"مسنگ پرسنز" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
 
سطر 2: سطر 2:


==== دہشتگرد تنظمیوں کا حصہ بننے والے مسنگ پرسنز ====
==== دہشتگرد تنظمیوں کا حصہ بننے والے مسنگ پرسنز ====
'''راشد حسین'''
[[بلوچ یکجہتی کونسل]] کی ماہزیب دھرنوں اور مظاہروں میں مظلومیت کا کارڈ استعمال کرتی ہے۔ وہ اپنے ماموں راشد حسین کو مسنگ پرسن کے طور پر پیش کرتی ہے جو دبئی میں را سے مالی معاؤنت وصول کرتا ہے۔ <ref>[https://x.com/Dukhtar_B/status/1830514615895073012 ماہزیب بلوچ کا اصلیت]</ref>
'''عبدالودود ستکزئی'''
'''عبدالودود ستکزئی'''



حالیہ نسخہ بمطابق 09:23، 2 ستمبر 2024ء

مسنگ پرسنز کے کچھ کیسز

دہشتگرد تنظمیوں کا حصہ بننے والے مسنگ پرسنز

راشد حسین

بلوچ یکجہتی کونسل کی ماہزیب دھرنوں اور مظاہروں میں مظلومیت کا کارڈ استعمال کرتی ہے۔ وہ اپنے ماموں راشد حسین کو مسنگ پرسن کے طور پر پیش کرتی ہے جو دبئی میں را سے مالی معاؤنت وصول کرتا ہے۔ [1]

عبدالودود ستکزئی

مچھ حملوں کے دوران ایک خودکش بمبار جس نے خود کو اڑایا اس کا نام عبدالودود ستکزئی تھا۔ اس کی بہن گل زادی بلوچ اسلام آباد میں ماہ رنگ بلوچ کے ہمراہ تھیں اور اپنے بھائی کو مسنگ پرسن قرار دے کر ریاست سے اسکا مطالبہ کر رہی تھی۔ [2]

کریم جان ولد فضل بلوچ

گوادر میں ہلاک ہونے والے آٹھ دہشتگردوں میں سے دو کی شناخت کریم جان ولد فضل بلوچ کے نام سے ہوئی ان کا نام مسنگ پرسن لسٹ میں شامل تھا۔ [3]

سہیل احمد

کراچی میں جاپانیوں پر حملہ کرنے والا دہشتگرد سہیل احمد تھا۔ اس دہشت گرد کو ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ لبریشن آرمی کے اکاونٹ 2021 سے جبری گمشدہ ظاہر کر کے ریاست کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ [3]

سہیل احمد ولد عبدالطیف

اس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کو مسنگ پرسن بنا کر پیش کیا جارہا تھا۔ [4]

فیصل بلوچ

شارح بلوچ

کچھ دیگر مسنگ پرسنز جو واپس آئے

اسامہ خالد ولد خالد حیدر

یہ کیس تقریباً 10 ماہ زیر تفتیش رہا۔ 7 ستمبر 21 کو اسامہ خالد کی اہلیہ نے بتایا کہ خالد حیدر نے افغانستان سے ان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ وہ بگرام جیل میں امریکی فوج کی حراست میں ہیں۔ بعد ازاں افغان طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد انہیں رہا کیا۔

نور احمد خان ولد امیر خاں

یہ کیس پانچ سال یہ کیس زیر تفتیش رہا. دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ نور احمد 2011 میں خاندانی مسائل کے باعث افغانستان چلا گیا تھا، اس کی افغانستان میں سرکاری ملازمت تھی، وہ 2016 کے اوائل میں واپس آیا۔

قیصر اسلم کے والد محمد اسلم

والد نے ایجنسیوں پر الزام لگایا۔ تفتیش پر معلوم ہو اکہ لاپتہ شخص 22 ستمبر 2017 کو سیالکوٹ ائرپورٹ سے جمیکا کے لیے روانہ ہوا تھا۔

اشفاق احمد ولد عبدالستار

یہ کیس تقریباً 18 ماہ تک زیر تفتیش رہا۔11 اکتوبر 21 کو اس مسنگ پرسن کے والد نے خود بتایا کہ میرا بیٹا بیرون ملک گیا ہے۔ لاپتہ شخص کے والد کو بیان حلفی جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔

آفتاب احمد

یہ کیس تقریباً 18 ماہ تک زیر تفتیش رہا۔ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ آفتاب احمد سمیت ان کے دوستوں رشید احمد اور علی رضا کے نبیلہ نامی خاتون سے ناجائز تعلقات تھے، نبیلہ کو اس کے دوستوں نے اغوا کیا تھا۔ نبیلہ کو پولیس نے بازیاب کروایا، اس نے انکشاف کیا کہ آفتاب احمد کو اس کے دوستوں رشید اور علی رضا نے 25 اکتوبر 2014 کو اس سے جھگڑے کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ اس کے دونوں دوستوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا اور پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے قتل کا اعتراف کر لیا۔

ساجد مسیح ولد گلزار مسیح

یہ کیس تقریباً چار ماہ زیر تفتیش رہا. کیس کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا تھا، وہ ملازمت کے سلسلے میں اپنے دوست بابر مسیح کے ساتھ رہے رہا تھا، تاہم اس کا دوست اسے اگست 2021 میں گھر واپس چلا گیا، ساجد مسیح کے بھائی نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا تھا۔ ساجد مسیح کے خلاف صدر قصور کے تھانے میں لڑکی کو اغوا کرنے کی ایف آئی آر بھی درج تھی، اس وقت وہ ڈسٹرکٹ جیل قصور میں نظر بند ہے۔

مسنگ پرسنز پر کمیشنز کی تشکیل

تحریک انصاف کے دور میں بننے والا کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا:-

* وزیر برائے قانون و انصاف (کنوینر) انسانی حقوق

وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ اور احتساب

* چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد پولیس

* آئی ایس آئی اور انٹیلیجنس بیورو کا ایک ایک نمائندہ۔

پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے تشکیل دیے گئے  کمیشن میں  درج ذیل ارکان شامل تھے :-

* وفاقی وزیر قانون و انصاف

* وفاقی وزیر داخلہ

* وفاقی وزیر برائے  خاتمہ غربت اور سماجی تحفظ

* وفاقی وزیر برائے مواصلات

* وفاقی وزیر دفاعی پیداوار

* وفاقی وزیر برائے سمندری امور

* وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی۔

نگران  حکومت کی طرف سے بنایا گیا کمیشن سردار اختر مینگل کی سربراہی میں تھا اور اس میں درج ذیل  دیگر ارکان شامل تھے :-

* سینیٹر رضا ربانی

* سینیٹر کامران مرتضیٰ

* سینیٹر مشاہد حسین

* افراسیاب خٹک (سابق سینیٹر)

* ناصر محمود خان (سابق چیف سیکرٹری بلوچستان)

* ایڈووکیٹ علی احمد کرد (سابق صدر ایس سی بی اے)

* حفیظ الرحمان چوہدری (وائس چیئرمین پی بی سی)

* LUMS کے دو پروفیسرز

* سیکرٹری داخلہ

* انسانی حقوق کے سیکرٹری اور سینیٹ کے سیکرٹری۔

تینوں کمیشنز کی رپورٹ میں یہ بات مشترک تھی کہ  زیادہ تر کیسز کا تعلق  جبری گمشدگیوں کے بجائے از خود  لاپتہ  ہوجانے سے  ہے۔

مسنگ پرسنز کے حوالے کچھ اعدادوشمار

• America میں 2022 تک تقریباً 546,568 کیسز ہیں،

• Londonمیں سالانہ تقریباً 170,000 کیسز رپورٹ ہوئے،

• Indiaمیں اسی ہزار سے زائد افراد لاپتہ  ہیں

• Mexico  میں لاپتہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد ہے

• Colombia  میں  پچاس ہزار ادراد لاپتہ ہیں

• Brazil میں بھی پچاس ہزار افراد لاپتہ ہیں

• Guatemala  میں ان کی تعداد پچیس ہزار سے زائد ہے

• Peru   میں بیس ہزار افراد لاپتہ ہیں

• Venezuela  میں تقریبا دس ہزار افراد لاپتہ ہیں

• Italy  میں بھی دس ہزار افراد لاپتہ ہیں

• South Africa  میں بھی لاپتہ افراد کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے

• پاکستان میں لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 10,078 افراد میں سے  7,781 بازیاب ہو چکے ہیں جبکہ 2297 افراد  تاحال لاپتہ ہیں۔ ان میں سے 1,477 خود ساختہ گمشدگی یا اغوا کے واقعات میں ملوث ہیں، جب کہ 820 کیسز ایسے ہیں جن میں سے زیادہ تر افراد  تحریک طالبان یا بی ایل اے جیسی دہشتگرد تنظیموں سے وابستہ ہیں۔

دیگر

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے 30 اپریل 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2011 سے لاپتہ افراد کے کل 8539 ( 70 % سے زیادہ) کیسز میں سے 6408 کو نمٹا دیا گیا ہے جن میں سے 4631 ( 50 % سے زیادہ) کیسز ہیں۔ [5]

بلوچ مسنگ پرسنز کی تحریک کو بی ایس او کی طرف سے اجاگر کیا جا رہا ہے۔ انڈین کرانیکلز پر یورپی یونین ڈس انفو لیب کے انکشافات میں، بی ایس او کا نام بھی شامل ہے۔ جو جعلی اور پروپیگنڈا مہم کی تصدیق کرتا ہے۔ [5]

صوبہ بلوچستان کے علاقے تربت میں سولہ مئی کو سی ٹی ڈی نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا اور نور جہاں نامی خاتون کو گرفتار کیا۔ اس واقعے کو لبرل اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے جبری گمشدگی کے مبینہ کیس کے طور پر اجاگر کیا۔ انہوں نے #SaveBalochWomen کے ہیش ٹیگ مہم چلائی اور تربت ہوشاب شاہراہ پر احتجاج بھی کیا۔ بعد ازاں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تربت سے گرفتار ہونے والی خاتون بلوچ دہشت گرد تنظیم کے لیے خودکش بمباروں کی ہینڈلر تھیں۔ [5]

مارچ 2011 سے بلوچستان میں کل 1790 کیسز میں سے 1448 ( 78 % سے زائد) نمٹائے جا چکے ہیں، جن میں سے 1213 افراد گھر واپس جا چکے ہیں اور 186 کیسز کو حذف کر دیا گیا ہے۔ [5]

پاکستان کے ایک اور صوبے خیبر پختون خواہ میں لاپتہ افراد کے معاملے کو منظور پشتین اور علی وزیر جیسے ذیلی قوم پرست رہنماؤں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ ان کا یہ دعوی جھوٹا ہے کہ فاٹا سے تقریباً 32,000 پشتون لاپتہ ہو چکے ہیں۔ 30 اپریل 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق؛ مارچ 2011 سے کے پی کے میں 3260 کیسز میں سے 1412 کیسز ( 45 فیصد سے زائد) نمٹائے گئے جن میں سے 549 گھروں کو واپس آچکے ہیں اور 332 کیسز ڈیلیٹ کیے گئے ہیں۔ [5]

پاک فوج کے آپریشن میں دہشتگرد تنظیم کے سرمچاروں کے مارے جانے پر ماہ رنگ لانگو نے پاکستان کو دھمکی دیکر کہا تھا کہ یہ آگ آپکے گھر تک پہنچے گی۔ جب کہ دعوی اسکا یہ تھا کہ وہ محض اپنے مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے بیٹھی ہے۔ [6]

حوالہ جات