"سانحہ 9 مئی" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
سطر 35: سطر 35:


=== 9 مئی کے واقعات ===
=== 9 مئی کے واقعات ===
9 مئی کو رانا ثناءاللہ کے حکم پر رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ھائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس میں کی گئی۔ اس کیس میں نیب نے الزام لگایا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملک ریاض کے ساتھ ایک ڈیل کی جس سے قومی خزانے کو 23 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوا۔
9 مئی کو رانا ثناءاللہ کے حکم پر اسلام آباد رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ھائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس میں کی گئی۔ اس کیس میں نیب نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان نے چند سو ایکڑ زمین اور جواہرات کے عوض ملک ریاض کے ساتھ ایک ڈیل کر کے قومی خزانے کو 23 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔ <ref>[https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4vvrqxy79o عمران خان کی گرفتاری]</ref>
 
==== پی ٹی آئی راہنماؤں کی اشتعال انگیزی ====
عمران خان کے گرفتار ہوتے ہی مراد سعید کی ایک اڈیو سوشل میڈیا پر سرکولیٹ ہونی شروع ہوگئی۔ جس میں پی ٹی آئی کارکنوں کا پہلے سے نشاندہی کی گئی جگہوں پر پہچنے کا حکم دیا گیا۔


==== حملے ====
==== حملے ====

نسخہ بمطابق 05:29، 4 مئی 2024ء

حملوں کا پس منظر

10 جنوری کو بیرسٹر ظفر علی خان نے کہا کہ عمران خان پر 50 سے زائد مقدمات درج ہیں۔ [1]

22 جنوری کو زلفی بخاری نے کہا کہ عمران خان پاکستانیوں کی ریڈ لائن ہے۔ [2]

جنوری اور فروری میں ٹویٹر پر پی ٹی آئی نے مسلسل عمران خان کی گرفتاری اور زمان پارک پہنچنے کے ٹرینڈز چلائے۔

20 فروری کو خبر چلی کہ پولیس اور ایف آئی اے نے عمران خان کی گرفتاری کی تیاری مکمل کر لی۔ اس دوران پی ٹی آئی ٹویٹر پر مسلسل عمران خان کو اپنی ریڈ لائن قرار دینے کی ٹرینڈ چلاتی رہی۔

28 فروری کو عمران خان کی اسلام آباد ھائی کورٹ پیشی پر بھی پی ٹی آئی کارکنوں نے جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کی اور 25 لوگوں کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا۔ [3]

5 مارچ کو پہلی بار پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے زمان پارک پہنچی۔ لیکن وہاں پہلے ہی پی ٹی آئی کارکن جمع تھے۔ عمران خان نے کہا یہ لوگ مجھے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ [4]

8 مارچ کو زمان پارک میں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں میں پہلی جھڑپ ہوئی۔ پولیس پر حملوں کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس استعمال کی۔ پولیس کا دفعہ 144 لگانی پڑی۔ [5]عمران خان نے علی بلال عرف ظل شاہ نامی کارکن کے قتل کا الزام پولیس پر لگایا۔ [6]

14 مارچ کو عمران خان کی دوبارہ کال پر لاہور اور اسلام آباد میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں میں مزید جھڑپیں ہوئیں۔ رینجرز بھی طلب کی گئی۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی نے پولیس کا مذاق اڑایا۔ [7]

15 مارچ کو پولیس نے پلے کارڈز پر عدالتی وارنٹ لگوا کر عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن پی ٹی آئی کارکنوں نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ عمران خان نے ان وارنٹس کو غیر قانونی قرار دیا۔ [8] توشہ خانہ سمیت متعدد کیسز میں عمران خان پیش نہیں ہورہے تھے جس کی وجہ سے کئی کیسز میں عدالتوں نے انکے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

16 مارچ کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ تاہم اسی تاریخ کو لاہور ھائی کورٹ نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ خان کو گرفتار کرنے میں ناکامی کے باوجود لاہور کے زمان پارک میں اپنی کارروائیاں 16 مارچ تک روک دیں۔ [9] پی ٹی آئی کی یوٹیوبر ملیحہ ھاشمی نے ٹویٹ کی کہ کے پی سے ہمارے ٹرینڈ مجاہدین پہنچ گئے ہیں اور ہیلی کاپٹر کا بھی علاج تیار ہے۔ [10]ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے فیصلہ سناتے ہوئے متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ سابق وزیر اعظم کو گرفتار کرکے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ [11]

عمران خان نے ایک تقریر میں کہا کہ پولیس چند لاکھ ہے اور تم لوگ کروڑوں میں ہو۔

17 جنوری کو مزید جھڑپیں ہوئیں اور پی ٹی آئی کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ کر کے کئی پولیس والوں کو زخمی کر دیا۔ زمان پارک کے آس پاس رہنے والوں نے شکایت کی کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے یہ سارا علاقہ نو گر ایریا بنا رکھا ہے اور ڈنڈوں کے ساتھ گشت کرتے رہتے ہیں۔ [12] پی ٹی آئی کے حملوں میں 65 کے قریب پولیس اہلکار اور افسر زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں 2 ڈی ایس پیز،1ایس ایچ او شامل ہیں۔ [13]

25 مارچ کو پی ٹی آئی نے اپنے آفیشل ٹویٹر سے پھر ٹویٹ کی کہ عمران خان کی گرفتاری کا خطرہ ہے۔ حفاظت کے لیے کارکنان زمان پارک پہنچیں۔ ساتھ ہی ٹویٹر پر اسی حق میں ٹرینڈ بھی چلایا گیا۔ [14]

8 اپریل کو حلیم عادل شیخ نے بیان دیا کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے ہم اس کو ہر صورت بچائنگے۔ [15]

اپریل کے مہینے میں رمضان کی وجہ سے پولیس نے بظاہر عمران خان کی گرفتاری کی کوششیں روک دیں۔ تاہم 18 اپریل کو زمان پارک میں بلٹ پروف گیٹ پہنچا دیا گیا تاکہ پولیس کو روکا جا سکے۔ 21 اپریل کو بشری بی بی نے وزیراعلی اور وزیراعظم کو خط لکھا کہ پولیس زمان پارک میں دوبارہ آپریشن کر سکتی ہے اس کو روکا جائے۔

4 مئی کو قاسم سوری نے خدشہ ظاہر کیا کہ عمران خان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ عمران خان کے متعدد کیسز میں وارنٹ گرفتاری جاری تھے اور پولیس انہیں بارہا گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا کہہ چکی تھی۔ لیکن پی ٹی آئی راہنما اور عمران خان یہ تاثر دیتے تھے گویا گرفتاری کوئی انہونی بات یا چال ہے جسکا وہ انکشاف کر رہے ہیں۔ [16]

اسی تاریخ کو عمران خان نے کہا مجھے ڈرٹی ہیری (جنرل فیصل نصیر) سے جان کا خطرہ ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کارکنوں میں مزید اشتعال پھیل گیا کہ شائد عمران خان کو گرفتار کر کے قتل کر دیا جائیگا۔ [17]

9 مئی کے واقعات

9 مئی کو رانا ثناءاللہ کے حکم پر اسلام آباد رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ھائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس میں کی گئی۔ اس کیس میں نیب نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان نے چند سو ایکڑ زمین اور جواہرات کے عوض ملک ریاض کے ساتھ ایک ڈیل کر کے قومی خزانے کو 23 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔ [18]

پی ٹی آئی راہنماؤں کی اشتعال انگیزی

عمران خان کے گرفتار ہوتے ہی مراد سعید کی ایک اڈیو سوشل میڈیا پر سرکولیٹ ہونی شروع ہوگئی۔ جس میں پی ٹی آئی کارکنوں کا پہلے سے نشاندہی کی گئی جگہوں پر پہچنے کا حکم دیا گیا۔

حملے

کرپشن کیس میں عمران خان کی گرفتار پر پی ٹی آئی کارکنوں نے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے کیے۔

پاکستان کے 36 شہروں میں پی ٹی آئی کارکنوں اور راہنماؤں نے فوج اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے اور گھیراؤ جلاؤ کیا۔

اسلام آباد میں مظاہرین نے دار الحکومت کے اندر اور باہر ایک اہم شاہراہ کو بلاک کر دیا۔ لوگوں نے آگ بھی جلائی اور پتھراؤ بھی کیا۔

جہاں پولیس نے روکنے کی کوشش کی پولیس پر حملے کیے گئے۔

پشاور میں ریڈیو پاکستان کو آگ لگا دی گئی۔

پی ٹی آئی کارکنوں نے پاکستان کے کئی شہروں میں فوجی تنصیابات پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں پولیس اور بلوائیوں میں جھڑپیں ہوئیں۔ جن میں 8 افراد ہلاک ہوئے اور 290 کے قریب زخمی ہوئے۔ فوجی املاک کو ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ فوج نے کہیں بھی مظاہرین فائرنگ نہیں کی۔

ملک بھر میں درج ایف آئی آرز کے مطابق پی ٹی آئی بلوائیوں کے پاس آتشیں ہتھیاروں کے علاوہ ڈنڈے اور پٹرول بم بھی تھے۔ پی ٹی آئی کے تقریبا 1500 کارکنان نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور (جناح ھاؤس) پر حملہ کیا اور اس کو پورا جلا ڈالا۔

پی ٹی آئی کارکنان نے ’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘ اور ’عمران کو رہا کرو‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔

مشتعل ہجوم نے اسلام آباد میں پولیس آفس، لاہور میں پولیس اسٹیشن، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت، لوئر دیر میں چکدارا کے مقام پر اسکاؤٹس فورٹ کو نذر آتش کردیا۔ اسلام آباد میں جھڑپوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 17 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے جبکہ مشتعل ہجوم نے ایس پی انڈسٹریل ایریا کے دفتر کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ رمنا پولیس اسٹیشن کو بھی نقصان پہنچایا۔ پی ٹی آئی کارکنوں نے ترنول کے قریب ایک ریلوے ٹریک بھی اکھاڑ دیا۔ لاہور میں مشتعل افراد نے شادمان پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کرنے کے بعد فرنیچر اور سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ پی ٹی آئی کے حامیوں اور کارکنوں نے گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھاوا بولنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے انہیں پچھے دھکیل دیا۔ پولیس کے مطابق 21 سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور 14 سرکاری عمارتوں پر مشتعل ہجوم نے دھاوا بولا۔

خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کے مناظر دیکھنے کو ملے اور مظاہرین نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے قریب واقع ریڈیو پاکستان اور ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے دفاتر کی حامل عمارت پر حملہ کردیا۔

زخمی اور ہلاکتیں

پشاور میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان اس وقت شدید جھڑپیں ہوئیں جب پولیس نے خیبر روڈ پر اہم سرکاری تنصیبات کی جانب گامزن مشتعل ہجوم کو پیش قدمی سے روک دیا اور اس دوران تشدد کے نتیجے میں 7 افراد ہلاک اور 122 زخمی ہو گئے۔

کوئٹہ میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کے ساتھ تصادم میں لاہور کے ڈی آئی جی آپریشن ناصر رضوی، تین ایس پی اور درجنوں ایس ایچ او سمیت 150 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ گوجرانوالہ میں مظاہرے کے دوران نامعلوم افراد نے فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں راشد نامی شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

اسی طرح دو افراد کوہاٹ میں جان کی بازی ہار گئے۔ منگل کو رات گئے چکدارا کے قریب جھڑپوں میں بھی مظاہرے میں شریک ایک فرد مارا گیا۔

نقصانات

1ای سی پی آفس پشاور 2.ای سی پی آفس لاہور 3. ریڈیو پاکستان پشاور 4. کور کمانڈر ہاؤس لاہور 5. عسکری ٹاورز لاہور 6 جی ایچ کیو راولپنڈی 7. ایف سی بیرک مردان 8 چکدرہ ایف سی قلعہ 9 چکدرہ ایف سی اسکول دیر 10. ملٹری بیرک مردان 11. پی اے ایف کی یادگار شہداء سرگودھا 12. پی اے ایف بیس میانوالی 13. پی ایم ایل این آفس لاہور 14. وزیر اعظم کی نجی رہائش گاہ لاہور 15۔ کلمہ چوک لاہور 16. آڈی شو روم لاہور۔ 17 میٹرو اسٹیشن راولپنڈی 18. موٹروے انٹر چینج سوات 19. سروسز ہسپتال لاہور 20.ایس پی آفس انڈسٹریل ایریا اسلام آباد 21. مویشی منڈی چارگانو چوک پشاور 22. سینکڑوں …. پولیس وین، ایدھی ایمبولینس، کے ایم سی کے ٹینکر، سویلین اور ملٹری گاڑیاں کراچی، نسٹ میں پرائیویٹ کاریں، کنٹینرز

حکومت کا ردعمل

حکومت نے کئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنائیں۔ ملک کے کئی حصوں میں انٹرنیٹ بند کر دیا۔

پی ٹی آئی راہنماؤں اور کارکنوں کو فوٹیج

ڈاکٹر یاسمین راشد

شہریار آفریدی

صنم جاوید

مراد سعید

حسان نیازی

گرفتاریاں اور ٹرائل

پاکستان بھر میں فسادات اور فوجی تنصیابات پر حملوں میں ملوث ہزاروں پی ٹی آئی کارکنوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ سب سے زیادہ گرفتاریاں پنجاب میں ہوئیں۔

راولپنڈی جی ایچ کیو اور آرمی چیک پوسٹ حملہ میں مفرور ملزم باسط امجد چوہدری طورخم بارڈر کراس کرتے ہوئے گرفتار کیے گئے۔ ملزم نے پٹرول بم استعمال کیے۔ ملزم اور اسکا بھائی منیب امجد چوہدری پہلے بھی ٹریننگ حاصل کرنے فاٹا اور افغانستان جاتے رہے ہیں اور وہاں انکے ملک دشمن عناصر سے قریبی تعلقات بھی ہیں۔ [19]

سانحہ 9 مئی کے مقدمات میں چیرمین پی ٹی آی سمیت تمام ملزمان کے چالان میں بغاوت کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں۔ ایس ایس پی انوش مسعود کے مطابق 9 مئی کے مرکزی مقدمے سمیت تمام مقدمات میں 120b کی دفعات لگا دی گئی ہے۔ 120B کا مطلب ہے جس میں ضمانت نہیں ہو سکتی۔ اسکے علاوہ 505،153،153a,146, 131 جیسی دفعات بھی لگی ہیں۔ ان سب میں سب سے زیادہ رولا 120b کا لگا ہوا ہے جسکی ضمانت نہیں ہو سکتی یعنی Punishment for criminal conspiracy اور criminal conspiracy کی سزا کیا ہے وہ ہے death in prison یعنی کے سزا موت یا پھر عمر قید اسکے علاوہ 9 مئی کے جو 21 خواتیں ہیں جن کو باہر نکالنے کی زور و شور سے کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ گواہ نا بن سکیں۔

حملوں کے بعد

حملوں کے بعد پی ٹی آئی بلوائیوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ پی ٹی آئی راہنماؤوں نے بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیا۔

پی ٹی آئی راہنماؤوں اور کارکنوں کے اعترافات

تھانہ گلبرگ میں درج ایف آئی آر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے لیڈران اور کارکنان کہہ رہے تھے کہ انھیں ’لیڈر عمران خان، شاہ محمود قریشی، مراد سعید، اسد عمر اور کور کمیٹی کے دیگر ممبران نے ہدایت کی ہے کہ ہر طرف آگ لگا دو اور املاک کی توڑ پھوڑ کرو تاکہ حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔‘

پی ٹی آئی کے سابق راہنما صداقت عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ 9 مئی حملوں کی منصوبہ بندی لال حویلی میں ہوئی تھی۔ [20]

حماد اظہر نے ٹویٹ کی کہ جسٹس نتاشہ کی عدالت سے سزائیں پانے والوں کے عدالتی اخراجات پی ٹی آئی اٹھائیگی اور ان کے گھروں کی دیکھ بھال بھی کرے گی۔ جب کہ دوسری طرف پی ٹی آئی سانحہ 9 مئی سے اظہار لاتعلقی کرتی رہی ہے۔ [21]

سانحہ 9 مئی کا ذمہ دار کون؟

پی ٹی آئی کا موقف

عمران خان نے دعوی کی کہ ہمارے پاس ویڈیو ایوڈنس ہے کہ 9 مئی کا حملہ ہمارے خلاف سازش تھی۔ [22]

عمران خان نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی حملوں کی تحقیقات صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تحت ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں، اس کی بھی تحقیقات ہونا چاہیے۔ عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران کچھ ویڈیو کلپس چلائیں اور دعویٰ کیا کہ احتجاج میں نامعلوم افراد بھی شامل تھے جو لوگوں کو تشدد پر اکساتے رہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر کیسے لاہور میں لوگ لبرٹی چوک سے کور کمانڈر کی رہائش گاہ تک پہنچے اور کسی نے انہیں روکا نہیں؟

عمران خان نے کہا کہ انہیں احتجاج کے دوران خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر انتہائی افسوس ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے 3500 کارکن پکڑے گئے۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی گرفتاری پر کہا کہ یہ فوج کے ماتحت محکمے رینجرز نے کی اور پوری دنیا سے اسے دیکھا۔

عمران خان 9 مئی نے دعوی کیا کہ 9 مئی کو حملے کرنے والے ہمارے لوگ ہیں تھے۔ [23]

فوج کا موقف

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل سیدعاصم منیر نے کہا ہے کہ مسلح افواج اپنی تنصیبات کے تقدس اور سلامتی کو پامال کرنے یا توڑ پھوڑ کی مزید کسی کوشش کو برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کور ہیڈ کوارٹرز پشاور کا دورہ کیا اور پشاور کور کے افسران سے خطاب میں ’نو مئی کے یوم سیاہ پر توڑ پھوڑ کے تمام منصوبہ سازوں، مشتعل افراد، اکسانے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا۔‘

حکومت کا موقف

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللّٰہ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ عمران خان کی گرفتاری پر ملک بھر میں صرف 40 سے 45 ہزار لوگ احتجاج کرنے سڑکوں پر نکلے اور اسے عوامی ردعمل نہیں کہا جا سکتا۔

’عمران خان کے لیے نکلنے والے وہ تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں جنہیں عمران خان نے ٹرین کیا۔ اس انارکی اور فساد کے لیے اس شخص (عمران خان) نے لوگوں کو ٹریننگ دی۔ اس جماعت پر پابندی لگانے کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں۔9 سے 11 مئی کے دوران پاکستان میں احتجاج نہیں تھا بلکہ اس دوران دکانوں کو لوٹا گیا، تو احتجاج کہاں تھا؟ انہوں نے تو دکانوں اور مویشی منڈیوں کو لوٹا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جانوروں تک کو آگ لگائی گئی، سرکاری عمارتوں اور دوسری املاک کو جلایا گیا۔ قائد اعظم ہاؤس سے سوئی تک لوٹ لی گئی اور پھر آگ لگائی گئی۔‘

سزائیں

سانحہ 9 مئی کے 51 مجرموں کو انسداد دہشتگردی عدالت گوجرانوالہ نے 5،5 سال قید کی سزائیں سنا دیں۔ سزائیں پانے والوں میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے کلیم اللہ اور سابق ایم پی اے شیر مہر بھی شامل ہیں۔ [24]

دیگر

پی ٹی آئی کارکنوں نے چوک پر لگائے گئے جنگی جہاز کے ماڈل کو آگ لگائی۔ [25]

میٹرو بس کو جلا کر راکھ کر دیا۔ [26]

پی ٹی آئی کے 9 مئی کے حملوں پر انڈیا نے جشن منایا۔ [27]

شیر افضل مروت نے الیکشن 2024 کے بعد ایک تقریر میں دھمکی دی کہ اگر عمران خان نے ہمیں حکم دیا تو ہم دوبارہ 9 مئٰی کرینگے۔ [28]

سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے فوج عدالتوں کو سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کا ٹرائل کرنے کی اجازت دے دی۔

پی ٹی آئی کے ایم پی اے فضل الہی ریڈیو پاکستان کو جلانے میں ملوث ہیں۔

حوالہ جات