26 ویں آئینی ترمیم
آئینی ترامیم کی تفصیل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
آئینی ترمیم میں 54 تجاویز شامل ہیں۔
دستاویز کے مطابق مجوزہ ترمیمی بل میں آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز شامل ہے، آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف جانے پر ووٹ شمار کرنے کی ترمیم کی تجویز بھی ہے۔
آرٹیکل 17 میں ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کی تجویز شامل ہے۔
آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم کی تجویز شامل ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے لیے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیراعظم کو دے گی۔
دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کی کمیٹی3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی، ججز کی تقرری کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8 ارکان پر مشتمل ہو گی، کمیٹی ارکان کا انتخاب اسپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی پارٹی کے تناسب سے کریں گے، کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 7 روز قبل سفارشات وزیراعظم کو دے گی۔
مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی، سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3 سال کے لیے جج تعینات ہو گا۔
بل میں ہائی کورٹس سے سو موٹو لینے کا اختیار واپس لینے اور ہائیکورٹ ججز کی ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔
چیف جسٹس کا تقرر 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگا، آئینی عدالت کے باقی 4 ججز بھی حکومت تعینات کرے گی، ہائیکورٹ کے ججز کو روٹیشن اور ٹرانسفر کے تحت دیگر ہائیکورٹس میں بھیجا جائے گا جبکہ ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو اکٹھا کیا جائے گا۔
منحرف اراکین کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی، بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے گا سیٹیں 65 سےبڑھا کر 81 کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح آئینی امور دیکھنے کے لیے عدالت قائم کی جائے گی، آئینی عدالت کے فیصلے پراپیل آئینی عدالت میں سنی جائے گی۔
دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ روک رکھا ہے تاکہ آئین میں ترمیم کے خلاف کچھ لکھ سکے۔
حکومت کی آئین میں ترمیم کی پہلی کوشش ناکام رہی۔