پاکستان میں جمہوری اور آمرانہ ادوار کا موازنہ

Shahidlogs سے

پاکستان پر اس وقت کل بیرونی قرضہ 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس میں سے کل ملا کر صرف 3 تا 4 ارب ڈالر فوجی ادوار کا ہے باقی 97 ارب ڈالر “جمہوری قرضہ" ہے۔

ڈالر کی قیمت اس وقت 177 روپے ہے۔ اس میں سے کل ملا کر صرف 20 روپے تینوں فوجی ادوار میں بڑھی۔ باقی 157 روپے کی بےقدری جمہوریت کا تحفہ ہے۔

پاکستان کے تمام قومی اداروں کی کارکردگی جمہوری ادوار کی نسبت فوجی ادوار میں ہمیشہ بہت بہتر رہی۔ اس کو آپ جیسے چاہیں چیک کر سکتے ہیں۔ میں صرف دو مثالیں دیتا ہوں۔

دنیا کی بدترین ائر لائن کے درجے پر فائز ہونے والی پی آئی اے ایوب خان کے دور میں دنیا کی نمبر 1 ائر لائن تھی اور اس وقت اس کو چلانے والا نور خان بھی فوجی تھا۔

اسی طرح آج کل جس سٹیل مل کے 9000 ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے اور مل بند پڑی ہے یہی مشرف دور میں 1 ارب روپے کما کر دے رہی تھی؟ اور اس سے ذرا پہلے خاندانی لوہار نواز شریف کے دور میں بھی خسارے میں ڈوبی ہوئی تھی۔

کیا آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی اور مجاہدین کو سپورٹ کرنا جمہوریت کا تحفہ ہے؟؟

یہ کام بھٹو کے حکم پر 73ء میں شروع کیا گیا تھا۔ بھٹو کے ہی حکم پر افغانستان سے گل بدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سمیت کوئی درجن بھرافغانیوں کو پاکستان بلوا کر، چراٹ میں ٹریننگ دلوا کر واپس افغانستان بھیجا گیا تھا۔

(تاہم بھٹو کا یہ کام اس لیے قابل ستائش تھا کہ افغانیوں کی مسلسل شرارتوں کو روکنے کا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ لیکن اگر یہ پالیسی غلط تھی تو اسکا الزام بھی پھر جمہوریت کو دیں نہ کہ کسی فوجی کو)

ضیاء نے صرف اتنا کیا کہ بھٹو کے ہی تیار کردہ ان مجاہدین کو روس کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ تاکہ پاکستان کو روس سے بچایا جا سکے۔

طالبان پالیسی کی خالق بے نظیر تھیں جن کو "طالبان کی ماں" کا خطاب دیا جاتا ہے۔ اسی کے دور میں یعنی 92/93  میں طالبان کو سپورٹ کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو اسی نے طالبان کو ڈیزل فراہم کرنے کے پرمٹ جاری کیے۔ مولانا نے نوٹ بھی کمائے اور لقب بھی۔

پاکستان کے اندر پانچوں بڑے فوجی آپریشن جمہوری ادوار میں ہوئے۔  بلوچستان میں پہلا ، بڑا اور واحد فوجی آپریشن بھٹؤ اور نواب اکبر بگٹی نے مل کر مری قبائل کے خلاف کروایا تھا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف پیپلز پارٹی کے حکم پر، سوات و وزیرستان میں پیپلز پارٹی کے حکم پر اور ” ضرب عضب ” آپریشن نواز شریف کے حکم پر کیا گیا تھا۔

(یا نواز شریف اور اس کی پارٹی مان لیں کہ جی ہم نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا حکم نہیں دیا تھا لیکن نواز شریف بتاتے ہوئے شرماتے ہیں)

پاکستان سے بنگلہ دیش کے الگ ہونے کا اعلان اس انتخاب کا رزلٹ تھا جس کے تنائج بھٹو نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں تم وزیراعظم بنو یہاں میں بنتا ہوں۔ جس کو سنتے ہی مجیب نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ فوج نے پھر آپریشن کر کے بنگلہ دیش کو الگ ہونے سے روکنے کی کوشش کی تو مجیب نامی سرخے نے انڈیا کو بنگلہ دیش پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔

پاکستان کے سارے بڑے ڈیم ، نہریں ، بیراج اور غازی بھروتہ جیسے پراجیکٹ جن کی پیدوار پر پورا پاکستان چل رہا ہے اور ہمیں دو وقت کی روٹی مل رہی ہے فوجی ادوار کے تحفے ہیں۔ بڑے ڈیم اگر ایوب خان نے بنائے تھے تو سب سے زیادہ چھوٹے ڈیم جنرل ضیاء نے بنوائے۔

ڈیموں کے ضمن میں جمہوریت کا اکلوتا تحفہ یہ رہا کہ پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھنے والے کالا باغ ڈیم کو متنازع بنا کر بند کروا دیا۔ نیلم جہلم کو روک کر اتنا لمبا کھینچ لیا کہ اس پر انڈیا نے پیچھے کشن گنگا ڈیم بنا دیا اور اس کو  غیر موثر کر دیا۔

فوجی ادوار کے بنائے گئے ڈیم آج بھی پاکستان کو سستی بجلی کی فراہمی کا اکلوتا ذریعہ ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کے مطابق ایٹمی پروگرام بھٹو دور میں صرف کاغذات اور پلاننگ تک ہی محدود رہا۔ اس کو حقیقت کا رنگ دینے والا اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا اصل کردار جنرل ضیاء تھا۔ اس کی غیر معمولی سفارتی صلاحتیں تھیں جس کی وجہ سے ایٹم بم بنانے کے باؤجود پوری دنیا میں کوئی پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اعتراض تک نہ کرسکا۔

ضیاء دنیا کو مسلسل یقین دلاتا رہا کہ ہمارا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے جب کہ پاکستان میں بچہ بچہ کہوٹہ کو بم والی فیکٹری کہتا تھا۔

ضیاء کے دور میں ہی پاکستان نہ صرف ایٹمی تجربہ کرنے کے قابل ہوچکا تھا بلکہ اس کی تیاری بھی کر چکا تھا۔ شائد آپ کے علم میں نہ ہو چاغی میں جس ایل شکل کی سرنگ میں تجربہ کیا گیا وہ ضیاء دور میں ہی اس کے حکم پر تیار کر لی گئی تھی۔

پاکستان کی ائر فورس کو جدید ترین طیارے ٖایف 16 اوربعد میں جے ایف تھنڈر فوجیوں کا تحفہ ہیں۔

پاکستان کا ایٹمی آبدوز پروگرام ایک فوجی ہی کے دور میں شروع اور مکمل ہوا۔ جس کی بدولت پاکستان اب کسی بھی ملک پر سمندر کی تہہ سے بھی ایٹمی حملہ کر سکتا ہے۔

پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی صحیح معنوں میں مشرف کے دور میں ڈیویلپ ہوئی۔ اس دور میں پاکستان تقریباً روزانہ ایک میزائل کا تجربہ کرتا تھا اور پاکستان کی میزائل رینج 5/6 سو سے بڑھا کر 17000 کلومیٹر تک کر دی گئی۔

اور تو اور بری فوج کے لیے الخالد ٹینک بھی آمریت کا ہی تحفہ ہے۔

انڈیا کے خلاف ء65 کی جنگ میں (اگر ویکیپڈیا کی جانب دارانہ آرٹیکلز جن کو ایڈٹ نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان میں بیٹھے انڈین دانشوروں کو نظر انداز کر دیں) فتح حاصل کی گئ اور کئی گنا بڑی طاقت کے مقابلے میں ملک کا کامیاب دفاع کیا گیا۔

ضیاء دور میں اس وقت کی سپر پاور روس کو مکمل شکست دی گئی۔

جنرل حمید گل کے بقول حالیہ امریکی شکست بھی فوجی کی پالیسی تھی جس کو سوائے کمزور کرنے کے کسی جمہوری حکمران نے کوئی اور کردار ادا نہیں کیا۔

کمشیر کی جنگی آزادی اور خالصتان تحریک بھی فوجی ادوار میں پروان چڑھی جنہوں نے تقریباً انڈیا کو توڑ دیا تھا۔ خالصتان تحریک کو پیپلز پارٹی نے خفیہ اطلاعات دے کر تباہ کیا اور کشمیر مجاہدین کے بارے میں نواز شریف نے اطلاعات فراہم کیں اور انکی قربانیوں پر پانی پھیر دیا۔

کارگل کے محاذ پر جب انڈیا پھنس گیا تھا نواز شریف کی وجہ سے فوجیں واپس بلا لی گئیں اور پاکستان جیتی ہوئی جنگ ہار گیا۔

پرویز مشرف کے بارے میں امریکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ میں کسی شخص نے امریکہ کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا مشرف نے پہچایا اور افغانستان میں امریکی امداد سے امریکہ کو ہی مارتا رہا۔

یہی دعوی ٹرمپ نے بھی اپنی ٹویٹ اور کوئی بیانات میں کیا تھا کہ مشرف دور میں پاکستان نے امریکہ کے خلاف افغان مزاحمت کو سپورٹ کیا اور اسی رقم سے کیا جو امریکہ اس کو دیتا رہا۔

(شائد اس لیے کہ پاکستان کے پاس خود اتنے وسائل نہیں تھے کہ اپنے بل بوتے پر دنیا کی سپرپاور کے خلاف مزاحمت کو فنڈ اور سپورٹ کر سکے)

اس کو دنیا کی تاریخ کی سب سے پیچیدہ ترین جنگی پالیسی کہا جاتا ہے۔ گو کہ پاکستان آج بھی ایسی کسی بات کو تسلیم نہیں کرتا۔

گودار ایوب خان نامی آمر کے دور میں خرید کر پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔ پھر شاہراہ ریشم بھی اسی دور میں تعمیر ہوئی۔ مشرف دور میں یعنی 2002ء میں پہلی بار چین کو گوادر تک لانے کا منصوبہ بنایا گیا اور سی پیک پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔

اور کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں تقریباً ساری اسلامی قانون سازی ایک فوج ہی کے دور میں ہوئی؟؟

جمہوری ملا اس سلسلے میں آج تک کچھ نہ کر سکے سوائے فساد برپا کرنے کے۔

یہ ایک بہت مختصر سا خاکہ ہے۔ اس سے آپ باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں  کہ  پاکستان کو جمہوریت نے روندا یا آمریت نے۔

جمہوریت و آمریت میں بس ایک فرق ہے۔ جمہوریوں کے پاس لمبی لمبی زبانیں ہوتی ہیں۔ عوام کی کمزوری یہ ہے کہ وہ عملی کاموں کی نسبت نعروں اور دعووں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ عوام کی اس کمزوری سے آگاہ "جمہوریے" نعرے لگانے اور دعوے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔