"سمگلرز اور بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
چند دن پہلے جنرل عاصم منیر نے تاجروں کے ساتھ ایک ملاقات میں سمگلروں اور بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی منی چینجرز، چینی ذخیرہ کرنے والوں، بجلی چوروں اور افغانستان سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ آپریشن شروع ہوتے ہی ڈالر کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی اور چینی کی قیمت میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد کو سیل کر دیا گیا۔ بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف ہزاروں کیسز بنے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ ان کے ساتھ ساتھ غیر رجسٹرد شدہ افغانیوں کو واپس بھیجنے پر کام شروع کر دیا گیا۔ اس تمام آپریشن کو جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن بھی کہتے ہیں۔  
ستمبر کے پہلے ہفتے میں آرمی چیف نے کراچی اور لاہور کے تاجروں سے ملاقات میں سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں، غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں اور بجلی چوروں کے خلاف کاروائی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان بھر میں منی چینجرز، چینی ذخیرہ کرنے والوں، بجلی چوروں اور افغانستان سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ آپریشن شروع ہوتے ہی ڈالر کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 243 روپے سے کم ہوکر ایک ہفتے کے اندر اندر 297 روپے تک گر گیا۔ بڑے پیمانے چینی ذخیرہ کرنے والوں کو پکڑا گیا جس کے بعد چینی کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد کو سیل کر دیا گیا۔ بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف ہزاروں کیسز بنے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ ان کے ساتھ ساتھ غیر رجسٹرد شدہ افغانیوں کو واپس بھیجنے پر کام شروع کر دیا گیا۔ اس تمام آپریشن کو جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔  


=== کریک ڈاؤن کا پس منظر ===
=== کریک ڈاؤن کا پس منظر ===


نگران حکومت بننے کے چند ہی دن بعد پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 340 روپے تک پہنچ گئی۔ جس کی وجہ سے مہنگائی میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ ڈالرز کی قیمت بڑھنے سے بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا اور لوگوں نے بجلی بلوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی کی قیمت 200 روپے تک پہنچ گئی۔  
نگران حکومت بننے کے چند ہی دن بعد پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 340 روپے تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ سے مہنگائی میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ پاکستان اپنی اکثر بجلی تیل سے بناتا ہے جو ڈالرز میں خریدی جاتا ہے۔ لہذا تیل سے بننے والی بجلی بھی مہنگی ہوئی۔ جس کے بعد عوام بجلی کے بلوں کے ساتھ سڑکوں پر آگیا۔ آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے عوام کو بجلی کی بلوں پر ریلیف دینے کی پابندی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور ھائی کورٹ کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے چینی کی قیمت 200 روپے سے اوپر چلی گئی۔  


مختلف اداورں نے اس کے حوالے سے جو رپورٹس پیش کیں ان کے مطابق اس مہنگائی اور روپے کی بےقدری کی درج ذیل وجوہات ہیں۔  
زمباوے کی طرح ملک میں ھائپر انفلیشن کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ مختلف اداروں نے جو رپورٹس پیش کیں ان کے مطابق اس تمام تباہی کی وجوہات میں ڈالرز کی سمگلنگ، افغانستان سے ہونے والی سمگلنگ، ایرانی پٹرول کی سمگلنگ، چینی کی ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری شام ہیں۔


ڈالرز کی سمگلنگ 
حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی کہ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ یہی ڈیلرز روپے کی قدر گرا رہے ہیں۔


ہنڈی حوالہ 
صرف ایرانی پٹرول کے حوالے سے ایک سول انٹلی جنس ادارے کی رپورٹ کے مطابق کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 88 کروڑ لیٹر تیل پاکستان میں اسمگل ہوتا ہے۔ جس سے پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ اس سمگلنگ میں 29 سیاستدان اور 90 سرکاری ملازمین ملوث ہیں۔ 295 کمپنیاں اس تیل کا کاروبار کر رہی ہیں۔ 995 پٹرول پمپوں پر ایرانی پٹرول کھلے عام بک رہا ہے۔ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشتگردی میں بھی استعمال ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پی ایس او کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی نقل و حمل میں ملوث ہیں۔   


ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی 
نگران وزیر توانائی محمد علی نے بجلی چوری کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق پاکستان میں سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔ یہ رقم دیگر بجلی صارفین سے وصول کی جارہی ہے جو بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو بھاری بلوں کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ بجلی پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں چوری ہوتی ہے جو 489 ارب روپے ہے۔ جب کہ 100 ارب روپے پاکستان کے دیگر علاقوں میں چوری ہورہی ہے۔     
 
چینی کی سمگلنگ 
 
چینی کی ذخیرہ اندوزی 
 
ایرانی پٹرول کی سمگلنگ 
 
بجلی کی چوری  
 
صرف ایرانی پٹرول کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 88 کروڑ لیٹر تیل پاکستان میں اسمگل ہوتا ہے۔ اس سے پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ اس سمگلنگ میں 29 سیاستدان اور 90 سرکاری ملازمین ملوث ہیں۔ 295 کمپنیاں اس تیل کا کاروبار کر رہی ہیں۔   


=== کاروائیوں کا آغاز ===
=== کاروائیوں کا آغاز ===
سطر 42: سطر 32:
کاروائیوں کی تفصیل  
کاروائیوں کی تفصیل  


 
آپریشن کے نتائج  
آپریشن کے نتائج


آپریشن پر تنقید
آپریشن پر تنقید
سطر 54: سطر 43:


سیاستدان حکومت میں ہوں تو نہیں کرنے دیتے کیونکہ سارے سرمایہ دار ہین اور ان کو اپنا نقصان ہوتا ہے ان وک ووٹ بینک کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔
سیاستدان حکومت میں ہوں تو نہیں کرنے دیتے کیونکہ سارے سرمایہ دار ہین اور ان کو اپنا نقصان ہوتا ہے ان وک ووٹ بینک کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔
کسی منی چینجر کو کوئی رعایت نہیں دینی۔
صرف دو دن میں 722 کرنسی ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ جن میں سے 205 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ کے پی کے میں 183 کمپنیاں، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 کرنسی ڈیلرز کو پکڑا گیا۔ منی چینجرز ڈالرز لے کر بیٹھے ہیں کوئی خریدار نہیں۔ صرف ایک ہفتہ پہلے جاتے تو دور تک لائن ہوتی تھی اور کوئی ڈالرز دینے والا نہیں ہوتا تھا۔ منی چینجرز گھنٹوں کے حساب سے ڈالرز کی قیمت میں اضافہ کر رہے تھے۔
اگر دباؤ کم کیا گیا تو یہ سب واپس ہوجائیگا۔
ٹرکوں سے پٹرول نکال کر ضائع کیا جارہا ہے۔ ایرانی تیل پر کریک ڈاؤن کے بعد۔
تاجروں سے ملاقات میں سمگلنگ، ٹیکس چوری اور ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف ٹاسک فورسز بنا کر فوری کاروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پولیس ایکسچنج کمپنیوں کی بیٹھ کر ڈالرز کی خریدوفروخت دیکھنے لگے۔
آرمی چیف نے کور کمانڈرز سے کہا کہ ایک لیٹر بھی ایرانی پٹرول کراچی نہیں آنا چاہئے۔
تمام سیاسی جماعتوں میں کرپٹ عناصر ہیں اور کوئی سیاسی جماعت پاکستان سے مخلص نہیں۔
پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے یہ مزید برداشت نہیں ہوگا۔
100 ارب ڈالرز آئنگے۔
سٹاک ایکچینج کی 200 کمپنیوں میں سے 190 کمپنیوں نے ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ عقل کریم ڈھیڈی کا انکشاف شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں۔

نسخہ بمطابق 05:08، 12 ستمبر 2023ء

ستمبر کے پہلے ہفتے میں آرمی چیف نے کراچی اور لاہور کے تاجروں سے ملاقات میں سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں، غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں اور بجلی چوروں کے خلاف کاروائی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان بھر میں منی چینجرز، چینی ذخیرہ کرنے والوں، بجلی چوروں اور افغانستان سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ آپریشن شروع ہوتے ہی ڈالر کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 243 روپے سے کم ہوکر ایک ہفتے کے اندر اندر 297 روپے تک گر گیا۔ بڑے پیمانے چینی ذخیرہ کرنے والوں کو پکڑا گیا جس کے بعد چینی کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد کو سیل کر دیا گیا۔ بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف ہزاروں کیسز بنے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ ان کے ساتھ ساتھ غیر رجسٹرد شدہ افغانیوں کو واپس بھیجنے پر کام شروع کر دیا گیا۔ اس تمام آپریشن کو جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔

کریک ڈاؤن کا پس منظر

نگران حکومت بننے کے چند ہی دن بعد پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 340 روپے تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ سے مہنگائی میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ پاکستان اپنی اکثر بجلی تیل سے بناتا ہے جو ڈالرز میں خریدی جاتا ہے۔ لہذا تیل سے بننے والی بجلی بھی مہنگی ہوئی۔ جس کے بعد عوام بجلی کے بلوں کے ساتھ سڑکوں پر آگیا۔ آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے عوام کو بجلی کی بلوں پر ریلیف دینے کی پابندی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور ھائی کورٹ کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے چینی کی قیمت 200 روپے سے اوپر چلی گئی۔

زمباوے کی طرح ملک میں ھائپر انفلیشن کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ مختلف اداروں نے جو رپورٹس پیش کیں ان کے مطابق اس تمام تباہی کی وجوہات میں ڈالرز کی سمگلنگ، افغانستان سے ہونے والی سمگلنگ، ایرانی پٹرول کی سمگلنگ، چینی کی ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری شام ہیں۔

حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی کہ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ یہی ڈیلرز روپے کی قدر گرا رہے ہیں۔

صرف ایرانی پٹرول کے حوالے سے ایک سول انٹلی جنس ادارے کی رپورٹ کے مطابق کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 88 کروڑ لیٹر تیل پاکستان میں اسمگل ہوتا ہے۔ جس سے پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ اس سمگلنگ میں 29 سیاستدان اور 90 سرکاری ملازمین ملوث ہیں۔ 295 کمپنیاں اس تیل کا کاروبار کر رہی ہیں۔ 995 پٹرول پمپوں پر ایرانی پٹرول کھلے عام بک رہا ہے۔ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشتگردی میں بھی استعمال ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پی ایس او کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی نقل و حمل میں ملوث ہیں۔

نگران وزیر توانائی محمد علی نے بجلی چوری کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق پاکستان میں سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔ یہ رقم دیگر بجلی صارفین سے وصول کی جارہی ہے جو بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو بھاری بلوں کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ بجلی پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں چوری ہوتی ہے جو 489 ارب روپے ہے۔ جب کہ 100 ارب روپے پاکستان کے دیگر علاقوں میں چوری ہورہی ہے۔

کاروائیوں کا آغاز

کراچی اور لاہور میں تاجروں کے ساتھ ملاقات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانیوں، ڈالر مافیا اور پٹرول مافیا کے خلاف کاروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ان تاجروں میں سے چند ایک نے یہ بات میڈیا پر بتائی۔ جس کی آرمی کی طرف سے تردید نہیں آئی۔

تاجروں کو یہ بھی بتایا گیا کہ ڈالر کے اسمگلرز، ذخیرہ اندوزوں، ان کے سہولت کاروں، سرپرستوں اور کرپٹ سرکاری افسران کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور ان کی مکمل فہرستیں بنائی گئی ہیں۔ آپریشن کے مقاصد میں پٹرول اور ڈالرز کی سمگلنگ روکنا، بجلی چوری روکنا اور ذخیرہ اندوزی روکنا شامل ہے۔

ریاست نے تسلیم کر لیا تھا کہ یہان چوری ہوتی ہے اور اس کو ہم نہیں روک سکتے۔ پنجاب کے عوام نے مان لیا تھا کہ پشاور اور کوئٹہ اور آزاد کشمیر میں چوری ہونے والی بجلی کے پیسے ہم ہی دینگے۔

ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ کو روکنا

ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی روکنا

چینی کی ذخیرہ اندوزی روکنا

افغانستان کی سرحد پر کنٹینروں سے ڈالرز نکالے گئے۔

سرکاری ملازمین بھی ملوث ہیں

کاروائیوں کی تفصیل

آپریشن کے نتائج

آپریشن پر تنقید

پہلے کیوں نہین کیا؟ کیونکہ سیاستدان رکاؤٹ تھے۔

بوریوں میں بھر کر ڈالرز سمگل ہورہے تھے۔ حوالہ ہنڈی والوں کے خلاف کریک ڈاؤن

شوگر مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن

سیاستدان حکومت میں ہوں تو نہیں کرنے دیتے کیونکہ سارے سرمایہ دار ہین اور ان کو اپنا نقصان ہوتا ہے ان وک ووٹ بینک کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔

کسی منی چینجر کو کوئی رعایت نہیں دینی۔

صرف دو دن میں 722 کرنسی ڈیلرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ جن میں سے 205 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ کے پی کے میں 183 کمپنیاں، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 کرنسی ڈیلرز کو پکڑا گیا۔ منی چینجرز ڈالرز لے کر بیٹھے ہیں کوئی خریدار نہیں۔ صرف ایک ہفتہ پہلے جاتے تو دور تک لائن ہوتی تھی اور کوئی ڈالرز دینے والا نہیں ہوتا تھا۔ منی چینجرز گھنٹوں کے حساب سے ڈالرز کی قیمت میں اضافہ کر رہے تھے۔

اگر دباؤ کم کیا گیا تو یہ سب واپس ہوجائیگا۔

ٹرکوں سے پٹرول نکال کر ضائع کیا جارہا ہے۔ ایرانی تیل پر کریک ڈاؤن کے بعد۔

تاجروں سے ملاقات میں سمگلنگ، ٹیکس چوری اور ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف ٹاسک فورسز بنا کر فوری کاروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پولیس ایکسچنج کمپنیوں کی بیٹھ کر ڈالرز کی خریدوفروخت دیکھنے لگے۔

آرمی چیف نے کور کمانڈرز سے کہا کہ ایک لیٹر بھی ایرانی پٹرول کراچی نہیں آنا چاہئے۔

تمام سیاسی جماعتوں میں کرپٹ عناصر ہیں اور کوئی سیاسی جماعت پاکستان سے مخلص نہیں۔

پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے یہ مزید برداشت نہیں ہوگا۔

100 ارب ڈالرز آئنگے۔

سٹاک ایکچینج کی 200 کمپنیوں میں سے 190 کمپنیوں نے ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ عقل کریم ڈھیڈی کا انکشاف شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں۔