینے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ [4]

علی بخاری این اے 48 سے پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، یہ ہی صاحب محسن اختر کیانی کے ساتھ اس وقت سے وابستہ ہے جب محسن اختر کیانی وکیل تھے۔ مبینہ طور پر یہی شخص جسٹس محسن اختر کیانی اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطہ کار ہیں۔ [5]

جسٹس محسن اختر کیانی کے کزن عمر کیانی ایک بہت بدنام قبضہ گیر ہیں۔ [5] محسن اختر خود راولپنڈی کے کھوکھروں کے وکیل تھے اور اس کے باقی سارے کزن قبضہ مافیا سے تعلق رکھتے ہیں۔

عمر کیانی اب محسن اختر کیانی کا فرنٹ مین ہے اور لیک ویو ہاؤسنگ میں حصہ دار بھی۔ اسی لیک ویو ہاؤسنگ میں خود جسٹس محسن اختر کیانی 18 فیصد کے حصہ دار /پارٹنر ہیں۔ [5]

محسن اختر کے بھتیجے اسمائیل کیانی نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک بچے کے ساتھ فارم ہاؤس پر زیادتی کی، کیس بنا تو محسن اختر کیانی نے ماتحت عدالتوں پر دباؤ ڈال کر مقدمہ رفع دفع کروایا۔ [5]

جسٹس محسن اختر کیانی نے احمد فرہاد کے معاملے پر براہ راست آئی ایس آئی کو ذمہ دار قرار دے دیا بغیر کسی ثبوت اور تفتیش کے۔ جب کہ اس پر مقدمہ درج تھا۔ آئین کے تحت مسلح افواج کے خلاف کاروائی نہیں ہوسکتی۔ لیکن محسن اختر کیانی نے فرمایا کہ ہر صورت آرمی افسر حاضر ہوگا۔ [6]

جسٹس محسن اختر کیانی نے آئین پاکستان کے آرٹیکل ۱۹۹ (۳) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے حاضر سروسز سیکٹر کمانڈران کو طلب کیا۔ [7]

حوالہ جات