علی وزیر کا باپ کرائے کا قاتل
یہ اسی کی دہائی کا آغاز تھا۔
روس کے خلاف افغان جہاد شروع ہوچکا تھا۔ پاکستان مزاحمت کرنے والوں کی مدد کر رہا تھا۔
امریکی سی آئی اے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالنے پہنچ چکی تھی۔
مجاہدین کے زیادہ تر تربیتی مراکز پنجاب میں قائم کیے گئے تھے۔
(جیسا کہ چند دن پہلے سلیم صافی نے بھی انکشاف کیا تھا)
پورے فاٹا میں کوئی ایک ٹریننگ کیمپ نہیں تھا۔
تاہم سی آئی اے کو محسوس ہورہا تھا کہ روس کے خلاف پاکستان اور افغان مجاہدین کی مزاحمت ناکافی ہے اور ان کو مزید افرادی قوت کی اشد ضرورت ہے۔ سی آئی اے نے رضاکاروں کے ساتھ ساتھ ڈالرز پر جنگجو خریدنے کا فیصلہ کیا۔
سی آئی اے کو پاکستان اور افغانستان میں کئی ایسے مقامی کنٹریکٹرز (ٹھیکیدار) مل گئے جنہوں نے منہ مانگے معاضے پر ان کو جنگجو فراہم کرنے شروع کردئیے۔
ان کنٹریکٹرز میں تین لوگوں کو زیادہ شہرت ملی۔
حامد کرزئی، ایمل کانسی کا باپ اور ملک میرزالم وزیر (علی وزیر کا باپ)
ایمل کانسی کے باپ اور ملک میرزالم وزیر نے سی آئی اے کو بلوچستان خاص طور پر ژوب اور وزیرستان سے منہ مانگے معاؤضے پر جنگجو فراہم کرنے شروع کیے۔ سی آئی اے کی طرف سے ان کنٹریکٹرز کو پیسے بھی ملتے تھے اور جہاد میں حصہ لینے کے لیے اسلحہ بھی۔ البتہ یہ تھا کہ اس تمام پراسیس پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس رکھنا بہت مشکل کام تھا۔ نتیجے میں نہ صرف یہ کنٹریکٹرز اپنی من مانیاں کررہے تھے بلکہ بھرپور کرپشن بھی۔
جس کی خبریں بہرحال سی آئی اے کو مل جاتی تھیں۔
کرپشن کرنے والوں میں سب سے زیادہ بدنام ایمل کانسی کا باپ ہوا۔ سی آئی اے نے کنٹریکٹریز کو سبق سکھانے کے لیے ایمل کانسی کے باپ کو قتل کر دیا۔ یوں باقیوں کو ایک خاموش پیغام دے دیا کہ سدھر جاؤ۔ یاد رہے کہ سی آئی اے نے کبھی اس قتل کی تردید نہیں کی تھی کیونکہ پیغام پہنچانا مقصود تھا۔
ایمل کانسی بنیادی طور پر ضدی طبعیت اور بہادر شخص تھا۔ اس نے سی آئی اے سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ان سے روابط کی وجہ سے نہ صرف اس کے لیے امریکہ آنا جانا آسان تھا بلکہ ان کے ہیڈ کواٹر اور اعلی عہدیداروں تک سے وہ واقف تھا۔
ایمل کانسی نے امریکہ میں سی آئی اے سنٹر کے سامنے ان کے دو ڈائکرکٹرز مار دئیے اور واپس آگیا۔
یہ عالمی سطح پر سی آئی اے کی بہت بڑی بدنامی اور شکست تھی۔ اب وہ دور شروع ہوچکا تھا جب افغانستان میں لڑنے والی تنظمیوں نے امریکہ کو بھی ایک دشمن کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
ان سب کے لیے ایمل کانسی ایک ہیرو بن گیا۔
سی آئی اے نے اپنی مکمل مشینری ایمل کانسی کے پیچھے لگا دی کیونکہ یہ ان کی عزت پر بہت بڑا سوالیہ نشان بن گیا تھا۔ ایمل کانسی پاکستان اور افغانستان کی سرحدی پٹی پر کچھ عرصہ تک چھپا رہا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آچکی تھی اور وہ امریکہ سے کسی قسم کا تعاؤن نہیں کرتے تھے۔ تاہم پاکستان میں پشاور میں سی آئی اے نے ایک ماچس کی فیکٹری سے بھاری معاؤضے کے عوض معاہدہ کیا۔ انہوں نے ماچس کی ڈبیوں پر ایمل کانسی کی تصاویر لگوانی شروع کر دیں کہ اس شخص پر اتنا اتنا انعام ہے۔
ایمل کانسی کو خطرات محسوس ہوئے تو وہ وہاں سے بھاگ کر اپنے باپ کے درینہ دوست ملک میرزالم وزیر کے پاس پہنچا اور اس سے پناہ کی درخواست کی۔ ایمل کانسی تین ماہ تک ملک میرزالم ( علی وزیر کا باپ) کے گھر روپوش رہا۔
امریکی سی آئی اے نے کوششیں جاری رکھیں۔ جب کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو انہوں نے انعام کی رقم تیس ملین ڈالر کر دی۔ اب یہ اتنا بڑا انعام تھا کہ کسی کا بھی ایمان ڈگمگا جاتا۔ ملک میرزالم نے انعام حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
اس نے ایمل کانسی کو راضی کیا کہ وہ اس کو ژوب کے راستے ڈیرہ غازی خان لے کر جائیگا اور وہاں سے کراچی۔ کراچی گنجان آباد شہر ہے جہاں وہ آرام سے چھپ کر رہ سکتا ہے۔ اس نے ایمل کانسی کو شالیمار ہوٹل میں ٹہرایا۔ سی آئی اے اور متعلقہ لوگوں سے رابطے کیے۔ اس ڈیل میں اس وقت کی حکومت نواز شریف بھی کود پڑا۔ اس وقت کا آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت بھی اس ڈیل کا حصہ بن گیا۔ ایمل کانسی کو سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔
تاہم کچھ لوگوں کے بقول ملک میرزالم کو گلہ رہا کہ اصل کام اس نے کیا لیکن انعام کا بڑا حصہ نواز شریف اور جہانگیر کرامت لے گئے۔
علی وزیر کے باپ ملک میرزالم وزیر کی اس حرکت پر ایک امریکی اٹارنی رابرٹ ایف ھورن نے اپنا مشہور زمانہ جملہ کہا کہ "یہ لوگ ( پاکستانی) 20 ہزار ڈالر کے لیے اپنی ماں بیچ سکتے ہیں ان کو ملین ڈالرز دینے کی کیا ضرورت تھی؟"
تاہم ملک میرزالم وزیر کے اس کارنامے کے بعد افغان جنگجؤوں اور افغان مسلح تنظمیوں کے دل میں ان کے لیے جو نرم گوشہ تھا وہ ختم ہوگیا بلکہ اس کی جگہ نفرت نے لے لی۔ ان دنوں طالبان کی امریکہ کے ساتھ ٹینشن عروج پر تھی۔ پھر نائن الیون ہوگیا۔ طالبان کے لیے معروضی حالات خراب تھے اس لیے وہ کچھ نہ کر سکے۔
تاہم نائن الیون کے کچھ ہی عرصے بعد قبائیلی علاقوں میں شورش شروع ہوئی۔ افغانستان جنگ شروع ہوئی تو ایمل کانسی کو ہیرو سمجھنے والے اور امریکہ سے برسرپیکار مسلح تنظمیں اور ان کے لوگ فاٹا اور وزیرستان وغیرہ میں داخل ہونے شروع ہوئے اور یہ لوگ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکے تھے۔
اس شورش زدہ ماحول میں ان لوگوں کے لیے میرزالم وزیر اور اس کے خاندان کو نشانہ بنانا آسان ہوگیا۔
وزیرستان کے مقامیوں کے مطابق اس میں کچھ کردار علی وزیر کی ڈرون حملوں کے لیے سی آئی اے کو معاؤنت فراہم کرنے کا بھی تھا۔
یہ سچ ہے کہ ڈالرز کی اس جنگ میں یا پراکسیز کو کیش کرنے کی کوشش میں ملک میرزالم وزیر سمیت علی وزیر کے خاندان کے بہت سے لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔ عارف وزیر بھی شائد اسی پراکسی کا نشانہ بنا ہے۔
علی وزیر کی پاک فوج کو گالیوں سے قطع نظر اس کو یہ اچھی طرح پتہ ہے کہ اس کے خاندان کے حقیقی قاتل کون ہیں اور وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔ علی وزیر یہ بھی جانتا ہے کہ خود اس کی جان کو بھی شدید خطرہ ہے۔
فرض کریں پاکستانی ادارے عارف وزیر کے قتل میں ملوث ہوں تو ان کو اس کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟؟
حالیہ دورہ افغانستان میں اس نے پاکستان کے خلاف جو زہریلی تقریر کی اس کے بعد تو پاکستانی ادارے اس کو ہاتھ بھی نہ لگائیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اب ایک بچہ بھی اس کا الزام اداروں پر لگائیگا۔
عارف وزیر اتنی بڑی چیز بھی نہیں تھی نہ اس کی کوئی اہمیت تھی کہ اس کو نشانہ بنایا جاتا۔ عارف وزیر کی نسبت منظور پشتین، محسن داؤڑ، وحید کاکڑ، بشری گوہر اور افرسیاب خٹک کو نشانہ بنانا زیادہ آسان ہوتا اور ان کی موت حقیقت میں پی ٹی ایم کو نقصان پہنچاتی۔
جیسا کہ میں نے اوپر کہا کہ فاٹا اور وزیرستان میں تو مجاہدین کا کوئی ٹریننگ کیمپ تک نہیں بنایا گیا تھا۔ ان علاقوں میں دہشت گردی لانے والے ملک میرزالم وزیر جیسے کنٹریکٹریز ہی تھے۔ جن کے لیے امریکی نے طعنہ مارا تھا کہ یہ لوگ پیسوں کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔