عافیہ صدیقی

Shahidlogs سے

عافیہ صدیقی کی کہانی، وہ کون ہیں اور کیا واقعی عافیہ صدیقی کو افواج پاکستان نے بیچا ہے؟

اس مضمون میں اس کا تفصیلی جواب ہے۔

عافیہ صدیقی ایک ماہر نیورالوجسٹ تھیں ۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزارا اور وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں ۔ اس نے دو شادیاں کی ہیں جن میں پہلی شادی پسند کی تھی۔

امریکہ کا دعوی ہے کہ "انہیں القاعدہ سے تعلقات کے شبے میں پکڑا گیا ہے۔ خالد شیخ محمد نے دوران تفتیش انکا نام لیا تھا اور وہ القاعدہ کے لیے رقوم بھی منتقل کرتی تھیں۔ گرفتاری کے بعد قید کے دوران اسنے امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر ان پر فائرنگ کی ۔ جسکی وجہ سے انہیں سزا سنائی گئی۔ "

( یہ امریکی الزامات ہیں آپ نظر انداز کر سکتے ہیں)

آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوال

مشرف نے کب اور کہاں عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ بیچنے کا اعتراف کیا ہے؟

کتاب میں کون سے صفحے پر اور کہاں؟

اس سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔

اب آتے ہیں اصل مضمون پر

یہ بات قطعاً جھوٹ ہے کہ عافیہ صدیقی ہی بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 تھیں۔

معظم بیگ وہ شخص ہے جس کے بیان پر عافیہ کو قیدی نمبر 650 بنا دیا گیا۔

مگر معظم بیگ فروری 2002 میں بگرام جیل لایا گیا، اور پھر اسکے ایک سال بعد ٹھیک 2 فروری 2003 کو وہ بگرام سے گوانتاناموبے کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔

جبکہ عافیہ اسکے دو مہینے بعد تک کراچی میں اپنی فیملی کے ساتھ موجود تھیں اور وہ یکم اپریل 2003 کو روپوش ہوئیں۔ جبکہ معظم بیگ جس قیدی عورت کے چیخنے کی آوازیں سننے کی بات کرتا تھا، وہ تو معظم بیگ سے بھی پہلے جیل میں موجود تھی۔

تو اب کوئی عقلمند یہ بتا سکتا ہے کہ پھر صدیقی فیملی، مس ریڈلی اور قوم کے دانشوران نے سالہا سال کی عافیہ کیس پر تحقیق کے بعد بھی عافیہ کو قیدی نمبر 650 کیوں بنا کر پیش کرتے رہے؟

درحقیقت عافیہ صدیقی کی امریکنز کے ہاتھوں گرفتاری 2008ء کے بعد ہوئی جس وقت مشرف کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔ اس دوران یہ اپنے ماموں شمس الدین، مفتی ابولبابہ شاہ منصور اور مفتی رفیع عثمانی سمیت کئی لوگوں سے رابطے میں رہیں اور اسی دوران اس نے القاعدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیار بھی بنانےکی کوشش کی۔

22 مئی 2009 کو امت اخبار میں عافیہ کے سابق شوہر ڈاکٹر امجد کا طویل انٹرویو شائع ہوا ہے جس سے معلوم ہوا کہ عافیہ نے اپنی روپوشی کا ڈرامہ خود رچایا تھا۔ اس انٹرویو کے چیدہ چیدہ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

1۔ عافیہ جنونی کیس ہے۔

2۔ عافیہ اگر جہادی تنظیموں کی ممبر نہیں تھیں، مگر پھر بھی عافیہ کے جہادی تنظیموں سے رابطے تھے، اور خالد شیخ گروپ سے بھی رابطے تھے، امریکہ میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ نیو ہمپشائر میں گروپ کے ساتھ کیمپنگ کیا کرتیں جس کا مقصد جہاد کی تیاری تھا جس میں پانچ چھ بار وہ خود لے کر گئے۔ نیز انہوں نے نائٹ ویژن اسکوپ اور دو بلٹ پروف شکاری جیکٹس، سی فور دھماکہ خیز مواد بنانے کے مینوئل وغیرپ خریدے جس کی وجہ فطری دلچسپی اور شکار بتائی اور ان کی خرید و فروخت ممنوع نہیں تھی ملک سے باہر لے جانا ممنوع تھا۔

3۔ جب پہلی مرتبہ امریکی اداروں نے ان کا انٹرویو لیا تو عافیہ نے جان بوجھ کر ان ادارے والوں سے جھوٹ بولنا شروع کر دیا، حالانکہ تمام چیزں بینک سٹیٹمنٹ وغیرہ کے ذریعے ثابت تھیں اور ناقابل انکار تھیں (یعنی بلٹ پروف جیکٹیں اور نائٹ ویژن اسکوپ وغیرہ۔ جب ڈاکٹر امجد نے اس کی وجہ پوچھی تو عافیہ کہنے لگیں کہ کافروں کو انکے سوالات کے صحیح جوابات دینا جرم ہے اور ان سے جھوٹ بولنا جہاد۔ [پتا نہیں پھر وہ کافروں کے ملک امریکہ گئی ہی کیوں تھیں]

4۔عافیہ کے اس جھوٹ کے بعد ڈاکٹر امجد اور عافیہ امریکہ میں مشتبہ ہو گئے اور انہیں امریکا چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔

5۔ پاکستان شفٹ ہونے کے بعد عافیہ نے ڈاکٹر امجد کو افغانستان میں جہاد پر جانے کے لیے لڑائی کی اور نہ جانے کی صورت میں طلاق کا مطالبہ کیا۔

6۔ دیوبند مکتبہ فکر کے مشہور عالم مفتی رفیع عثمانی نے عافیہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بات نہ بنی۔

7۔ بہرحال طلاق ہوئی۔ مگر ڈاکٹر امجد بچوں سے طلاق کے بعد سے لیکر اب تک نہیں مل سکے ہیں۔ وجہ اسکی عافیہ اور اسکی فیملی کا انکار ہے۔ یہ ایک باپ پر بہت بڑا ظلم ہے جو بنت حوا اور اسکے حواریوں کی جانب سے کیا گیا اور ابھی تک کیا جا رہا ہے۔

8۔ 2003 میں عافیہ نے خالد شیخ کے بھانجے عمار بلوچی سے دوسری شادی کر لی تھی، مگر اسکو خفیہ رکھا گیا، ورنہ قانونی طور پر بچے ڈاکٹر امجد کو مل جاتے۔

9۔ 2003 میں ہی خالد شیخ کو پکڑا گیا، اور وہاں سے چھاپے کے دوران ملنے والے کاغذات سے پتا چلا کہ عافیہ کا اس گروپ سے تعلق ہے اور یہ کہ وہ خالد شیخ کے بھانجے سے دوسری شادی کر چکی ہیں اور نکاح نامہ پر انکے دستخط ہیں۔ عمار بلوچی کے خاندان والوں نے بھی اسکی تصدیق کی، مگر صدیقی خاندان مستقل طور پر جھوٹ بولتا رہا کہ عافیہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ بعد مین عافیہ نے عدالتی کاروائی کے دوران خود اس دوسری شادی کی تصدیق کی۔

10۔عافیہ خفیہ طور پر 5 دن کے لیے امریکہ گئیں اور وہاں پر خالد شیخ کے ساتھی ماجد خان کے لیے اپنے شوہر ڈاکٹر امجد کے کاغذات استعمال کرتے ہوئے ایک عدد پوسٹ بکس کو کرائے پر لے لیا۔ ڈاکٹر امجد کی تحریر کے مطابق انہیں اس پوسٹ باکس کا علم تھا نہ عافیہ کے اس 5 دن کے خفیہ دورے کا۔

11۔ سن 2003 میں خالد شیخ کے پکڑے جانے کے بعد عافیہ بہت خطرے میں آ گئی اور خالد شیخ کے گروہ اور عافیہ نے بہتر سمجھا کہ وہ روپوش ہو جائیں کیونکہ انکا تعلق خالد شیخ سے ثابت تھا اور پھر خالد شیخ کے بھانجے عمار بلوچ سے شادی کرنے کے بعد اور امریکہ میں غیر قانونی طور پر ماجد خان کے لیے پوسٹ بکس باکس لینے کے بعد یہ یقینی تھا کہ ایف بی آئی انکا پیچھا کرتی۔

12۔ چنانچہ ڈاکٹر عافیہ نے باقاعدہ طور پر اپنی روپوشی کا ڈرامہ کھیلا۔

روپوش تو عافیہ 31 مارچ سے کچھ دن پہلے ہی ہو چکی تھی، مگر پھر عافیہ نے اپنی فیملی کو فون کر کے بتایا کہ وہ باقاعدہ ساز و سامان باندھ کر کراچی سے اسلام آباد اپنے ماموں سمش الدین واجد صاحب کے پاس جا رہی ہیں۔

مگر پھر راستے میں روپوش ہو گئیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں اس روپوشی کا جواز بھی دینا تھا کیونکہ ڈاکٹر امجد بچوں سے ملنے کی خاطر عافیہ کے خلاف قانونی کاروائی کر رہے تھے۔ اس لیے اس روپوشی کا جواز یہ بنایا گیا کہ عافیہ کو ایجنسی کے لوگ ہی بچوں سمیت اغوا کر کے لے گئے ہیں۔

یوں عافیہ نہ صرف ڈاکٹر امجد سے بچ گئیں، بلکہ ان کے خاندان والے بھی ان سوالات سے بچ گئے کیونکہ اس دوران عافیہ کا نام گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔

13۔ مگر ڈاکٹر امجد نے عافیہ کے غائب ہو جانے پر یقین نہیں کیا، اور خاندان کی درزن اور دو اور لوگوں نے اسکے بھی عافیہ کو کراچی میں دیکھا، اور داکٹر امجد لکھتے ہیں کہ انہوں نے ان لوگوں کو بطور گواہ عدالت میں بھی پیش کیا۔

14۔ لیڈی صحافی ریڈلی نے دعوی کیا عافیہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ہے۔ مگر مس ریڈلی نے یہاں چیٹنگ کی اور یہ بالکل صاف اور سیدھی سی بات تھی کی عافیہ قیدی نمبر 650 نہیں ہو سکتی کیونکہ معظم بیگ 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانا موبے منتقل ہو چکا تھا جبکہ عافیہ اسکے دو مہینے بعد 31 مارچ 2003 کو روپوش ہوئی۔

15 سب سے بڑا ثبوت: عافیہ کا 2008 میں اپنے ماموں شمس الدین واجد کے گھر نمودار ہونا ھے-

ڈاکٹر امجد لکھتے ہیں دو بڑے انگریزی اخبارات میں انہیں ایک دن شمس الدین واجد [عافیہ کے ماموں] کا بیان پڑھنے کو ملا جس سے انہیں شاک لگا۔ شمس الدین واجد کہتے ہیں کہ سن 2008 میں عافیہ ان کے گھر ایک دن اچانک نمودار ہوئی۔ اور تین دن تک رہی۔

ڈاکٹر امجد نے پھر بذات خود شمس الدین واجد صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے تفصیلات طلب کیں۔ شمس الدین واجد صاحب نے جواب میں انہیں باقاعدہ ای میل تحریر کی ہے جو کہ بطور ثبوت ڈاکٹر امجد کے پاس موجود ہے۔ شمس الدین واجد صاحب کے مطابق انہوں نے عافیہ کی ماں کو بھی وہاں پر بلایا اور انکی بھی عافیہ سے ملاقات ہوئی۔

مزید یہ کہ عافیہ نے کھل کر نہیں بتایا کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ ہے، مگر اس دوران میں شمس الدین واجد صاحب کو عافیہ کی ناک پر سرجری محسوس ہوئی جو زخم کی وجہ سے تھی یا پھر شکل تبدیل کرنے کی غرض سے، بہرحال عافیہ پورے عرصے نقاب کا سہارا لیتی رہی اور کھل کر سامنے نہیں آئی۔

پھر عافیہ نے اپنے ماموں سے ضد شروع کر دی کہ وہ انہیں طالبان کے پاس افغانستان بھیج دیں کیونکہ طالبان کے پاس وہ محفوظ ہوں گی۔ مگر ماموں نے کہا کہ انکے 1999 کے بعد طالبان سے کوئی رابطے نہیں ہیں اور وہ اس سلسلے میں عافیہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ اس پر عافیہ تیسرے دن وہاں سے غائب ہو گئی۔

گمان غالب ہے کہ ان کو امریکنز نے افغانستان میں ہی گرفتار کیا تھا جہاں وہ جانے کے لے بےتاب تھیں۔

------------------------------------------------------------------

حقیقت یہ ھے کہ عافیہ نے یہ کھیل امریکی گرفت اور سابقہ خاوند کو بچوں سے دور رکھنے کیلئے کھیلا اور وہ اس پورے عرصے کے دوران خالد شیخ کے گروہ یا کسی اور جہادی گروہ کی مدد سے روپوش رہی، اور اسی گروہ کے لوگ عافیہ کے گھر والوں کو اس عرصے میں فون کر کے عافیہ کی خیریت کی خبر دیتے رہے۔

نیز واجد شمس الدین کی گواہی کے مطابق جس عافیہ سے سن 2008 میں ملے تھے، وہ اپنے پورے ہوش و حواس تھی۔ جبکہ بگرام کی قیدی 650 اپنے ہوش و حواس کھو چکی تھی۔ اس حقیقت کے بعد قیدی نمبر 650 کی حقیقت بالکل واضح ہو چکی تھی مگر افسوس کہ یہ فوج دشمنی ھے کہ جس کی وجہ سے یہ لوگ ابھی تک قیدی نمبر 650 کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اپنے ہی ادارے پر تہمتیں لگائے جا رہے ہیں۔

"عافیہ کے بچے تمام عرصے عافیہ کے پاس تھے":-

عافیہ کے ساتھ اسکا بیٹا احمد موجود تھا جس کے متعلق پکڑے جانے پر عافیہ نے جھوٹ بولا تھا کہ احمد اسکا بیٹا نہیں بلکہ احمد مر چکا ہے اور تمام عرصے وہ احمد کو علی حسن بتلاتی رہی۔ مگر ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہو گئی کہ وہ احمد ہی ہے۔ نیز احمد اپنی ماں کو عافیہ کے نام سے نہیں جانتا تھا، بلکہ صالحہ کے نام سے جانتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ عافیہ اس پورے عرصے کے دوران اپنی آئڈنٹیٹی تبدیل کر کے صالحہ کے نام سے روپوشی کی زندگی گذارتی رہی-!

تو اب سچ کو بے نقاب ہو جانا چاہیے۔ اگر مشرف پر قوم کی بیٹی بیچنے کا الزام ہے تو اس کو سزا ہو جائے، لیکن اگر یہ فقط تہمت ہے تو اس میڈیا پر ایک آدم کے بیٹے پر یہ مسلسل اور نہ ختم ہونے والی تہمت کے دہرانے پر جتنی بھی لعنت کی جائے وہ کم ہو گی۔

کیا یہ کہنا درست نہیں کہ عافیہ کیس میری قوم کی جذبات میں آ کر اندھا ہو جانے کی بدترین مثال ہے کہ جہاں قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور اُسے جذبات میں کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔

عافیہ صدیقی والی پوسٹ پر تند و تیز سوالات اور فتووں کے جواب میں کچھ سوالات میں بھی پوسٹ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ عافیہ صدیقی کے حامیوں کے پاس ان کے جوابات ضرور ہونگے۔


1 ۔۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے عافیہ صدیقی کا نام مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا۔ امریکہ میں لاکھوں پاکستانی مقیم تھے جنہیں کسی قانونی جواب دہی میں ملوث نہیں کیا گیا۔ ایم آئی ٹی کی گریجوئیٹ نیورولوجسٹ عافیہ صدیقی کو ملوث کرنے اور مارچ 2003ء میں مطلوب ترین فرد قرار دئے جانے کے محرکات کیا تھے؟

2 ۔۔  2003ء  میں عافیہ صدیقی کو امریکی اداروں نے القاعدہ کی پیغام رسان قرار دیا۔ نائن الیون کی مالی معاونت میں بھی ان کا نام آیا۔ ان پر دہشت گردی سے متعلقہ الزامات کی فہرست طویل تھی۔ لیکن ان پر مقدمہ صرف بگرام ایئر بیس پر امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں چلایا گیا۔ کیا امریکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے کچھ حقائق چھپانا چاہتا تھا؟

عافیہ صدیقی کی گشمدگی پر تفصیلی مضمون

3 ۔۔۔ کیا ان افواہوں میں کوئی وزن ہے کہ عافیہ صدیقی امریکی سی آئی اے اور القاعدہ کے لئے ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کر رہی تھیں؟

4 ۔۔۔ پاکستان میں الزام لگایا جاتا ہے کہ عافیہ صدیقی کو پرویز مشرف کی حکومت نے ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا۔ اب پرویز مشرف کو اقتدار سے محروم ہوئے نو برس ہو چکے ہیں۔ محب وطن عناصر کو تحقیق کرنی چاہیے کہ مشرف حکومت نے کب اور کہاں عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے سپرد کیا؟

5 ۔۔۔ عافیہ صدیقی کے اہل خانہ کے مطابق عافیہ صدیقی کو مارچ 2003 میں اغوا کیا گیا۔ امریکی اطلاعات کے مطابق عافیہ صدیقی کو افغان حکام نے جولائی 2008 میں غزنی (افغانستان) کے مقام پر گرفتار کیا۔ عافیہ صدیقی کے 2003 سے 2008 تک کے پانچ برس کے بارے میں اطلاعات نہایت متضاد ہیں۔ کیا 2003ء میں  پاکستان میں ان کے اغوا یا گرفتاری کا مقدمہ درج کرایا گیا۔ اگر ہاں تو اس ضمن میں کوئی دستاویزی رپورٹ؟

6 ۔۔۔ پاکستان میں کچھ صحافی عافیہ صدیقی کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ وہ 2003 سے عافیہ صدیقی کی بازیابی کے لئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ کیا یہ صحافی 2008 سے پہلے اپنی کسی تحریر کا حوالہ دے سکتئے ہیں جس میں عافیہ صدیقی کا ذکر کیا گیا ہو؟

7 ۔۔ پاکستان میں کچھ سیاسی جماعتیں عافیہ صدیقی کی واپسی کو اپنا نصب العین قرار دیتی ہیں۔ کیا ان جماعتوں نے 2003ء سے 2007ء تک کبھی عافیہ صدیقی کی بازیابی کا مطالبہ کیا؟ یہ سلسلہ 2008 کے بعد شروع ہوا اور صرف عین الیکشن کے دنوں میں ہی یاد آتا ہے۔ ہے نا؟

8 ۔۔۔ پاکستان کے نامور جیالوجسٹ شمس الرحمن فاروقی  (عافیہ صدیقی کے ماموں) نے ایک سے زائد مرتبہ بیان دیا کہ عافیہ صدیقی 22 جنوری 2008ء کو ان سے ملنے اسلام آباد آئی تھیں۔ اور دو روز تک ان کے ساتھ ٹھہری تھیں۔ تب وہ زیر حراست نہیں تھیں۔ کیا عافیہ صدیقی کے بارے میں متحرک صحافیوں اور سیاسی جماعتوں نے اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی ساحب سے کبھی رابطہ کیا اور انہیں عوام کے سامنے لائے؟ قوم کی بیٹی کےغیرت مند بھائیوں نے اس قسم کی کوئی زحمت کیوں نہیں کی؟

9 ۔۔۔ کچھ اطلاعات کے مطابق عافیہ صدیقی نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لینے کے بعد خالد شیخ (نائن الیوں کے مبینہ ماسٹر مائینڈ)  کے بھانجے ابو عمار البلوچی سے شادی کر لی تھی۔ عافیہ صدیقی نے حامیوں نے ابو عمار البلوچی کے بارے میں کبھی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ ابو عمار البلوچی اس وقت گوانتا نامو بے کے قید خانے میں اسیر ہیں۔ اگر عافیہ صدیقی اور ابو عمار البلوچی نے شادی کر رکھی ہے تو عافیہ صدیقی کو وطن لانے کی صورت میں ابو عمار البلوچی کے بارے میں عافیہ کے حامیوں کا موقف کیا ہو گا؟

10 ۔۔۔ مارچ 2003ء میں عافیہ صدیقی کے تین بچے تھے جو ان کے اہل خانہ کے مطابق ان کے ساتھ ہی اغوا کئے گئے۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کی کوششوں سے عافیہ صدیقی کا سب سے بڑا بچہ 2008 میں افغانستان سے پاکستان لایا گیا تھا۔ یہ بچہ 2008 میں گیارہ برس کا تھا اور اب اٹھارہ برس کا ہو چکا ہے۔ اس بچے کو کبھی ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ یہ بچہ عافیہ صدیقی کے 2003ء سے 2008  تک کے پانچ برس کے بارے میں براہ راست معلومات دے سکتا ہے؟ اسے روپوش رکھنے میں کیا مصلحت ہے؟

11 ۔۔۔ عافیہ صدیقی کے اہل خانہ، ان کے حامی صحافیوں اور سیاسی جماعتوں نے کبھی عافیہ صدیقی کے دوسرے دو بچوں کے بارے میں آواز نہیں اٹھائی۔ وہ بچے کہاں ہیں؟ کیا ان بچوں کی بازیابی کا مطالبہ منطقی نہیں؟

12 ۔۔۔ عافیہ صدیقی نے دوران سماعت عدالت کو پیش کش کی کہ وہ طالبان اور امریکی حکومت میں مصالحت کروا سکتی ہیں۔ عافیہ صدیقی نے یہ پیش کش کس بنیاد پر کی؟ ان کے حامیوں نے اس بارے میں کبھی وضاحت کیوں نہیں کی؟

13 ۔۔۔ عافیہ صدیقی کے سابقہ شوہر امجد خان کراچی میں مقیم رہے ہیں۔ کیا پاکستانی اداروں نے عافیہ صدیقی کے بارے میں براہ راست معلومات لینے کے لئے کبھی ان سے رابطہ کیا؟ کیا عافیہ صدیقی کے سابق شوہر اپنے کراچی میں موجود بیٹے کے ساتھ رابطے میں ہیں؟  عافیہ صدیقی کے حامی صحافی اور سیاسی جماعتیں امجد خان کے موقف کو درخور اعتنا کیوں نہیں سمجھتے؟

14 ۔۔۔ پاکستان میں کچھ عناصر کا خیال ہے امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کو عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تبادلہ کر لینا چاہیے۔ اس مطالبے کی قانونی یا سیاسی بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ عافیہ صدیقی کے مبینہ جرائم کا اعتراف ہو گا؟

جوابات کا منتظر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!