نواز شریف پر تنقید

Shahidlogs سے

فوجی نرسری کی پیدوار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نواز شریف کو سیاست میں لانے والا شخص جنرل جیلانی تھا۔ جس نے اس کو اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق سے متعارف کروایا۔

کرپشن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اسحاق ڈار نے 25 اپریل 2000ء کو دفعہ 164 کے تحت ایک بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے شریف خاندان کے لیے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے 1 کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے مساوی رقم کی منی لانڈرنگ کی۔ حدیبیہ ملز ریفرینس دائر کرنے کی منظوری مارچ 2000 میں نیب کے اس وقت کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد نے دی تھی۔ اس ریفرنس کے ملزمان میں میاں نواز شریف، ان کی والدہ شمیم اختر، دو بھائیوں شہباز اور عباس شریف، بیٹے حسین نواز، بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز اور عباس شریف کی اہلیہ صبیحہ عباس کے نام شامل ہیں۔ [1]

پانامہ لیکس میں انکشاف ہوا کہ نواز شریف اور اس کے بچے کئی آف شور کمپنیوں کی مالک ہیں۔ نیز لندن میں موجود مےفیئرز کے فلیٹس بھی انہی کے ہیں۔ نیب کے مطابق نواز شریف کے بچوں کے نام پر 16 آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔ نواز شریف کے بچوں کے پاس موجود 4.2 ملین پاؤنڈ کے لیے بظاہر کوئی ذریعہ آمدن نہ تھے۔ نیز نواز شریف ہی العزیزیہ اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک ہیں۔ [2]

امریکی مصنف ریمنڈ ڈبلیو بیکر نے اپنی کتاب CAPITALISM,S ARCHILLES HEEL میں باقاعدہ ستاویزی ثبوت فراہم کیے ہیں کہ نواز شریف نے قومی خزانہ سے 418 ملین ڈالر کی کرپشن کی۔ انہی پیسوں سے بیرون ملک میں اثاثے بنائے ہیں۔ ان میں موٹروے میں 160 ملین ڈالر کی کرپشن کی، بنکوں 140 ملین ڈالر قرضہ لے کر لوٹے اور چینی کی برآمد میں 60 ملین ڈالر لوٹے۔ نواز شریف نے قومی خزانہ سے 11 ارب لوٹ کر رائے ونڈ اسٹیٹ خریدی۔ [3]

غداری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سابق وزیراعظم نواز شریف نے 12 اکتوبر 1999 کو آرمی چیف مشرف کے طیارے کو انڈیا کی جانب موڑنے کا حکم دیا تھا۔ اس کیس میں شہباز شریف، چیئرمین سیف الرحمن، آئی جی سندھ رانا مقبول اور چند دیگر لوگ بھی نامزد تھے۔ اس کیس میں نواز شریف کے علاوہ باقی سب کو عدالت نے بری کر دیا تھا۔ امین اللہ چوہدری اس مقدمے میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔

طیارہ سازش کیس میں نواز شریف کو عمر قید اور جُرمانے کی سزا سُنائی تھی۔ اس کے علاوہ عدالت نے اس کو پرواز میں آنے والے مسافروں کو 20 لاکھ روپے فی کس ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ صدر رفیق تارڑ نے میاں نواز شریف کو اس مقدمے میں دی جانے والی سزا کو معاف کردی تھی۔ [4]

ڈان کے صحافی سرل المیڈا نے وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس سےمتعلق دعوی کیا کہ اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوجی اور سیاسی قیادت میں اختلافات ہوئے۔ اس کی سیاسی اور فوجی قیادت دونوں نے تردید کی۔ تاہم یہ کہا جانے لگا کہ یہ خبر نواز شریف نے خود پلانٹ کروائی ہے تاکہ فوج پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ [5]

ریاستی اداروں کے خلاف جنگ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1997ء کو ن لیگ کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں سپریم کورٹ کی عمارت میں گھس کر چلتی عدالت پر دھاوا بولا تھا۔

نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوئی ایسا آرمی چیف نہیں گزرا جس کے ساتھ اسکی لڑائی نہ ہوئی ہو۔

حکومت پر تنقید[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نواز شریف کے تینوں ادوار میں قومی اداروں کے خسارے میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔

بیرونی قرضے میں بھی اضافہ ہوا۔

دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نواز شریف کی گلوکارہ طاہرہ سید کے ساتھ قربتیں تھیں۔ فون پر ان سے گانا سننے کی فرمائش کرتے تھے۔ ہوٹلوں میں بھی بلایا کرتے تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مری چئیر لفٹ کا ٹھیکہ انہوں نے طاہرہ سید کو دلوایا تھا۔ [6] اسی وجہ سے نعیم بخاری اور طاہرہ سید میں علیحدگی ہوگئی تھی۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]