ملالہ یوسفزئی

Shahidlogs سے

ملالہ یوسف زئی ولد ضیاالدین یوسف زئی ولد روح الامین کا تعلق پشتون قبیلے ملاخیل، یونین کاؤنسل کانڑا، تحصیل شاہ پور، ڈسٹرک شانگلا سے ہے۔ وہ ضیاالدین کی بیوی امینہ عرف پنکئی سے ہیں۔

ملالہ کے دادا کو گل مکئی بھی کہا جاتا تھا اور لوگ ان کو والی سوات کے خفیہ مخبر کی حیثیت سے جانتے تھے۔

ملالہ کے والد ضیاالدین نوے کی دہائی میں لنڈی خاص مینگورہ ڈسٹرک سوات منتقل ہوئے۔ ضیاالدین یوسف زئی نے وہاں ایک این جی او کے توسط سے خوشحال پبلک سکول کی بنیاد رکھی اور خود اسکے پروپرائیٹر اور پرنسپل بن کر اپنے پرائیویٹ سکول بزنس کا آغاز کیا۔

انہی این جی اوز نے ان کو کچھ عرصے بعد سوات ڈسٹرک میں پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کا چیرمین بنا دیا۔ خیال رہے کہ ان این جی اوز کو بعد میں پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر حکومت پاکستان نے بین بھی کیا۔

ملالہ اپنے والد کے سکول کی ایک طالبہ تھی۔

پاکستان کی سول آبادی اور پاک فوج دونوں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے دفاع کی آخری لکیر سمجھتے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور اس کی لے پالک صہیونی ریاست اسرائیل کے لیے کسی اسلامی ملک خاص طور پر پاکستان کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار ناقابل برداشت ہیں۔

اسی لیے پاکستان دشمن خفیہ ایجنسیوں را، سی آئی اے اور موساد نے کچھ دیگر ایجنسیوں کے ساتھ ملکر پاکستان کے اندر ایک پراکسی جنگ شروع کی۔ اس مقصد کے لیے سائنٹفک طریقے سے این جی اوز کی فنڈنگ، میڈیا پراپیگینڈے اور عدلیہ کے غلط فیصلوں کی مدد سے دہشتگرد تخلیق کیے گئے اور پاکستان کی آرمی اور ائرفورس دونوں کو ان طالبان برانڈ سی آئ اے ایجنٹس کے خلاف پاکستان کی اپنی ہی سرزمین پر جنگ میں الجھا دیا گیا۔

این جی اوز نے میڈیا پراپیگینڈے کے لیے جعلی مواد تیار کرنا شروع کیا جس کو میڈیا نے خوب اچھالا۔ خاص طور پر وائس آف امریکہ اور بی بی سی نے جعلی ڈائریاں نشر کرنی شروع کیں۔ 2004 ء سے 2006ء تک پاوانڈا کے نام سے اور 2006ء سے 2009ء تک گل مکئی کے نام سے۔

سوات میں پاک فوج کے آپریشن راہ راست کے بعد اگست 2009ء میں ہالینڈ میں ان ڈائریوں کا مصنف ملالہ یوسف زئی کو قرار دیا گیا۔

کے پی کے خاص طور پر مالاکنڈ ڈیوژن کی عوام سرکاری سکولوں کی تعمیر کے لیے زمین مفت فراہم کرتی تھی۔ اس معاملے میں مقامی پیش امام بھی مدد کرتے تھے۔ بدلے میں زمین کے مالک کو اسی سکول میں گریڈ چار کی ملازمت اور پیش امام صاحب کو اسلامیات ٹیچر کی نوکری ملتی تھی۔

اس پالیسی کے نتیجے میں تعلیم کو تیز رفتار فروغ ملا۔ اسکا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1962ء میں پورے دیر ( اپر اور لوور دیر) میں صرف 2 گریجویٹ اور کل 14 میٹرک پاس تھے۔ لیکن 1990ء تک انکی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔

لیکن اس سسٹم کو چند مغربی این جو اوز کی فنڈنگ اور مدد سے پہلے پشاور ھائی کورٹ اور اس کے بعد اسلام آباد سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے ( اپیل نمبر 228۔ 1989ء منور خان ورسز نیاز محمد اور سات دوسرے، ۔ 93 PLC (CS) page 797 ) زمین مالکان کو حاصل وہ جاب سیکیورٹی ختم کر دی۔

مغربی قوتیں پاکستان میں تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے کے لیے حکومتوں پر مسلسل دباؤ ڈالتی رہی ہیں۔ خاص طور پر جہاد افغانستان میں روس کی شکست کے بعد تعلیم سے اسلامی مضامین خاص طور پر جہاد کے حوالے سے قرآنی احکام کو ہٹانے پر اصرار کرتی رہی ہیں۔ یہ دباؤ خاص طور پر این جی اوز کی مدد سے ڈالا جاتا رہا۔ لیکن عوامی ردعمل کے خوف سے نصاب میں تبدیلی کی یہ تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور نصاب پر ریاست کا کنٹرول برقرار رہا۔

اس کے بعد پہلی بار پاکستان میں پرائیویٹ سکولوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ 1985ء تک پورے مالاکنڈ ڈیوژن میں کوئی ایک پرائیویٹ سکول نہیں تھا اور اسی سال الفاروق پبلک سکول اور سوات مینگورہ پبلک سکول کے نام سے پہلے پرائیویٹ سکولز کی بنیاد رکھی گئی۔

پرائیویٹ سکولوں کو این جی اوز کی مدد سے فنڈز فراہم کر کے انکی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ان پرائیوٹ سکولوں کے نصاب پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ نتیجے میں 85ء سے 95ء تک صرف 10 سال کے مختصر عرصے میں پرائیویٹ سکولوں کی شکل میں تعلیم کا ایک متوازی نظام سامنے آیا۔

نہ صرف پرائیوٹ سکولز میں پڑھنا ایک فیشن بن گیا بلکہ ایک پرکشش کاروبار بھی۔ نتیجے میں وہاں کے بڑے ٹرانسپوٹرز اور سیاست دان اس کاروبار میں تیزی سے سرمایہ کاری کرنے لگے جیسے جمال ٹریول سروس اور ان جیسے کئی اور بڑے نام۔

سرکاروں سکولوں کو مختلف طریقوں سے کم تر اور بے وقعت ثابت کیا گیا۔ اور پرائیویٹ سکولز کے مالکان بورڈ میں اپنے طلباء کے لیے ٹاپ پوزیشنز پیسوں سے خریدنے لگے۔ یوں تعلیمی بورڈ میں کرپشن کا ایک طوفان آیا۔ ان ٹاپ پوزیشنز کو پرائیویٹ سکول مالکان زیادہ سے زیادہ طلباء کو اپنے سکولوں میں داخلہ لینے کے لیے استعمال کرنے لگے۔

نیشنل ٹسٹنگ سروس کا قیام عمل میں لایا گیا جو پیسہ بنانے کی اور ایک مشین ثابت ہوئی۔ این ٹی ایس کا کنٹرول بھی سیاست دانوں ہی کے پاس تھا جو یہاں سے بھی پیسے بنانے لگے۔

پرائیویٹ سکولز نے نہ صرف تعلیم کو بذات خود تباہ کیا بلکہ اس کو ایک کاروبار میں تبدیل کر دیا اور نصاب کو تبدیل کرنے کا مغربی ایجنڈا بھی پورا ہوگیا۔

1990ء سے پہلے پورے مالاکنڈ ڈیوژن میں کوئی ایک مدرسہ نہ تھا۔ لیکن 90ء سے 95ء تک صرف پانچ سال کے عرصے میں مدارس برساتی کھمبیوں کی طرح یکایک پورے مالاکنڈ میں نمودار ہوگئے۔

انہی مدارس کو بعد میں ملک دشمن ایجنسیوں نے ریکروٹمنٹ سنٹرز کے طور پر استعمال کیا۔

دہشت گردوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے مغربی ممالک اور انکی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز سزائے موت ختم کرنے کے لیے پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھاتی رہیں۔ حتی کہ یورپ نے پاکستان کے ساتھ تجارت تک ختم کرنے کی دھمکی دی۔ اسی دباؤ کی وجہ سے 2005ء سے 2014ء تک پاکستان میں کسی کو موت کی سزا نہیں دی گئی۔

اس دوران مغربی فنڈنگز سے چلنے والا میڈیا عوام کے دلوں میں دہشت بڑھانے کے لیے دہشت گردی کی تمام کاروائیاں ممکن حد تک براہ راست نشر کرتا رہا۔ نہ صرف دہشت گردوں کے انٹرویوز نشر کیے جاتے تھے بلکہ ان کے بیانات اور عوام کو دی جانے والی دھمکیاں براہ راست عوام تک پہنچائی جاتی تھیں۔

2004ء سے 2006ء اور پھر 2006ء سے 2009ء تک (گل مکئی تک) بی بی سی اور وائس آف امریکہ نے جو جعلی ڈائریاں نشر کیں وہ درحقیقت دہشت گردی پر رننگ کمنٹری تھی جس کے ذریعے بیک وقت کئی مقاصد حاصل کیے گئے۔

دہشت گردوں (کوڈ نام طالبان) کو پاکستان دشمن ایجنسیوں نے خیبر پختونخواہ میں بہت طریقے تخلیق کیا۔ جس کے لیے زمین یو ایس ایڈ پروگرام برائے پرائمری سکولز 1990ء تا 2000ء کے ذریعے ہموار کی گئی۔

بظاہر پراجیکٹ کا مقصد سرکاری پرائمری سکولز کی چاردیواریاں تعمیر کرنا، ان کو فرنیچر دینا اور کتابیں فراہم کرنا تھا۔ بدلے میں انہوں نے سکولوں سے اسلامیات ٹیچر کی ویکنسیز ختم کرنے کی فرمائش کی۔ نتیجے میں اسلامیات ٹیچروں کی اکثریت بےروزگار ہوگئی۔ زیادہ تر مقامی مساجد کے پیش امام تھے جہاں وہ سکولز قائم تھے۔

یو ایس ایڈ کے اس پراجیکٹ کی منظوری اس وقت کے چیف سیکٹری خالد عزیز صاحب نے دی اس شرط پر کہ سکولوں کو فرنیچر اور کتابیں فراہم کرنے کا ٹھیکا اس کی بیوی کو ملے۔ اس کے لیے نیب ریفرنس 2002 موجود ہے “خالد عزیز اور دیگر” کے عنوان سے۔

متحدہ عرب امارات خاص طور پر کویت نے پرائمری سکولوں سے نکالے گئے اسلامیات ٹیچرز کو مدارس بنانے کے لیے فنڈز جاری کرنے شروع کیے۔ یوں ان ٹیچرز کو دوبارہ ملازمت مل گئی۔

ان مدارس میں وہابی مسلک اور کچھ مخصوص نظریات کا پرچار کیا گیا۔ کویت اور متحدہ عرب امارات کے اس پروگرام کی پشت پناہی امریکہ براہ راست کرتا رہا۔

اسکا اعتراف ہیلری کلنٹن نے اپنی ایک تقریر میں بھی کیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی گردش کرتی رہی کہ ”ہم نے وہابی مسلک کے فروغ کے لیے مدد فراہم کی"

(یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہابی مسلک امریکی پیداوار نہیں نہ ہی انہیں وہابیوں سے کوئی ہمدردی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان میں جذبہ جہاد پایا جاتا ہے اور اہل تشیع سے نفرت جسکو امریکہ نے استعمال کیا۔ خاص طور پر ٹی ٹی پی اور داعش کی شکل میں۔  اس کی دوسری مثال یوں ہوگی کہ آج اگر آج آپ چین میں مسلمانوں کو سپورٹ کریں تو امریکہ آپ کی حمایت کرے گا)

اسلامیات ٹیچرز کی تنخواہیں اور مدارس کے دیگر اخراجات ان این جی اوز کے ذمے تھے جن کی فنڈنگ کویت اور متحدہ عرب امارات کر رہے تھے۔

1990ء سے پہلے مالاکنڈ کے لوگ اپنی حب الوطنی اور ریاست سے وفاداری کے لیے مشہور تھے اور یہاں کا امن مثالی تھا۔ اس امن کو بڑے سسٹمیٹک طریقے سے تباہ کیا گیا۔

جسکے لیے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ غیر ملکی طاقتوں نے پاکستانی عدالتی کمزوریوں اور غلطیوں کا بھی خوب فائدہ اٹھایا۔

”پاٹا ” کے حوالے سے 1988ء میں سپریم کورٹ کا کیا گیا فیصلہ بھی ایسی ہی ایک غلطی تھی۔ اس فیصلے نے وہاں ایک ایسا خلا پیدا کیا جس میں کئی ملک دشمنوں کو اپنا ایجنڈا پورے کرنے کا موقع ملا۔

اس فیصلے کے بعد “تحریک نفاذ شریعت محمدی” کو جنم ملا جس نے بعد میں پورے سوات میں انارکی اور بلاآخر دہشت گردی کو جنم دیا۔

یہ امر نوٹ کیا جانا چاہئے کہ پورے سوات اور مالاکنڈ ڈیوژن میں ہونے والی تمام تر دہشت گردی کے دوران کوئی ایک بھی پرائیویٹ سکول تباہ نہیں کیا گیا۔ نہ ہی کسی ایک پرائیویٹ سکول کی بچی یا بچے کو قتل یا زخمی کیا گیا۔ (سوائے ملالہ کے 🙂)

جب کہ اسی عرصے میں صرف لوور دیر میں 100 سرکاری سکول (61 لڑکوں کے اور 39 لڑکیوں کے ) تباہ کیے گئے۔ جبکہ سرکاری سکولوں کے بچوں کو بھی شہید کیا گیا۔ 10 فروری 2010ء کو لوور دیر کے صرف ایک سکول کی آٹھ بچیوں کو شہید کیا گیا۔ (ان کو عالمی میڈیا نے کوئی اہمیت نہیں دی)

حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ دہشت گرد، سرکاری سکولوں کے نکالے گئے چوکیدار اور پرائیویٹ سکولز مالکان سب ایک ہی کشتی کے سوار تھے اور ایک ہی کمانڈ کے نیچے کام کرتے رہے۔

اس بحث کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جن سرکاری سکولوں کے اسلامیات ٹیچرز یو ایس ایڈ کا شکار ہونے سے بچ گئے، یا وہاں کے چوکیدار سپریم کورٹ کے فیصلے سے بچ گئے یا وہاں پرائیویٹ سکولز ہی موجود نہیں تھے وہ محفوظ رہے۔ جیسے کے کاروباغ، چنارگی، ٖڈبونو، ڈھری میدان لوور دیر وغیرہ۔

حالانکہ ان میں سے بعض علاقے طالبان کے مضبوط گڑھ تھے۔ یہاں ان کی طاقت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 2009ء میں لانچ کیے گئے آپریشن راہ راست کے تحت جب پاک فوج دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لال قلعہ میدان کی طرف بڑھ رہی تھی تو ان پر پہلا آر پی جی یہیں سے فائر ہوا تھا۔ اس علاقے کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے لیے پاک فوج کو برگیڈیر ندیم کی قیادت میں فل سکیل ملٹری آپریشن کرنا پڑا تھا۔ جس کو ائر فورس کی مدد بھی حاصل تھی۔

یہاں کے سکول محفوظ رہنے کی واحد وجہ یہی تھی کہ سرکاری سکولوں کی تباہی کے لیے یہاں کے اسلامیات ٹیچرز، سکول چوکیدار اور پرائیویٹ سکولز کے مالکان کا کوئی مشترکہ مفاد موجود نہیں تھا۔

ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاالدین یوسفزئی بطور چیرمین پرائیویٹ سکولز سوات اپنے سکول کے کاروبار کو فروغ دینے اور سستی شہرت کی حرص میں ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے پر آمادہ ہوگئے۔

اس کے لیے وہ وائس آف امریکہ اور بی بی سی کی فرمائش پر انہی کے بھیجے گئے من گھڑت، مبالغہ آمیز اور انجنیرڈ خطوط کو ڈائریوں کے نام سے اپنی بیٹی کے ہاتھوں دوبارہ لکھنے پر تیار ہوگئے۔

یہ جعلی خطوط یا ڈائریاں درحقیقت دہشت گردوں کی کامیابیوں پر رننگ کمنٹری تھی تاکہ پاکستان کی قومی یکجہتی اور سالمیت میں دراڑ ڈالی جا سکے۔

ملالہ کی لکھنے کی صلاحیت پر ایک اور دلچسپ دلیل بھی دی جاسکتی ہے۔ ملالہ خود تسلیم کرتی ہے کہ اسکی کتاب ”آئی ایم ملالہ” اس کے لیے کرسٹینا لیمب نے لکھی۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرسٹینا لیمب کو پاکستان میں ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر بین کیا گیا تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کرسٹینا لیمب پاکستان میں کب نمودار ہوئیں؟ ۔۔۔ جی ہاں 1988ء جب اس سارے کھیل کی بنیادیں ڈالی جا رہی تھی۔

ان من گھڑت، مبالغہ آمیز، انجنیرڈ خطوط یا جعلی ڈائریوں کو بی بی سی اور وائس آف امریکہ نے گل مکئی کا نام دیا اور این جی اوز کی تیار کردہ ایک بچی سے منسوب کیا۔

ملالہ کے ان جعلی ڈائریوں کو حسب معمول سپریم کورٹ نے سوموٹو کے ذریعے مزید تقویت دی۔

اسی وقت اسلام آباد میں ایک اور خطرناک کھیل کھیلا گیا۔ جب سی ڈی اے میں موجود بعض ملک دشمن عناصر نے اسلام آباد میں مختلف مقامات پر موجود 7 مساجد کو گرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ معاملہ بلاآخر لال مسجد والے واقعے اور آپریشن تک پہنچا۔

دنیا کو پیغام دیا گیا کہ دہشت گرد پاکستان کے درالخلافہ تک میں موجود ہیں۔ جبکہ دہشت گردوں کو پیغام دیا گیا کہ پاک فوج کے خلاف جنگ نہ صرف جائز بلکہ فرض ہے۔

مقصد حاصل کر لیا گیا اور پاکستان کی فوج اور ہتھیاروں کو ان کی اپنی ہی سرزمین پر استعمال کرنا پڑگیا۔ اسلام آباد اور مالاکنڈ میں پاک فوج کو جنگ میں الجھا دیا گیا۔

میڈیا کے ذریعے پاک فوج اور سول آبادی کے مابین عدم اعتماد پیدا کیا گیا۔

پاکستان کے نظام تعلیم کے خلاف سازش کی گئی اور مجموعی طور پر قومی سلامتی پر حملہ کیا گیا۔

ہالینڈ میں ” گل مکئی ” کا تعارف ملالہ یوسف زئی کی حیثیت سے کرایا گیا اور پاکستان کے خلاف اسکی کامیابیوں پر اس کو انعام دیا گیا۔

حامد میر نے اپنے غدار باپ وارث میر کے تقش قدم پر چلتے ہوئے تمام تر حالات و واقعات اور حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں 2009ء میں ملالہ کا تعارف ایک قومی ہیروئین کے طور پر کرایا۔

پیپلز پارٹی کے وزیراعظم نے فوری طور پر ملالہ کے لیے ستارہ امتیاز کا اعلان کیا۔

ملالہ یوسف زئی عرف گل مکئی کا دوسرا استعمال سی آئی اے کی اس ظالمانہ عادت کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے لے آیا یعنی بوقت ضرورت اپنے ہی تخلیق کردہ ہیروز کو قتل کرنا۔

اس وقت یکایک پوری امت مسلمہ میں امریکہ کے خلاف نفرت کا ایک طوفان اٹھا۔ اسکی فوری وجہ ایک گستاخانہ ویڈیو کی اشاعت تھی۔ کئی ممالک میں امریکی ایمبیسیز پر حملے ہوئے۔ تازہ تازہ فتح کیے گئے لیبیا میں امریکی سفیر کو زندہ جلا دیا گیا۔

تب سی آئی اے نے ساری دنیا کی توجہ ہٹانے اور دنیا کے سامنے مسلمانوں اور اسلام کا ظالمانہ چہرہ پیش کرنے کے لیے اپنے ہی تیار کردہ ہیروئین ملالہ یوسفزئی پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ چاہے مرے یا بچے۔ یہ منصوبہ بندی اسد آباد افغانستان میں کی گئی۔

اس حملے کے ذریعے سی آئی اے نے تین مقاصد حاصل کیے۔

الف ۔ گستاخانہ ویڈیو پر احتجاج کرنے والے مسلمانوں کی توجہ ہٹانا۔

ب۔ دنیا بھر میں موجود گستاخان رسول بشمول تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی اور آزادی اظہار کے نام نہاد علمبرداروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا۔ کیونکہ ملالہ پر حملے کو آزادی اظہار پر حملے کی شکل میں پیش کیا گیا۔

ج۔ ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان کی جانب عمران خان کے لانگ مارچ کو غیر موثر کرنا۔ جو اس حملے کے بعد کہیں پس منظر میں چلا گیا۔

تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پر کام جاری رہ سکے۔

ملالہ پر ہونے والے اس حملے کو پوری دنیا کی میڈیا پر یک لخت اور نہایت جارحانہ انداز میں پیش کیا گیا۔ تقریباً تمام دوسری خبریں میڈیا سے غائب ہوگئیں۔ یوں معلوم ہورہا تھا جیسے یہ میڈیا مہم پہلے سے تیار کی گئی تھی۔

پاکستانی وزیرعظم، ایم کیو ایم چیف الطاف حسین سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان ملالہ والے معاملے پر بڑھ چڑھ کر سامنے آئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری ملالہ کی خیریت دریافت کرنے خود پہنچے۔

ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا کی نظریں سوات پر تھیں پاکستان کی سیکیورٹی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل کیانی کا منظر سے غائب رہنا ممکن نہ تھا۔ پاک فوج نے ملالہ کے علاج کے لیے اپنا ہیلی کاپٹر اور خدمات پیش کیں۔

ایک مستند غدار کو قومی ہیرو بنا دیا گیا۔

یہ امر نوٹ کیا جانا چاہئے کہ جن دنوں ملالہ طالبان کے خلاف لکھ رہی تھی ان دنوں طالبان کی طاقت کا عالم یہ تھا کہ ان سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد تک محفوظ نہ تھے۔ لیکن ان کے گڑھ سوات میں موجود ملالہ یوسف زئی ”انکی پہنچ سے دور” تھی۔ ان چار پانچ سالوں میں ملالہ پر کبھی حملے کی جرات نہیں کی گئی جب تک سی آئی اے کو اسکی ضرورت نہیں پڑی۔ حالانکہ ہر تھوڑے عرصے بعد ملالہ کا والد طالبان کی طرف سے ان کے گھر میں پھینکی گئی پرچی میڈیا کے سامنے پیش کرتا اور ساتھ ہی اپنے ڈٹے رہنے کا اعلان کرتا۔

جس دن ملالہ کو گولی لگی اسی دن دہشت گردوں کے گڑھ لال قلعے کی جانب مارچ کرنے والے پاک فوج کے میجر غلام رسول نے اپنے سر میں گولی کھائی اور اس کے 7 جوانوں کو نہایت بے دردی سے ذبح کر دیا گیا۔

ان بے مثل اور بہادر جوانوں کے لیے پورے میڈیا پر کوئی ایک آواز نہیں اٹھی۔ ان کی جوان بیواوؤں اور چند ماہ کے یتیم ہو جانے والے بچوں کے لیے کہیں بھی ہمدردی کا ایک جملہ تک نہیں بولا گیا۔

ضیاالدین یوسف زئی (ملالہ کے والد) نے ریاست پاکستان کے خلاف کھیلے جانے والے اس سارے کھیل میں اہم کردار ادا کیا۔

اس نے اپنی بیٹی سی آئی اے کو پیش کی۔ جنہوں نے دنیا کے دو بڑے میڈیا چینلز پر اس کےنام کی جعلی ڈائریاں نشر کر کے سوات میں ملٹری آپریشن یا دوسرے لفظوں میں جنگ کے لیے زمین ہموار کی۔

جب پاک فوج نے دہشت گردوں سے مزاکرات کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے تقریر کی کہ اگر پاکستان نے آپریشن نہیں کیا تو افغانستان سوات میں دہشت گردوں کے خلاف خود کاروائی کرے گا۔ حامد کرزئی کی اس تقریر کو پوری دنیا کی میڈیا نے زبردست کوریج دی اور پاکستان پر عالمی دباؤ بڑھا دیا گیا۔

دوسری طرف پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر ملالہ کی جعلی ڈائریز اور پاکستان کے اپنے میڈیا کا ڈھنڈورا جاری تھا۔

بلاآخر جب پاک فوج نے آپریشن راہ راست کا فیصلہ کیا تو ملالہ کو اپنا کردار کامیابی سے ادا کرنے پر ھالینڈ نے امن کے ایوارڈ سے نوازا۔

پاکستان کی بہادر افواج کے ہاتھوں شکست کے بعد سوات کے ان دہشت گردوں کو امریکہ اور نیٹو نے اپنی آغوش میں لے لیا جن کے خلاف حامد کرزئی نے بیان جاری کیا تھا اور ان کو کنڑ اور نورستان میں پناہ گاہیں فراہم کیں۔

دہشت گردوں کی محفوظ جنت افغانستان میں پناہ حاصل کرنے کے بعد دہشت گردوں نے پاکستان میں ٹارگٹڈ کاروائیاں شروع کیں اور جنرل ثناءاللہ نیازی کو ایسی ہی ایک کاروائی میں شہید کر دیا گیا۔

دنیا بھر میں قومی سطح کے انعامات دینے کا ایک طریقہ کار اور قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔

اس وقت کی پیپلز پارٹی حکومت نے ہلال امتیاز نرگس سیٹھی کو دیا اور ستارہ امتیاز ملالہ کو محض میڈیا کوریج سے متاثر ہوکر دیا۔ اس کے لیے تمام تر قواعد و ضوابط کو نظر انداز کر دیا گیا۔

اس میڈیا کوریج میں پاکستان کے متنازعہ ترین صحافی حامد میر اور متنازعہ ترین چینل جیو نے اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان میں عام طور پر سب سے قابل بچہ میڈیکل، انجنیرنگ، پاک فوج یا پھر سول سروس میں جاتا ہے۔

اوسط درجے کا بچہ ٹینیکل شعبے یا پھر ٹیچنگ میں جاتا ہے۔

نالائق ترین بچے کو یا مدرسے بھیج کر عالم بنایا جاتا ہے یا پھر وہ ایل ایل بی کر کے وکیل اور جج بنتا ہے اور ” انصاف” کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ علماء کی اکثریت کو کسی معقول بات پر اکھٹا کرنا محال اور عدلیہ سے انصاف کا حصول ناممکن ہو چکا ہے۔

فیل ہوجانے والے یا ان پڑھ بچے سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ یا سیاسی کارکن بنتے ہیں یا سیاست دان اور ملک کا نظم و نسق چلاتے ہیں، قانون سازی کرتے ہیں۔ نتائج آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے تمام حقائق کی روشنی میں با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ  اس سارے کھیل کی بنیاد 1988ء میں رکھی گئی جب افغانستان اور افغان امور کے ماہر پاک فوج کے سپاہ سالار کو اس کے ساتھیوں سمیت بہالپور میں ایک طیارے میں شہید کر دیا گیا۔ یہ کام پاکستان پیپلز پارٹی اور سی آئی اے نے ملکر کیا۔

اسی سال میڈیا کی شہزادی اور ملالہ کی اتالیق کرسٹینا لیمپ پہلی بار پاکستان میں نمودار ہوئیں۔

عدلیہ اور پارلیمنٹ مسلسل میڈیا اور این جی اوز کے ہاتھوں میں کھلونوں کی طرح کھیلتی رہیں۔ جن کی مشترکہ غلطیوں نے پہلے دہشت گردی اور پھر عدم استحکام کو جنم دیا اور پاکستان عملاً اپنے کئی علاقے کھو بیٹھا۔

ضیاالدین یوسفزئی، دہشت گردوں اور سرکاری سکولوں کے چوکیداروں کے مقاصد الگ الگ لیکن منزل ایک تھی۔ سرکاری سکولوں کی تباہی دوسرے لفظوں میں تعلیم کی تباہی تھی۔

سرکاری سکولوں سے نکالے گئے ٹیچر یواےای اور کویت فنڈڈ این جی اوز کی مدد سے مدارس قائم کرنے کے بعد دہشت گردوں کے ساتھ مل گئے اور سرکاروں سکولوں سے اپنا ذاتی انتقام بھی لیا۔

سب سے زیادہ نقصان میں پاکستان اور فائدے میں ضیاالدین رہا جس کے پرائیویٹ سکول بزنس کو مزید استحکام ملا اور بعد میں انعام و اکرام کی بارش اور عالمی شہرت بھی۔

سی آئی اے نے سرکاری سکولوں کو دہشت گردوں کے ذریعے نصاب سے اسلامی مواد خاص طور پر جہاد سے متعلق قرآنی احکام نہ ہٹانے کی سزا دی۔ اس مواد پر ملالہ نے اپنی کتاب ” آئی ایم ملالہ” میں بھی تنقید کی ہے۔

ملالہ اور اس کے والد ضیا الدین کو ان کی خدمات سے بڑھ کر انعام دیا گیا اور پوری دنیا میں ان کو غداری کرنے والوں کے لیے ایک پرکشش مثال بنایا گیا۔ جس نے خاص طور پر پاکستان میں غداروں کی ایک نئی کھیپ تیار کی اور ہر دوسرا تیسرا اسلام، پاکستان، نظریہ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ ہوکر مغرب سے انعام کا طلب گار بن گیا۔

شکیل آفریدی، وقاص گورایا، سلمان حیدر اور منظور پشتین جیسے ناسور پیدا ہوئے۔ سنا ہے مشال کی مبینہ گستاخیاں بھی ملالہ بننے کا عزم اور نوبل انعام حاصل کرنے کے لیے تھیں۔

ضیاالدین کا حوصلہ بڑھا تو اس نے اپنی بیٹی کو آنے والے وقت میں وزیراعظم پاکستان کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ اس کے لیے ابھی سے اس کو اعزازی ڈگریوں اور انعامات سے لادا جا رہا ہے۔

ملالہ اور دہشت گرد ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ دونوں نے سوات میں دہشت گردی اور سرکاروں سکولوں کی تباہی (تعلیم کی تباہی ) میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔

کسی کو گمان نہیں تھا کہ پاک فوج ناقابل یقین انداز میں یکے بعد دیگر یہ تمام علاقے نہ صرف دہشت گردوں سے چھڑا لےگی بلکہ یہاں مستقل امن بھی قائم کر لے گی۔ اسی لیے اب قوم پرستی (عصبیت) کے جھنڈے تلے اس کھیل کا دوسرا فیز لانچ کیا گیا ہے۔ جس کی کمانڈ انہی ہاتھوں میں ہے اور نشانہ پھر سے پاکستان اور اپک فوج ہیں۔ امریکی چینلز اور بی بی سی کی پراپگینڈا مہم ایک بار پھر زوروں پر ہے۔ حقوق کے نام پر پشتونوں کو پھر سے ایک بڑی جنگ اور آگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے کہ ”وہاں تمھاری جنت ہے”

پاکستان پر یقیناً اللہ کا ہاتھ ہے۔ جو اتنی خطرناک سازش کے بعد بھی بچ گیا۔ پاکستان کو شکست نہیں دی جا سکتی ان شاءاللہ!