ڈیورنڈ لائن کا معاملہ

Shahidlogs سے

افغان سرخوں کا دعوی ہے کہ اٹک تک پاکستان دراصل افغانستان کا علاقہ ہے جو ہم نے انگریز کو 100 سال کے لیے لیز پر دیا تھا جو اب پوری ہوچکی لہذا ہمیں  یہ علاقے واپس چاہئیں۔ وہ بلوچستان، کے پی کے اور قبائیلی اضلاع پر دعوی کرتے ہیں۔

افغان سرخوں کا یہ دعوی اب تک 1 لاکھ پاکستانیوں اور کم از کم 15 لاکھ افغانیوں کا خون پی چکا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان مسلسل شورشوں اور فسادات کی زد میں ہے۔ اس دعوے نے خود افغانستان کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔ لاکھوں افغانی جان سے گئے ہیں، کروڑوں دربدر ہیں اور افغانستان اس وقت دنیا کا سب سے پسماندہ ملک بن چکا ہے۔

آج آپ کے سامنے اس سارے معاملے کا ایک چھوٹا سا جائزہ پیش کرتے ہیں۔

افغانیوں نے اپنا یہ تباہ کن دعوی تین چیزوں کی بنیاد پر رکھا ہے۔ پہلی ڈیورنڈ لائین کا معاہدہ، دوسری ان علاقوں پر افغانستان کر چکا ہے اور تیسری 'لروبر یوافغان' یعنی افغانستان اور پاکستان کے تمام پشتون افغانی ہیں۔

ڈیورنڈ لائن معاہدے کے حوالے سے افغانی دعوی کرتے ہیں کہ وہ معاہدہ انگریز نے زبردستی کرایا، امیر عبدالرحمن انگریز کا کٹھ پتلی تھا اور معاہدہ صرف 100 سال کے لیے تھا۔ چونکہ معاہدہ انگریز کے ساتھ تھا لہذا ان کے جاتے ہی معاہدہ ختم ہوا نیز اب اس کی 100 سال کی مدت بھی پوری ہوچکی ہے اور خود بخود ختم ہوگیا ہے۔

ڈیورنڈ لائن معاہدے کے حوالے سے سچائی یہ ہے کہ یہ معاہدہ انگریز نہیں بلکہ افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن کی فرمائش پر کیا گیا جس نے تاج برطانیہ کو اس کے لیے 4 خطوط لکھے۔ وجہ یہ تھی کہ روس اور برطانیہ نے ملکر افغانستان کی وسطی ایشیاء کے ساتھ سرحدوں کا تعئن کر لیا تھا لیکن انڈیا کے ساتھ افغانستان کی سرحدیں بدستور غیر واضح تھیں۔ امیر عبدالرحمن نے اپنی کتاب میں بار بار لکھا ہے کہ اس نے انڈیا کے ساتھ اپنی سرحدیں واضح کیں۔ کوئی علاقہ کسی کو لیز پر نہیں دیا۔ 7 شقوں پر مشتمل اس معاہدے کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں کہیں 100 سال کی لیز یا کسی بھی مدت کا کوئی ذکرنہیں ہے۔ نہ ہی کچھ ایسا لکھا گیا تھا کہ افغانستان کا کوئی علاقہ برطانیہ کو دیا گیا تھا۔ بلکہ اس معاہدے کے بعد سرحدوں کا تعئین کرنے کے لیے 4 کمیشن بنے تھے جنہوں نے 2200 کلومیٹر لمبی سرحد کا تعئین کیا۔ انہیں یہ تعئن کرنے میں تین چار سال لگے تھے۔ سرحدوں کا تعئن کرنے والے کمیشن میں کئی بڑے افغان آٖفیشلز اور قبائیلی سردار شامل تھے۔

البتہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کے نتیجے میں افغانستان کو کنڑ سے بدخشاں تک ہزاروں کلومیٹر پر مشتمل آزاد خطہ "کافرستان"  مل گیا جو 1893 سے پہلے افغانستان کا حصہ نہیں تھا۔ اسی علاقے کا نام بعد میں امیر عبدالرحمن نے "نورستان" رکھا۔ اسی معاہدے کے نتیجے میں اسمار، موہمند لال پورہ بھی افغانستان کو مل گئے لیکن افغانستان اپنے قبضے میں آنے والے ہزاروں کلومیٹر پہ مشتمل ان علاقوں کی بات نہیں کرتا۔ اسی لیے اس معاہدے پر امیر عبدالرحمن سمیت افغانستان میں اس وقت کے افغان مشرانوں اور فوجی عمائدین نے باقاعدہ جشن منایا تھا اور سر ڈیورنڈ موٹیمر کو تحفے تحائف اور سلامی بھی پیش کی تھی۔

  Page 286/287(The Life of Abdur Rahman, Amir of Afghanistan)

ایک سچ یہ بھی ہے کہ افغانستان کو وظیفہ اس معاہدے کے نتیجے میں نہیں بلکہ امیر عبدالرحمن سے پہلے کا مل رہا تھا۔ اس معاہدے کے بعد وہ 12 لاکھ سے بڑھا کر 18 لاکھ کر دیا گیا۔ یہ وظیفہ 1919ء میں بند ہوا جب تیسری اینگو افغان جنگ شروع کی گئی۔ لیکن ڈیورنڈ لائن معاہدے کی اس کے بعد بھی کئی بار افغان حکمرانوں نے توثیق کی۔

ڈیورنڈ لائن معاہدے کے بعد 21 مارچ 1905ء میں افغانستان کے بادشاہ حبیب اللہ نے تاج برطانیہ کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا اور ڈیورنڈ لائن کو ایک بار پھر ایک مستقل سرحد کی حیثیت سے تسلیم کیا اس کو 'ڈین حبیب اللہ ایگریمنٹ' کہتے ہیں۔ 8 اگست 1919ء کو افغانستان کے وزیر داخلہ علی احمد خان نے راولپنڈی آکر دوبارہ اس معاہدے کی توثیق کی۔  22 نومبر 1921 کو افغانستان نے پھر اس کی توثیق کی جس کو 'کابل ایگریمنٹ' کہتے ہیں۔ یہ ایک آزاد افغان حکومت کا معاہد تھا۔ 6 جولائی 1930 کو افغانستان کے بادشاہ نادر خان نے انڈیا ایک وفد بھیجا اور ایک بار پھر تمام پرانے معاہدوں کی پاسداری کرنے کا یقین دلایا!

یعنی یہ بات بلکل جھوٹ ہے کہ یہ معاہدہ محض امیرعبدالرحمن نے کسی برطانوی دباؤ میں کیا تھا۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ امیرعبدالرحمن کے بعد حبیب اللہ، امان اللہ اور نادر خان نے بھی اس معاہدے کی توثیق کی تھی۔ بلکہ سرخوں کے چہیتے غازی امان اللہ نے دو بار اس معاہدے کی توثیق کی جس کو یہ خود آزاد اور افغانستان کا حقیقی حکمران مانتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کی روس، چین اور ایران کے ساتھ سرحدیں برطانیہ نے ان ممالک کے ساتھ ملکر طے کی تھیں اور ان کے تعئن میں کسی افغانی سے پوچھا تک نہیں گیا۔ ان سرحدوں کو یہ لوگ مانتے ہیں اور کبھی اعتراض نہیں کرتے۔ لیکن ڈیورنڈ لائن واحد سرحد ہے جس کا تعئن افغانستان کی مرضی سے کیا گیا اور اسی پر یہ اعتراض کرتے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام اسلامی ممالک نے ڈیورنڈ لائن کو ایک انٹرنیشنل بارڈر کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ بین لاقوامی قوانین بھی افغانستان کے ڈیورنڈ لائن سے متعلق موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ ویانا کنونشن جس پر افغانستان نے دستخط کر رکھے ہیں۔ اسکے (VCSSRT) باب کی  شق نمبر 11 کے مطابق ممالک کی تقسیم کے بعد بھی بین الاقوامی سرحدوں کے لیے اس قسم کے معاہدوں کی پاسداری کی جائیگی۔ اسی کنونشن کے مطابق اس قسم کے پرانے مسئلوں کو بھی اسی کنونشن کے مطابق حل کیا جائیگا۔ تب افغانستان یہ دلیل بھی نہیں دے سکتا کہ ویانا کنونشن والا معاہدہ بعد میں ہوا ہے۔

لہذا ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغانستان کا ہر دعوی باطل اور بےبنیاد ہے۔

اگر افغانیوں کا یہ دعوی درست مان لیا جائے کہ ان کی تاریخ 5000 سال پرانی ہے تو ان 5000 سالوں میں وہ صرف 81 سال ان علاقوں پر حکومت کر سکے جن پر دعوی کرتے ہیں یعنی 1747ء سے 1818ء تک۔ وہ بھی پنجاب سے جانے والے احمد شاہ درانی کے دور میں۔ جس کو افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے لیکن جس نے اپنی پوری کتاب میں افغانستان کا ذکر تک نہیں کیا۔ اگر وہ درانی سلطنت ہی افغانیوں کے دعوے کی بنیاد ہے تو وہ تو کشمیر، دہلی، ملتان اور مشہد تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر افغانستان ان علاقوں پر دعوی کیوں نہیں کرتا؟ نیز انڈیا اور ایران نے سینکڑوں سال خود افغانستان پر حکومت کی۔ کیا پھر انڈیا بھی افغانستان پر دعوی کر سکتا ہے؟

تیسرا معاملہ ہے 'لروبر' یو افغان کا۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں رہنے والے پشتونوں کے علاوہ خود افغانیوں کی اکثریت بھی یہ نہیں جانتی کہ 'افغان' پشتون یا پنجابی کی طرح نسل یا قوم نہیں بلکہ ملت یعنی مختلف اقوام کا ملغوبہ ہیں۔ افغان کم از کم 42 مختلف قومیتوں کا مجموعہ ہے جن میں سب سے بڑی قومیت فارسی بان اور دوسری پشتون ہیں۔ افغانستان کے اپنے آئین کی شق نمبر 4 میں یہی لکھا ہے کہ افغانستان کی نیشنلٹی رکھنے والی تمام قومیں افغان ہیں بشمول پشتون، ہزارہ، ازبک وغیرہ۔ یہی چیز ان کے قومی شناختی کارڈ پر بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قوم پشتون یا تاجک یا ہزارہ اور ملت افغان لکھتے ہیں۔

اگر فارسی بان، تاجک، ازبک، ترکمن بھی افغان ہیں تو کیا افغانی 'لروبر' یو افغان کا دعوی تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کے لیے بھی کرینگے؟ یا یہ "مہربانی" صرف پشتونوں پر ہے؟ یاد رہے کہ  پشتون کی کم از کم ڈھائی ہزار سال کی مستند تاریخ میں موجود ہے۔ لیکن لفظ افغان محض چند سو سال پرانا ہے اور ایرانیوں نے اس خطے میں رہنے والوں کو افغان کہا جو رفتہ رفتہ ان پر چسپاں ہوگیا۔ چاہے وہ پشتون ہوں یا تاجک یا کوئی اور۔ پشتو زبان کی رسم الخط میں افغان تو چھوڑیں 'ف' حرف ہی نہیں تھا چند سو سال پہلے تک۔

لہذا اس تباہ کن اور خون آشام دعوے کی ساری کی ساری بنیاد ہی محض جھوٹ پر قائم ہے۔ اسی دعوے نے 'پشتونستان'  کے نعرے کو جنم دیا۔ یہ لفظ سب سے پہلے کانگریس نے استعمال کیا 'پٹھانستان' جس کو بعد میں باچا خان نے پشتونستان بنا دیا۔ ریفرنڈم میں باقاعدہ اس کا مطالبہ بھی کیا کہ ہمیں ایک تیسرا آپشن دیا جائے۔ افغانستان نے بھی فوراً 'پشتونستان' کو سپورٹ کرنا شروع کیا کیونکہ ان کے خیال میں اگر پشتون پاکستان سے کٹ جاتے ہیں تو پھر ان کو افغانستان میں ضم کرنا مشکل نہیں ہوگا اور لوئے افغانستان کا خواب پورا کرنا آسان ہوجایگا۔

افغانستان کبھی بھی اتنا طاقتور نہیں ہوا کہ وہ بزور طاقت پاکستان سے یہ علاقے چھین سکے۔ لہذا اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور سازشیں کرنی شروع کردیں۔ افغانستان نے 'پشتونستان' کے نعرے کو اعلانیہ سپورٹ کرنا شروع کیا اور پاکستان میں بغاؤتوں اور شوروشوں ابھارنے لگا۔ پاکستان کے خلاف روس اور انڈیا سے مدد مانگی جو فوراً مدد کو پہنچے۔ انڈیا پاکستان کا ازلی دشمن اور روس ہمیشہ سے بحر ہند کے گرم سمندر تک پہنچنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔

روس افغانستان میں اپنی کمیونسٹ افکار کے ساتھ گھسا۔ پہلی بار افغانستان میں سرخوں نے جنم لیا۔ انہی سرخوں نے افغانستان میں لادینیت اور الحاد کو فروغ دیا اور افغانستان کا جھنڈا سرخ کر دیا۔ اس لادینیت کے خلاف افغانستان میں مزاحمت اٹھی تو روس کو فوجی مدد کے لیے پکارا۔ روس دوڑا چلا ایا اور اس وقت سے آج تک کا حال ہم سب جانتے ہیں۔ لاکھوں افغانی جانوں سے گئے، کروڑوں بےگھر ہوئے، افغانستان دنیا کا پسماندہ ترین ملک بنا اور افغانیوں کی بڑی تعداد اسلام چھوڑ کر لادین ہوگئی۔

پاکستان میں انہوں نے انتہائی بےرحمی سے اور نہایت جارحانہ انداز میں بغاوتوں کو سپورٹ کرنا شروع کیا اور اپنی پراکیسز کی مدد سے کے پی کے، قبائیلی اضلاع اور بلوچستان میں آگ لگا دی۔ کے پی کے اور سابقہ فاٹا میں فقیر ایپی سے لے کر پشتون زلمی، ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم مسلسل باغیانہ تحریکیں چلوائیں۔ ہزاروں پشتونوں کی جانیں لیں۔ تو بلوچستان میں پرنس کریم اور مری قبائل کے دہشتگردی کے کیمپوں سے لے کر بی ایل اے اور ایل ایف تک اور بلوچستان کو بھی خاک و خون میں نہلایا۔  

افغانستان نے بارہا پاکستان کی سرحدوں پر براہ راست حملے بھی کیے۔ خود بھی نقصان اٹھایا اور ہمیں بھی نقصان پہنچایا۔

مسلسل شورشوں اور شرارتوں نے پاکستان کی ناک میں دم کیا اور ردعمل دینے پر مجبور کیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب یہ واضح ہوگیا کہ اس سازش میں بھی افغانستان، روس اور انڈیا کے ساتھ مددگا تھا اور افغانی کھل کر اعلان کرنے لگے کہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد اب چار ٹکڑے ہونگے تو بھٹو جیسے لبرل لیڈر نے ان کو پہلی بار جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

چونکہ 'لوئے افغانستان' کے اصل علمبردار اور پاکستان کے اصل دشمن افغان سرخے تھے لہذا ان کے مخالف اسلام پرستوں کو بھٹو نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ یہی پاکستان کا وہ ردعمل تھا جس پر افغان سرخے چیخ اٹھے اور پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کا الزام لگایا۔ پاکستان میں اس سے پہلے افغانستان جو کچھ کرتا ہے اور آج بھی کر رہا ہے اس کو تذکرہ نہیں کرتا۔ افغان قوم کو اس حوالے سے متحرک رکھنے کے لیے 'کالیا پنجابی' کے نام سے ایک خیالی دشمن تخلیق کیا گیا۔ جس کو افغانستان کی ہر تباہی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ سرخوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہر اسلام پسند افغانی کو پنجابی کا ۔مزدور' قرار دیا گیا۔ افغانیوں کو سمجھایا گیا کہ 'پنجابی' چالاک مکار اور بزدل ہے۔ وہ تمہارے ساتھ اچھائی بھی کرے تو وہ سازش ہوتی ہے۔

لیکن ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟

70 سالوں میں افغانستان پاکستان کی ایک انچ زمین نہیں لے سکا نہ آئندہ سو سال میں لے سکے گا ان شاءاللہ۔

پاکستان میں افغانستان کے خلاف اتنی نفرت پھیل گئی ہے کہ سینکڑوں سال کی تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ پاکستان دشمنی کی وجہ سے افغانیوں کے لیے 'نمک حرام' کا لفظ عام ہوگیا۔

افغانستان کے ساتھ پاکستانیوں نے باڑ لگوا لی اور جو افغانی پاکستان میں پناہ گزین ہیں ان کو واپس بھیجنے کے مطالبے دن بدن زور پکڑ رہے ہیں۔

پنجابی کبھی بھی افغان کا دشمن نہیں تھا۔ پنجاب کا آٹا، دودھ، گوشت، کپڑا اور دوائی افغان آج سے نہیں سینکڑوں سال سے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اب اس کا راستہ بند ہونے والا ہے اور پشتون پنجابی دونوں افغان کو دشمن اور ناقابل بھروسہ سمجھنے لگے ہیں۔

افغانستان نے ہمیں خوب نقصان پہنچایا۔ خاص کر کے پی کے اور فاٹا کے پشتونوں اور بلوچستان میں بلوچوں کی زندگیاں اجیرن کیں۔ ہزاروں کی جانیں ان کی پراکیسز کا شکار ہوگئیں۔ ان کو سہانے خواب دیکھا کر پاکستان کے خلاف جنگ پر اکساتے ہیں۔ جب اس جنگ میں وہ مارے جاتے ہیں ان کی لاشوں پر بین کر کے مزید پشتونوں اور بلوچوں کو اکساتے ہیں۔ یوں آگ بڑھکائے رکھتے ہیں۔

لیکن پاکستان کے خلاف مصروف رہ کر افغانستان خود بھی تباہ و برباد ہوا۔ کم از کم 15 لاکھ افغانیوں کی جانیں گئی ہیں۔ ایک کروڑ دربدر ہیں۔ افغانستان دنیا کا پسماندہ ترین ملک بن چکا ہے جہاں اپنی بجلی تک نہیں وہ بھی تاجکستان سے لے رہے ہیں۔

یہ سارا کچھ محض ایک جھوٹ کی خاطر؟ جو ان پر زبردستی تھوپا گیا ہے۔ جو ان سے ان کی اپنی شناخت تک چھین چکا ہے۔ اس جھوٹ کو افغانیوں کے رگوں میں اتار دیا گیا ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ کوئی افغانی اس پر سوال پر بھی کرے تو غدار سمجھا جاتاہے۔

لیکن آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پہلے والی بات نہیں رہی۔ اب سچ تک پہنچنا آسان ہوگیا ہے اور سچ کو عوام تک پہنچانا بھی۔ اب یہ سوال ضرور اٹھیں گے کہ یہ جو نعرہ لگا کر افغانستان کو تباہ و برباد کیا گیا سچ بھی ہے یا محض ڈھکوسلہ ہے؟ اس نعرے نے آج تک افغانستان کو دیا کیا؟ پشتونوں کو کیا دیا؟ نیز کیا لوئے افغانستان بنانے کا یہ پرفریب خواب کبھی بھی پورا ہوسکے گا؟ کیا افغانی واقعی یہ یقین رکھتے ہیں کہ پشتون پاکستان چھوڑ کر افغانستان کے ساتھ شامل ہونگے؟

اگر افغان قوم اس دھوکے سے نکل آئے تو شائد افغانستان اپنی تاریخ میں پہلی بار ترقی کرے۔ وہ وسطی ایشیاء، روس، چین اور پاکستان کے درمیان کوریڈور بن جائیگا۔ افغانستان میں پہلی بار فیکٹریاں بنیں گی۔ اپنی بجلی ہوگی اور افغانستان دنیا کا محتاج نہیں رہے گا۔

تحریر شاہد خان

افغانستان نے 'پشتونستان' یا لوئے افغانستان کے خواب کے لیے قیام پاکستان کے ساتھ ہی الگ سے ایک وزارت بنائی تھی۔ افغان سرخا اپنے افکار کے ساتھ ہمارے تعلیمی اداروں، سیاست، میڈیا اور عدلیہ تک میں گھس چکا ہے اور ہمیں ڈس رہا ہے۔

ہم نے عملی میدان میں بےشمار جانیں دیں اور کھربوں روپے صرف کیے لیے نظریاتی محاذ پر ان کا مقابلہ نہیں کیا۔ وہ ایک پینٹنگ بناتے ہیں، یا ایک نظم یا ایک خیال جس کی لگی آگ ہم پھر ہم ہزاروں جانیں دے کر بجھاتے ہیں۔

اب پاکستان کو نظریاتی محاذ پر اس کا جواب دینا ہوگا۔ ہمارے پاس کئی پلس پوائنٹ ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارے پاس سچ ہے ان کے پاس جھوٹ، ہمارے پاس زیادہ وسائل ہیں اور افغانی بھوکا ہے اور پاکستان کا محتاج بھی۔

پاکستان ایک ایسا ادارہ بنائے جو محض اس چیز کا راستہ روکے اور پاکستان کا نظریاتی محاذ پر دفاع کرنے کے لیے پالیسیاں مرتب کرے اور ریسرچ کرے۔

میڈیا پر بڑے صحافیوں کی مدد سے افغانستان اور ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے تحقیقاتی مضامین پبلش کیے جائیں، ڈیبیٹس کرائی جائیں، یونیورسٹیز اور کالجز میں اس پر پی ایچ ڈی کرائی جائیں اور تحقیقاتی مقالے لکھے جائیں۔

بلوچستان اور کے پی کے سکولوں میں اس حوالے سے حقائق کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

افغانیوں کے ویزے اور پاکستان میں پناہ لینے کو ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے مشروط کیا جائے۔

افغانیوں کے نادرا کارڈ بلاک کیے جائیں اور اس حوالے سے کوئی الگ پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں لوگ جعلی افغانی کارڈ رکھنے والون کو خفیہ طور پر رپورٹ کرسکیں۔ مہمند ایجنسی میں حالت یہ ہے کہ افغانی یونین کونسل کے الیکشن لڑ رہے ہیں اور اس کا بیٹا نادرا میں ملازم ہے۔ بلوچستان کے کئی سکولوں میں افغانی ہی پڑھاتے ہیں اور جو بچوں کو زہر بھر رہے ہیں۔ اس زہر سے نمٹنے کے لیے بعد میں فوج لڑتی ہے اور جانیں دیتی ہے۔

افغان پناہ گزینوں کو فی کس ایک سے زائد سم رکھنے کی اجازت نہ دی جائے۔

اگر کوئی افغانی کسی بھی پاکستان مخالف سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو اس کا اور اس کی فیملی کی تمام سمیں بلاک کی جائیں۔ خاص طور پر جلسوں میں شرکت کرنے والوں کی۔

پاکستان کے درالخلافہ، لاہور اور کراچی میں گھسنے کے لیے افغانیوں کو خصوصی پاس بنانے کی شرط رکھی جائے۔

پاکستان مین وظیفے پر پڑھنے والے افغانوں کی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا ریکارد حکومت کے پاس ہو۔ اگر وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں تو ان کے مزید پڑھائی روک دی جائے۔

پاکستان کو بی بی سی میں پاکستان پرست گھسانے ہونگے یا وہاں لکھنے والوں کو خریدنا ہوگا۔

اس خون آشام دعوے کی بنیاد کیا چیز ہے؟ اس نے اب تک افغانستان اور پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اور اگر یہ دشمنی نکال دی جائے تو پاکستان اور افغانستان کے لیے خطے میں کیا کیا ممکنات ہیں؟

پاکستان نے افغانستان کے لیے چھوڑا ہوا ہے خالی میدان تاکہ افغانستان جو مرضی کرے۔

انگریز کا پپٹ تھا اور انگریز نہیں رہا تو معاہد بھی نہیں رہا تو تاجکستان ازبکستان اور ترکمنانستان کے ساتھ سرحدین تو انگریز اور روس نے کرائی تھی کیا وہ بھی غیر قانونی ہیں؟ تو افغآنستان کی قانونی سرحد پھر کون سی رہتی ہے؟

12 نومبر 1893 میں امیر عبدالرحمن خان نے دو معاہدوں پر دسختط کیے۔ ایک 1872/73 میں ایک معاہدہ کیا تھا جس مین آدھے افغانستان پر روس اور ادھے پر برٹس راج کا اثر تسلیم کرنے ۔۔درائے امو تک روس اور نارتھ میں روس اور ساؤتھ افغانسان کے پاس ہو ۔۔ درائے امو کے اس پر امری بخارا کے پاس چھوڑیں ور بدخشان کے قریب درواز کے علاقہ افغانستان من شامل کریں وہ امری مان گیا تھا۔

امیر عبدالرحمن خان کی طرف سے متعدد بار درخواستون پر جس کا وہ کریڈٹ لیتا ہے کہ مین نے افغاناستان کو سرحد دی جس پر ڈیورنڈ کو روانہ کیا گیا۔ اس کی اپنی کتاب میں۔ اس کو افغان پپٹ کہتے ہین لیکن کوئی مجبوری نین تھی غیر واضح سرحد تھی جس کو اس نے واضح کیا ۔۔ بعض کہتے ہین سو سال کے لیے تھا وہ بھی جھوٹ ہے۔

اس کا بیٹا امیر حبیب الرحمن بھی اس کو مستقل سرحد مانتے تھے۔

جولائی میں جو ریفرنڈم ہوا اس میں 99 فیصد پشتونوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا جب ان کو سمجھ آگئی تو انہوں نے پشتونستان کا مطالبہ کیا یعنی تیسرا آپشن ۔۔ نہرو نے کہا ہم مزید تقسیم نہیں ہونے دینگے۔ ورنہ بنگال ان کے ہاتھ سے نکل جاتا۔

دی اولف کیرو پشتون دوست گورنر تھا جس نے دی پٹھان بک لکھی ہے اس نے مشورہ دیا کہ کانگریس کو چھوڑیں اپنے پاؤن پر کھڑے ہو جس پر باچا خان نے نہرو اور گاندھی سے شکایت کی اور ماؤنٹ بیٹن کو مجبور کیا کہ اسے تبدیل کریں یہ بڑی غلطی تھی۔ یہاں سے اصل میں شروع ہوئی پشتونسان موومنٹ جس کو کانگریز نے پٹھانستان کہا جس کو باچا خان نے پختونستان کہنا شروع کیا۔

انہوں نے پاکستان بننے کا بائیکاٹ کیا۔ افتتاح کی تقریب میں نہین گیا تو گورنر نے کہا استعفا دے دین یہ لوگ بدستور گاندھی کے مشورون پر چل رہ ہیں جب پر انگریز گورنر نے جناح کو لکھا کہ اس حکومت کو ڈسمس کریں جس پر جناح نے کیا تب قیوم خنا کی حکومت بنی۔ تب افغانیوں نے پشتونستان کا شوشہ چھوڑا ۔۔

اس دوران باچا خان نے باقاعدہ آئین ساز اسمبلی میں حلف اٹھایا کہ ہم پاکستان توڑنا نہیں چاہتے صرف صوبے کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہین پختونستان

صمد اچکزئی بلوچستان کا گاندھی

پاکستان میں ہر ملک کی طرح خرابیاں ہیں لیکن یہ ریاست ہے اور ریاست کے خلاف آپ کچھ بھی کریں وہ غداری ہی کہلاتی ہے۔ جس پر ریاست کا حق ہوتا ہے پوری قوت سے غداروں کو کچلے۔