پی آئی اے
پی آئی اے
اکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز ( PIAC) نے1960 سے 1990 کی تین دھائیوں تک اپنی بہتر حکمت عملی، صلاحیت اور مسافروں کے اعتماد کی بدولت اپنے چھوٹے حجم کے ساتھ دنیا کی بڑی بڑی فضائی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ھوئے۔ Great People to Fly With کے سلوگن کےساتھ ملک کا نام روشن رکھا
قومی ایئرلائن PIA کا مختلف ادوار میں 707-747-DC10-Boeing 737- 777 AB-300 AB-310 F-27 ATR-45 بڑے اور چھوٹے جسامت والے انتہائی جدید طیاروں سے منافع بخش کامیاب کاروبار اس کی انتظامی قابلیت اور اس کے عملے کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا.
1960کی دھائی میں PIA جیٹB- 707 طیارے آپریٹ کرنے والی ایشیا کی پہلی ایئرلائن تھی جس کے پاس یہ جیٹ طیارے موجود تھے ، اس طرح 300-B-737 جہازوں کو استعمال کرنے والی پہلی ایشیائی ایئر لائن ہونے کا اعزاز بھی اسے حاصل رھا ، B-777 دنیا کے جدیدجہازوں سے اپنا کامیاب آپریشن کرنےوالی پہلی ایشین ایئر لائن قرار پائی۔۔۔
قومی ایئر لائن کے سربراہ ایئر مارشل نور خان اور انکے بعد آنے والے سربراہوں نے ایک طویل مدت اپنی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ھوئے قومی ایئر لائن کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں یہی وہ وقت تھا کہ جب قومی ایئر لائن اپنی مظبوط معاشی حکمت عملی سے نہ صرف ملک کیلئے زرمبادلہ کے حصول میں اپنا قومی فریضہ ادا کرتی رھی بلکہ انہی ادوار میں قومی ایئر لائن نے اندرون اور بیرون ملک سرمایہ کاری کرکے اپنے اثاثے محفوظ کرنے کی ابتداء بھی کی ، جو آج بھی قومی ادارے کا قیمتی اثاثہ ہیں اس کے بعد ہر آنے والےسربراہ نے اپنے اپنے وژن کے مطابق قومی ایئر لائن کیلئے مختلف طریقوں سے سرمایہ کاری کی پاکستان میں پہلی مرتبہ PIA شیور کے نام سے کاروبار کو متعادف کروایا گیا ، اندرون و بیرون ملک ھوٹلز بزنس کی بنیاد رکھی گئی ، ڈیوٹی فری شاپس قائم کی گئیں ، اندرون ملک و بیرون ملک قومی ایئرلائن کے اپنے آفیسسز کیلئے سرمایہ کاری کی گئی ، اسکائی روم پرائیویٹ لمیٹڈ کی تکمیل ھوئی ، زیلی ادارہ PIA انویسمینٹ بورڈ تشکیل دیا گیا ، کراچی،لاھور ،پشاور میں کمرشل پلانٹیٹیریم کی تعمیر کی گئ ،کمرشل بنیادوں پر PIA اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیا گیا، کراچی میں ایشیاء کے جدید وائڈ باڈی ہینگر تکمیل کیا گیا ، بوئینگ کمپنی و دیگر جہازوں کے پارٹس و ضروری اشیاء تیار کرنے والا جدید مشینوں سے آراستہ انجینئرنگ کا خود مختار شعبہ پریسیسنگ انجینئرنگ کمپلکس( PEC ) قائم کیا گیا جو PIA انجینئرنگ سےعلہیدہ جدید یونٹ تھا, PIA ایشیاء کی پہلی ایئر لائن قرار پائی جس نے PIA اور غیر ملکی جہازوں کا. D- Check اور C- Check مکمل کیا جس سے قومی ایئر لائن کو ملک کیلئے غیر ملکی زر مبادلہ حاصل کرنے کا نادر موقعہ فراہم ھوا، یہ سب کچھ PIA کے ہونہار انجینئرز ،ٹیکنیشنز اور دیگر قابل عملے کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت ممکن ھوتا تھا جسکے لیئے ایشیاء کے پہلے وائڈ باڈی ہینگر کی تعمیر کی گئ تھی بعد میں یہ سہولت ایشیاء کے دیگر ممالک میں دستیاب ہوئی۔
پی۔آئ۔اے کے ابتدائ ادوار میں اسکی انتظامیہ نہایت پیشہ ور ، دیانتدار ، کرپشن سے پاک ، خود مختار ، ادارے کی وفادار تھی ، اس وقت کی حکومتوں کی پالیسی اور ایوی ایشن کے حساس کاروبار کے پیش نظر اسکو معاشی ، آپریشنل اور انتظامی فیصلوں کے مکمل اختیار کے ساتھ حکومتی اور سیاسی مداخلتوں سے آذاد رکھا گیا تھا ، اسکا خود مختار بورڈ آف ڈائریکٹر اسکے نظم ونسق اور اسکے معاشی فیصلوں کا مکمل زمہ دار تھا جو ملک کے انتہائی اعلی درجے کے بزنس ،انتظامی ، معاشی اور ایوی ایشن سے وابسطہ افراد کے گروپ پرمشتمل تھا یہی وہ وقت تھا جب PIA دنیا کی 10 بہترین ایئر لائنز کے گروپ کی ممبر تھی جسکی وجہ سے اسےفضائی دنیا میں انتہائی قدر و منزلت اور رشک کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا قومی ایئرلائن کا انجینئرنگ، آپریشنل اور انتظامی شعبہ اور اسکا انتہائی باصلاحیت عملہ اس کا قیمتی اثاثہ تھا جنکی گرانقدر فنی مہارت اور تجربے کی پوری دنیا معترف تھی جنہوں نے اپنی بھرپور صلاجیتوں سے دنیا کی کامیاب ترین ھوائی کمپنیاں جن میں سنگاپور ، ملائیشیا ، امارات ، ایئر چائنہ ،ایئر مالٹا ، فلپائن ایئر لائنز ،سومالیہ اور یمنیہ ایئرلائن سمیت بے شمار ایئرلائنز کو ٹیکنیکل ، انتظامی اور افرادی سطح کی مدد فراہم کر کے اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔
1990 کے اوائل سے عالمی سطح پر پیش آنے والے سانحات خصوصی طور پر تیل کی نقل عمل میں دشواری ،تیل کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ھوائی راستوں کی بندش اور کپتانوں کی آئے دن کی ہڑتالوں نے قومی ایئر لائن کو شدید معاشی دباؤ میں رکھا جبکہ 1993 میں ایک انتہائی غلط فیصلے "اوپن اسکائی پالیسی" کے اجرا نے قومی ائیرلاین کو معاشی مشکلات سے نبردآزما کیئے رکھا چونکہ قومی ائیرلائنز کا ڈھانچہ انتہائ مظبوط بنیادوں پر استوار تھا اسلیئے وہ ان طوفانوں کا مقابلہ کرتی رھی اور اپنے وجود کو برقرار رکھتے ہوئے ملک کو زر مبادلہ کی فراہمی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رھی۔
مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پہلا موقعہ تھا جب قومی ایئرلائن کو سیاسی بنیادوں پر چلانے کی ابتداء ھوئی ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت سیاسی شخصیت MNA شاہد خاقان عباسی کو 1997 میں قومی ایئر لائن کا سربراہ مقرر کردیا گیا جنہوں نے قومی ایئر لائن کی سربراھی کرتے ھوئے ایک نئی ایئر لائن کے قیام کی منصوبہ بندی شروع کردی جنہوں نے قومی ایئر لائن کے پوشیدہ مارکیٹنگ منصوبہ بندی ، آپریشنل صلاحیت ، اور معاشی حکمت عملی کی اہم رازداری پر مکمل عبور کے بعد اس تجربے کو Air blue کی تشکیل کیلئے استعمال کیا بعد ازاں 2003 میں انہوں نے اپنی تشکیل دی ھوئی ایئر لائن Airblue کی باگ دوڑ سمبھال لی۔
2004 میں احمد سعید PIA کے سبراہ منتخب ہوئے انکی سربراہی میں قومی ایئر لاین نے دنیا کے جدید ترین 777 جہاز PIA کے فلیٹ میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ایک مرتبہ پھر ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا رہنے کا مو قعہ فراہم کیا. PIA ایشیاء کی پہلی ایئرلائن تھی جس نے سب سے پہلے یہ جدید ترین جہاز استعمال کیئے جو آج بھی قومی ایئر لائن کا قیمتی اثاثہ ھیں جس سے قومی ایئر لائن کو ایک مرتبہ پھر سنبھلنے کا موقعہ فراہم ھوا چودھری احمد سعید نے قومی ایئرلائن کے سربراہ کی حیثیت سے ادارے کو سیاسی تسلط سے آزاد رکھنے اور اسکی خود مختار حیثیت کی بحالی کیلئے بہتر اقدامات کیئے وہ بہت کچھ کرنے کی خواہش بھی رکھتے تھے مگر حالات کے جبر کا مقابلہ نہ کرسکے اور ادارے سے رخصت ھوگئے۔۔۔۔
2005 میں طارق کرمانی کے قومی ادارے کی باگ دوڑ سمبھالنےتک ادارے کے انتظامی اور مالی معاملات قدرے بہتر تھے اسی دوران قومی ایئر لائن نے 200-777 -300-777 ، AB 310 اور ATR-42جہازوں کواپنے فضائی بیڑے میں شامل کیا ایک مشاھدے کے تحت طارق کرمانی کا دور ادارے کی بقا اور اسے ترقی پر گامزن رکھنے کیلئے آخری موقع تھا۔ وہ قومی آیئرلائن کو دیگر ترقی یافتہ ایئر لائنز سے مقابلے اور اسے جدید بنیادوں پر استوار رکھنے کے اقدامات کو عملی شکل دینا چاہتے تھے جسکے لیئے انہوں نے بورڈ سے پانچ سالہ بزنس پلان بھی منظور کروالیا تھا جس کے تحت ہنگامی بنیادوں پر قومی آیئرلاین کے دس سال پرانے تمام طیاروں کو جدید طیاروں سے تبدیلی ایک اھم فیصلہ تھا، ادارے سے کرپشن ، کرپٹ اور نا اھل افراد کا خاتمہ، سزا و جزا کے عمل کو رائج کرنا انکی ترجیہات میں شامل تھا ، مگر وہ PIA میں موجود ایک انتظامی گروہ کی سازش کا شکار ھوئے جو انکو ہر حال میں اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا، بعد ازاں یورپین روٹس پر پابندی اور پھر فوکر طیارہ حادثہ کیس و دیگر معملات سے مایوس ھوکر2007 میں ادارے سے فارغ ھوگئے۔
2008 سے تاحال اس کمرشل ادارے کو مکمل طور پر سیاسی پنڈتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ حکومتوں کی نامزد انتظامیہ نے اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کی ھدایت پر اس نازک اور کمرشل ادارے کے ساتھ جو سلوک کیا وہ آج دنیا کے سامنے ھے۔ھر آنے والی حکومت نے اس لب جان ادارے کو اصلاحات کے نام پر متواتر نقصان پہنچایا۔
قومی ایئرلائن کو 2011 میں ایک موقعہ فراہم ھوا جب ترکش ایئر لائن اور پی۔آئی۔اے کے مابین باہمی دلچسپی اور پاکستانی ھوائی سفر کی بڑھوتی اور PIA کے جہازوں کی عدم دستیابی کے سببTK/PK معاہدہ کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز ھوا جو ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہی تھی کہ اس وقت کی اپوزیشن نے کپتانوں کو اس معاہدے کے خلاف اکساکر اس وقت کے سربراہ اعجاز ہارون کے خلاف ایک بھرپور مہم کا آغاز کروادیا ، اعجاز ھارون کی سربراھی ، انتظامی امور ، سیاسی وابستگی و دیگر معملات پر آپ اختلاف کرسکتے ہیں مگر PK/TK معاہدہ جس سے قومی ایئرلائن کو سمبھلنے کا نادر موقع فراہم ہونا تھا وہ انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔۔۔۔۔
اس معاہدے کے مطابق PIA امریکہ اور یورپ کے تقریباً 130ممالک میں اپنی رسائی کو ممکن کرتے ہوئے اپنی مارکیٹ قائم کرکے پاکستانی مارکیٹ پر قابض گلف کی تمام ائیرلائنز کی اجارہ داری جو اس نے اوپن اسکائی پالیسی کی وجہ سے قائم کی تھی سے چھٹکارا حاصل کرسکتی تھی بحرحال یہ معاہدہ عاقبت نا اندیشی سے ملکی سیاست کی نظر ھوگیا کپتانوں کی ھڑتال کی وجہ سے قومی ایئر لائن کا تمام نظام مفلوج ہوگیا جس کے سبب اعجاز ھارون کو مستعفی ھونا پڑا اس کے بعد آنے والے نا تجربہ کار سیاسی سربراہوں نے ادارے کی بقا کو داؤ پر لگاکر اپنی اپنی حکومتوں کے سیاسی مفادات کے حصول کو ترجیح دی ، جسکے بعد لوٹ کھسوٹ بد انتظامی ، اقربا پروری اور سیاسی بھرتیوں نےادارے کو نہ صرف نقصان پہنچایا بلکہ اسکی معاشی جڑوں کو بھی کھوکھلا کردیا ھرآنے والی حکومت کی PIA کے بارے میں ناقص منصوبہ بندی اور درست فیصلوں کے فقدان سے یہ ادارہ روزآنہ کی بنیاد پر معاشی بدحالی اور بد انتظامی کے نہ رکنے والے طوفان کی ذد میں پھنستا چلا گیا ہر روز کے نقصان کے ازالے کیلئے دی جانے والی حکومتی امداد بھی اس ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا نہ کرسکی ایک اندازہ کے مطابق قومی ایئر لائن تاحال 480 ارب روپئوں کے قرضوں کی لپیٹ میں ھے اسوقت ادارہ اپنی بقا کی جنگ کیلئے آخری حکمت عملی اختیار کئے ھوئے ھے۔
موجودہ حکومت کی PIA کے بارے غیر واضع حکمت عملی سے اس قومی ادارے کے وجود کو برقرار رکھنا مشکل نظر آرھا ھے۔نئی انتظامیہ نے ایئر مارشل ارشد ملک کی سربراہی میں ادارے میں انتظامی اصلاحات پر نمایاں بہتری ضرور کی ہیں مگر وہ بھی آجتک اسکی ابتر معاشی حالات کو قابو نہ کرسکے اور یہ ادارہ تیز رفتاری سے قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ھے Covid-19 ، طیارہ حادثہ کیس ، ارشد ملک برطرفی کیس ، کپتانوں کے جعلی لائسنس کیس اور اس کے بعد یورپی ممالک میں PIAکے جہازوں کی آمد رفت پر پابندیوں نے قومی ایئر لائن کی کمزور بنیادوں کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا اب کوئی معجزہ ہی قومی ایئر لائن کو اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتا ھے ادارے کا وجود انتہائ خطرے سےدوچار ھے جو شائد حکومت وقت کے بس سے بھی باہر نظر آرہا ھے۔
پاکستان کی حکومت ،ادارے ،مقتدر حلقے کم از کم اس بات کی تحقیقات کا فیصلہ تو کرسکتے ہیں کہ کن حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی ، لوٹ مار ، کرپشن اقربا پروری اور بے جا سیاسی بھرتیوں سے اس عظیم قومی ادارے کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا، ان کرداروں کو بے نقاب کرکے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا یا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ سقوط پاکستان کیطرح اس قومی ادارے کی تباہی کے زمہ دار بھی بچ جائیں ۔۔۔۔