گرینڈ حیات ہوٹل سکینڈل
اسلام آباد ھائی کورٹ گرینڈ حیات ہوٹل سمیت اس زمین اور اس سے ملحقہ زمین پر ہونے والی تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور سی ڈی اے کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کو طے کرے۔
بلڈنگ ناجائز تعمیرات کے زمرے میں آتی ہے۔
اس بلڈنگ کو ہوٹل کا لائسنس جاری کیا گیا تھا جب کہ اس کو کمرشل فلیٹس میں تبدیل کر دیا گیا۔ جس کے بعد ان فلیٹس کو بیچا گیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے سی ڈی اے کو حکم دیا کہ آپ 17.5 ارب روپے لے کر اس کو لیگل قرار دے دیں۔ آپ کو پہلے یہ باتیں کیوں یاد نہیں تھیں۔ اب تو لوگوں نے فلیٹس لے لیے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق سی ڈی اے نے 2005 ء میں کنونشن سینٹر کے نزدیک 13 ایکڑ 5 کنال کا پلاٹ گرینڈ حیات فائیو سٹار ہوٹل کو الاٹ کیا۔ پلاٹ کی کل لاگت 4 ارب 88 کروڑ 23 لاکھ روپے تھی۔ مشرف دور حکومت کے آخری سال 2007ء میں ہونے والے سی ڈی اے بورڈ اجلاس میں قسطوں کی ادائیگی کا معاہدہ تبدیل کر دیا۔ رقوم کی ادائیگی 2006ء کی بجائے 2010ء سے شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی اس کے ساتھ سی ڈی اے بورڈ نے گرینڈ ہوٹل ٹاور کی پانچ مزید منزلیں تعمیر کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ سی ڈی اے بورڈ کے اس فیصلے سے قومی خزانہ کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سکینڈل کا اصل کردار ایک مرکزی وزیر ہیں جو یہ سارا معاملہ ہینڈل کر رہے ہیں اور نیب اس سکینڈل میں اس وزیر کے کردار بارے بھی تحقیقات کر رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس ٹاؤر میں ایک فلیٹ عمران خان کا بھی ہے۔
عمران خان پر الزام ہے کہ اس کا بنی گالہ ایک غیر قانونی علاقے میں تھا اور سی ڈی اے کو جرمانہ ادا کر کے اپنی وزرات عظمی میں اس کو ریگولررائز کر دیا گیا۔