افغانستان کی پاکستان میں مداخلت

Shahidlogs سے

افغانستان پاکستان بننے سے قبل بھی اس خطے میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک ان کی یہ مداخلت جاری ہو ساری ہے۔ اس کی وجہ سے بلوچستان، پاکستان کے قبائیلی اضلاع اور کے پی میں دہشتگردی ہوتی رہی جس کے مراکز ہمیشہ افغانستان رہا۔

قیام پاکستان سے قبل

افغانوں نے کس کس طرح پشتونوں کا خون بہایا اور کیسے کیسے پشتونوں کو بار بار دھوکہ دیا حتی کہ افغانی ہونا پشتونوں میں دھوکے کا استعارہ بن گیا۔ آئیں آج آپ کو اس کی کچھ جھلکیاں دیکھائیں۔

نوٹ ۔۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے خلاف افغانستان کی ہر سازش اور کاروائی کو پشتونوں کے خلاف کاروائی لکھا جائیگا۔ کیوںکہ پاکستان بھر میں پشتون اچھی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان پر پشتون ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں حکومت کرتے ہیں اور پاکستان دنیا بھر میں پشتونوں کا سب سے بڑا ملک ہے۔

1۔ ہر محب وطن پشتون کو افغانی پہلا طعنہ رنجیت سنگھ کا دیتے ہیں۔ لہذا اسی سے آغاز کرتے ہیں۔

پشاور پر رنجیت سنگھ کا باقاعدہ قبضہ افغانوں کے ہی مرہون منت ہے۔

سن 1823ء میں پشاور کے گورنر نے رنجیت سنگھ کو کچھ تحفے بھیجے جس پر اس وقت کا افغان حکمران اعظم خان طیش میں آ گیا. اعظم خان کی افغان فورسز نے پشاور کا رخ کیا اور ساتھ ہی اس نے جہاد کے نام پر قبائیل سے مدد مانگی۔ جس پر پشاور کے یوسفزئی، خٹک اور دیگر قبائل نے لبیک کہا.

ادھر سے سکھ فوج گورنر پشاور کی مدد کو پہنچ گئی۔ نوشہرہ میں پشتونوں اور سکھوں کے لشکر کا آمنا سامنا ہوا اور جن افغانوں کے لیے جنگ لڑی جا رہی تھی وہ میدان جنگ سے تین میل دور کھڑے ہو کر نظارہ کر رہے تھے۔

جنگ ہوئی تو ایک سخت معرکے کے بعد سکھوں کے ہاتھوں پشتونوں کو شکست ہوئی اور جس افغان حکمران اعظم خان کے لیے جنگ لڑی جارہی تھی وہ وہیں سے بھاگ کر واپس کابل پہنچا۔ لیکن اس شکست کے بعد سکھوں نے براہ راست پشاور پر قبضہ کر لیا۔

2۔ سن 1835 میں دوبارہ ایک افغان حکمران دوست محمد اپنے لشکر سمیت پشاور پہنچ گیا۔ دوست محمد قرآن پر قسم کھا کر آیا تھا۔ ایک بار پھر پشتونوں سے مدد مانگی گئی اور پھر بہت سے قبائل لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لڑائی شروع ہوئی اور سکھوں نے افغان فورسز کا گھیراؤ کر لیا تو دوست محمد راتوں رات اپنا لشکر چھوڑ کر واپس کابل فرار ہوگیا۔

افغان لشکر تتر بتر ہوگیا اور ایک بار پھر مقامی پشتون اور قبائیلی پشتون سکھوں کے ہاتھ سے قیمہ بنے۔

یہ دوست محمد نادر خان، طاہر شاہ اور سردار داؤود کا پڑ دادا تھا جن کے "کارنامے" آگے آئنگے۔

3۔ افغانی ہمیشہ بنوں اور وزیرستان کو اپنا ماتحت علاقہ خیال کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ کے خلاف افغانوں کی مدد کے لیے یہاں سے بھی لوگ گئے تھے۔ جس کے جواب میں جب ان پر رنجیت سنگھ نے حملہ کیا تو کسی ایک افغان کی ہمت نہ ہوئی کہ مدد کو آتا۔

4۔ رنجیت سنگھ لیکن یہاں قبضہ نہ کرسکا۔ تاہم اس وقت کے افغان حکمرانوں کو خیال گزرا کہ رنجیب سنگھ کی ناکامی پر کہیں مقامی وزیرستانی اور بنوں وغیرہ کے پشتون خود کو آزاد نہ سمجھ لیں۔ انہیں اپنا مطیع کرنے کے لیے ان ظالم افغانوں نےان پر دو تین سخت حملے کیے لیکن منہ کی کھائی۔ تاہم سینکڑوں پشتونوں کا خون بہانے میں کامیاب رہے۔

5۔ افغانوں کو جب بھی انگریزوں سے خطرہ محسوس ہوا انہوں نے فوراً ڈیورنڈ لائن کے اس طرف کے پشتونوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکایا، لڑوایا اور مروایا۔ خاص طور پر وزیرستان کے پشتونوں کو۔

لیکن خود ہمیشہ انگریزوں سے دوستی کا دم بھرا۔ ان سے وظیفے لیتے رہے اور جب سر ماٹیمر ڈیورنڈ پشتونوں کے سودے کے لیے افغانستان پہنچا تو افغانیوں نے اس کو اکیس توپوں کی سلامی دی۔ گویا شادی کی بارات میں آیا ہو۔

6۔ سن 1919 میں افغان حکمران امان اللہ روس کے ایما پر انگریزوں سے مکمل خود مختاری کے لیے جنگ چھیڑ دی۔ عین اس وقت جب انگریز فوجیں افغانوں سے لڑ رہی تھیں افغانوں نے ڈیورنڈ لائن کے اس پار پشتونوں کو اشارہ کیا۔ بہت سے قبائیلوں نے افغانوں کی مدد کے لیے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر لی اور یہاں پر انگریز فوج کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس بغاؤت سے گھبرا کر انگریزوں نے افغانیوں کو صلح کی دعوت دے دی۔

افغانوں نے فوراً صلح کر لی اور نیتجے میں افغانستان بڑی حد تک انگریز سے آزاد ہوگیا۔ یعنی افغانستان کی آزادی یہاں کے پشتونوں کی مرہوں منت تھی۔ اس کے لیے امان اللہ نے مقامی قبائیلوں کا شکریہ ادا کیا بلکہ کچھ کو تمغے بھی دیے۔

لیکن انگریز نے افغانستان سے فارغ ہونے کے بعد مقامی قبائیلوں کو اس بغاوت کا خوب مزہ چھکایا۔ گاؤں کے گاوں بمباری میں ملیامیٹ کر دئیے اور اس وحشیانہ کاروائی پر افغان حکومت جن کے لیے یہ بغاؤت کی گئی تھی بلکل چپ رہی بلکہ ایک احتجاج تک نہ کیا۔

7۔ اس کے بعد کمیونسٹ (سرخہ) امان اللہ نے افغانستان میں زبردستی سیکولرازم کے نفاذ کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بغاؤت ہوگئی اور بچہ سقہ کابل پر قابض ہوگیا۔ امان اللہ بھاگ گیا۔ تو نادر خان نے افغانستان کا تخت حاصل کرنے کے لیے پھر مقامی قبائل اور پشتونوں سے مدد مانگی۔ وزیر، محسود، بیٹنی، بنوچی غرض بہت سے قبائیلی حسب معمول مدد کو پہنچ گئے اور نادر خان سے فرمائش کی کہ فتح کی صورت میں آپ امان اللہ کو حکومت دینگے اور ہمیں کچھ زمینیں اور بندوقیں وغیرہ دینگے۔

اس نے فوراً وعدہ کر لیا بلکہ قرآن پاک پر قسم بھی کھائی۔

ایک بار پھر کابل قبائلی پشتونوں کے خون سے رنگین ہوگیا۔ لیکن بہرحال فتح حاصل ہوگئی۔

جس کے بعد نادر خان نامی افغان حکمران اپنے تمام وعدوں سے پھر گیا اور قبائیلی پشتونوں کو خالی ہاتھ اور نامراد واپس آنا پڑا۔

یہ نادر خان دوست محمد کا پوتا ہے جس کا شروع میں تذکرہ آیا تھا اور جس کی رنجیت سنگھ کے خلاف قسم کھانے کا حال آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔

8۔ سن 1941 میں جب داوڑ قوم کا ایک قبیلہ انگریزوں کی بمباریوں اور حملوں سے ناک تک آ گیا. تو اس قبیلے کچھ لوگوں نے افغانستان ہجرت کی. لیکن انہیں اس احسان فراموش افغان حکومت نے زبردستی بے یار و مددگار واپس بھیج دیا۔ اسی حکومت نے جس کے لیے وہ کابل میں لڑے تھے اور اپنی جانیں دی تھیں۔

9۔ حکومت افغانستان نے قیام پاکستان سے ایک سال پہلے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ اب جبکہ انگریز جا رہا ہے تو صوبہ سرحد کو افغانستان سے ملاپ کی اجازت دی جائے (یاد رہے یہ پختونستان کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ افغانستان میں صوبہ سرحد اور بلوچستان کی شمولیت کا مطالبہ تھا جو آجکل سرخے کر رہے ہیں)

10۔ جب قیام پاکستان کے وقت سرحد کے مسلمانوں اور قبائیلیوں کو انگریزوں نے انڈیا یا پاکستان میں رہنے کے آپشن دیے اور ریفرنڈم کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت یہاں پر باچا خانیوں کی حکومت تھی۔ انہوں نے پشتونوں کو حق خود ارادیت دینے کی پزور مخالفت کی۔

جب اس پر بات نہ بنی تو افغانستان سے ہدایات لینے والے ان باچاخانیوں نے "لروبر" کا نعرہ لگا دیا۔ انہوں نے بنوں میں ایک جرگہ کیا جس میں مطالبہ کیا کہ ریفرنڈم میں " افغانستان " کے ساتھ شامل ہونے کا آپشن بھی ہونا چاہئے۔

باچاخانی سرخوں نے کوشش کی کہ یا پشتونوں کو افغانستان میں شامل کر دیا جائے یا پشتون ہندوستان کی غلامی قبول کر لیں۔ جس پر مسلم لیگ کچھ پشتونوں کا وفد لے کر وہاں گیے جہاں ہندو مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہے تھے جس کے بعد پشتونوں نے باچاخان اور ڈاکٹر خان کی یہ فرمائشیں یکسر مسترد کر دیں۔

11۔ یہ بات بھی نہ بنی تو باچاخانیوں نے اس ریفرنڈم میں ایک تیسرا آپشن ایڈ کرنے کا مطالبہ کیا چلیں پھر ہمیں " آزاد پشتونشتان" دیا جائے۔ تاہم اس وقت یہ آپشن رد کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریفرندم سے چند ماہ قبل جب انگریز نے خود ڈاکٹر خان کو یہ مشورہ دیا کہ آپ پشتون نیشنلزم کی بنیاد پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں تو ڈاکٹر خان نے اولف کیرو کی اس تجویز کو انڈین نیشنلزم کے نام پر رد کر دیا تھا۔ یعنی کہ ہندوستانیت پشتونیت سے بڑھ کر ہے۔ لیکن بعد میں جب ان سرخپوشوں کو یقین ہو گیا کہ ہندوستان کے ساتھ کسی بھی طور الحاق ممکن نہیں اور نہ ہی پشتون افغانیوں کے زیر سایہ جانا چاہتے ہیں تو انہوں نے یکا یک پختون نیشنلزم کا نعرہ لگا دیا۔

12۔ افغانیوں اور باچاخانیوں نے دعوی کیا کہ اگر پاکستان کے حق میں تیس فیصد ووٹ بھی پڑ گئے تو ڈاکٹر خان وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے۔ 17 جولائی کو جب ریفرنڈم کا نتیجہ آیا تو اس کے مطابق پاکستان کے حق میں پشتونوں کے 292،118 جبکہ ہندوستان کے حق میں صرف 2874 ووٹ پڑے۔ ریفرنڈم کے نتائج کو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے تسلیم کیا۔ لیکن افغانیوں نے ان نتائج کو رد کر دیا۔ ساتھ ہی باچا خان اور اس کا بھائی ڈاکٹر خان اپنے استعفی دینے کے وعدے سے بھی مکر گئے۔

13۔ اسی عرصے میں غنی خان نے افغانستان کے اہم دورے کیے اور پاکستان بننے سے قبل ہی پاکستان کے خلاف " پشتون زلمی " کے نام سے تحریک منظم کرنے کا فیصلہ ہوا اور حسب معمول تحریک کے لیے افغانیوں نے دوبارہ وزیرستان کے لوگوں سے مدد اور افرادی قوت مانگی۔

قیام پاکستان سے سقوط ڈھاکہ تک

14۔ تیس ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔

ستمبر سن 47 میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔

قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا۔

15۔ باچاخانی سرخوں نے پشاور، چارسدہ اور مردان چھوڑ کر بنوں میں لوئے افغانستان یا پشتونستان کے حق میں جرگہ کیوں کیا تھا؟

یہ چالاک سرخوں کا بہت بڑا کھیل تھا۔ وزیرستان کے پشتون ان کے ہمیشہ سے "آزمودہ" رہے ہیں  ہمیشہ ان کی پکار پر لبیک کہنے والے۔ انہیں پتہ تھا کہ فقیر ایپی کا مرکز بنوں کے بالکل قریب مغرب میں شمالی وزیرستان ہے۔ فقیر ایپی کے افغانیوں اور ان کے ذریعے روس سے روابط بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہ تھے۔

مرزا علی خان یا فقیر ایپی کے حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ سادہ مزاج شخص تھا اور سیاسی مکاریوں سے بےبہرہ تھا۔ اس کو استعمال کرنا بے حد آسان تھا۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد افغانستان نے ان کے پاس اپنے گماشتے بھیجے اور دوسری طرف بنوں اور چارسدہ سے بھی افغانی سرخپوش ایجنٹ ایک کے بعد ایک ایپی فقیر کے مرکز گورویک پہنچنا شروع ہو گئے. یہ سب ایپی فقیر کو پاکستان کے خلاف بغاؤت پر اکسانے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ اگر فقیر ایپی وزیرستان یا فاٹا کو پاکستان سے کاٹتا ہے تو نئی بننے والی مملکت کی سربراہی کا لالچ بھی۔

بلاآخر ایپی فقیر نے ایک آزاد مملکت بنانے کا اعلان کر دیا۔ ماسکو، دھلی اور کابل نے اس کی خوب تشہیر کی. مارچ 1948 میں فقیر ایپی نے مولانا محمد ظاہر شاہ کی قیادت میں ایک وفد کابل بھیجا۔ وہاں افغانیوں نے اس وفد کی ملاقات بھارتی سفیر سے کرائی۔ جہاں پاکستان کے خلاف لائحہ عمل طے کیا گیا۔ اس ملاقات نے حکومت پاکستان اور ایپی فقیر کے درمیان ناچاقی اپنے انتہا پر پہنچا دی۔

16۔ کابل کی طرف سے پشتونستان کا نام نہاد سرکاری عملہ گورویک بھیجا گیا. عملے کے تمام ارکان کی تنخواہیں کابل ادا کرتا تھا. پریس لگایا گیا جہاں پراپگینڈے کے لیے مواد چھپتا تھا۔ پاکستان کو غیر اسلامی ریاست قرار دے دیا گیا۔ پریس کے ذریعے پاکستان مخالف اور پشتونستان کے حق میں مسلسل مواد چھپنا شروع ہوگیا۔ اس وقت کی ڈس انفارمیشن وار افغانستان نے وزیرستان کے اندر سے لانچ کی۔ افغانی سرخے فاٹا میں پمفلٹس اور پراپگینڈے پر مبنی خطوط یا پرچیوں کی تقسیم 1949ء سے کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کا آغاز کر دیا گیا۔ ایپی فقیر کے لشکر نے چن چن کر پاکستان کے حامی پشتون مشرانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔

افغانستان، انڈیا اور روس کی مکمل پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949ء میں پاکستان کے خلاف پہلی باقاعدہ گوریلا جنگ شروع کی۔ اس کے جنگجو گروپ کا نام غالباً "سرشتہ گروپ" تھا۔ اس کی کاروائیاں کوہاٹ تک پھیل گئیں۔

اسلام کے نام پر پاکستان میں یہ افغانی سرخوں کی پہلی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ مہم تھی جس میں ان کی مدد انڈیا اور روس بھی کر رہے تھے۔ وہی سرخے جو بظاہر خود کو عدم تشدد کے علمبردار ظاہر کرتے ہیں۔

17۔ جون 1949 کو ظاہر شاہ نے لویہ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بہت سخت باتیں کیں اور اعلان کیا کہ افغانستان قیام پاکستان سے قبل کے انگریز سے کئے گئے تمام معاہدے، مفاہمتیں اور سمجھوتے منسوخ کرنے کا اعلان کرتا ہے۔

18۔ ۔12 اگست 1949 کو ریڈیو کابل سے اعلان کیا گیا کہ تیراہ باغ میں آفریدی قبائل کا ایک جرگہ منعقد ہوا ہے جس میں پشتونستان نیشنل اسمبلی کا اعلان کر دیا گیا ہے. اس اسمبلی میں پشتونستان کے پرچم کی منظوری دی گئی۔

کچھ عرصہ بعد ریڈیو کابل سے ایک اور اعلان ہوتا ہے کہ آفریدی قبائل کا ایک اور جرگہ رزمک کے مقام پر بھی منعقد ہوا ہے جس میں فقیر ایپی کو جنوبی پشتونستان کا صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔

19۔ افغانستان میں پشتونستان کا پراپیگینڈا زور و شور سے جاری شروع کر دیا گیا۔ اسی دوران بھارت میں پشتونستان کے حوالے سے باقاعدہ تقریبات منعقد کی جانی شروع ہوئیں۔ اخبارات اور رسائل میں اس حوالے سے خصوصی مضامین شائع کئے گئے۔ فقیر ایپی کو جن میں پشونوں کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔

پاکستان کے خلاف اور پشتونستان کے حق میں بین الاقوامی سطح پر پراپیگینڈا کرنے کیلئے افغانستان میں ایک سپیشل وزارت قائم کی گئی. جس کا قلمدان وزیر اعظم سردار داؤد خان نے بذات خود سنبھالا۔ اس وزارت کا کام صرف قبائیلی پشتونوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔

ان دنوں یوں لگ رہا تھا گویا کم از کم وزیرستان کی حد تک پاکستان سے الگ ایک پشتونستان نامی ریاست بن چکی ہے جس کا کنٹرول افغانستان کے پاس ہے۔

20۔ اسی دوران افغانستان نے پاکستان کی پشتون پٹی پر کئی حملے کیے۔ ان حملوں کو خود پشتونوں نے ناکام بنایا۔ تاہم بہت سے پشتونوں کی جانیں گئیں۔

21۔ فقیر ایپی بلآخر افغانیوں کی دغا بازیوں، مسلسل جھوٹ اور پراپیگینڈے سے تنگ آگیا۔ اس کو احساس ہوا کہ وہ افغانیوں اور بھارتیوں کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہوتا رہا اور اس کو ایک لاحاصل کام میں لگایا گیا جس میں اس کے ہاتھوں بےگناہ پشتونوں کا خون بہا۔ فقیر ایپی نے اس کے بعد اپنے مرکز سے پشتونستان کا جھنڈا اتار دیا اور اس تحریک سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس کے بعد  فقیر کے جن  افغان ساتھیوں نے بارڈر پار سے پاکستان کے اندر کارروائیاں کیں فقیر نے خود ان کے خلاف کئی کئی مرتبہ لشکر کشی کی اور ان کے گھر اور املاک جلائے۔ یوں سمجھیں کہ دہشت گردوں کے خلاف پہلی " امن کمیٹی" بھی فقیر ایپی نے ہی بنائی۔

فقیر ایپی نے دوسلی کے مقام پر ایک بڑے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

بھائیو!

افغان حکومت نے اب تک مجھے سخت دھوکے میں ڈالے رکھا. اسلام کے نام پر مجھے بڑا فریب دیا. آئندہ اگر افغانستان میرے نام پر کسی قسم کا منصوبہ بنائے تو آپ نے ہرگز اس کا ساتھ نہیں دینا۔

اس کے بعد مرتے دم تک ایپی فقیر نے افغان حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں کئے۔

پاکستان نے فقیر ایپی کو عزت دی۔ اس کو اپنی تاریخ میں  جنگ آزادی کا ہیرو لکھا۔ کئی سڑکیں اس کے نام سے منسوب کیں۔ پی ٹی ایم اگر سرنڈر کرنے والوں کو تضحیک سے سلانڈرا کہتی ہے تو یاد رکھیں فقیر ایپی اولین سرنڈر کرنے والا شخص تھا جس نے پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ لڑی اور پھر توبہ کر لی۔

ساٹھ کی دہائی میں فقیر ایپی کے بیٹے کو بھی افغانستان نے لانچ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو کوئی خاص کامیابی نہ ملی۔ اس وقت کے امریکی سفیر برائے افغانستان کے ایک ڈی کلاسیفائیڈ خط کے مطابق اس کو بھی انڈینز اور افغانی سپورٹ کر رہے تھے۔

22۔ سن 48 میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنے جنہوں نے بلوچستان میں افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردانہ کاروائیاں کیں بشمول پشتون علاقوں کے۔

23۔ سن 1949 میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔

24۔ ۔ سن 50 میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔

25۔ افغانیوں کو ہمیشہ یہ خوش فہمی رہی ہے کہ پشتون ان سے ملنے یا افغانستان سے الحاق کے لیے بےتاب ہیں۔

اسی خوش فہمی میں انہوں نے ستمبر 1950ء میں اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کردیا۔ جس کا مقصد چمن تا تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا اور اس علاقے پر قبضہ کرنا تھا۔ لیکن وہاں پشتونوں نے مزاحمت کر لی جس پر بہت سے مقامی پشتونوں کو قتل کر دیا گیا۔

جس کے بعد افغان فورسز کو روکنے پاک فوج پہنچی۔ ایک ہفتہ جنگ جاری رہی۔ روس کے فراہم کردہ اس وقت کے جدید ہتھیاروں سے لیس افغان آرمی کے اس بھرپورحملے کو نوزائیدہ پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔ جو بعد افغان حکومت کی منتوں ترلوں پر اس کو واپس کر دئیے گئے۔

اس واقعہ پر وزیراعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا اور وارننگ دی کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔ یہی لیاقت علی خان وزیرستان بھی گیا تھا جہاں اس وقت فقیر ایپی کی بغاؤت جاری تھی اور پاکستان کے خلاف جہاد کو فرض قرار دیا جارہا تھا۔ لیاقت علی خان نے مقامی آبادی کو قائل کیا کہ پاکستان اسلامی ملک ہے جہاں پشتون خوشحال زندگی گزاریں گے۔

26۔ اس کے جواب میں 16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست (سرخے) دہشتگرد "سعد اکبر ببرج" مردود نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کرشہید کردیا۔ یہ قتل افغان حکومت کی ایماء پر ہوا تاہم عالمی دباو سے بچنے کے لیے افغانستان نے کسی بھی انوالومنٹ سے انکار کردیا۔

لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ جس کا اغاز افغانستان نے کیا اور جس میں ایک افغانی ملوث تھا۔

27۔ 6 جنوری 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر "شاہ ولی خان" نے بھارت کے اخبار "دی ہندو" کو انٹرویو دیتے ہوۓ یہ ہرزہ سرائی کی کہ "پشتونستان میں ہم چترال، دیر، سوات، باجوڑ، تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان کے علاقے شامل کرینگے۔ یہ لوگ ہمارے ساتھ (افغانستان میں) شامل ہونے کے لیے ہردم تیار ہیں۔"

28۔ 26 نومبر 1953 کو افغانستان کے کےنئے سفیر "غلام یحیی خان طرزی" نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس (سوویت اتحاد) سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ جواباً انہوں نے افغانستان کو مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔

29۔ سن 1954 میں ایپی فقیر کے گروپ کمانڈر " مہر علی " نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔ اسی مہر علی نے ریڈیو پاکستان پر پاکستان اور پشتونوں کے خلاف افغانی سرخوں کی سازشوں کی پوری تفصیل بھی بیان کی۔

30۔ 28 مارچ 1955, میں افغانستان کے صدر "داؤد خان" نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور کندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کردیا جس میں چن چن کر افغانستان میں موجود پاکستانی پشتونوں کو قتل کیا گیا۔ پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔

31۔ سن 55 میں افغانیوں نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پشتونوں میں پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا اور پشتونوں کو پاکستان سے الگ ہونے اور افغانستان سے ملنے کی تلقین کی جاتی تھی۔

یہ غالباً افغانستان کی پاکستان کے خلاف پشتونوں کو بھڑکانے کے لیے ایسی ڈس انفارمیشن وار تھی جس میں پہلی بار "نئی ٹیکنالوجی" استعمال کی گئی۔ اس کی جدید ترین شکل اس وقت ڈیوہ اور مشال ریڈیو ہیں جنہوں نے پی ٹی ایم کو جنم دیا اور اب سوشل میڈیا ہے جس میں پاکستان میں پناہ گزین ایک ایک افغانی پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ثواب سمجھ کر کرتا ہے۔

32۔ مئی 1955ء میں افغان حکومت نے دوبارہ افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔ جس پر پشتون جنرل ایوب خان نے بیان جاری کیا کہ " اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جائے گا جو وہ کبھی نہ بھول سکے گا"۔ ایوب خان کی دھمکی کے بعد وہ رک گئے۔

انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے سفیر "میخائل وی۔ ڈگٹائر" نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کرائی اور افغانیوں کو پشتون علاقوں پر چڑھائی کے لیے اکسایا۔

33۔ نومبر 1955ء میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجووں نے گروپس کی صورت میں بلوچستان کی 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی پردوبارہ حملہ کر دیا۔ پاک فوج سے ان مسلح افغانوں کی چھڑپیں کئی دن تک جاری رہیں اور آخر کار وہ بھاگ گئے۔ تاہم اس بار بھی افغانیوں کی فائرنگ اور گولہ باری میں بہت سے پشتون نشانہ شہید ہوگئے۔

34۔ مارچ 1960ء میں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری شروع کر دی۔ بہت سے پشتونوں کی جانیں گئیں اور گھروں کو نقصان پہنچا۔ جواباً پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی جس پر وہ گنیں اور مورچے چھوڑ کا بھاگ گئے۔

35۔ 28 ستمبر 1960 کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے پھر باجوڑ ایجنسی پر حملہ کیا اور مقامی پشتونوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوۓ واپس افغانستان میں دھکیل دیا۔ پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی جو مسلسل پشتون علاقوں میں دراندازی کی کوشش کر رہی تھی۔

36۔ سن 1960 میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ اس کی دہشتگردانہ کاروائیوں کا نشانہ پشتون اور بلوچ دونوں بنے۔

37۔ مئی 1961ء میں افغانستان نے باجوڑ، جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا۔

اس مرتبہ اس حملے کا مقابلہ فرنٹیر کور کے پشتونوں نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔ اس بار بھی افغانی کچھ پشتونوں کا خون پینے میں کامیاب رہے۔

38۔ سن 1965 میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر مہند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔

لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا تھا۔ اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈیو کابل پر افغانی حملے کے ساتھ ساتھ پشتونوں سے پاکستان کے خلاف افغانستان کا ساتھ دینے کی اپیل بھی کر رہے تھے کہ یہی موقع ہے پاکستان سے کٹ کر افغانستان میں شامل ہونے کا۔

39۔ 1961 میں پاکستان نے دریائے کنڑ پر حملہ کیا لیکن افغان حکومت نے فوری طور پر پاکستانی فوجیوں کو بھگا دیا۔

40۔ یہاں آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتائیں کہ 70ء میں بنگلہ دیش کا مسئلہ عروج پر تھا اور اس وقت جنرل یحیی خان کو مدہوش رکھنے والی مشہور طوائف اقلیم اختر عرف جنرل رانی بھی افغانی تھی۔ جس کے نواسے کا نام عدنان سمیع خان ہے جس نے بھارتی شہریت کے لیے پاکستانی شہریت ترک کی تھی۔

میجر عدنان سمیع خان بھی اصلاً افغانی ہے۔ 

41۔ 1971 میں جب کے جی بی انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کو دولخت کر رہی تھی تو اس کے ایجنٹ افغانستان میں بیٹھا کرتے تھے۔ اس وقت افغانی اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ دو ٹکڑے ہونے کے بعد اب پاکستان کے چار ٹکڑے ہونگے اور صوبہ سرحد اور بلوچستان ہمارے ہونگے۔

سقوط ڈھاکہ سے نائن الیون تک

42۔ 1972 میں اے این پی کے سرخوں خاص طور پر اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر دوبارہ پشتونستان تحریک کو منظم کرنے پر کام شروع کر دیا۔ تاہم اس وقت تک افغانستان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ مل کر "آزاد بلوچستان" تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر بھی افغانستان کی دہشت گردیاں جاری رہیں۔

43۔ سن 1973 میں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لیے "پشتون زلمی" کے نام سے نئی تنظیم سازی کی اور دوبارہ پشتونوں کو اس میں شامل ہونے کی پیش کش کی گئی۔

44۔ سن 1974 میں افغانستان نے " لوئے پشتونستان"  (درحقیقت لوئے افغاستان) کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔

45۔ فروری 1975ء میں افغان نواز تنظیم "پشتون زلمی" نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کردیا۔ (بحوالہ کتاب "فریب ناتمام" از جمعہ خان صوفی)

46۔ 28 اپریل 1978ء میں روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت "پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان" نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں فوجی بغاوت برپا کردی جسے "انقلاب ثور" کا نام دیا گیا۔

اس کے نتیجے میں صدر داؤد سمیت ہزاروں افغانوں کو بیدردی سے ہلاک کردیا گیا اور افغانستان پر سرخوں کی کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔ انقلاب کے ان لیڈروں میں صدر نجیب سب سے خون آشام ثابت ہوا جس نے اقتدار سنبھالتے ہی " لوئے پشتونستان" کی عام حمایت کا اعلان کردیا۔

اس انقلاب نے پشتون علاقوں میں دہشت گردی کا نیا خونی کھیل شروع کیا۔

47۔ 1979 میں خود افغانوں میں سے بہت سارے لوگ ان سرخوں کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہوگئے۔ جب یہ سرخے ہزاروں افغانیوں کو قتل کرنے کے باؤجود عوامی انقلاب نہ روک سکے تو ان افغان سرخوں نے روس کو خود اپنے ہی ملک پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔

لالچ یہ بھی دیا کہ آپ یہاں نہ رکنا۔ بلکہ پاکستان میں پشتون علاقوں کو روند دینا تو آگے گوادر کا گرم سمندر آپ کا متنظر ہے۔

48۔ 24 دسمبر 1979ء کو روس نے افغانی سرخوں کی دعوت پر افغانستان پر حملہ کردیا۔ روسی پورے افغانستان کو روندتے ہوئے تورخم بارڈر تک پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ دریائے سندھ کو اپنا بارڈر بنائیں گے۔ یعنی بلوچستان اور کے پی کے کو لے لینگے۔ افغانی سرخے ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔

49۔ روسی و افغان کمیونسٹ افواج نے افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بہت سے افغانیوں نے بھاگ کر پاکستان میں پناہ لی۔ جو رفتہ رفتہ پورے پاکستان میں پھیل گئے۔ پاکستان میں پناہ لینے والے افغانیوں نے کچھ ہی عرصہ بعد بجائے شکر گزار ہونے کے حسب معمول پشتون علاقوں پر اپنا حق جتانا شروع کر دیا۔ پشاور اور کوئٹہ میں تقریباً سارا کاروبار یہ مقامی پشتونوں سے چھین چکے ہیں۔ اس وقت یہ سارے "پناہ گزین" افغانی پاکستان کے اندر پاکستان مخالف تحریکیں چلوا رہے ہیں۔

50۔ 1980 میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ اسی تنظیم نے مبنیہ طور پر پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کو پاک فوج کے سترہ جرنیلوں سمیت شہید کیا اور پاکستان میں کئی دہشتگردانہ کاروائیاں کیں۔

لیاقت علی خان کے بعد یہ پاکستان کا دوسرا سربراہ مملکت تھا جس کو افغانی سرخوں نے نشانہ بنایا۔

یہی الذولفقار پاکستان کا ایک مسافر بردار طیارہ ھائی جیک کرکے کے افغانستان لے گئی تھی۔

51۔ افغانستان کے ساتھ ملکر روس نے کئی مرتبہ پاکستان کے پشتون علاقوں پر بمباریاں کیں۔ جب کہ کےجی بی اور خاد نے اے این پی اور الذولفقار کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی خاص طور پر پشتون شہید ہوئے۔

52۔ فروری 1994 میں چند افغان دہشت گردوں نے پشتون بچوں کی سکول بس کو یرغمال بنا لیا جس میں 60 بچے اور 6 خواتین ٹیچرز تھیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے کروڑوں روپے تاوان طلب کیا۔ پاک فوج کی ایس ایس جی کمانڈوز نے کامیاب اور تیز رفتار آپریشن کی مدد سے ان دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا اور کسی بچے کو گزند نہیں پہنچنے دی۔

یہ سکول بچوں کے خلاف افغانیوں کی پہلی کاروائی تھی۔ دوسری ہم نے اے پی ایس کی شکل میں دیکھی۔

53۔ 2000 میں کوئٹہ میں حملہ ہوا جس میں 6 لوگ شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ تحقیقات پر معلوم ہوا کہ حملہ آور افغانی تھے۔

نائن الیون سے آپریشن ضرب عضب تک

54۔ سن 2002 میں امریکہ نے افغانستان میں افغانی ملی اردو کے نام سے افغان فوج کھڑی کی اور ساتھ میں افغانستان کی پرانی ایجنسی خاد میں نجیب کے وفاداروں کو اکھٹا کر کے این ڈی ایس کی بنیاد ڈالی۔ پاکستان سے شدید نفرتے کرنے والے ڈاکٹر مجیب کے این پیروکاروں نے انڈین را کے ساتھ ملکر القاعدہ کی باقیات سے روابط قائم کرنے شروع کر دئیے اور "پاکستانی طالبان" کے نام سے پاکستان میں حملون کا آغاز کر دیا گیا۔

55۔ اسی سال انہوں نے پہلا حملہ دنیا میں پشتونوں کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک بس پر کیا جس میں 14 افراد شہید اور 40 زخمی ہوئے۔  دوسرا حملہ وہیں پر آگسٹآ آبدوز منصوبے پر کام کرنے والے فرانسیسی انجنیرز پر کیا جس میں 11 فرنچ انجنیرز ہلاک ہوئے۔

اگسٹا آبدوز منصوبہ پاکستان کو انڈیا کے خلاف سیکنڈ سٹرائیک کیپیبلٹی دیتا ہے۔ یعنی سمندر سے انڈیا پر ایٹمی حملہ کرنے کی صلاحیت۔ افغانی ایجنسی نے کوشش کی کہ پاکستان کا یہ منصوبہ ناکام ہوجائے۔

56۔ ساتھ ہی افغانستان نے اپنے ملک میں انڈین کونسل خانوں کی تعداد بڑھا کر ایک درجن سے زائد کر دی جو زیادہ تر پاک افغان سرحد کے قریب خاص طور پر فاٹا کے قریب تھے۔ پاکستانی سوال کرتے رہ گئے کہ وزیرستان یا فاٹا یا افغانستان کی سرحد پر کون انڈیا کے لیے ویزے لگوا رہا ہے جو یہاں آپ نے کونسل خانے قائم کر دئیے؟؟

ان کونسل خانوں کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان کی قبائیلی پٹی میں تیزی سے شروش پھیلنے لگی۔

57۔ 2003ء میں پاکستان کے صدر پرویز مشرف پر دہشتگردانہ حملہ ہوا۔ جس میں 11 لوگ جانبح ہوئے۔ حملہ آور پکڑے گئے۔ حملے کی تمام منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی تھی۔

یہ افغانستان کا پاکستان کے سربراہ مملکت پر تیسرا حملہ تھا۔ اس سے پہلے لیاقت علی خان اور جنرل ضیاءالحق کو بھی افغانستان نے ہی شہید کیا تھا۔

58۔ 2004ء میں این ڈی ایس کی سرگرمیاں مزید بڑھ گئیں اور اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور ملتان میں آٹھ بڑے حملے ہوئے۔ ان حملوں میں سو سے زائد افراد جانحق ہوئے۔ کوئٹہ اور کراچی میں جابحق ہونے والوں کی بڑی تعداد پشتون تھی۔

ایک ایک حملے کی تحقیقات کی گئیں اور سب کے تانے بانے افغانستان سے مل رہے تھے۔ اسی سال پہلی بار "پاکستان طالبان" کہلانے والے دہشت گرد گروہوں نے فاٹا میں مراکز قائم کرنے شروع کر دئیے۔

59۔ 2006 میں کراچی میں ایک بڑا خودکش حملہ کیا گیا جس میں 60 کے قریب افراد جانبحق ہوئے۔ وہ حملہ آور افغانی تھا۔

60۔ سال 2006ء میں ہی افغانستان نے امریکہ کے ساتھ ملکر " ڈیوا" کے نام سے ریڈیو سروس کا آغاز کیا۔ اس ریڈیو کا سارا عملہ افغانی سرخوں پر مشتمل تھا۔ انہوں نے فاٹا اور بلوچستان کے افغانستان سے ملحق پشتون علاقوں میں پشتونوں کو ریاست کے خلاف ورغلانہ شروع  کر دیا۔

61۔ اکتوبر 2007 میں کراچی میں بے نظیر کی ریلی پر بڑا حملہ ہوا۔ اس میں 180 لوگ شہید اور 500 کے قریب زخمی ہوئے۔ کراچی آبادی کے لحاظ سے پشتونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس حملے کے متاثرین میں بھی کافی تعداد پشتونوں کی تھی۔ تحقیقات کی نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ حملے کا ماسٹر مائنڈ القاعدہ راہنما فاحد محمد ایلی تھا۔

یہ القاعدہ کے اسی باغی گروہ کا کمانڈر تھا جس کو انڈین اور افغانی ایجنسیاں کنٹرول کر رہی تھیں۔

62۔ اسی سال مختلف ناموں سے متحرک دہشتگرد گروہوں کو تحریک طالبان پاکستان کے نام سے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے بیت اللہ محسود نے ایک جھنڈے تلے اکھٹا کر لیا۔

افواج پاکستان اس دوران ان دہشت گردوں کے خلاف چھوٹے چھوٹے آپریشنز کرتی رہی۔ جہاں آپریشن ہوتا دہشت گرد وہ علاقہ چھوڑ دیتے یا کچھ دن کے لیے افغانستان چلے جاتے۔

62۔ دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو اور آفتاب شیرپاؤ کو این ڈی ایس کے زیر کنٹرول ٹی ٹی پی نے دوبارہ نشانہ بنایا۔ اس بار بےنظری بھٹو کو قتل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان حملوں میں 24 ہلاکتیں ہوئیں۔

62۔ دہشت گردوں سے پاکستان کا درالخلافہ بھی محفوظ نہ تھا۔ لال مسجد کی شکل میں دہشت گرد اسلام آباد کے درمیان بیٹھ کر پاکستان اور پاک فوج کے خلاف جنگ کے فتوے جاری کرنے لگے۔ اسی سال لال مسجد میں موجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوا۔ اس میں 94 دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ ان میں سے آدھے افغانی تھے اور کچھ کا تعلق وزیرستان سے تھا۔

63۔ سال 2008 میں پورا پاکستان دہشتگردانہ حملوں سے گونجتا رہا۔ سب سے بڑا حملہ پشاور میں ہوا۔ مجموعی طو پر سینکڑوں لوگوں کی جانیں گئیں۔ افغان پراپگینڈا مشین یہ راگ الاپنے لگی کہ ڈاکٹر نجیب کی پیشن گوئی پوری ہوئی۔ وہ آج جو افغانستان میں لگی تھی پاکستان پہنچ گئی۔

(پہنچانے والی بھی یہی تھی اور افغانستان میں آگ لگانے والی بھی یہی سرخے تھے)

64۔ اسی سال واہ فیکٹری پر حملہ ہوا۔ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مولوی عمر ایک سال بعد ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ حملے کی منصوبہ بندی اور ٹاسک افغانستان سے ملا تھا۔

اس حملے میں 70 لوگ جانبحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ وہ فیکٹری ملازمین کی ایک بڑی تعداد پشتونوں پر مشتمل ہے۔

65۔ ستمبر 2008 میں اسلام آباد میریٹ ہوٹل پر حملہ ہوا جس میں 54 افرد جانبحق اور 266 زخمی ہوئے۔ اس حملے کے بعد اسلام آباد کے لیے کئی ممالک کی عالمی پروازیں بند کر دی گئیں۔

حملے کا مبینہ ماسٹر مائیڈ محمد عقیل کئی ساتھیوں سمیت پشاور سے گرفتار ہوا۔ تحقیقاتی اداروں کے سامنے اس نے اعتراف کیا کہ حملے میں افغان اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے اور یہ حملہ القاعدہ کی باقیات کے ساتھ ملکر کیا گیا۔ وہی القاعدہ باقیات جن کو این ڈی ایس اور را ملکر سپورٹ کر رہی تھیں۔

تاہم پاکستان کی باکمال عدالتوں نے اس مجرم کو 2010ء میں بری کر دیا کہ تفتیشی اداروں کے سامنے کے گئے اعتراف کی کوئی اہمیت نہیں۔

66۔ سال 2009ء میں افغانستان سے کنٹرول ہونے والی ٹی ٹی پی نے پاکستان بھر میں 500 سے زائد حملے کیے۔ یوں یہ سال سب سے خونی سال رہا۔ صرف پشاور کے دو حملوں میں 200 کے قریب لوگ جابحق ہوئے۔

سوات اور وزیرستان میں پشتونوں اور فوجیوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹبال کھیلا جاتا تھا۔

ایک کار بم حملے کے باعث پشاور کی پوری ایک مارکیٹ تباہ ہوگئی اور واقعے میں 125 افراد جانبحق ہوئے۔

67۔ اسی سال اطہرمن اللہ کی بہن ثمر من اللہ نے سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو جاری کی جس سے پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دؤڑ گئی اور پاک فوج سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ وہ اپنی پوری قوت فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف جھونک دیں اور مغربی سرحد ( انڈین بارڈر) چھوڑ دیں۔

وہ ویڈیو بعد میں جعلی ثابت ہوئی۔

اسی طرح ملالہ یوسفزئی نامی کردار سامنے آیا۔ جس کے ساتھ بی بی سی کے افغانی سرخے رابطے میں تھے۔ وہ جعلی ڈائریز لکھ کر بی بی سی پر نشر کرتی رہیں۔ جو درحقیقت دہشت گردوں کی کامیابیوں پر رننگ کمنٹری تھی۔

اسی سال پنڈی کی ایک پاک فوج کی ایک مسجد میں گھس کر تمام 40 نمازیوں کو شہید کر دیا گیا۔ جن میں کئی بچے بھی تھے جن کو لٹا کر ان کے سروں میں گولیاں اتاری گئیں۔ ان میں ایک حاضر سروس جنرل اور اس کے دو بیٹے بھی شامل تھے۔

اسی سال جی ایچ کیو پر حملہ کر کے جنرل کیانی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

پاک فوج پر فاٹا میں ایک بڑی اور فیصلہ کن جنگ کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا گیا۔ جو مسلسل اس کوشش میں تھی کہ ان کو فاٹا میں جنگ نہ کرنی پڑے اور مزاکرات یا کسی اور طریقے سے معاملات حل ہوجائیں۔

68۔ بلاآخر سال 2009ء میں پاک فوج نے سب سے پہلے سوات میں اور اس کے بعد جنوبی وزیرستان  میں دو بڑے آپریشن لانچ کیے۔ آپریشن راہ نجات اور راہ راست کے نام سے۔ اس میں سوات میں آباد پچیس لاکھ  پشتونوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر کے جنگ لڑی گئی۔ سوات کو دہشت گردوں سے صاف کر کے لوگوں کو واپس اپنے علاقوں میں آباد کیا گیا۔

افغانی سرخوں سمیت دنیا میں کسی کو امید نہ تھی کہ پاک فوج ان وادیوں میں داخل ہونے کے بعد واپس بھی جا سکے گی اور یہاں دوبارہ کبھی امن آسکے گا۔ فوج نے بے پناہ قربانیاں دیں اور صرف دو ماہ میں سارا سوات اور مالاکنڈ صاف کر دیا گیا۔ جنوبی وزیرستان کا بھی بڑا حصہ صاف کر دیا گیا۔

افغانیوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی تو انہوں نے ساری شمالی وزیرستان پر مرکوز کر لی۔

سوات آپریشن کے نیتجے میں بہت سے دہشت گرد بھاگ کر افغانستان چلے گئے جہاں ان کو کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کر دئیے گئے۔

پاکستانی ادارے مسلسل اور بار بار افغان اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ کی دہشت گردوں کے ساتھ ملی بھگت کی شکایات کرتی رہیں اور اس حوالے سے کئی بار شواہد فراہم کیے گئے لیکن افغان حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔

69۔ سوات اور وزیرستان آپریشن کے بعد پہلی بار دہشت گردوں کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر زائل ہوا۔ تاہم ان آپریشنز کا بدلہ این ڈی ایس کے دہشت گردوں نے عوام کو نشانہ بنا کر لینا شروع کر دیا اور عوامی اجتماعات پر حملے شروع کر دئیے۔

اس سال 400 سے زائد حملوں میں 1500 کے قریب لوگ نشانہ بنے جن میں بڑی تعداد پشتونون کی تھی۔

مہمند ایجنسی میں ایک جرگے کو نشانہ بنایا گیا جس میں 100 سے زائد لوگ شہید ہوئے۔

اسی طرح بنوں میں ایک والی بال کے میچ پر خودکش حملہ ہوا جس میں 101 لوگوں کی جانیں گئیں۔

لاہور میں دو خود کش حملوں میں 57 افراد کی جانیں گئیں۔

مئی میں لاہور میں ایک اور خود کش حملے میں 82 افراد جانبحق ہوئے۔

جولائی میں مہمند ایجنسی کے ایک بازار میں حملہ ہوا جس میں 105 افراد لقمہ اجل بنے۔

کوئٹہ میں اہل تشیع کے ایک جلوس پر حملے میں 68 افراد کی جانیں گئیں۔

درہ آدم خیل میں نماز پر خود کش حملہ کیا گیا اور 68 افراد شہید کر دئیے گئے۔

ڈیرہ غازی خان میں ایک صوفی بزرگ کے مزار پر حملے میں 50 افراد شہید ہوئے۔

چارسدہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر دو خود کش حملوں میں 98 افراد کی جانیں گئیں۔

ضلع خیبر میں نماز جمعہ پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں 43 افراد کی جانیں گئیں۔

تمام حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی۔ ان دنوں پاکستانی ایجنسیوں نے اطلاعات فراہم کیں کہ اب افغان ایجنسیاں صرف بم حملے پر نہیں بلکہ اس میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پر ٹی ٹی پی کو پیسے اور فنڈز جاری کرتی ہیں۔

70۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا بہت بڑا اجتماع ہوچکا تھا۔ ان دنوں کابل ٹی وی اور انڈین چینلز وزیرستان کو پاکستان سے الگ ایک آزاد ملک کے طور پر بیان کرتے تھے بلکہ اسلامی جمہوریہ وزیرستان جیسے نام بھی دیتے تھے۔

یاد رہے کہ یہ کام انہوں نے فقیر ایپی کے دور میں بھی کیا تھا۔

وزیرستان کا حال یہ تھا کہ وہاں پر باقاعدہ ایسے بازار کھل گئے تھے جن میں صرف دہشت گردی میں استعمال ہونے والی چیزیں بشمول خود کش جیکٹیں بک رہی تھیں۔ بعض مراکز میں مصنوعی جنتیں بنائی گئیں تھیں جہاں خود کش حملہ آؤروں کی تربیت ہوتی تھی۔

71۔ سال 2011/12ء میں ٹی ٹی پی نے پاکستان بھر میں 600 سے زائد حملے کیے۔ جن میں فاٹا کے بازاروں میں بم حملے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ مانسہرہ میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔

حسب معمول ہر حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی قبول کر رہی تھی۔ ان میں ٹی ٹی پی کی وہ شاخیں بھی شامل تھیں جن کے ٹھکانے اب افغانستان میں تھے۔

72۔ سال 2013ء میں ملک بھر میں 570 حملے ہوئے۔ ان میں سب سے بڑے حملے کوئٹہ اور پشاور میں ہوئے جہاں تک افغانستان سے دہشت گردوں اور دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے والے سازو سامان کی رسائی آسان تھی۔ ان حملوں میں ایک بار بھی افغانی اسٹیبلشمنٹ بہت سے پشتونوں کو خون بہانے میں کامیاب رہی۔

پشاور چرچ حملے کو لیڈ کرنے والے بھی افغانی تھے جو پکڑے گئے تھے اور انہوں نے کئی اہم انکشافات کیے تھے۔

اسی سال کوئٹہ میں ایک سنوکر کلب کو نشانہ بنایا گیا جس میں 92 افراد جانحبق ہوئے۔ اگلے مہنے کوئٹہ میں ہی ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا جس میں افراد لقمہ اجل بنے۔

مارچ، جولائی اور اگست میں کوئٹہ، کراچی اور فاٹا میں تین بڑے حملے کیے گئے جن میں 100 سے زائد افراد شہید ہوئے۔

ستمبر میں پشاور کے ایک مصروف بازار میں کار بم دھماکہ کیا گیا جس میں 42 لوگوں کی جانیں گئیں۔

ان تمام حملوں کو شمالی وزیرستان اور افغانستان سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔

73۔ سال 2014ء میں بھی حملے جاری رہے۔ خاص طور پر بنوں میں فوجی قافلے پر حملہ جس میں 20 فوجی شہید ہوئے اور جون میں کراچی ائر پورٹ پر حملہ شامل ہے جس میں 10 دہشت گردوں نے ائرپورٹ پر قبضہ کر لیا تھا۔

تمام حملوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے تھے۔

74۔ بلاآخر سال 2014ء میں دہشت گردوں کے خلاف ایک آخری اور فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا گیا اور دہشت گردوں کے آخری گڑھ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب لانچ کر دیا گیا۔

ایک بار پھر سولینز کی جانیں بچانے کے لیے لاکھوں پشتونوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ پاک فوج سینکڑوں جوانوں نے جانیں دے کر ایک سخت اور خونریز آپریشن کیا اور وزیرستان کو مکمل طور پر دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کر دیا۔

درحقیقت یہی وہ آپریشن تھا جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کے زیر قبضہ یا زیر کنٹرول علاقے بلکل ختم ہوگئے اور وہ افغانستان سے آپریٹ کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس آپریشن کے شروع ہوتے ہی افغان فورسز اور نیٹو نے پاک فوج سرحد سے اپنی تمام نگرانی ہٹا لی تاکہ دہشت گردوں کو بھاگ کر افغانستان داخل ہونے میں آسانی رہے۔

75۔ ضرب عضب کا بدلہ افغانستان نے اے پی ایس میں فوجیوں کے بچوں پر حملہ کر کے لیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے خونی حملہ تھا۔ اس حملے میں 135 بچوں سمیت 154 لوگوں کو بےدردی سے شہید کر دیا گیا۔

حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، حملے کو لیڈ کرنے والا نعمان شاہ افغانی تھا، جب کہ حملے کی ذمہ دار ملا فضل اللہ نے افغانستان سے ایک ویڈیو بیان جاری کر کے قبول کی اور اس کو فوج سے ضرب عضب کا بدلہ قرار دیا۔

1994ء میں بس ھائی جیکنگ واقعے کے بعد یہ افغانیوں کا پاکستان میں سکول بچوں پر دوسرا حملہ تھا۔

ان ظالم افغانیوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اے پی ایس میں پڑھنے والے سارے بچے پشتون ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ احسان اللہ احسان نے اس حملے کی مذمت جاری کی تھی۔ جس کے بعد اس کے اور افغانیوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔

حملے کے فوراً بعد پاکستان کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے افغانستان کا طوفانی دورہ کہا اور مبینہ طور پر افغان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے سخت الفاظ میں دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔ جس کے بعد این ڈی ایس نے اے پی ایس کے چند ذمہ داروں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کر دیا تھا۔

اسی سال واہگہ پر بھی حملہ کر کے 60 افراد کو شہید کر دیا گیا۔ اس حملے کی ذمہ داری افغانستان میں بیٹھی ٹی ٹی پی نے قبول کی۔

76۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد پہلی بار پاکستان میں سزائے موت پر سے پابندی ہٹا دی گئی اور دہشت گردوں کو آرمی عدالتوں سے موت کی سزائیں ملنی شروع ہوئیں جس کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں حیران کن کمی آگئی اور پورے ملک خوف و دہشت کی جو فضا بن گئی تھی وہ ختم ہونے لگی۔

77۔ سال 2015ء میں حملے جاری رہے لیکن شدت کم ہوگئی۔ سب سے بڑا حملہ شکار پور اور جیکب آباد میں ہوا۔ اس کے علاوہ کراچی اور مرادن میں بھی حملے ہوئے۔ انٹلی جنس اداروں نے رپورٹس جاری کیں کہ اب دہشت گردوں کی بڑی تعدا کراچی میں پناہ لے چکی ہے جہاں سے وہ آپریٹ کر رہی ہیں۔  عسکری ماہرین نے یہ رائے دی کہ افغانستان سے پاکستان دہشت گرد اور دہشت گردی کا سازوسامان منتقل کرنا مشکل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب کے پی کے اور فاٹا میں حملوں کی شدت میں کمی آگئی ہے۔

78۔  سال 2016ء میں چارسدہ کی باچاخان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور 21 افراد کی جانیں لیں۔ پاک فوج بروقت نہ پہنچتی تو یہ اموات سینکڑوں میں جاتیں۔

یہ حملہ خلیفہ عمر منصور کی ہدایت پر درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے طارق آفریدی کے گروپ نے کیا تھا۔ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔

79۔ سال 2016ء میں مشہور انڈین جاسوس کل بھوشن یادیو اور اس کو پورا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ اس نے ٹی وی پر آکر اعتراف کیا کہ کس طرح انڈیا اور ایران کے علاوہ افغانستان کی مدد سے بھی بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس چلائے جا رہے ہیں۔

80۔ اسی سال خضدار، کوئٹہ اور لاہور میں تین حملے ہوئے۔ سب سے بڑا حملہ لاہور میں ہوا تھا جس میں 75 افراد جانبحق ہوئے۔ ان تمام حملوں کے تانے بانے افغانستان سے اپریٹ کرنے والی دہشت گرد تنظمیوں سے مل رہے تھے۔

81۔ سال 2017ء میں سب سے بڑا حملہ لال شہباز قلندر کے مزار پر کیا گیا جس میں 88 افراد کی جانیں گئیں۔ اس کے علاوہ دو حملے پاڑہ چنار میں کیے گئے جس میں کئی پشتونوں کا خون بہایا گیا۔

پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹویٹ کی کہ حملے افغانستان میں چھپے دہشت گردوں سے کرائے گئے ہیں۔ ان حملوں کے بعد پاکستان نے پہلی بار افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

82۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی کی شکست کے ساتھ ہی بی ایل اے بھی کمزور ہوگئی اور جنرل ناصر جنجوعہ کی مسلسل اپیلوں پر بلوچستان میں بڑی تعداد میں بلوچ فراریوں نے ہتھیار ڈالنے شروع کیے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی۔

83۔ اسی سال ٹی ٹی پی کے سب سے زیادہ عرصہ تک ترجمان رہنے والے احسان اللہ احسان نے بھی ہتھیار ڈال کر خود کو فورسز کے حوالے کیا۔ اس نے دہشت گردوں اور افغان ایجنسیز کے گٹھ جوڑ کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا جس کے بعد پاکستان میں موجود سرخوں نے شدت سے اس کی پھانسی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔

خیال رہے کہ سینکڑوں دہشت گرد پکڑے گئے، بڑے بڑے کمانڈر پکڑے گئے لیکن یہ مطالبہ صرف احسان اللہ احسان کے حوالے سے کیا گیا۔

آپریشن ضرب عضب سے حال تک

سوشل میڈیا پر افغان طالبان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ دہشتگردوں کی پاکستان میں حملوں کے لیے تشکیل کر رہے ہیں۔ [1]

حوالہ جات