عمران خان کے قتل کی سازش

Shahidlogs سے

چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان پر وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران فائرنگ کی گئی جس میں وہ زخمی ہوگئے۔ ایک حملہ آور موقع پر پکڑا گیا جس کا میڈیا پر بیان بھی آیا۔ ایک یا دو مبینہ حملہ آور بھاگ گئے۔ عمران خان نے خود پر حملے کا ذمہ دار وزیراعظم، وزیر داخلہ اور ایک فوجی جنرل کو ٹہرایا۔ اس حملے کے بعد عمران خان زمان پارک میں محصور ہوگئے۔ اس دوران اس نے مختلف شخصیات پر اپنی قتل کی سازش کرنے کے الزامات لگائے۔

عمران خان پر قاتلانہ حملہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وزیر آباد کے اللہ والا چوک میں 3 نومبر کی شام کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ ہوئی۔ عمران خان اس وقت ایک لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے۔ اس حملے کی جو ویڈیو فوٹیجز آئی ہیں انہیں دیکھ کا اندازہ ہوتا ہے کہ فائرنگ کم از کم دو طرف سے کی گئی۔ ایک سامنے سے ایک اور نیچے سے نوید نامی شخص سے پستول سے گولیاں چلائیں۔ نوید کو موقع پر ہی پولیس نے لوگوں کی مدد سے گرفتار کر لیا۔

ملزم نوید احمد کی تھانہ کنجاہ گجرات کے اندر سے متعدد ویڈیوز منظر عام پر آئی جس میں وہ عمران خان پر حملے کا اقرار کر رہا تھا۔ بقول نوید کے عمران خان نے توہین مذہب کی تھی۔ ویڈیوز سامنے آنے پر پرویز الہی نے متعلقہ پولیس عملے کو معطل کر دیا اور ان کے موبائل فرانزک کی غرض سے ضبط کر لیے۔

اس حملے میں عمران خان سمیت 14 افراد زخمی ہوئے۔ جب کہ ایک شخص جانبحق ہوا۔ عمران خان کو بلٹ پروف گاڑی میں منتقل کیا گیا۔ لوگوں نے اس کی دائیں ٹانگ پر پٹی بندھی ہوئی دیکھی۔ عمران خان کو وزیر آباد سے لاہور لے جایا گیا جہاں شوکت خانم اسپتال میں ان کا علاج کیا گیا۔ عمران خان کے ذاتی معالج ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ ان کی ٹانگوں میں گولی کے ٹکڑے موجود ہیں اور ان کی دائیں ٹانگ کی نچلی ہڈی یعنی ٹبیا بون چٹخی ہوئی نظر آئی ہے یعنی ٹانگ کی نچلی ہڈی کا کنارا ٹوٹا ہے۔

عمران خان پر وزیر آباد میں ہونے والے حملے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے سابق وزیر اعظم پر 3 مختلف اطراف سے گولیاں داغے جانے کا انکشاف کیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تحقیقات سے باخبر ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’گرفتار ملزم نوید مہر کے علاوہ 3 نامعلوم حملہ آوروں نے نامعلوم ہتھیاروں سےگولیاں فائر کیں جوکہ کافی اونچائی سے چلائی گئی تھیں۔' رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کودکانوں کی چھتوں سے 10 گولیوں کے خول ملے۔

تسنیم حیدر کے انکشافات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہنما تسنیم حیدر نے انکشاف کیا کہ عمران خان اور ارشد شریف کے قتل کی سازش لندن میں نواز شریف کے ساتھ میٹنگ میں کی گئی۔ تسنیم حیدر نے کہا کہ 8 جولائی، 20 ستمبر اور 29 اکتوبر کو ہونے والی میٹنگز کہا گیا کہ عمران خان اور ارشد شریف کو راستے سے ہٹانا ہے۔ تسنیم حیدرکا کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کی تقرری سے قبل دونوں کو قتل کرنے کا کہا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ناصر بٹ نے میرا تعارف نواز شریف سے کروایا اور نواز شریف کو بتایا گیا کہ میرے پاس شوٹرہیں۔ نوازشریف نے مجھے کہا کہ شوٹر آپ دیں۔ وزیرآباد میں فائرنگ ہوگی تو الزام پرویز الہٰی پر آئے گا۔

عمران خان کے الزامات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

15 مئی کو عمران خان نے سیالکوٹ جلسے میں کہا کہ مجھے مارنے کی سازش ہورہی ہے اور میں نے ایک وڈیو پیغام ریکارڈ کروا رکھا ہے۔ مجھے کچھ ہوا تو وہ پیغام سامنے آجائیگا جس میں سازش کرنے والوں کے نام ہیں۔

13 ستمبر کو عمران خان کے خلاف ایک ٹویٹر ٹرینڈ چلا جس میں 65 ہزار ٹویٹس کی گئیں اور عمران خان کو توہین مذہب کا مجرم قرار دیا گیا۔ اس ٹرینڈ کا آغاز مریم نواز کی ایک ٹویٹ سے ہوا جس میں اس نے عمران خان کے کچھ بیانات کو توہین مذہب قرار دیا تھا۔ فواد چودھری نے کہا کہ توہین مذہب کا الزام لگا کر پی ٹی آئی چیئرمین کی جان کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

24 ستمبر کو رحیم یار خان جلسے میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ "4 لوگوں نے بند کمرے میں مجھے مروانے کا فیصلہ کیا، وہ اب بھی اس سازش میں لگے ہیں، ان کی کوشش کے ہے کہ عمران خان پر کوئی بھی واردات ہو تو کہیں گے کہ مذہبی جنونی نے کردیا۔ یہ کہیں گے دینی انتہا پسند نے عمران خان کو مار دیا۔"

نومبر میں عمران خان نے وزیر آباد حملے کے حوالے سے کہا یہ حملہ ان پر شہباز شریف، رانا ثناءاللہ اور جنرل فیصل نصیر نے کروایا ہے۔

27 جنوری کو عمران خان نے کہا کہ ایک پلان سی بنا ہے۔ آصف زرداری اس کے پیچھے ہے۔ ایک دہشتگرد تنظیم کو اس نے پیسہ دیا ہے۔ مجھے کچھ ہوا تو قوم انکو نہ چھوڑے۔

19 مارچ کو عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد کورٹ میں پیشی کے دوران مجھے قتل کرنے کا پلان تھا۔ کچھ نامعلوم لوگ تھے شلوار قمیضوں میں۔ لیکن ایک ساتھی نے مجھے اشارہ کیا اور مجھے اللہ نے بچا لیا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ عدالت میں حاضری کے وقت میں اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہوں۔

22 مارچ کو عمران خان نے کہا کہ اب ایک اور پلان بننے لگا ہے۔ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد نے ہینڈلرز کے ساتھ ملکر پلان بنایا ہے۔ انہوں زمان پارک کے باہر آج یا کل آپریشن کرنا ہے۔ جس میں ان کے اپنے لوگ پولیس والوں کو مارینگے۔ پھر یہ لوگ مرتضی بھٹو کی طرح مجھے ماردینگے۔

حکومت کا موقف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمران خان کے الزامات کے جواب میں حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان اپنے الزامات کے حق میں ثبوت فراہم کرے۔ کیا وجہ ہے کہ عمران خان ریلیوں اور جلسوں میں تو فوراً پہنچ جاتے ہیں لیکن جب انہیں عدالت طلب کرتی ہے تو ان کی جان کو خطرہ ہوجاتا ہے؟

پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا کہ عمران خان قتل کی سازش کی آڑ لے کر دراصل زمان پارک کو نوگو ایریا بنائے رکھنا چاہتے ہیں، گرفتاری سے بچنا چاہتے ہیں اور عدالتوں میں پیش نہیں ہونا چاہتے۔

پنجاب حکومت نے عمران خان کی جانب سے قتل کی سازش سے متعلق بیان پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ بھی کیا۔

پی ٹی آئی مخالفین کے سوالات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمران خان نے کئی غیر ملکی نیوز چینلز کو انٹرویوز دئیے۔ ان میں اس سے یہ سوال ضرور کیا گیا کہ آپ نے جن پہ قاتلانہ حملے کا الزام لگایا ہے ان کے خلاف اپ کے پاس کوئی ثبوت بھی ہے؟

عمران خان نے ہر جگہ یہی جواب دیا کہ انہوں نے مجھے حکومت سے نکالا تو میری مقبولیت بڑھ گئی جس کے بعد انہوں نے مجھے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جب سوال دہرایا گیا اور ثبوت پر اصرار کیا گیا تو عمران خان کہا میں اس حملے کی پیشن گوئی کر چکا تھا۔ جب انہوں نے مجھ پر گستاخی کا الزام لگایا تو میں سمجھ گیا تھا کہ یہ مجھے کیس مذہبی جنونی کے ہاتھوں قتل کروانا چاہتے ہیں۔ اس جواب پر جرمن صحافی نے کہا یہ شرلاک ہومز ٹائپ کی کہانی لگتی ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ ان تینوں ملزموں کے خلاف اس الزام کے حق میں آپ عدالت میں کیا شواہد پیش کرینگے؟ تو عمران خان اس کا کوئی واضح جواب نہ دے سکا۔

سینیٹر اعجاز نے ایک ٹویٹ کی تھی کہ "میں نے کل احمد چھٹہ کو فون پر بتایا تھا کہ وزیرآباد میں خان پر قاتلانہ حملہ ہوگا۔ سو قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ " پی ٹی آئی کے اس سینیٹر کو کیسے پتہ چلا کہ حملہ ہوگا؟

اور اگر مختلف اداروں کی رپورٹس اور تھریٹ الرٹس کی وجہ سے حملے کا خطرہ تھا جیسا کہ عمران خان بھی کہتے ہیں کہ مجھے انفارمیشن تھی کہ حملہ ہوگا۔ تب مناسب حفاظتی انتظامات کیوں نہ کیے۔ پی ٹی آئی کے پاس دو صوبوں کے وسائل تھے اور سیکیورٹی کی ذمہ داری پنجاب کی صوبائی حکومت کی تھی جو ان کی اپنی تھی۔ پھر یہ حالت کیوں تھی کہ ایک پوڈری ٹائپ بندہ بھی پستول لے کر عمران خان کو نشانہ بنا سکتا تھا؟

وہ جو مبینہ طور پر اے کے 47 سے فائرنگ ہوئی تھی وہ تو زیادہ دور سے نہیں ہوئی تھی وہ بندہ کیسے نکلنے میں کامیاب ہوا جب کہ پولیس کی کوئیک رسپانس یونٹ کی گاڑیاں ساتھ تھیں؟

وہ جو ایک اور مبینہ حملہ آور پکڑا گیا تھا وہ کہاں گیا؟

عمران خان نے قاتلانہ حملے کے بعد بارہا اپنے قتل کی سازشوں کا انکشاف کیا۔ وہ اب تک کوئی نصف درجن ایسی سازشوں کو انکشاف کر چکے ہیں۔ [1]

عمران خان کی ٹانگ کے زخم کے حوالے سے ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ چھ مہینے سے ٹھیک نہیں ہورہی تھی تو گرفتار کے بعد وہ یک دم ٹھیک کیسے ہوگئے؟

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]