"سمگلرز اور بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 14: سطر 14:


=== کاروائیوں کا آغاز ===
=== کاروائیوں کا آغاز ===
کراچی اور لاہور میں تاجروں کے ساتھ ملاقات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانیوں، ڈالر مافیا اور پٹرول مافیا کے خلاف کاروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ان تاجروں میں سے چند ایک نے یہ بات میڈیا پر بتائی۔ جس کی آرمی کی طرف سے تردید نہیں آئی۔
ملک میں کافی ہنگامے اور احتجاج زور پکڑنے لگے جس کے بعد ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی اور لاہور کے تاجروں ایک طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آرمی چیف نے ان تاجروں کو بتایا گیا کہ پاکستان میں ڈالر کے اسمگلرز، ذخیرہ اندوزوں، ان کے سہولت کاروں، سرپرستوں اور کرپٹ سرکاری افسران کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور ان کی مکمل فہرستیں بنائی گئی ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے ٹاسک فورسز بنائی گئی ہیں اور سب کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن شروع کیا جا رہا ہے۔ جس کے فوراً بعد ہی ملک بھر میں کاروائیوں کا آغاز کر لیا گیا۔ 


تاجروں کو یہ بھی بتایا گیا کہ ڈالر کے اسمگلرز، ذخیرہ اندوزوں، ان کے سہولت کاروں، سرپرستوں اور کرپٹ سرکاری افسران کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور ان کی مکمل فہرستیں بنائی گئی ہیں۔ آپریشن کے مقاصد میں پٹرول اور ڈالرز کی سمگلنگ روکنا، بجلی چوری روکنا اور ذخیرہ اندوزی روکنا شامل ہے۔  
==== ڈالر مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن ====
صرف دو دن میں 722 کرنسی ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ جن میں سے 205 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ کے پی کے میں 183 کمپنیاں، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 کرنسی ڈیلرز کو پکڑا گیا۔  


ریاست نے تسلیم کر لیا تھا کہ یہان چوری ہوتی ہے اور اس کو ہم نہیں روک سکتے۔ پنجاب کے عوام نے مان لیا تھا کہ پشاور اور کوئٹہ اور آزاد کشمیر میں چوری ہونے والی بجلی کے پیسے ہم ہی دینگے۔
سرکلر روڈ پر کارروائی کرتے ہوئے حوالہ ہندی کا کاروبار کرنے میں ملوث  تین افراد  کو گرفتار کیا۔ گرفتار افراد سے 6 کروڑ81 لاکھ کی ملکی اور  ڈیڑھ کروڑ سے زائد کی غیر ملکی کرنسی برآمد  ہوئی۔ 


ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ کو روکنا
ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک کو اطلاعات ہیں کہ بینکوں کے لاکرز میں بھی بڑی تعداد میں ڈالرز ذخیرہ ہیں۔ جس کے بعد جدید مشینوں سے ان کو سکین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 


ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی روکنا
کوئٹہ کے ایک علاقے سے 1 کروڑ ڈالرز سے زیادہ ریکور کئے گئے۔ 


چینی کی ذخیرہ اندوزی روکنا
بوریوں میں بھر کر افغانستان ڈالرز سمگل ہورہے تھے جس کو روک دیا گیا۔ 


افغانستان کی سرحد پر کنٹینروں سے ڈالرز نکالے گئے۔
==== چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن ====
زیارت فیلڈ انفورسمنٹ یونٹ اور لکپاس کسٹمز نے 2600 پارسلز چینی برآمد  کی۔ زیارت کسٹم کے عملے نے کوئٹہ ژوب روٹ پر تلاشی کے دوران 800 پارسلز چینی برآمد کی۔ اس موقع پر دکھائی گئی چینی کی NOC کی تصدیق نہیں ہوئی، اسی طرح کسٹم انفورسمنٹ لکپاس نے ایف سی کے تعاون سے 1800 پارسلز چینی مختلف گاڑیوں سے برآمدکی۔ چینی تحویل میں لیکر قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ دونوں کاروائیوں میں ایک لاکھ تیس ھزار کلو گرام چینی برآمد کی گئی۔


سرکاری ملازمین بھی ملوث ہیں
چکوال میں مختلف کاروائیوں کے نتیجہ میں ذخیرہ کی گئی چینی کی 13000 بوریاں برآمد  کی گئیں جو 16250 ٹن بنتی ہیں۔


کاروائیوں کی تفصیل
جہلم میں حساس ادارے کی معلومات پر چینی ذخیرہ کرنے والے تاجروں کے خلاف کارروائیاں  عمل میں لائی گئیں۔روہتاس روڈ اور جی ٹی ایس چوک میں چینی کے گوداموں پر چھاپے مارے گئے۔ چینی کے 1600 تھیلے برآمد کر کےدو گودام سیل کردئیے گئے۔


آپریشن کے نتائج
چیچہ وطنی  میں چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاذ ہوتے ہی چینی کی قیمتوں کو ریورس گئیر لگ گیا  ہے۔ چینی کی 50 کلو کی بوری 8800 سے کم ہو کر 8000 کی ہوگئی جبکہ  مارکیٹ میں 160 اور دیہاتی علاقوں میں 165 میں فروخت ہونے لگی ہے۔


آپریشن پر تنقید
خفیہ اداروں کی اطلاع پر ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف کاروائیوں میں 538 ٹن چینی برآمد کرلی گئی۔


پہلے کیوں نہین کیا؟ کیونکہ سیاستدان رکاؤٹ تھے۔
==== سمگلنگ پر کریک ڈاؤن ====
نگراں وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ بارڈر مینجمنٹ پر کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایرانی تیل بیچنے والے 500 سے زیادہ پمپس بند کر دیئے گئے ہیں۔ ایرانی پٹرول پر کریک ڈاؤن کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی سرکولیٹ ہورہی ہیں جس میں سمگلرز ایرانی تیل کو ٹینکوں سے گرا کر ضائع کر رہے ہیں۔


بوریوں میں بھر کر ڈالرز سمگل ہورہے تھے۔ حوالہ ہنڈی والوں کے خلاف کریک ڈاؤن  
==== بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن ====
صرف چند روز کی کاروائی کے دوران 8 کروڑ یونٹ بجلی کی چوری کا سوراغ لگایا گیا ہے۔


شوگر مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن
ملک بھرمیں بجلی چوروں کو اب تک 35.2 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے اور بجلی چوری کے 4 ہزار 702 کیسز پکڑے گئے ہیں۔ بجلی چوروں کے خلاف 4 ہزار 54درخواستیں متعلقہ تھانوں میں دی گئیں۔ 7 سے 11 ستمبر بجلی چوروں کے خلاف کاروائی میں 194 افراد گرفتار ہوئے۔


سیاستدان حکومت میں ہوں تو نہیں کرنے دیتے کیونکہ سارے سرمایہ دار ہین اور ان کو اپنا نقصان ہوتا ہے ان وک ووٹ بینک کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔
بجلی چوری میں ملوث لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا ایک ملازم بھی گرفتار کیا ہے، میپکو اور لیسکو میں سب سے زیادہ بجلی چوری کے کیسز پکڑے گئے، جبکہ ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی ریجن میں بجلی چوری کے ایک ہزار 317 کیسزرپورٹ ہوئے۔ میپکوریجن میں چار روزہ کاروائیوں میں 556 افراد کے خلاف ایف آر آرزدرج کروائی گئیں، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی ریجن میں ایک ہزار 159 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔


کسی منی چینجر کو کوئی رعایت نہیں دینی۔
پاور ڈویژن ذرائع نے کہا کہ لیسکوریجن میں بجلی چوروں کے خلاف اب تک 715 ایف آئی آرز درج ہیں، گیپکو ریجن میں 128، فیسکو میں 201 اور آئیسکو میں 95 بجلی چوری کے کیسزرپورٹ ہوئے ہیں۔


صرف دو دن میں 722 کرنسی ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ جن میں سے 205 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ کے پی کے میں 183 کمپنیاں، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 کرنسی ڈیلرز کو پکڑا گیا۔ منی چینجرز ڈالرز لے کر بیٹھے ہیں کوئی خریدار نہیں۔ صرف ایک ہفتہ پہلے جاتے تو دور تک لائن ہوتی تھی اور کوئی ڈالرز دینے والا نہیں ہوتا تھا۔ منی چینجرز گھنٹوں کے حساب سے ڈالرز کی قیمت میں اضافہ کر رہے تھے۔
=== کریک ڈاؤن کے نتائج ===
اس کریک ڈاؤن کا سب سے بڑا اثر ڈالر کی قیمت پر پڑا۔ نہ صرف روپے کی گرتی قدر رک گئی بلکہ صرف ایک ہفتے تک اندر ڈالر 340 سے 297 روپے پر آگیا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ پہلی بار ڈالر اوپن مارکیٹ میں انٹر بینک کی قیمت سے بھی نیچے آگیا۔ اسلام آباد میں ڈالر کی قیمت 270 روپے تک گری ہے۔


اگر دباؤ کم کیا گیا تو یہ سب واپس ہوجائیگا۔
صرف ایک ہفتہ پہلے ڈالرز کے خریداروں کی قطاریں تھیں اور منی چینجرز گھنٹوں کے حساب سے ڈالر کی قیمت بڑھا رہے تھے۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ منی چینجرز کے پاس ڈالرز کے خریدار ہی نہیں ہیں۔


ٹرکوں سے پٹرول نکال کر ضائع کیا جارہا ہے۔ ایرانی تیل پر کریک ڈاؤن کے بعد۔
پشاور میں منی چینجرز بند ہونے اور باڈرز سیل ہونے کے بعد افغانستان کی کرنسی تیزی سے گرنے لگی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان سے کتنے بڑے پیمانے پر ڈالرز افغانستان سمگل ہوتا تھا۔


تاجروں سے ملاقات میں سمگلنگ، ٹیکس چوری اور ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف ٹاسک فورسز بنا کر فوری کاروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
چینی قیمت 220 روپے سے گر کر 140 روپے تک پہنچ گئی ہے۔


پولیس ایکسچنج کمپنیوں کی بیٹھ کر ڈالرز کی خریدوفروخت دیکھنے لگے۔
بجلی چوروں کے حوالے سے ریاست پہلی بار حرکت میں آئی ہے۔ اس سے پہلے یوں معلوم ہوتا تھا کہ ریاست نے تسلیم کر لیا ہے کہ بجلی چوری ہوتی ہے اور اس کو نہیں روکا جا سکتا۔


آرمی چیف نے کور کمانڈرز سے کہا کہ ایک لیٹر بھی ایرانی پٹرول کراچی نہیں آنا چاہئے۔
=== آپریشن پر تنقید ===
اس آپریشن پر پی ٹی آئی خاص طور پر پی ٹی آئی کے وکلاء نے زبردست تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ آرمی چیف یہ کس حیثیت میں کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ پہلے کیوں نہیں کیا۔


تمام سیاسی جماعتوں میں کرپٹ عناصر ہیں اور کوئی سیاسی جماعت پاکستان سے مخلص نہیں۔
اس کے جواب میں مبصرین کہتے ہیں کہ آرمی چیف کو یہ مینڈیٹ پی ڈی ایم کی سابق حکومت نے دیا۔ نیز اس سارے معاملے میں بہت بڑے پیمانے پر سیاستدان بھی ملوث ہیں۔ سیاست دان حکومت میں ہوں تو یہ سب نہیں کرنے دیتے۔ نیز سیاستدان اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے بھی بہت سی چیزوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔


پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے یہ مزید برداشت نہیں ہوگا۔
اس حوالے سے یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ یہ سب ڈنڈے کی زور پر ہورہا ہے۔ جب دباؤ کم ہوگا تو یہ سب کچھ واپس ہوجائیگا۔


100 ارب ڈالرز آئنگے۔
منی چینجرز نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ پولیس والے ہمارے دفاتر میں بیٹھ کر ڈالرز کی خریدوفروخت دیکھتے ہیں۔
 
سٹاک ایکچینج کی 200 کمپنیوں میں سے 190 کمپنیوں نے ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ عقل کریم ڈھیڈی کا انکشاف شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں۔

نسخہ بمطابق 06:56، 12 ستمبر 2023ء

ستمبر کے پہلے ہفتے میں آرمی چیف نے کراچی اور لاہور کے تاجروں سے ملاقات میں سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں، غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں اور بجلی چوروں کے خلاف کاروائی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان بھر میں منی چینجرز، چینی ذخیرہ کرنے والوں، بجلی چوروں اور افغانستان سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ آپریشن شروع ہوتے ہی ڈالر کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 243 روپے سے کم ہوکر ایک ہفتے کے اندر اندر 297 روپے تک گر گیا۔ بڑے پیمانے چینی ذخیرہ کرنے والوں کو پکڑا گیا جس کے بعد چینی کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد کو سیل کر دیا گیا۔ بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف ہزاروں کیسز بنے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ ان کے ساتھ ساتھ غیر رجسٹرد شدہ افغانیوں کو واپس بھیجنے پر کام شروع کر دیا گیا۔ اس تمام آپریشن کو جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔

کریک ڈاؤن کا پس منظر

نگران حکومت بننے کے چند ہی دن بعد پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 340 روپے تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ سے مہنگائی میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ پاکستان اپنی اکثر بجلی تیل سے بناتا ہے جو ڈالرز میں خریدی جاتا ہے۔ لہذا تیل سے بننے والی بجلی بھی مہنگی ہوئی۔ جس کے بعد عوام بجلی کے بلوں کے ساتھ سڑکوں پر آگیا۔ آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے عوام کو بجلی کی بلوں پر ریلیف دینے کی پابندی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور ھائی کورٹ کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے چینی کی قیمت 200 روپے سے اوپر چلی گئی۔

زمباوے کی طرح ملک میں ھائپر انفلیشن کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ مختلف اداروں نے جو رپورٹس پیش کیں ان کے مطابق اس تمام تباہی کی وجوہات میں ڈالرز کی سمگلنگ، افغانستان سے ہونے والی سمگلنگ، ایرانی پٹرول کی سمگلنگ، چینی کی ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری شام ہیں۔

حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی کہ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ یہی ڈیلرز روپے کی قدر گرا رہے ہیں۔

صرف ایرانی پٹرول کے حوالے سے ایک سول انٹلی جنس ادارے کی رپورٹ کے مطابق کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 88 کروڑ لیٹر تیل پاکستان میں اسمگل ہوتا ہے۔ جس سے پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ اس سمگلنگ میں 29 سیاستدان اور 90 سرکاری ملازمین ملوث ہیں۔ 295 کمپنیاں اس تیل کا کاروبار کر رہی ہیں۔ 995 پٹرول پمپوں پر ایرانی پٹرول کھلے عام بک رہا ہے۔ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشتگردی میں بھی استعمال ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پی ایس او کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی نقل و حمل میں ملوث ہیں۔

نگران وزیر توانائی محمد علی نے بجلی چوری کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق پاکستان میں سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔ یہ رقم دیگر بجلی صارفین سے وصول کی جارہی ہے جو بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو بھاری بلوں کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ بجلی پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں چوری ہوتی ہے جو 489 ارب روپے ہے۔ جب کہ 100 ارب روپے پاکستان کے دیگر علاقوں میں چوری ہورہی ہے۔

کاروائیوں کا آغاز

ملک میں کافی ہنگامے اور احتجاج زور پکڑنے لگے جس کے بعد ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی اور لاہور کے تاجروں ایک طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آرمی چیف نے ان تاجروں کو بتایا گیا کہ پاکستان میں ڈالر کے اسمگلرز، ذخیرہ اندوزوں، ان کے سہولت کاروں، سرپرستوں اور کرپٹ سرکاری افسران کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور ان کی مکمل فہرستیں بنائی گئی ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے ٹاسک فورسز بنائی گئی ہیں اور سب کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن شروع کیا جا رہا ہے۔ جس کے فوراً بعد ہی ملک بھر میں کاروائیوں کا آغاز کر لیا گیا۔

ڈالر مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن

صرف دو دن میں 722 کرنسی ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ جن میں سے 205 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ کے پی کے میں 183 کمپنیاں، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 کرنسی ڈیلرز کو پکڑا گیا۔

سرکلر روڈ پر کارروائی کرتے ہوئے حوالہ ہندی کا کاروبار کرنے میں ملوث  تین افراد  کو گرفتار کیا۔ گرفتار افراد سے 6 کروڑ81 لاکھ کی ملکی اور  ڈیڑھ کروڑ سے زائد کی غیر ملکی کرنسی برآمد  ہوئی۔

ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک کو اطلاعات ہیں کہ بینکوں کے لاکرز میں بھی بڑی تعداد میں ڈالرز ذخیرہ ہیں۔ جس کے بعد جدید مشینوں سے ان کو سکین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کوئٹہ کے ایک علاقے سے 1 کروڑ ڈالرز سے زیادہ ریکور کئے گئے۔

بوریوں میں بھر کر افغانستان ڈالرز سمگل ہورہے تھے جس کو روک دیا گیا۔

چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن

زیارت فیلڈ انفورسمنٹ یونٹ اور لکپاس کسٹمز نے 2600 پارسلز چینی برآمد کی۔ زیارت کسٹم کے عملے نے کوئٹہ ژوب روٹ پر تلاشی کے دوران 800 پارسلز چینی برآمد کی۔ اس موقع پر دکھائی گئی چینی کی NOC کی تصدیق نہیں ہوئی، اسی طرح کسٹم انفورسمنٹ لکپاس نے ایف سی کے تعاون سے 1800 پارسلز چینی مختلف گاڑیوں سے برآمدکی۔ چینی تحویل میں لیکر قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ دونوں کاروائیوں میں ایک لاکھ تیس ھزار کلو گرام چینی برآمد کی گئی۔

چکوال میں مختلف کاروائیوں کے نتیجہ میں ذخیرہ کی گئی چینی کی 13000 بوریاں برآمد  کی گئیں جو 16250 ٹن بنتی ہیں۔

جہلم میں حساس ادارے کی معلومات پر چینی ذخیرہ کرنے والے تاجروں کے خلاف کارروائیاں  عمل میں لائی گئیں۔روہتاس روڈ اور جی ٹی ایس چوک میں چینی کے گوداموں پر چھاپے مارے گئے۔ چینی کے 1600 تھیلے برآمد کر کےدو گودام سیل کردئیے گئے۔

چیچہ وطنی  میں چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاذ ہوتے ہی چینی کی قیمتوں کو ریورس گئیر لگ گیا  ہے۔ چینی کی 50 کلو کی بوری 8800 سے کم ہو کر 8000 کی ہوگئی جبکہ  مارکیٹ میں 160 اور دیہاتی علاقوں میں 165 میں فروخت ہونے لگی ہے۔

خفیہ اداروں کی اطلاع پر ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف کاروائیوں میں 538 ٹن چینی برآمد کرلی گئی۔

سمگلنگ پر کریک ڈاؤن

نگراں وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ بارڈر مینجمنٹ پر کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایرانی تیل بیچنے والے 500 سے زیادہ پمپس بند کر دیئے گئے ہیں۔ ایرانی پٹرول پر کریک ڈاؤن کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی سرکولیٹ ہورہی ہیں جس میں سمگلرز ایرانی تیل کو ٹینکوں سے گرا کر ضائع کر رہے ہیں۔

بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن

صرف چند روز کی کاروائی کے دوران 8 کروڑ یونٹ بجلی کی چوری کا سوراغ لگایا گیا ہے۔

ملک بھرمیں بجلی چوروں کو اب تک 35.2 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے اور بجلی چوری کے 4 ہزار 702 کیسز پکڑے گئے ہیں۔ بجلی چوروں کے خلاف 4 ہزار 54درخواستیں متعلقہ تھانوں میں دی گئیں۔ 7 سے 11 ستمبر بجلی چوروں کے خلاف کاروائی میں 194 افراد گرفتار ہوئے۔

بجلی چوری میں ملوث لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا ایک ملازم بھی گرفتار کیا ہے، میپکو اور لیسکو میں سب سے زیادہ بجلی چوری کے کیسز پکڑے گئے، جبکہ ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی ریجن میں بجلی چوری کے ایک ہزار 317 کیسزرپورٹ ہوئے۔ میپکوریجن میں چار روزہ کاروائیوں میں 556 افراد کے خلاف ایف آر آرزدرج کروائی گئیں، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی ریجن میں ایک ہزار 159 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

پاور ڈویژن ذرائع نے کہا کہ لیسکوریجن میں بجلی چوروں کے خلاف اب تک 715 ایف آئی آرز درج ہیں، گیپکو ریجن میں 128، فیسکو میں 201 اور آئیسکو میں 95 بجلی چوری کے کیسزرپورٹ ہوئے ہیں۔

کریک ڈاؤن کے نتائج

اس کریک ڈاؤن کا سب سے بڑا اثر ڈالر کی قیمت پر پڑا۔ نہ صرف روپے کی گرتی قدر رک گئی بلکہ صرف ایک ہفتے تک اندر ڈالر 340 سے 297 روپے پر آگیا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ پہلی بار ڈالر اوپن مارکیٹ میں انٹر بینک کی قیمت سے بھی نیچے آگیا۔ اسلام آباد میں ڈالر کی قیمت 270 روپے تک گری ہے۔

صرف ایک ہفتہ پہلے ڈالرز کے خریداروں کی قطاریں تھیں اور منی چینجرز گھنٹوں کے حساب سے ڈالر کی قیمت بڑھا رہے تھے۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ منی چینجرز کے پاس ڈالرز کے خریدار ہی نہیں ہیں۔

پشاور میں منی چینجرز بند ہونے اور باڈرز سیل ہونے کے بعد افغانستان کی کرنسی تیزی سے گرنے لگی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان سے کتنے بڑے پیمانے پر ڈالرز افغانستان سمگل ہوتا تھا۔

چینی قیمت 220 روپے سے گر کر 140 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

بجلی چوروں کے حوالے سے ریاست پہلی بار حرکت میں آئی ہے۔ اس سے پہلے یوں معلوم ہوتا تھا کہ ریاست نے تسلیم کر لیا ہے کہ بجلی چوری ہوتی ہے اور اس کو نہیں روکا جا سکتا۔

آپریشن پر تنقید

اس آپریشن پر پی ٹی آئی خاص طور پر پی ٹی آئی کے وکلاء نے زبردست تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ آرمی چیف یہ کس حیثیت میں کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ پہلے کیوں نہیں کیا۔

اس کے جواب میں مبصرین کہتے ہیں کہ آرمی چیف کو یہ مینڈیٹ پی ڈی ایم کی سابق حکومت نے دیا۔ نیز اس سارے معاملے میں بہت بڑے پیمانے پر سیاستدان بھی ملوث ہیں۔ سیاست دان حکومت میں ہوں تو یہ سب نہیں کرنے دیتے۔ نیز سیاستدان اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے بھی بہت سی چیزوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔

اس حوالے سے یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ یہ سب ڈنڈے کی زور پر ہورہا ہے۔ جب دباؤ کم ہوگا تو یہ سب کچھ واپس ہوجائیگا۔

منی چینجرز نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ پولیس والے ہمارے دفاتر میں بیٹھ کر ڈالرز کی خریدوفروخت دیکھتے ہیں۔