"جسٹس بابر ستار" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 31: | سطر 31: | ||
الزام ہے کہ وہ سیاسی وابستگی کی بنا پر ایڈیشنل جج تعئنات ہوئے۔ | الزام ہے کہ وہ سیاسی وابستگی کی بنا پر ایڈیشنل جج تعئنات ہوئے۔ | ||
جسٹس بابر ستار ان چھ ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے جسٹس محسن اختر کیانی کی قیادت میں سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ <ref>[[چھ ججوں کا خط]]</ref> | جسٹس بابر ستار ان چھ ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے [[جسٹس محسن اختر کیانی]] کی قیادت میں سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ <ref>[[چھ ججوں کا خط]]</ref> | ||
=== حوالہ جات === | === حوالہ جات === |
نسخہ بمطابق 10:48، 15 مئی 2024ء
امریکی گرین کارڈ
دسمبر 2020 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات ہونے والے جج بابر ستار 22 ستمبر 2005 سے امریکی شہریت رکھتے ہیں لیکن انھوں نے اس کا ذکر اپنی کسی بھی سرکاری دستاویز میں نہیں کیا۔ [1]
جسٹس بابر ستار نے امریکی شہریت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی وفاداری چھوڑنے اور امریکا کا وفادار رہنے کا حلف اٹھایا ہے۔ [1]
جسٹس بابر ستار نے یہ حلف بھی اٹھایا ہوا ہے کہ امریکی فوج انہیں کہے تو وہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف ہتھیار لے کر لڑے گا۔ [1]
سوشل میڈیا پر اس پر تنقید ہوئی کہ جسٹس بابر ستار نے اپنی امریکی شہریت کیوں چھپائی تو جج نے جواب دیا کہ میں نے اپنے ساتھی جج جسٹس اطہر من اللہ کو بتا دیا تھا۔ اس بھونڈے جواب پر مزید تنقید ہوئی کہ اطہر من اللہ کو بتانے کی کیا تک تھی؟ آپ کو کاغذات میں ظاہر کرنا ہوتا ہے اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
اطہر من اللہ پر بھی اعتراضات اٹھے کہ اس نے یہ بات چھپائی کیوں؟ خیال رہے کہ پاکستان میں محض دبئی کا اقامہ چھپانے پر ایک وزیراعظم کو نااہل کر دیا گیا تھا یہ تو پھر امریکی گرین کارڈ کا معاملہ ہے۔ [2]
بابر ستار نے یہ بھی کہا کہ جب میں امریکہ میں پڑھ رہا تھا تب گرین کارڈ لیا۔ حالانکہ پڑھائی سٹوڈنٹ ویزہ پر بھی ہوجاتی ہے۔ [3]
دولت و کاروبار
سلور آکس نامی سکول چین جسٹس بابر ستار کی ہے۔ جس کی 32 برانچز ہیں۔ ایک برانچ دبئی میں بھی ہے۔
جسٹس بابر ستار کی ساس کو سکول کے لیے ایک کروڑ روپے مالیت کا کمیونٹی پلاٹ الاٹ ہوا۔ انہوں نے سکول نہیں بنایا تو وہ پلاٹ سی ڈی اے نے منسوخ کر دیا۔ جب اس پلاٹ کی مالیت 6 ارب روپے ہوگئی تو اس پلاٹ کے حصول کے لیے جسٹس بابر ستار نے چیئرمین سی ڈی اے کو عدالت بلوانا شروع کر دیا۔ پھر اس کو کسی افسر نے مشورہ دیا کہ جسٹس بابر ستار کی ساس کا پلاٹ دوبارہ الاٹ کردیں۔ اس نے پلاٹ الاٹ کر دیا جس کی قانون میں گنجائش نہیں تھی اور یوں اسکی جان چھوٹ گئی۔ [4]
چند نمایاں فیصلے
- جسٹس بابر ستار خود اپنے ہی خلاف چار اداروں کی اعتراض پر مبنی درخواستوں کی سماعت کی اور درخواستیں خارج کر دیں۔ ساتھ ہی درخواست گزاروں کو جرمانہ بھی کیا۔ نیز یہ دھمکی آمیز سوال بھی کیا کہ میرے خلاف درخواستیں کس نے منظور کی تھیں؟ [5]
- شہریار آفریدی نے ایک جتھے کو لے کر باقاعدہ جی ایچ کیو پر حملہ کردیا۔ اسکو ریلیف دے کر بابر ستار نے شہریار آفریدی کی گرفتاری کا حکم جاری کرنے والے ڈی سی کو پیش ہونے کا حکم جاری کردیا۔ وہ پیش نہ ہوا تو ای سی ایل میں نام ڈلوا چاروں آئی جیز اور ایف آئی اے کو حکم دیا کہ جہاں نظر آئے گرفتار کریں۔ گویا اصل دہشتگرد شہریار آفریدی نہیں بلکہ اسکی گرفتاری کا حکم جاری کرنے والا ڈی سی ہے۔
ثاقب نثار اور بشری بی بی کی آڈیو لیکس کا کیس
دیگر
جسٹس بابر ستار نے بھارت کے دورے کیے۔ لیکن انکی وجوہات نہیں بتا رہا۔
جسٹس بابر ستار جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں بطور سیاسی تجزیہ کار پیش ہوتے رہے۔
الزام ہے کہ وہ سیاسی وابستگی کی بنا پر ایڈیشنل جج تعئنات ہوئے۔
جسٹس بابر ستار ان چھ ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے جسٹس محسن اختر کیانی کی قیادت میں سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔ [6]