عمران خان کے خلاف امریکی سائفر

Shahidlogs سے

مارچ 2022ء میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے امریکہ میں اپنی معیاد سفارت مکمل ہونے پر امریکی انڈر سیکرٹری خارجہ ڈونلڈ لو سے الوداعی ملاقات پر ہونے والی گفتگو کا جو سائفر اپنی وزارت خارجہ کو بھجوایا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے انہی دنوں قومی اسمبلی میں اپنے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش کا شاخسانہ قرار دیکر اس کی کڑیاں اس سائفر سے جوڑ کر دیں۔ جس کے بعد پی ڈی ایم حکومت اور افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلائی گئی۔

27 مارچ کو عمران خان اسلام آباد جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر کہا یہ وہ سائفر ہے جس میں میری حکومت گرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی سائفر کی بنیاد پر پی ٹی آئی نے 'امپورٹڈ حکومت نامنظور' کا ٹرینڈ چلایا اور پی ٹی آئی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد رد کی۔

تاہم نیشنل سیکیورٹی کی میٹنگ میں پاک فوج نے کسی بھی بیرونی سازش کے بیانیے کو مسترد کر دیا۔ بعد میں عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور اپنے حکومتی ساتھیوں (دو سابق وزراء شاہ محمود قریشی اور اسد عمر ) سے ہونے والی گفتگو پر مشتمل دو آڈیوز لیک سامنے آئیں۔ جن سے واضح ہوا کہ سائفر والا سازشی بیانیہ جان بوجھ کر گھڑا گیا تاکہ عوام کو اکسا کر پی ڈی ایم اتحاد اور افواج پاکستان پر دباؤ ڈالا جاسکے۔

عمران خان اور فواد چودھری نے آڈیوز کی تردید نہیں کی۔

پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ سائفرکے معاملے کی تحقیق ہونی چاہیے لیکن یہ تحقیق ایف آئی اے کی بجائے سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن کرے۔ دوسری طرف حکومت نے ان آڈیوز میں ہونے والی گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے بارے میں ضروری اقدامات کرنے کے لیے کابینہ کی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا۔ کابینہ کمیٹی نے اس بارے میں اپنی سفارشات ہی پیش نہیں کر دی ہیں بلکہ سرکولیشن کے ذریعے ان سفارشات کی وفاقی کابینہ سے منظوری بھی لے لی گئی ہے اورکابینہ ڈویژن نے مراسلہ جاری کر دیا ہے جس کے تحت سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر ضروری کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ایف آئی اے سے کہا گیا ہے کہ وہ سینئر حکام پر مشتمل کمیٹی جن میں دوسرے انٹیلی جنس اداروں سے افسران اور اہل کاروں کو لیا جا سکتا ہے تشکیل دے جو عمران خان ، دو سابق وزراء شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے تفتیش کرے گی۔

عمران خان کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو پر مبنی جو آڈیوزیکے بعد دیگرے 28اور 30ستمبر کو افشاء (Leak) ہوئی ہیں ان میں کیا کہا گیا ہے۔ معروف سینئر صحافی ، کالم نگار اور اینکر پرسن جناب جاوید چوہدری نے ایک قومی معاصر میں چھپنے والے اپنے کالم میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ جس کے مطابق عمران خان اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے کہتے سنائی دیتے ہیں "اب ہم نے بس کھیلنا ہے، اس کے اوپر نام نہیں لینا امریکہ کا ، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے بھی اس کے اوپر"۔ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان وزیر اعظم کو مشورہ دیتے سنائی دیتے ہیں۔ "آپ میٹنگ بلائیں اس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فارن سیکرٹری سہیل محمود یہ خط پڑھ دیں، میں اپنے ریکارڈ پر لے آوں گا۔ منٹس میرے ہاتھ میں ہیں ، میں خط کو دھمکی بنا دونگا۔ " عمران خان میٹنگ کی وجہ پوچھتے ہیں تو پرنسپل سیکرٹری بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس خط کی آفیشل کاپی نہیں ہے ہمیں اس سے آفیشل بنانے کے لیے میٹنگ کرنی چاہیے ، وغیرہ وغیرہ۔

دوسری آڈیو جو 30ستمبر کو سامنے آئی اس میں جاوید چوہدری کے مطابق عمران خان شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو اعتماد میں لیتے ہیں، اسد عمر کہتے ہیں یہ تو میٹنگ کی ٹرانسکرپشن ہے ، یہ لیٹر نہیں اور عمران خان کہتے ہیں آپ اسے چھوڑو، پبلک کو لیٹر اور ٹرانسکرپشن کا فرق پتا نہیں۔ جاوید چوہدری آگے چل کر لکھتے ہیں کہ کیا اس کے بعد میٹنگ ہوئی تھی اور اس میں سیکرٹری خارجہ نے وہ سائفر پڑھا تھا ؟ میری معلومات کے مطابق میٹنگ ہوئی تھی لیکن سیکرٹری خارجہ نے سائفر پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا میں سرکاری حیثیت میں یہ نہیں کر سکتا۔ سفارت خانوں کے سائفرز سیکرٹری خارجہ کے لیے ہوتے ہیں ۔ ہم صرف سائفرز کی سمریاں بنا کر متعلقہ محکموں کو بھیجواتے ہیں۔ ہم اپنا سسٹم کسی کے لیے اوپن نہیں کر سکتے۔ جناب جاوید چوہدری کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بعد ازاں سیکرٹری خارجہ پر دبائو ڈالا اور سیکرٹری خارجہ نے آفیشل چینل سے سائفر کی سمری وزیر اعظم آفس بھیجوا دی اور یہ سمری اب ریکارڈ سے غائب ہے۔جاوید چوہدری مزید لکھتے ہیں بہر حال قصہ مختصر ، وزیر اعظم عمران خان نے 27مارچ کو پریڈ گراونڈ کے جلسے میں سمری لہرائی اور اسے لیٹر قرار دے دیا۔ اصل سائفر 31مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آیا تھا۔ یہ اجلاس عمران خان کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔ سائفر کی کاپی تمام شرکاء کے سامنے رکھی گئی تھی لیکن وہ کاپی ساتھ لے جا سکتے تھے اور نہ اس کے نوٹس بنا سکتے تھے۔ اسے صرف پڑھا جا سکتا تھا اور وہ پڑھا گیا اور آخر میں ایک متفقہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا، جس میں یہ ڈکلیر کیا گیا ، "پاکستان کے خلاف کوئی غیر ملکی ساز ش نہیں ہوئی" اس میٹنگ کے بعد وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات بھی ہوئی تھی اور عمران خان نے آرمی چیف سے کہا تھا "جنرل صاحب بس ڈیماش ہو گیا ، یہ بات اب یہاں ختم ہو جائیگی" اور تمام لوگ خوشی خوشی گھروں کو واپس لوٹ گئے۔ جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی ۔ وہ خط ،مراسلہ، یا سائفر آگے بڑھتا چلا گیا اور اس میں سے نیوٹرلز کا طعنہ بھی نکلا، ایمپورٹڈ حکومت کے بیش ٹیگ نے بھی جنم لیا ، میر صادق اور میر جعفر بھی پید ا ہوئے ، غدار اور سازشی کا بیانیہ بھی بنا اور آخر میں اس سے گیدڑ اور شیر بھی نکل گیا اوردیکھئے گا اب دسمبر میں چار لوگوں کے نام بھی نکل آئیں گے۔

ان اقتباسات سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ سے آنے والے معمول کے ایک سائفر کو کیسے سازشی کہانی میں تبدیل کیا گیا۔ تبدیل کرنے یا کروانے والا شخص کوئی اور نہیں ہے جناب عمران خان ہیں جو بطور وزیر اعظم اور چیف ایگزیکٹو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہی نہیں تھے بلکہ مملکت کے معاملات کو اس کی سلامتی ، اس کے تحفظ اور اس کے مفادات کا خیال رکھنے کے تناظر میں آگے بڑھانے کے ذمہ دار اور امانت دار بھی تھے ۔ اس ساری تفصیل کو جان کر کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جناب عمران خان جس طرح کا منفی پراپیگنڈہ کرتے چلے آرہے ہیں ، رجیم چینج اور ایمپورٹڈ حکومت کے طعنے دے رہے ہیں، حقیقی آزادی کے حاصل کرنے کے نعرے بلند کر رہے ہیں کیا ان میں کچھ حقیقت بھی ہو سکتی ہے ؟ یقینا ایسا نہیں ہے لیکن پسند اور ناپسند کی انتہائی حدوں کو چھونے والی فضا میں ان باتوں کی طرف کس نے توجہ دینی ہے۔ جناب عمران خان کے حمایتی اور ان کے پیروکار کچھ بھی ہوجائے ، کتنے حقائق ان کے سامنے لائے جائیں ، ان کے لیے جناب عمران خان کی ہر بات خواہ اس کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان حالات میں حکومت نے سائفر کہانی کے حوالے سے سامنے آنے والی آڈیوز کی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے تاخیر سے کیا جانے والا ضروری فیصلہ سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا عمران خان، ان کے قریبی ساتھی اور ان کے پیروکار تحقیق کے نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہونگے بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ حکومت ایف آئی اے کی کسی اعلیٰ اختیاراتی ٹیم کے ذریعے تحقیقات کروانے کی بجائے سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کردہ کسی جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا راستہ اختیار کرتی۔ خیر اب ایف آی اے کے نوٹیفیکشن کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی قائم ہو چکی ہے ۔ کمیٹی کو اپنی تحقیقات میں تاخیر نہیں کرنی ہوگی ۔ اس معاملے میں جتنی بھی تاخیر ہو گی وہ حکومت کے حق میں نہیں ہوگی۔

عمران خان اور اعظم خان کی آڈیو لیک[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اعظم خان کا اعترافی بیان[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمران خان کے پرنسپل سیکٹری اعظم خان نے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ عمران خان نے مجھ سے سائفر کی کاپی لے لی تھی۔ میں نے اگلے دن پوچھا تو عمران خان نے کہا مجھ سے گم ہوگئی ہے۔

کئی روز سے لاپتا اعظم خان کے میڈیا کو لیک ہونے والے مبینہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان نے کہا کہ سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا۔‘

اعظم خان نے اپنے مبینہ بیان میں کہا کہ ’عمران خان نے سائفر مجھ سے 9 مارچ کو لے لیا اور بعد میں اسے کھو دیا، عمران خان نے سائفر ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بویا، منع کرنے کے باوجود ایک سیکرٹ مراسلے کو ذاتی مفاد کے لیے عوام میں لہرایا، سائفر ڈراما صرف اور صرف اپنی حکومت بچانے کے لیے رچایا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’8 مارچ 2022 کو سیکریٹری خارجہ نے مجھے سائفر کے بارے میں بتایا، اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اعظم کو سائفر سے متعلق پہلے ہی بتا چکے تھے، عمران خان نے سائفر کو اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

مبینہ بیان میں اعظم خان نے کہا کہ ’عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ لیا جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی، سائفر واپس مانگنے پر عمران خان نے اس کے گم ہونے کے متعلق بتایا۔‘

سابق پرنسپل سیکریٹری کے مطابق عمران خان نے ان کے سامنے سائفر کو عوام کے سامنے بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی بات کی، 28 مارچ کو بنی گالا میٹنگ اور 30 مارچ کو اسپیشل کابینہ اجلاس میں سائفر کا معاملہ زیربحث آیا، میٹنگز میں سیکریٹری خارجہ نے شرکا کو سائفر کے مندرجات کے متعلق بتایا۔

واضح رہے کہ سابق پرنسپل سیکریٹری اور اعلیٰ عہدے پر فائز بیوروکریٹ اعظم خان رواں سال 15 جون کی شام سے اسلام آباد سے لاپتا تھے، ان کے اہل خانہ نے ان کی گمشدگی کی تصدیق کی تھی۔

عمران خان بعد میں اپنے سائفر بیانیے سے پھر گیا اور کہا کہ امریکہ نے نہیں دراصل جنرل باجوہ نے سازش کی۔ امریکہ کو بھی جنرل باجوہ نے کہا۔ [1] بعد میں عمران خان نے اپنے بیان میں مزید تبدیلی کی اور حسین حقانی کو بھی اس میں شامل کر لیا۔ [2]

دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمران خان نے سائفر لہرایا۔ لیکن اپنی حکومت گرنے کے بعد 12 ستمبر کو عمران خان نے سابق سی آئی اے تجزیہ کار سے بنی گالہ میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد اکتوبر میں عمران خان کا بیانیہ تبدیل ہوا اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ امریکہ نہیں بلکہ سپر کنگ جنرل باجوہ تھا جس نے میری حکومت گرائی۔ پھر عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ٹھیک ہے شائد آرمی ملوث نہیں ہو لیکن وہ روک سکتے تھے۔ یعنی عمران خان کو یہ شکایت تھی کہ فوج نے مداخلت کیوں نہ کی۔ اور سیاستدانوں پر دباؤ نہیں ڈالا کہ عمران خان کے خلاف ووٹ نہ دیں۔

شاہ محمود قریشی کا بیٹا جان کیری کا ملازم ہے۔ عمران خان کی کیبنٹ ٹرمپ انتظامیہ کے بہت قریب ہے۔ شہباز گل امریکہ میں پروفیسر ہیں۔ وہی امریکہ اس وقت عمران خان کو سب سے زیادہ سپورٹ کر رہا ہے۔ معید یوسف سابق امریکی پاکستان میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں۔ جو امریکی تھنک ٹینکس میں کام کرچکے ہیں۔ اس کی کیبنٹ میں کئی لوگ ہیں جو امریکہ سے وفاداری کا حلف لے چکے ہیں۔ اس نے سی پیک پر کام سست کیا۔ چین نے شکایت بھی کی۔ انڈیا کو کشمیر ضم کرنے دیا۔ [3]

عمران خان سائفر پر تین چار بیان بدل چکا ہے۔ [4]

عمران خان نے سائفر پر بارہا بیانیہ بدلا اور اپنی حکومت جانے کے بعد افواج پاکستان اور ریاست کو بےپناہ نقصان پہنچایا۔ [5]

سائفر کا کوڈ روزانہ بدلتا ہے۔ پانچ لوگوں کو سائفر ملتا ہے جن میں سے چار نے واپس کرنا ہوتا ہے۔ [6]

شہباز گل نے دعوی کیا کہ سائفر چھپایا گیا تھا ہم سے۔ گلے میں انگلی ڈال کر ہم نے نکالا تھا۔ [6]

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے خط لہرا کر بھٹو کو کاپی کیا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]