سمگلرز اور بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن

Shahidlogs سے

ستمبر کے پہلے ہفتے میں آرمی چیف نے کراچی اور لاہور کے تاجروں سے ملاقات میں سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں، غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں اور بجلی چوروں کے خلاف کاروائی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان بھر میں منی چینجرز، چینی ذخیرہ کرنے والوں، بجلی چوروں اور افغانستان سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ آپریشن شروع ہوتے ہی ڈالر کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 343 روپے سے کم ہوکر ایک ہفتے کے اندر اندر 276 روپے تک گر گیا۔ بڑے پیمانے چینی ذخیرہ کرنے والوں کو پکڑا گیا جس کے بعد چینی کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد کو سیل کر دیا گیا۔ بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف ہزاروں کیسز بنے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ ان کے ساتھ ساتھ غیر رجسٹرد شدہ افغانیوں کو واپس بھیجنے پر کام شروع کر دیا گیا۔ اس تمام آپریشن کو جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔

کریک ڈاؤن کا پس منظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نگران حکومت بننے کے چند ہی دن بعد پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 340 روپے تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ سے مہنگائی میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ پاکستان اپنی اکثر بجلی تیل سے بناتا ہے جو ڈالرز میں خریدی جاتا ہے۔ لہذا تیل سے بننے والی بجلی بھی مہنگی ہوئی۔ جس کے بعد عوام بجلی کے بلوں کے ساتھ سڑکوں پر آگئی۔ آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے عوام کو بجلی کی بلوں پر ریلیف نہیں دے سکتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور ھائی کورٹ کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے چینی کی قیمت 200 روپے سے اوپر چلی گئی۔

زمباوے کی طرح ملک میں ھائپر انفلیشن کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ مختلف اداروں نے جو رپورٹس پیش کیں ان کے مطابق اس تمام تباہی کی وجوہات میں ڈالرز مافیا، افغانستان اور ایران سے ہونے والی سمگلنگ، چینی کی ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری ہے۔

حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی کہ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ یہی ڈیلرز روپے کی قدر گرا رہے ہیں۔

صرف ایرانی پٹرول کے حوالے سے ایک سول انٹلی جنس ادارے کی رپورٹ کے مطابق کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 88 کروڑ لیٹر تیل پاکستان میں اسمگل ہوتا ہے۔ جس سے پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ اس سمگلنگ میں 29 سیاستدان اور 90 سرکاری ملازمین ملوث ہیں۔ 295 کمپنیاں اس تیل کا کاروبار کر رہی ہیں۔ 995 پٹرول پمپوں پر ایرانی پٹرول کھلے عام بک رہا ہے۔ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشتگردی میں بھی استعمال ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پی ایس او کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی نقل و حمل میں ملوث ہیں۔

نگران وزیر توانائی محمد علی نے بجلی چوری کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق پاکستان میں سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔ یہ رقم دیگر بجلی صارفین سے وصول کی جارہی ہے جو بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو بھاری بلوں کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ بجلی پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں چوری ہوتی ہے جو 489 ارب روپے ہے۔ جب کہ 100 ارب روپے پاکستان کے دیگر علاقوں میں چوری ہورہی ہے۔

کاروائیوں کا آغاز[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی اور لاہور کے تاجروں سے ایک طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آرمی چیف نے تاجروں کو بتایا کہ پاکستان میں ڈالر کے اسمگلرز، ذخیرہ اندوزوں، ان کے سہولت کاروں، سرپرستوں اور کرپٹ سرکاری افسران کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور ان کی مکمل فہرستیں بنائی گئی ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے ٹاسک فورسز بنائی گئی ہے اور سب کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن شروع کیا جا رہا ہے۔ جس کے فوراً بعد ہی ملک بھر میں کاروائیوں کا آغاز کر دیا گیا۔

ڈالر مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صرف دو دن میں 722 کرنسی ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ جن میں سے 205 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ کے پی کے میں 183 کمپنیاں، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 کرنسی ڈیلرز کو پکڑا گیا۔

سرکلر روڈ پر کارروائی کرتے ہوئے حوالہ ہندی کا کاروبار کرنے میں ملوث  تین افراد  کو گرفتار کیا۔ گرفتار افراد سے 6 کروڑ81 لاکھ کی ملکی اور  ڈیڑھ کروڑ سے زائد کی غیر ملکی کرنسی برآمد  ہوئی۔

ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک کو اطلاعات ہیں کہ بینکوں کے لاکرز میں بھی بڑی تعداد میں ڈالرز ذخیرہ ہیں۔ جس کے بعد جدید مشینوں سے ان کو سکین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کوئٹہ کے ایک علاقے سے 1 کروڑ ڈالرز سے زیادہ ریکور کئے گئے۔ بوریوں میں بھر کر افغانستان ڈالرز سمگل ہورہے تھے جس کو روک دیا گیا۔

راولپنڈی میں اساس اخبار اور الحرم سٹی کے مالک افتخار عادل کے گھر سے بھاری مقدار میں غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی۔

انہی اداروں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں کم از کم 50 ملین ڈالر گھروں میں چھپائے گئے ہیں۔ [1]

کراچی کریک ڈاؤن میں یوسف عرف کانڑا بھی گرفتار ہوا جو کراچی حوالہ ہنڈی کا بڑا ڈیلر ہے اور اس کے بڑی مقدار میں غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی۔ [2]

چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زیارت فیلڈ انفورسمنٹ یونٹ اور لکپاس کسٹمز نے 2600 پارسلز چینی برآمد کی۔ زیارت کسٹم کے عملے نے کوئٹہ ژوب روٹ پر تلاشی کے دوران 800 پارسلز چینی برآمد کی۔ اس موقع پر دکھائی گئی چینی کی NOC کی تصدیق نہیں ہوئی، اسی طرح کسٹم انفورسمنٹ لکپاس نے ایف سی کے تعاون سے 1800 پارسلز چینی مختلف گاڑیوں سے برآمدکی۔ چینی تحویل میں لیکر قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ دونوں کاروائیوں میں ایک لاکھ تیس ھزار کلو گرام چینی برآمد کی گئی۔

چکوال میں مختلف کاروائیوں کے نتیجہ میں ذخیرہ کی گئی چینی کی 13000 بوریاں برآمد  کی گئیں جو 16250 ٹن بنتی ہیں۔

جہلم میں حساس ادارے کی معلومات پر چینی ذخیرہ کرنے والے تاجروں کے خلاف کارروائیاں  عمل میں لائی گئیں۔روہتاس روڈ اور جی ٹی ایس چوک میں چینی کے گوداموں پر چھاپے مارے گئے۔ چینی کے 1600 تھیلے برآمد کر کےدو گودام سیل کردئیے گئے۔

چیچہ وطنی  میں چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاذ ہوتے ہی چینی کی قیمتوں کو ریورس گئیر لگ گیا  ہے۔ چینی کی 50 کلو کی بوری 8800 سے کم ہو کر 8000 کی ہوگئی جبکہ  مارکیٹ میں 160 اور دیہاتی علاقوں میں 165 میں فروخت ہونے لگی ہے۔

خفیہ اداروں کی اطلاع پر ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف کاروائیوں میں 538 ٹن چینی برآمد کرلی گئی۔

سندھ رینجرز نے کراچی میں ایک کاروائی کر کے 1 ارب روپے کی 1 لاکھ چالیس ہزار چینی کی بوریاں برآمد کر لیں۔ یہ چینی بلوچستان کے راستے افغانستان سمگل ہونی تھی۔

کراچی میں ہی ایک اور جگہ کاروائی کر کے سندھ رینجرز نے چینی کی 78000 بوریاں برآمد کر لی اور گودام کو سیل کر دیا۔

ایرانی پٹرول اور سمگلنگ پر کریک ڈاؤن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نگراں وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ بارڈر مینجمنٹ پر کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایرانی تیل بیچنے والے 500 سے زیادہ پمپس بند کر دیئے گئے ہیں۔ ایرانی پٹرول پر کریک ڈاؤن کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی سرکولیٹ ہورہی ہیں جس میں سمگلرز ایرانی تیل کو ٹینکوں سے گرا کر ضائع کر رہے ہیں۔

بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صرف چند روز کی کاروائی کے دوران 8 کروڑ یونٹ بجلی کی چوری کا سراغ لگایا گیا۔

راشد لنگڑیال نے بتایا کہ بجلی چوروں کے خلاف 15 ہزار 47 ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔ اب تک 2301 بجلی چور گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

بجلی چوروں کے خلاف 4 ہزار 54درخواستیں متعلقہ تھانوں میں دی گئیں۔

بجلی چوری میں ملوث لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا ایک ملازم بھی گرفتار کیا ہے، میپکو اور لیسکو میں سب سے زیادہ بجلی چوری کے کیسز پکڑے گئے۔

بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ماسٹر ٹائلز کا مالک شیخ محمود بھی گرفتار ہوا جو واپڈا کے 23 کروڑ روپے کا نادہندہ ہے۔ [3]

گولڈ مافیا پر کریک ڈاؤن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’گولڈ مافیا‘اور سونے کی سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ جس کے لیے ٹاسک فورسز بنائی گئی ہیں۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق ’گولڈ مافیا‘اور سمگلرز کے خلاف فیصلہ کن ایکشن کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلیجینس ایجنسیز  پر مشتمل ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ ٹاسک فورس نے سونا سمگلنگ کرنے والے مافیا اور سمگلرز کی لسٹیں تیار کی ہوئی ہیں۔

کریک ڈاؤن کے نتائج[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس کریک ڈاؤن کا سب سے بڑا اثر ڈالر کی قیمت پر پڑا۔ نہ صرف روپے کی گرتی قدر رک گئی بلکہ صرف ایک ہفتے تک اندر ڈالر 340 سے 291 روپے پر آگیا تھا۔ اس وقت ڈالر 276 روپے تک گر چکا ہے اور پچھلے ماہ پاکستانی روپے دنیا کی نمبر ون کرنسی قرار پائی ہے۔ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں 900 ملین ڈالر سرپلس ہوئے اور بینکوں میں جمع کرائے گئے۔ [4]

صرف دو ہفتے پہلے ڈالرز کے خریداروں کی قطاریں تھیں اور منی چینجرز گھنٹوں کے حساب سے ڈالر کی قیمت بڑھا رہے تھے۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ منی چینجرز کے پاس ڈالرز کے خریدار ہی نہیں ہیں۔

پشاور میں منی چینجرز بند ہونے اور باڈرز سیل ہونے کے بعد افغانستان کی کرنسی تیزی سے گرنے لگی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان سے کتنے بڑے پیمانے پر ڈالرز افغانستان سمگل ہوتا تھا۔

ڈالر کی قیمت گرنے سے ملک بھر میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی۔ صرف پندرہ دن کے اندر اندر مہنگائی کی شرح 38٪ سے کم ہوکر 27٪ پر آگئی۔

یکم ستمبر سے 15 اکتوبر تک کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر سے تقریباً 1052 میٹرک ٹن چینی اور 0.244 ملین لیٹر تیل برآمد ہوا، جبکہ آپریشن کے دوران صرف بلوچستان سے 1.315 میٹرک ٹن چینی برآمد ہوئی۔ پنجاب سے 0.008، سندھ سے 0.020 اوربلوچستان سے 0.016 ملین لیٹر ایرانی تیل برآمد ہوا۔

چینی قیمت 220 روپے سے گر کر 160 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

سونے کی قیمت 240،000 روپے فی تولہ سے کم ہوکر 179،000 روپے فی تولہ ہوگئی۔ سونے کی قیمت میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کمی ریکارڈ کی گئی۔

بجلی چوروں کے حوالے سے ریاست پہلی بار حرکت میں آئی ہے۔ اس سے پہلے یوں معلوم ہوتا تھا کہ ریاست نے تسلیم کر لیا ہے کہ بجلی چوری ہوتی ہے اور اس کو نہیں روکا جا سکتا۔ بجلی چوروں سے اب تک 26 ارب روپے وصول کر لیے گئے ہیں۔ [5]

مردان لوڈ شیڈنگ فری سٹی قرار دے دیا گیا۔

سریے کی قیمت میں 55ہزار روپے کی کمی 3 لاکھ 5ہزار فی ٹن والا سریا اب 2 لاکھ 60 ہزار میں دستیاب ہے سولر پلٹ ٹیوب ویل مشینری کی قیمتوں میں نمایاں کمی 300 واٹ سولر 35 ہزار سے کم ہوکر 22 کا ہوگیا۔

چاول فی من 15000 روپے سے 11000 روپے ہوگیا۔ [6]

روپے کی قدر بڑھنے سے گاڑیوں کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں۔ [7]

آپریشن پر تنقید[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس آپریشن پر پی ٹی آئی خاص طور پر پی ٹی آئی کے وکلاء نے زبردست تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ آرمی چیف یہ کس حیثیت میں کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ پہلے کیوں نہیں کیا۔

اس کے جواب میں مبصرین کہتے ہیں کہ آرمی چیف کو یہ مینڈیٹ پی ڈی ایم کی سابق حکومت نے دیا۔ نیز اس سارے معاملے میں بہت بڑے پیمانے پر سیاستدان بھی ملوث ہیں۔ سیاست دان حکومت میں ہوں تو یہ سب نہیں کرنے دیتے۔ نیز سیاستدان اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے بھی بہت سی چیزوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔

اس حوالے سے یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ یہ سب ڈنڈے کی زور پر ہورہا ہے۔ جب دباؤ کم ہوگا تو یہ سب کچھ واپس ہوجائیگا۔

منی چینجرز نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ پولیس والے ہمارے دفاتر میں بیٹھ کر ڈالرز کی خریدوفروخت دیکھتے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]