پاکستان کی عدلیہ سے ظالم اور طاقتور کو ریلیف

Shahidlogs سے

اس صفحہ کے بارے میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس صفحہ میں ایسے تمام کیسز کے لاگز جمع کیے جارہے ہیں جن میں پاکستان کی عدلیہ سے ظالم اور طاقتور مجرموں کو ریلیف ملا ہے۔ یا ایک جیسے کیس میں طاقتور کو ریلیف اور کمزور کو سزا ملی ہے۔ اس میں اس حوالے سے لوگوں کی آراء بھی جمع کی جارہی ہیں۔

ظالم اور طاقتور مجرموں کو ریلیف کی مثالیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سیاست دانوں اور بااثر لوگوں کو ریلیف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سانحہ 9 مئی کے مجرموں کو

سانحہ 9 مئی میں چونکہ ملک کی ایک طاقتور سیاسی جماعت ملوث تھی تو اسکے تمام مجرموں کو ھائی کورٹس، سپریم کورٹ حتی کہ پاکستان کی نچلی عدالتوں سے بھی مسلسل رہائیاں اور ضمانتیں ملیں۔ 36 شہروں میں کیے گئے دو سو حملوں پر کسی ایک شخص کو سزا نہیں ملی نہ ہی کسی کی ضمانت منسوخ کی گئی۔ سانحے کے ماسٹر مائنڈ عمران خان کو بھی کوئی سزا نہیں ملی۔

ٹیریان وھائٹ کیس

اس کیس اپنی بیٹی چھپانے کا تھا۔ اس میں عمران خان سے سوال کیا جانا تھا کہ کیا ٹیریان وھائٹ آپکی بیٹی ہے؟ اگر وہ ہاں میں جواب دیتا تو نااہل ہوتا۔ لہذا ججوں نے نہ صرف کیس بند کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر ٹیریان خود بھی کہے تو ہم نہیں مانیں گے نہ عمران خان سے یہ سوال کرینگے۔

سائفر کیس

عمران خان نے جلسوں میں کھڑے ہوکر کہا کہ امریکہ سے ایک سائفر آیا ہے جس میں یہ یہ چیز لکھی ہے۔ اس پر قومی راز افشاں کرنے کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ بنا۔ لیکن ججوں نے اس میں بھی اس کو بری کر دیا۔

ایان علی منی لانڈرنگ کیس

مارچ 2015ء کو مشہور ماڈل ایان علی کو دبئی جانے والے پرواز میں سوار ہونے سے کچھ دیر 5 لاکھ ڈالرز کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔ ایان علی کو گرفتار کرنے والے کسٹم آفیسر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ لاہور ھائی کورٹ نے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والی ایان علی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ [1]

محمود اچکزئی کے کزن کا کیس

محمود اچکزئی کے کزن نے نشے کی حالت میں ایک پولیس اہلکار کو اپنی گاڑی سے ٹکر مار کو قتل کر دیا۔ اس کی وڈیو فوٹیج بھی آئی۔ اس نے اعتراف بھی کیا۔ اس کے باؤجود عدالت نے اس کو سزا نہ دی۔ [2]

راؤ انوار کیس

سال 2018ء میں کراچی کے سینئر پولیس افسر راؤ انوار پر نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا۔ اس کے خلاف پی ٹی ایم کی تحریک بھی چلی۔ لیکن راؤ انوار کو مبینہ طور پر آصف زرداری کی پشت پناہی حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے عدلیہ سے اسکو سزا نہیں سنائی گئی۔

عاصمہ رانی قتل کیس

کوہاٹ میں پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر خزانہ آفتاب عالم کے بھائی مجاہد آفریدی نے عاصمہ نامی ایک میڈیکل کی طالبہ کو قتل کر دیا۔ اس نے جانکنی کے عالم میں اپنے قاتل کا نام بتایا اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی۔ مجرم گرفتار بھی کیا گیا۔ لیکن پی ٹی آئی کے اثررسوخ کی وجہ سے سزا نہیں ہوئی۔ [3]

شرجیل میمن کیس

پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن پر کرپشن کے الزامات تھے، مگر کئی سالوں تک ان کی ضمانت ہوتی رہی اور ان کو سزا نہیں ہوسکی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے دوران حراست ان پر چھاپہ مارا اور خود ان کے پاس شراب کی بوتل پکڑی جو میڈیا پر بھی دکھائی گئی۔ لیکن وہ شراب شہد ثابت کی گئی اور پاکستان کی عدلیہ نے شرجیل میمن کو سزا نہ دی۔

رانا سکندر حیات کیس

رانا سکندر حیات ایک بااثر سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ایک نوجوان کو قتل کردیا تھا۔ کیس تاخیر کا شکار رہا حتی کہ لواحقین نے سمجھوتا کر لیا۔ وہ قتل کرنے کے باؤجود آج بھی آزاد ہیں۔

آغا علی حسن شاہ کیس

آغا علی حسن شاہ ایک بااثر سیاستدان پر ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام تھا۔ کیس میں سیاسی دباؤ اور مداخلت کے باعث وہ سزا سے بچ نکلے۔

راجہ پرویز اشرف کیس

سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پر رینٹل پاور پروجیکٹس کیس میں کرپشن کے الزامات تھے۔ ان کے خلاف تحقیقات میں سست روی اور سیاسی مداخلت کے باعث اربوں کی کرپشن کے باؤجود انکو کوئی بڑی سزا نہیں ہوئی۔

سعید غنی کیس

پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی پر ایک نوجوان کے قتل کا الزام تھا۔ کیس میں مقتول کے خاندان پر دباؤ ڈال کر سمجھوتہ کر لیا گیا اور سعید غنی کو رہائی مل گئی۔

بلال کنڈی کیس

بلال کنڈی ایک بااثر سیاسی شخصیت نے ایک نوجوان کو قتل کر دیا تھا۔ کیس میں مقتول کے خاندان پر دباؤ ڈال کر سمجھوتہ کر لیا گیا اور بلال کنڈی کو رہائی مل گئی۔

سراج درانی کیس

اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات تھے۔ ان کے خلاف مقدمات میں سست روی اور سیاسی مداخلت کے باعث کوئی بڑی سزا نہیں ہوئی۔

دہشتگردوں کو ریلیف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سانحہ اے پی ایس

سانحہ اے پی ایس کے صرف ایک مجرم کو آج تک سزا نہیں ہوئی اور اس کر یہ ریلیف سپریم کورٹ نے دے رکھا ہے۔

اللہ نذر بلوچ

بلوچستان میں 4 ہزار حملے کرنے والا ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ بھی پاکستان کی عدلیہ کی مہربانی سے رہا ہوتا تھا اور آج پورے بلوچستان میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔

بدمعاشوں کو ریلیف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاہ رخ جتوئی

24 دسمبر 2012 کو باثر خاندان سے تعلق رکھنے والے شاہ رخ جتوئی نے ایک لڑکی کو ہراساں کیا۔ اس کے بھائی شاہ زیب نے ان کو روکا تو اس کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ شاہ رخ جتوئی گرفتار کر لیا گیا۔ ٹرائیل کورٹ نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو سزائے موت سنائی۔ ھائی کورٹ نے سزائے موت عمر قید میں بدل دی۔ سپریم کورٹ نے ان کو بری کر دیا۔ [4] سپریم کورٹ میں ان کو بری کرنے والا بنچ جسٹس اعجازالاحسن، مظاہر نقوی اور منیب اختر پر مشتمل تھا۔

عزیر جان بلوچ

بدنام زمانہ دہشتگرد اور لیاری گینک کے سرغنہ عزیز جان بلوچ پر کل 48 مقدمات بنے ہیں۔ ان میں سے 47 مقدمات میں اس کو سویلین عدالتوں نے بری کر دیا ہے۔ صرف ایک کیس میں وہ بری نہیں ہوئے ہیں جو فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے۔

ججوں اور وکیلوں کو ریلیف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

رضوانہ بچی پر تشدد کیس

سرگودھا کے سول جج کی اہلیہ کے ہاتھوں ایک کم سن بچی رضوانہ پر بدترین تشدد کا کیس سامنے آیا۔ بچی مرتے مرتے بچی لیکن جسم کی ہڈیاں تک ٹوٹی ہوئی تھیں۔ تمام شواہد کے باؤجود جج موصوف اور انکی بیوی کو سزا نہیں ملی۔ [5] گرفتاری کے بعد جج شائستہ کنڈی نے بچی رضوانہ پر تشدد کرنے والی ساتھی جج کی بیوی سومیہ کا جسمانی ریمانڈ تک دینے سے انکار کر دیا اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

جسٹس ملک شہزاد کی بیٹی

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد کی بیٹی شانزے ملک نے دو جوانوں کو اپنی گاڑی تلے کچل ڈالا۔ جسٹس ملک شہزاد نے نہ صرف اپنی بیٹی گرفتار نہیں ہونے دی بلکہ گاڑی بھی چھڑا لی۔ تفتیشی کو حبس بیجا میں رکھا گیا۔ لواحقین کو ہراساں کیا۔ ایک جوان کے باپ نے انصاف کا مطالبہ کیا تو اس کو گرفتار کروا دیا۔ [6]

حسان نیازی کا ہسپتال پر حملہ

عمران خان کے بھانجے بیرسٹر حسان نیازی کی قیادت میں وکلاء نے لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) پر حملہ کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی۔ اس حملے کی وجہ سے اسپتال میں تین مریض جانبحق ہوگئے اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ لیکن حملے میں ملوث کسی ایک وکیل کو سزا نہیں ملی۔ [7]

جسٹس مظاہر نقوی

جسٹس مظاہر نقوی پر الزام ہے کہ اس نے پی ٹی آئی سے 1 ارب روپے رشوت لی۔ اس کے لیے ایک لیک آڈیو کال میں 'ٹرک' کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ جسٹس مظاہر نقوی کا گوجرانوالہ میں پلازہ ہے جو اس نے ڈکلئیر ہی نہیں کیا۔ [8] اسی طرح اسی جج صاحب نے لاہور میں 35 کروڑ کا ایک متنازع پلاٹ بھی اپنے نام کیا ہوا ہے۔ جج موصوف نے انکی کی صفائی دینے کے بجائے صرف استعفی دیا اور ان کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ [9]

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیس

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور مالی بدعنوانیوں کے الزامات لگے تھے۔ تاہم، ان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی معزز رہے۔

جسٹس قیوم کیس

جسٹس قیوم، لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج، پر نواز شریف کے کہنے پر بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف فیصلے دینے کے الزامات لگے۔ تاہم، ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔

وکلا تحریک میں شامل وکلا

وکلا تحریک کے دوران بعض وکلا نے تشدد اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات میں حصہ لیا۔ مگر ان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی اور کبھی کسی کو سزا نہیں ملی۔

دو لوگوں کو ننگا کر کے مارنا

لاہور سیشن کورٹ میں وکلاء نے دو لوگوں کو مار کر ان کو ننگا کر دیا۔ کسی وکیل کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ [10]

دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پیر اسد شاہ

رانی پور کے بااثر پیر اسد شاہ نے 10 سالہ بچی فاطمہ کا زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ اس کی موت کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ اسد شاہ گرفتار ہے۔ اس کی حویلی سے کئی بچیاں اور بھی برآمد ہوئی ہیں۔ لیکن ابھی تک اس کو سزا نہیں ہوئی۔ [11] [12] اسی کیس میں ملزام فیاض شاہ کو سندھ ھائی کورٹ نے ضمانت دے کر رہا کر دیا۔ [13]

ماڈل ٹاؤن کیس

سال 2014ء میں لاہور ماڈل ٹاؤن میں پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کاکنوں میں تصادم ہوا۔ اس تصادم میں عوامی تحریک کے 14 کارکن مارے گئے۔ ان میں خواتین بھی شامل تھیں۔ لیکن پاکستان کی عدالتوں سے آج تک اس میں ملوث لوگوں کو سزا نہیں دی جا سکی۔

قندیل بلوچ قتل کیس

قندیل بلوچ نامی سوشل میڈیا سٹار کو اس کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ مجرم گرفتار ہوا ابتدائی سزا بھی ملی۔ پھر وہ سزا معاف ہوگئی اور رہا کر دیا گیا۔ کیونکہ کہا جا رہا تھا کہ قندیل بلوچ کے قتل میں پی ٹی آئی کے کچھ طاقتور لوگ ملوث ہیں۔

محمد خرم کیس

محمد خرم نامی ایک بااثر شخص نے لاہور میں ایک غریب لڑکی کو قتل کر دیا۔ پھر مقتول کے خاندان پر دباؤ ڈال کر سمجھوتہ کر لیا گیا اور خرم کو رہائی مل گئی۔

موٹر وے گینگ ریپ کیس

لاہور موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس نے نہایت جانفشانی سے کام کر کے ملزموں کو گرفتار کر لیا۔ لیکن کیس طول پکڑ گیا اور ملزموں کو اج تک سزا نہیں ملی۔

سیدہ نایاب غوری کیس

کراچی میں ایک نوجوان لڑکی سیدہ نایاب غوری کو ان کے قریبی رشتہ دار نے قتل کر دیا۔ کیس میں بااثر افراد کی مداخلت سے ملزم کو رعایت مل گئی اور سزا نہیں ہوئی۔

قاسم ضیاء کیس

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سابق صدر قاسم ضیاء پر مالی بدعنوانی اور جنسی ہراسانی کے الزامات تھے۔ ان کے کیس میں بھی تاخیر ہوتی اور اپنے اثرورسوخ کے باعث وہ سزا سے بچ نکلے۔

فیصل رانا کیس

فیصل رانا ایک بااثر شخص پر ایک لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام تھا۔ کیس میں ملزم کو ابتدائی طور پر گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہو گیا اور کیس میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی۔

ذوالفقار مرزا کیس

پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار مرزا پر کئی جرائم کے الزامات تھے۔ ان کے خلاف مقدمات میں سیاسی مداخلت کے باعث کوئی سخت کارروائی نہیں ہوئی۔

مقتول صحافی ولی بابر کیس

جیو نیوز کے رپورٹر ولی بابر کو کراچی میں قتل کیا گیا۔ کیس میں ملوث کئی ملزمان کو گرفتار کیا گیا لیکن سیاسی دباؤ اور مداخلت کے باعث کچھ ملزمان کو سزا نہیں ہوئی۔

ایک جیسے جرم میں طاقتور کو ریلیف اور کمزور کو سزا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نسلہ ٹاؤر

جسٹس اعجازالاحسن اس بنچ کا حصہ تھے جس نے میسرز بی این پی نامی کمپنی کے غیرقانونی طریقے سے بنائے گئے 40 منزلہ بلڈنگ کو لیگل کر دیا تھا۔ جسٹس اعجازالحسن اسی کمپنی کے وکیل بھی تھے۔ یہ کمپنی عبدالحفیظ شیخ کی ہے۔ جو عمران خان کے قریبی دوست ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس بلڈنگ میں عمران خان کا بھی فلیٹ ہے اور یہ عمران خان کے دور میں ہی لیگل قرار ہوا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اور ججوں کے بھی فلیٹس ہیں۔

تین سال بعد اسی جسٹس اعجاالاحسن نے ایسے ہی غیر قانونی تعمیر کیا گیا 15 منزلہ نسلہ ٹاور کراچی میں گرانے کا حکم دے دیا کیونکہ اس میں عام شہریوں کے فلیٹس تھے۔ [14]

توہین عدالت کیس

چند صحافیوں نے صرف یہ کہا کہ جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری کی تصدیق نہیں ہوئی۔ اس پر اسلام آباد ھائی کورٹ نے انکو توہین عدالت میں طلب کر لیا۔

پی ٹی آئی نے چیف جسٹس اسلام آباد ھائی کورٹ کو ٹاؤٹ کہا۔ قاضی فائز عیسی کے خلاف بدترین مہم چلائی۔ عمران خان نے خاتون جج کو نام لے کر جلسے میں کھڑے ہوکر دھمکی دی۔ لیکن ان پر کوئی توہین عدالت نہیں لگی۔ نہ انکو سزا ہوئی۔

آراء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بچز آف دی رچز

ایک امریکی اخبار نے اپنی نومبر 2021ء کی اشاعت میں پاکستان کی عدلیہ کو بچز آف دی رچز کہا۔ جس میں کمزور کو سزا اور طاقتور کو ریلیف ملتا ہے۔ [15]

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]