جے یو آئی کا منفی کرادر

Shahidlogs سے

قیام پاکستان کے وقت ہندو اور مسلمان آمنے سامنے تھے۔ تب فضل الرحمن کے اکابرین ہندؤوں کے طرف دار تھے۔ بلکہ گاندھی کو اللہ کی بھیجا ہوا مسیحا اور جنتی تک قرار دیتے تھے۔

ایوب خان کےسنہری دور میں یہ ایوب خان کے بڑے مخالفین میں سے تھے۔ ایوب خان کی مخالفت میں فاطمہ جناح کو سپورٹ کیا۔ حیرت انگیز طور پر ایوب خان کے خلاف ہر اس شخص نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا جنہوں نے قائداعظم کو 'کافر اعظم' کہا تھا اور پاکستان کی مخالفت کی تھی۔  

بھٹو جیسے سیکولر فاشسٹ کے خلاف مودودی کی قیادت میں اسلامی تحریک منظم ہوئی تو اس تحریک کا ساتھ دینے کے بجائے انہوں نے نعرہ لگایا کہ ”ایک مودودی سو یہودی” اور پھر بھٹو کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ سوشلزم (مارکسزم) کو تقویت دینے کے لیے فضل الرحمن کے باپ مفتی محمود نے فتوی داغا کہ ”اسلامی سوشلزم جائز ہے” نعوذ بااللہ

انہی دنوں مفتی محمود نے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ 'شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے۔'

بھٹو کی سیکولر بیٹی نے جنرل ضیاء جیسے کٹر اسلامی ذہن رکھنے والے جرنیل کے خلاف ایم آر ڈی نامی تحریک منظم کی تو فضل الرحمن کی جماعت فوراً اس کے جھنڈے تلے کھڑی ہوگئی۔

اسی دوران روس کے خلاف تقرییاً تمام عالم اسلام جہ-اد کے لیے امڈ آیا۔ فضل الرحمن جو اس دوران مصر کی جامعہ الازہر نامی نیم سیکولر 'جامعہ' سے ڈگری لے کر آچکا تھا اس جہاد کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور اسے ” ڈالر ج-ہاد” قرار دے کر رد کر دیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے فضل الرحمن نے دوبارہ افغان ج-ہاد کو ڈالر ج-ہاد قرار دیا تھا اور جے یو آئی کے مولانا شیرانی بھی اسے بارہا ڈالر ج-ہاد کہہ چکے ہیں۔

کوئی بتا سکتا ہے کہ فضل الرحمن کو پڑھانے کے لیے دارلعلوم دیوبند کے بجائے جامعہ الازہر جیسے بدنام اور نیم سیکولر ادارے کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ شائد اس لیے کہ موصوف طاغوت وقت کے ساتھ نبھاہ کرنے کا ہنر پختہ کرسکیں۔

1988ء میں جب دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل آئیں تو مولانا صاحب بے نظیر کی کابینہ میں پائے گئے۔

جب بےنظیر دوسری بار اقتدار میں آئیں اور ط-ال-بان کو سپورٹ کرنے لگیں تو مولانا نے فتوی جاری فرمایا کہ عورت کی حکمرانی شرعاً جائز نہیں۔ تب بےنظیر نے ان کو ایران سے ڈیزل منگوا کر افغانستان سپلائی کرنے کے کے پرمٹ جاری کیے۔ نہ صرف فوراً بےنظیر کے قدموں میں بیٹھ گئے بلکہ ڈیزل کے دھندے میں دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے لگے۔ اسی پر ن لیگ والوں نے غصۓ میں آکر فضل الرحمن کو 'مولانا ڈیزل' کا لقب دیا جو ان کی شناخت بن گیا۔

1993ء میں انہی ڈیزل پرمٹس کے بدلے میں جماعت اسلامی کی بے نظیر کے خلاف مہم کو غیر موثر کیا۔

دوبارہ ن لیگ اقتدار میں آئی تو فضل الرحمن ان کے ساتھ ہوگئے۔ 1998ء میں نواز شریف کی خواہش پر فضل الرحمن نے پارٹی راہنما اجمل قادری کو اسرائیل کے خفیہ دورے پر بھیجا۔ موصوف کو وہاں وی آئی پی پرٹوکول ملا اور یروشلم کے صدارتی سویٹ 4 دن قیام فرمایا۔ دورے کا مقصد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ اجمل قادری صاحب اس خفیہ دورے کی تصاویر بھی جاری کرچکے ہیں۔

پھر مشرف آیا تو اس کے ساتھی بن گیا فرینڈلی اپوزیشن کی شکل میں۔ 2002ء میں فضل الرحمن نے انڈیا کے دورے میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کے بجائے کشمیر کے جہ-اد کو دہشت گردی قرار دے دیا اور مسئلہ کشمیر کو ہندو مسلم قومیت کا مسئلہ قرار دینے کے بجائے علاقائی تنازع قرار دے ڈالا۔ جس پر خوب شور اٹھا۔ لال مسجد والے واقعے میں اس خود ساختہ ملاؤوں کے امام کا کردار صفر رہا اور دوران آپریشن پاکستان سے بھاگ کر لندن پہنچ گیا۔ آپریشن ہوا تو واپس آکر حکومت کےخلاف ایک زوردار تقریر فرمائی جس کو اس کے پیروکار آج بھی شئیر کر کے فخر کرتے ہیں۔

کشمیر کمیٹی کے چیرمین بنائے گئے تو انڈیا نے کشمیری مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی۔ فضل الرحمن کے دور میں کشمیر کا مسئلہ اتنا پس منظر میں چلا گیا کہ اقوام متحدہ نے اسکو متنازعہ ایشوز کی فہرست سے ہی نکال دیا۔ پاکستانی میڈیا سے یہ مسئلہ تقریباً غائب ہوگیا تھا۔ فضل الرحمن کے دور میں ہی انڈیا نے کشمیر میں ہندوؤں کی آباد کاری شروع کر دی لیکن مولانا جن کا کام ان سب معاملات پر آواز اٹھانا اور اس کو عالمی سطح پر اجاگرکرنا تھا لسی پیتے رہے اور صرف لسی کی مد میں سالانہ 40 سے 50 لاکھ کے بل قومی خزانے میں بھیجتے رہے۔

جب ٹی-- ٹی پی اور پاک فوج آمنے سامنے آئی تو فضل الرحمن نے پاک فوج کو اپنے نشانے پر لے لیا اور ڈٹ کر پاک فوج کی مخالفت کی لیکن ٹی ٹی پی کے ہلاک شدگان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے اور ان کی شہادت کے فتوے صادر فرماتے رہے۔ جب کسی نے اعتراض کیا تو فرمایا کہ 'امریکہ کتا بھی مارے تو شہید ہے۔' وہی امریکہ جس کے خلاف بیان دینے پر عمران خان کے خلاف اسمبلی میں قرارداد پیش کی۔

جب زرداری جیسا کرپٹ سیکولر پاکستان پر مسلط ہوا تو یہ ملا اسکے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے اس کا اتحادی بن گیا۔ جب پوری قوم الطاف حسین کو گالیاں دے رہی تھی تو مولانا فضل الرحمن اس کو حکومتی اتحاد میں شامل کرنے کے لیے منا رہے تھے۔ جب پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اسفند یار ولی جیسی سیکولر قوتیں بکھر رہی تھیں تو مولانا ان کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

زرداری نے ہی امریکہ کو پاکستان پر ڈرون حملے کرنے کی باقاعدہ اجازت دی اور معاہدہ کیا۔ اس معاہدے پر فضل الرحمن نے بھی دستخط کیے اور سلیم صافی کے پروگرام میں اس اسکا اعتراف بھی کیا۔ ان ڈرون حملوں میں کم از کم 900 بےگناہ قبائیلی جانبحق ہوئے۔ اس کی صفائی دیتے ہوئے فضل الرحمن نے فرمایا کہ بےشک ہم نے دسختط کیے لیکن میں نے پارلیمنٹ میں ڈرون حملوں کے خلاف تقریر کی تھی۔

جب پانامہ والے معاملے میں پوری قوم نواز شریف کے احتساب کا مطالبہ کر رہی تھی تو مولانا ڈٹ کر نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ کرپشن ہمارا مسئلہ نہیں۔ یعنی اگر نواز شریف لٹیرا ہے تو بھی اس کا ساتھ دینا فرض ہے کیونکہ اس نے فضل الرحمن کو دو تین وزارتیں دے رکھی ہیں۔

نواز شریف نے انہی دنوں بیان دیا کہ "ہم پاکستان کو لبرل بنائنگے۔" اس کے بعد فضل الرحمن مزید ڈٹ کر نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ کوئی حکومت کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔

پھر نواز شریف نے ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں تبدیلی کی۔ اس قانون سازی پر بھی فضل الرحمن اور جے یو آئی نے دستخط کیے جس کے بعد فضل الرحمن سعودی عرب تشریف لے گئے۔ لیکن شیخ رشید نے بھانڈہ پھوڑ دیا تو پول کھلنے پر فضل الرحمن نے فرمایا کہ 'پوری پارلیمنٹ سے مشترکہ گناہ سرزد ہوا ہے سب توبہ کریں۔' ۔۔ ذرا سرزد کے لفظ پر غور کریں جیسے غلطی سے کچھ ہوا ہو۔ حالانکہ یہ کئی دن کے غور و خوض کے بعد کی جانے والی تبدیلی تھی جس کے باقاعدہ ڈرافٹس تیار کیے گئے تھے۔ ویسے اگر یہ گناہ فضل الرحمن کے سوا کوئی اور کرتا تب بھی کیا فضل الرحمن اس کو توبہ کی ہی نصیحت کرتا اور اس کی توبہ قبول کر لیتا؟

فضل الرحمن قومی مفاد کے ہر اس منصوبے کی مخالفت کی جس میں پاکستان یا پاکستانی قوم کا کوئی بھی مفاد پوشیدہ ہو مثلآً ۔۔۔

پورے پاکستان کی ضرورت کالا باغ ڈیم کے خلاف ہیں اور مزے دار بات یہ ہے کہ خود ہی اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ” ہمیں علم نہیں کہ اس کا کیا نقصان ہے۔ ہم نے تو سرخوں (اےاین پی) کو دیکھ دیکھ کر مخالفت شروع کی تھی ۔"

پاک افغان سرحد پر باڑ کی مخالفت،

افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی مخالفت،

فاٹا انضمام کی مخالفت،

بائیو میٹرک ووٹنگ کی مخالفت،

عمران خان کے آنے سے پہلے کسی نے فضل الرحمن سے پوچھا کہ آپ کو اتحاد کی پیشکش کرے تو آپ اتحاد کرینگے؟

تو فضل الرحمن نے جواب میں فرمایا کہ 'اندازوں پر بات نہیں کرنی چاہئے' یعنی وہ تیار بیٹھے تھے کہ عمران خان کی حکومت بنے اور دیگر حکومتوں کی طرح فضل الرحمن نامی سیاسی طوائف کو ساتھ لے لینگے۔ لیکن خان ثابت ہوا ٹیڑھا بندہ اور اس نے اعلان کیا کہ 'ڈیزل' کے بغیر حکومت چلا کر دیکھاؤنگا اور اس نے کر دکھایا۔

جس کے بعد عمران خان اس کا دشمن نمبر ایک اور مغرب کا پکا ایجنٹ بن گیا۔ لیکن جب عمران خان ڈٹ کر مغرب کے سامنے بھی کھڑا ہوگیا اور روس یوکرین جنگ میں اعلان کر دیا کہ ہم کسی کی سائیڈ نہیں لینگے اور امریکہ کو افغانستان کے خلاف اڈے دینے کے سوال پر 'ایبسلوٹلی ناٹ' کہہ دیا تو فضل الرحمن نے اسمبلی میں باقاعدہ عمران خان کے خلاف قرار داد پیش کی کہ اس نے مغرب کو ناراض کیا ہے۔

فضل الرحمن اور اسکے کئی ساتھیوں پر زنا اور ہم جنس پرستی کے الزامات بھی سوشل میڈیا کی زینت بنے۔ خاص طور پر گومل یونیورسٹی میں مفتی صلاح الدین کا سکینڈل جس کو اقرارلحسن نے رنگے ہاتھوں پکڑا تو اس نے بیان دیا کہ مجھے شیطان نے ایسے بہکایا جیسے حضرت آدم کو بہکایا تھا۔ ویسے فضل الرحمن نے بھی دعوی کیا تھا کہ مجھے آزادی مارچ کے لیے حضرت آدم علیہ السلام نے ٹیلی فون کیا تھا۔ یہ مفتی صلاح الدین نہ صرف فضل الرحمن کے دست راست تھے بلکہ اکرم درانی کے بھی۔ اس پر چھاپہ اس لیے پڑا تھا کہ یہ لڑکیوں کو بلیک میل کر کے اکرم درانی کے فارم ھاؤس لے کر جایا کرتا تھا جہاں اکرم درانی کے ساتھ ساتھ فضل الرحمن کا بھی خوب آنا جانا تھا۔

فضل الرحمن کے حوالے سے فیض الحسن چوہان نے ٹی وی پر آکر کہا تھا کہ یہ عادی شرابی ہے اور اتنی شراب پیتا ہے کہ اگر اس کے بلڈ ٹسٹ میں الکوحل نہ نکلے تو میرا سر کاٹ دیں۔ فضل الرحمن نے آج تک اس چیلنج کو قبول نہیں کیا۔

فضل الرحمن کی المصطفی ٹاور کی کہانی بھی سوشل میڈیا پر زبان زدعام ہے کہ اس نے ایف 10 مرکز کے المصطفی ٹاور کی تیسری منزل پر داشتہ رکھی ہوئی تھی۔ اس کے دوسرے ساتھی مفتی کفایت اللہ کے ساتھی علماء مفتی شمس وغیرہ ایک بچے کے ساتھ زیادتی کرتے پکڑے گئے تو مفتی کفایت نے فضل الرحمن کا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات پر پابندی لگوائی۔ کیونکہ مانسہرہ میں مقامی لوگوں میں یہ بات گردش کر رہی تھی کہ پکڑے گئے علماء مدرسے کے یہ بچے مفتی کفایت سمیت دیگر علماء کو بھی سپلائی کرتے تھے۔ بچے کے ڈین این اے ٹسٹ میں بھی ان ظالموں کا جرم ثابت ہوا۔ اسی طرح لاہور میں انکا ایک سینیر عالم مفتی عزیزالرحمن بھی رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔

انہی کے ایک سینیر ساتھی منظور مینگل کا بیان آپ سن لیجیے کہ اپنے مدارس اور وہاں کے غسل خانوں میں ہونے والے کرتوتوں کے بارے میں کیا فرما تے ہیں۔ دو دن پہلے پارلیمنٹ لاجز میں ہنگامہ کرنے والے ایک اور مفتی صلاح الدین کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے ایک 14 سالہ لڑکی خرید کر اس سے شادی کی تھی۔ جس پر اس کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹی تھی۔

یہ علماء کے بھیس میں بدکردار، کرپٹ اور طاغوت کے ایجنٹوں کا ٹولہ ہے۔ اس کی باطل پرستی، بغض کینہ اور بداخلاقی ضرب المثل ہے۔ بات مشہور ہے کہ ” باطل کو شناخت کرنا ہو تو دیکھو کہ مولانا فضل الرحمن کہاں کھڑے ہیں۔ جس طرف فضل الرحمن کھڑے ہوں وہی باطل ہوگا۔"

ان کے زیر اثر مدارس میں اپنے اندھے بہرے پیروکار تیار کرتے ہیں۔ پھر ان کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہی شادولہ کے چوہے جب ان کے حق میں بیان دیتے ہیں تو اسی کو اپنے حق میں دلیل بناکر کہتے ہیں کہ ۔۔

'دیکھو جی اتنے علماء اس کی پیروی کر رہے ہیں تو وہ غلط کیسے ہوسکتا ہے؟'

باپ کے پاس پانچ سے دس کنال زمین تھی جس کو فضل الرحمن نے 26 ہزار کنال پر پہنچا دیا۔ نہ صرف فرنٹ مین رکھے ہیں بلکہ فرنٹ مینوں کے فرنٹ مین بھی رکھے ہیں۔ نیب نے اس جائدار کی وضاحت طلب کی تو فرمایا کہ اپنے تنظیم انصار السلام کے ساتھ جاؤنگا نیب کو جواب دینے۔ یعنی کھلی بدمعاشی کا اعلان کیا۔

قوم پرستی کے جھنڈے تلے پاکستان بھر کے لبرلز کھڑے ہوگئے تو جے یو آئی نے 'عصبیت' کے حق میں فتوے دینے شروع کر دئیے اور اس کی تاویلیں کرنے لگے۔