پاکستان کی کرکٹ پر تنقید

Shahidlogs سے

ورلڈ کپ کھیلنے سے پہلے کرکٹ ٹیم نے یونین بنائی اور کہا کہ ہمیں کرکٹ بورڈ اشتہارات میں حصہ دیں ورنہ ہم ورلڈ کپ نہیں کھیلیں گے۔ جب کہ انکی تنخواہیں 60 لاکھ روپے تک ہیں۔ پھر انضمام الحق نے خود ہی ثالثی کی پیشکش کی۔ اپنی کچھ شرائط منوائیں۔ جیسے فلاں پلئیر کھیلے گا اور فلاں نمبر پر کھیلے گا چاہے کاکردگی جو بھی ہو۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ آئی سی سی جو پی سی بی کو پیسے دیتی ہے اس میں سے چند پرسنٹ کھلاڑیوں کو دینگے۔ ورنہ ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے نہیں جائیگی۔

جس اماؤنٹ پر اتفاق ہوا وہ سالانہ کئی ارب روپے بنتا ہے۔ جب ذکاء اشرف نے کہا کہ اب معاہدہ کروا دو۔ تو انضمام نے کہا کہ میرا کمیشن بھی طے ہونا چاہئے کیونکہ میں نے بھاگ دوڑ کی ہے۔ پھر پلیرز کے پاس جاکر وہاں بھی اپنا کمیشن طے کر لیا۔

انضمام الحق نے یوکے میں ایک کمپنی کھولی۔ اس کمپنی کا نام (Yazoo International Ltd) ہے۔ جس میں محمد رضوان بھی پارٹنر ہے۔ اس کے علاوہ شاہداب اور بابراعظم وغیرہ بھی کانٹریکٹ میں ہیں۔ یہ کمپنی سپورٹ مینیجمنٹ کرتی ہے۔ یعنی اس کمپنی کی مدد سے کھلاڑیوں کو اشتہارات ملیں گے۔ کم سے کم کانٹریکٹ 3 لاکھ ڈالر کا ہے۔ جس میں 30 فیصد یازو انٹرنینشل کا ہے۔ یازو یہ گارنٹی بھی دیتی ہے کہ جو کھلاڑی ہمارے کانٹریکٹ پر ہوگا اس کو ٹیم میں بھی جگہ ملے گی۔ کیونکہ چیف سیلکٹر انضمام الحق ہے۔ مثلا عماد وسیم نے سائن نہیں کیا تو اسکو باہر کر دیا۔ کئی کھلاڑیوں کو ٹیم میں انٹر کر دیا گیا جنکی پرفارمنس ٹھیک نہیں تھی۔ شاہین شاہ آفریدی بھی اس کمپنی کا بڑا بینفشری ہے۔ [1]

پی سی بی کا ایک چئیرمین ہے۔

ایک چیف ایگزیکٹیو ہے۔

ایک چیف فائنینشل آفیسر ہے۔

ایک چیف آپریٹنگ آفیسر ہے۔

12 ڈائرکٹرز ہیں۔

8 ان کے سینئر جنرل مینیجرز ہیں۔

3 جنرل مینیجرز ہیں۔

5 کوچز ہیں۔

کوئی 20 کے قریب دوسرے افسر ہیں۔

صحافیوں سے ملاقات کرنے کے لیے بھی دو الگ سے ڈائرکٹرز ہیں۔ ایک سینئر مینجر ہے اور چار مینیجرز ہیں۔

حتی کہ میچ کے ہارنے یا جیتنے کی خبر دینے کے لیے بھی ایک خاتون کو بھاری تنخواہ پر رکھا ہے۔

چیف سیلکٹر اور ہیڈ کوچ کی 35 تا 40 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہیں ہیں۔

31 ڈائرکٹرز اور جنرل مینجرز کی 15 یا 20 لاکھ تنخواہیں الگ سے ہیں۔ [2]

انضمام اتنا باقاعدگی سے انڈیا کیوں جاتے ہیں اور کس کس سے ملاقاتیں کرتے ہیں؟

پاکستان کا کوچ زوم میٹنگ میں آن لائن کوچنگ کروا رہا ہے۔ بابر اعظم اور انضمام الحق اس سارے معاملے کو کنٹرول کررہے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]