کالا باغ ڈیم
ڈیم کی تاریخ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
کالاباغ ڈیم پنجاب کی سرزمین پر بننے والا آبی منصوبہ ہے جو سیاسی بدمعاشیہ کی نظر ہوگیا۔ اس ڈیم کے لیے پہلا سروے غالباً برطانوی حکومت نے قیام پاکستان سے قبل 1873ء میں کیا تھا۔
قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948ء میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کیا گیا۔ بھارت نے پاکستان کا پانی بند کر دیا پاکستان ورلڈ بینک اس مسئلے کو لے گیا۔ جس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پایا۔
ایوب خان نے پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ضروری سمجھا مگر ایوب دور میں دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر زور و شور سے جاری تھی اس لیے کالا باغ ڈیم صرف کاغذوں تک محدود رہا۔ کالاباغ کی باری آنے سے پہلے ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی۔
بھٹو کے جمہوری دور میں پہلی بار اس ڈیم کو پاکستان کے لیے مضر قرار دیا گیا اور اس سے جان چھڑانے کی پہلی کوشش کی گئی۔
کالا باغ ڈیم پر صحیح معنوں میں کام جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں خصوصی طور پر ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے رپورٹ تیار کی۔ 1983ء میں ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی 925 فٹ ہو گی۔ 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا جاسکے گا۔ اس کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ درکار ہو گا اور یہ پورے ملک کے 50 لاکھ ایکڑ بنجر رقبے کو سیراب کریگا۔ 8 بلین ڈالر اس کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ 5000 میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔
جنرل ضیا الحق کے حکم پر کالا باغ کی تعمیر کیلئے دفاتر تعمیر کئے گئے، روڈ بنائے گئے اور مشینری منگوائی گئی۔ اے این پی (پشتون سرخوں) نے اعتراض کیا کہ کالا باغ ڈیم کے موجودہ ڈیزائن سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا اس عذر کو دور کرنے کیلئے ڈیزائن میں تبدیلی لائی گئی اور ڈیم کی اونچائی کم کر دی گئی۔ سندھ میں موجود اس وقت کی "سول سوسائٹی” (سندھی سرخوں) نے بھی اعتراض اٹھایا کہ پنجاب سندھ کا پانی غصب کر لے گا یہ منصوبہ سندھ کی عوام کو منظور نہیں۔ تب جنرل ضیاء نے چاروں صوبوں کو پانی کی تقسیم کے ایک فارمولے پر راضی کیا اس معاہدے اور فارمولے کے مطابق پنجاب 37 فیصد، سندھ 33 فیصد، سرحد 14 فیصد اور بلوچستان 12 فیصد دریائی پانی لینے پر راضی ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی جنرل ضیاء کو شہید کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان میں سب سے زیادہ چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں۔ ضیاء کے بعد یہ منصوبہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ پاکستان پر دوبارہ جمہوریت مسلط ہوئی اور دونوں جمہوری حکومتوں نے دوبارہ اس منصوبے کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دینا شروع کر دیا۔
جنرل پرویز مشرف نے کالاباغ سمیت ملک بھر میں 6 بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ” ڈیم نہیں بنائنگے تو مر جائنگے "۔ ان منصوبوں میں نیلم جہلم، کالاباغ، بھاشا، منڈا، اکھوڑی اور کرم تنگی ڈیم شامل ہیں۔
2005ء میں مشرف نے یہ اعلانات کیے اور 2007ء میں وکلاء تحریک کی وجہ سے اپنی وردی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 2008ء میں اس نے استعفی دے دیا۔ تاہم ان دو سالوں میں نئے سرے سے ان تمام ڈیموں کی فیزیبلٹی رپورٹ بنالی گئی۔ نیلم جہلم پر کافی کام نمٹا لیا گیا اور غازی بھروتہ منصوبے کو مکمل کر دیا گیا۔
پھر جمہوریت ائی۔ اس بار پاکستان کے لیے ہر لحاظ سے مہلک ثابت ہوئی۔
بھاشا، کرم تنگی، منڈا اور اکھوڑی ڈیموں کو لٹکا دیا گیا۔ 2008ء میں مکمل ہونے والے نیلم جہلم منصوبے پر کام روک کر اس کو 2018ء تک کھینچ لیا گیا۔ لیکن سب سے بڑا ظلم کالاباغ ڈیم پر کیا گیا جس کو نواز شریف اور آصف زرداری نے ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کر دیا۔
قوم کے ” وسیع تر مفاد ” میں کالاباغ ڈیم منصوبے کو بند کرنے کے کیا کیا نقصانات ہوئے ہیں اس پر سب سے آخر میں بات کرینگے۔ پہلے اس ڈیم کے فوائد اور اس پر ہونے والے اعتراضات پر بات کرتے ہیں۔
کالاباغ ڈیم کے فوائد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
1۔ پاکستان کے تینوں بڑے ڈیموں تربیلا، منگلا اور چشمہ کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ کالا باغ ڈیم اکیلے 6 ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی ذخیرہ کرے گا۔ ڈیم میں تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا ۔
2۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کی 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرے گا۔ نہری پانی کی فی ایکڑ پیدوار آجکل تین لاکھ روپے سالانہ ہے۔ اس حساب سے صرف کالا باغ ڈیم سے پاکستان کو سالانہ 15 ارب ڈالر کی زائد زرعی پیدوار ملے گی جس کے بعد پاکستان کو زرعی اجناس میں سے کچھ بھی درآمد نہیں کرنا پڑے گا البتہ پاکستان کی زرعی برآمدات دگنی ہوجائنگی۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے ، سندھ کے زیریں علاقے اور بلوچستان کے مشرقی حصے اس ڈیم کے پانی کی بدولت قابل کاشت بنائے جاسکتے ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع (کرک ، بنوں ، لکی مروت ، ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان) کو زرعی مقاصد کے لئے مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا اور وہاں کی تقریباً 8 لاکھ ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت ہوجائیگی۔ جس کے بعد کے پی کے کو کسی بھی صوبے سے گندم خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور زرعی اجناس کی افغانستان برآمدات میں زبردست اضافہ ہوگا۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کو بھی اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوگا۔ سندھ میں خریف کی کاشت کے لیے پانی دستیاب ہوگا جس کی اس وقت شدید قلت ہے۔ سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس کالاباغ ڈیم سے بجھ سکے گی۔ اس زرعی پانی سے سندھ کی 8 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہونے کے علاوہ سیم زدہ لاکھوں ایکڑ زمین قابل کاشت ہوجائے گی۔
بلوچستان کو اس ڈیم سے 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکتا ہے جس سے مشرقی بلوچستان کا تقریباً 7 لاکھ ایکڑ اضافی رقبہ سیراب ہوسکے گا اور شائد بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار وہاں لہلہاتی فصلیں دیکھنے کو ملیں۔
3۔ کالا باغ ڈیم سے پاکستان 4 سے 5 ہزار میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرے گا۔ تقریباً ڈھائی روپے فی یونٹ کے حساب سے۔ اس وقت پاکستان 60 فیصد سے زائد بجلی تیل سے بنا رہا ہے جو ہمیں 20 فی یونٹ پڑتی ہے۔ صرف نواز شریف کے پانچ سالوں میں بجلی بنانے کے لیے خریدے گے تیل کا قرضہ 1 ہزار ارب روپے سے زائد تھا۔ یعنی سالانہ 200 ارب روپے۔ اگر کالا باغ ڈیم سے بننے والی بجلی سسٹم میں داخل ہوتی ہے تو یہ خرچہ آدھا رہ جائیگا اور عوام کو ملنے والے بجلی کے بل ایک تہائی۔
4۔ سستی بجلی کی وجہ سے کارخانوں میں اشیاء کی پیدواری لاگت نہایت کم ہوجاتی ہے جس کے بعد وہ عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی اشیاء کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں لیبر پہلے ہی سستا ہے اگر پاکستانی کارخانوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے تو پاکستان میں بند ہونے والے تمام کارخانے چل پڑیں اور لاکھوں لوگوں کو فوری طور پر روزگار مل جائیگا۔ پاکستان کی برآمدات کئی گنا بڑھ جائنگی۔ پاکستان کی درامدات کم ہوجائنگی۔ سستی بجلی اور لیبر کی وجہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوگا جس کا مطلب مزید پیدوار، مزید روزگار اور مزید صنعتی ترقی۔
5۔ پاکستان کو خشک کر دینے والے انڈین ڈیموں کے خلاف عالمی محاذ پر پاکستان کا کیس مضبوط ہوگا کہ پاکستان کے پاس ڈیم ہے اور پاکستان دریاؤوں کا پانی ضائع نہیں کر رہا ہے۔
6۔ کالاباغ ڈیم منصوبے میں کم از کم 60 ہزار لوگوں کو براہ راست ملازمتیں ملیں گی۔
7۔ کالاباغ ڈیم کی جھیل میں پانی جمع ہونے سے ماحول پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں اورموسمی ماہرین کے مطابق کچھ عرصہ بعد قریبی اضلاع کے درجہ حرارت میں کمی اور بارشوں میں اضافے کا امکان ہے۔
8۔ صرف کالا باغ ڈیم کی وجہ سے بڑھنے والی زرعی اور صنعی پیدوار اور کم ہونے والی درآمدات کی وجہ سے پاکستان چند سالوں میں بیرونی قرضہ چکانے کے قابل ہوجائیگا۔
9۔ پاکستان میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے یا انڈیا کے زیادہ پانی چھوڑ دینے کی وجہ سے ہر تھوڑے عرصے بعد آنے والے سیلاب بند ہوجائنگے اور زائد پانی کو فوری طور پر ذخیرہ کر لیا جائیگا۔ یوں ہر سال ہونے والا اربوں روپے کا نقصان اور عوام کو پہنچنے والی تکلیف بند ہوجائیگی۔
کالا باغ ڈیم پر اعتراضات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اس منصوبہ کے مخالفین نے ڈیم سے حاصل ہونے والے بیش بہا فوائد کی نسبت اس کے ممکنہ نقصانات کو خوب اجاگر کیا نتیجے میں رائے عامہ اس کے خلاف ہوگئی۔ حالت یہ ہے کہ سرخوں کے پراپگینڈا سے متاثر بہت سے پشتونوں کو علم ہی نہیں کہ ڈیم دراصل بننا کہاں پر ہے۔
سندھ میں تو یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ ” پنجاب پانی سے میں ساری بجلی نکال لے گا جس کے بعد ہمار پاس صرف پھوک رہ جائیگی” ( گنے سے رس نکل جائے تو جو بچتا ہے اس کو پھوک کہتے ہیں 🙂 )
ڈیم پر سنجیدہ نوعیت کے اعتراضات البتہ مندرجہ ذیل ہیں۔
الف ۔۔۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے کالا باغ ڈیم پر تین بڑے اعترضات ہیں۔
1۔ بجلی پیدا کرنے والےٹربائن اور تعمیرات پنجاب میں واقع ہوں گی۔ اس لیے صوبہ پنجاب وفاق سے پیدا ہونے والی بجلی پر رائلٹی کا حقدار تصور ہو گا۔ اس اعتراض کے جواب میں صوبہ پنجاب نے وفاقی رائلٹی سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کر لیا۔
2۔ ضلع نوشہرہ کا بڑا حصہ ڈوبنے کا خطرہ ہے اور کچھ علاقے بنجر ہونے کا خدشہ ہے۔
جنرل ضیاء کے دور میں ڈیم کی اونچائی کم کی گئی جس کے بعد اے این پی کے ولی خان کا اس پر اعتراض ختم ہوگیا تھا۔
اب ذرا غور سے سنیں۔
میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جبکہ نوشہرہ کی سطح سمندر سے بلندی 889 فٹ ہے۔ ڈیم بن جانے کے بعد جب اس میں پورا پانی بھر جائیگا تب بھی اس پانی کی سطح نوشہرہ سے 30 فٹ نیچے ہوگی۔
نوشہرہ کالا باغ سے 110 کلومیٹر دور ہے۔
کوئی مائی کا لال مجھے سمجھا دے کہ خدنخواستہ ڈیم ٹوٹ گیا تو وہ کیسے 190 کلومیٹر دور اور 200 فٹ اونچے نوشہر کو ڈبو دے گا؟؟
جس کی پیک بھی نوشہرہ سے 60 فٹ نیچے ہے؟؟
3۔ تیسری یہ ہے کہ صوبہ سرحد کا رقبہ زیر آب آئیگا اور لوگوں کو نقل مکانی کرنی ہوگی۔
تو جناب عالی ڈیم کی تعمیر سے کل 27500 ایکڑ رقبہ زیرآب آئے گا جس میں سے 24500 ایکڑ رقبہ صوبہ پنجاب سے اور صرف 3000 ایکڑ رقبہ صوبہ خیبر پی کے میں واقع ہے۔ لہذا یہ اعتراض بے بنیاد ہے۔
کچھ آبادی کو نقل مکانی کرنی ہوگی۔ تو یہ تو ہر ڈیم کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب کہ نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت بھی پنجاب سے ہوگی۔ لیکن اجتماعی مفاد کے لیے قومیں ہمیشہ انفرادی طور پر قربانیاں دیتی ہیں۔ فوجی اپنا پورا خاندان بے آسرا چھوڑ کر جان دیتا ہے تو ہمارے خاندان محفوظ ہوتے ہیں۔
حضرت عمر کے دور میں ایک شخص اپنی زمین پر سے پانی گزرنے نہیں دے رہا تھا اور اعتراض کر رہا تھا کہ میری زمین خراب ہوگی۔ حضرت عمر کو علم ہوا تو آپ سخت طیش میں آئے۔ آپ نے فرمایا کہ ” یہ تو تمھاری زمین ہے اگر تمھارا پیٹ کھود کر یہ پانی اس میں سے گزارنا پڑے تو بھی میں کھود لونگا۔”
اس کے علاوہ جہاں تک زمین بنجر یا سیم تھور کے مسئلے کا خطرہ ہے تو بڑے پیمانے پر پانی کی نہریں اور ٹیوب ویل کھود کر باآسانی حل کیے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے سیم اور تھور کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے کیونکہ پانی کی موجودہ سطح کافی نیچے ہے۔
ب ۔۔۔ صوبہ سندھ نے سب سے پہلے کالا باغ منصوبے کی مخالفت کی۔ اس کا تمام تراعتراض نام نہاد سول سائیٹی اور چند قوم پرست سرخوں کا دیا گیا یہ نظریہ ہے کہ ”پنجاب ہمارا پانی چوری کرتا ہے۔ ”
لیکن آج تک اس ”چوری” کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔ وہ قوم پرست سرخے منگلہ اور تربیلا ڈیموں کو بھی چوری ہی قرار دیتے ہیں جن پر اس وقت پورا پاکستان چل رہا ہے۔
دراصل نام کی مناسبت سے سادہ لوح سندھی عوام کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے سے بہہ کر آنے والا دریائے سندھ صوبہ سندھ کا ہے جبھی اس کا نام دریائے سندھ ہے۔ 🙂
اپنے اس بے بنیاد اعتراض کی قیمت سندھ اپنی زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں ادا کررہا ہے جس کی ان قوم پرستوں کو قطعاً کوئی پروا نہیں جنہوں نے عام سندھی عوام کو بہکایا ہے۔ صوبہ سندھ کی باقی تمام ذیلی اعترضات اس بنیادی اعتراض سے جڑے ہیں کہ صوبے کا پانی کم ہوجائیگا جس کے نتیجے میں فلاں فلاں مسئلہ ہوگا۔
پہلی بات یہ کہ ڈیم کی تعمیر سے 1991ء کے معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی کیونکہ اس میں صوبوں کےلئے پانی کا حصہ مقرر ہے۔ ڈیم کی تعمیر کے بعد بھی سمندر میں 10 ملین ایکڑ فٹ پانی گرتا رہے گا۔ لیکن ڈیم کی تعمیر سے سندھ کا اضافی 8 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔ انڈین ڈیموں کی تعمیر کے نتیجے میں دریائے سندھ میں کم ہوتے ہوئے پانی اور پورے پاکستان سمیت سندھ میں بتدریج قدم جماتی خشک سالی کا مستقل خاتمہ ہوجائیگا۔
ج ۔۔۔ بلوچستان کسی بھی صورت کال باغ ڈیم سے متاثر نہیں ہوگا۔ بلکہ بلوچستان میں تعمیر ہونے والے کچی کنال نہر کو اپنے حصے سے اضافی پانی ملنا شروع ہوگا۔ نیز بلوچستان کا کم از کم 7 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔
بلوچستان میں اس ڈیم پر اعتراض کرنے والے وہی قوم پرست سرخے ہیں جو پاکستان سے علیحدگی کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ ان کا موقف بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
وہ یہ کہ کالاباغ ڈیم سے ان کو براہ راست کوئی نقصان نہیں لیکن چونکہ صوبہ سندھ (درحقیقت سندھی سرخے) اس ڈیم سے متاثر ہو رہا ہے تو ہم اخلاقً ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بلوچستان کی اپنی عوام اگر پیاس سے مرتی ہے تو مرتی رہے۔
جب کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سندھ کا اعتراض بھی مقامی بلیک میلر قسم کے سیاست دانوں اور قوم پرست سرخوں کا ڈھکوسلہ اور قطعاً بے بنیاد ہے۔
آپ ایک چیز نوٹ کیجیے۔
کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے سرخوں کی نیک نیتی جانچنی ہو تو صرف یہ دیکھ لیں کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک انڈیا اور افغانستان کے پاکستانی دریاؤوں پر تعمیر کردہ کسی ڈیم پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔
حالانکہ وہ باقاعدہ اعلان کررہے ہیں کہ ہمارے ڈیمز بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ پاکستان کو خشک کر کے پیاسا مار دیا جائے۔
پاکستان سے مراد پاکستانی عوام بشمول سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتون۔
جب کہ پاکستان اعلان کرتا ہے کہ ہم ڈیم بنا کر اپنی عوام کو پیاس اور خشک سالی سے بچانا چاہتے ہیں۔
لیکن پاکستانی ڈیموں کو بموں کو اڑانے کی دھمکیاں دینے والے یہ سرخے نہ صرف انڈین اور افغانی ڈیموں پر خاموش ہیں بلکہ اسفندیار ولی نے کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں بننے والے ڈیم کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ افغانستان میں دریائے اٹک پر بننے والے اس ڈیم سےنوشہرہ، پشاور، مرادن اور صوابی بری طرح متاثر ہونگے۔
اگلا حصے میں ان شاءاللہ اس بات کا جائزہ لینگے کہ صرف کالاباغ ڈیم کی تعمیر روک کر یہ سرخے ہمیں کتنا نقصان پہنچا چکے ہیں۔
کالاباغ ڈیم نہ بنانے کے نقصانات کا احاطہ کرنا ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ البتہ چند موٹے موٹے نقاط گنواتا ہوں۔
1۔ کالاباغ ڈیم پر جنرل ضیاء کے بعد کام بند کر دیا گیا۔ اصولاً یہ ڈیم 1993ء میں آپریشنل ہوجانا چاہئے تھا۔ یوں 27 سال ضائع کیے گئے۔
کالاباغ ڈیم سے اضافی 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہونی تھی۔
نہری زمین کے پیش نظر فی ایکڑ 3 لاکھ روپے سالانہ پیداوار لگائیں تو اب تک ہم اپنا 40٫000 ارب روپے یا 400 کھرب روپے یا 300 ارب ڈالر کا نقصان صرف پیدوار کی مد میں کروا چکے ہیں۔
300 ارب ڈالر کتنے ہوتے ہیں؟
پاکستان کا کل بیرونی قرضہ تقریباً 100 ارب ڈالر ہے۔ بس اسی سے اندازہ لگا لیجیے۔
2۔ صنعتی پیداور کی لاگت کا تعئن دو چیزیں کرتی ہیں۔
پہلی لیبر اور دوسری بجلی۔
پاکستان میں لیبر بہت سستا ہے لیکن بجلی یا تو ناپید ہے یا اتنی مہنگی ہے کہ اس بجلی سے پیدا ہونے والی اشیاء کی لاگت دگنی ہو جاتی ہے۔
اس کی وجہ سے پاکستانی اشیاء بیرون ملک منڈیوں میں دوسرے ممالک کی اشیاء کا مقابلہ نہیں کر پاتیں بلکہ اب تو اپنے ملک کے اندر بھی دوسرے ممالک کی اشیاء سے مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے آخری پانچ سالہ دور میں پاکستان میں سب سے زیادہ انڈسٹریاں بند ہوئیں اور میڈیا پر آپ نے خبریں سنی ہونگی کہ بہت سے لوگوں نے اپنے کارخانے بنگلہ دیش منتقل کر دیئے۔
انڈسٹریاں بند ہونے سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے،
پاکستان کی برآمدات کم اور درآمدات بڑھیں یوں تجاری خسارہ ریکارڈ 32 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا،
یہ تجارتی خسارہ دور کرنے کے لیے بھاری سود پر بے پناہ قرضے لیے گئے،
قرضے لینے کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ایسی شرائط مانی گئیں جس نے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔
اشیاء کی قیمتیں بڑھیں جس کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی۔
بے روزگاری اور مہنگائی نے بہت سے سماجی مسائل کو بھی جنم دیا۔
بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔
ان نقصانات کو کیلکولیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم پاکستان کو تقریباً کھوکھلا کر کے معاشی دیوالیہ پن کی حدوں پر پہنچا دیا گیا ہے۔
3۔ جن دنوں کالاباغ ڈیم کو بند کیا گیا ان ہی دنوں متبادل کے طور پر بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تیل سے بجلی بنانے والے مہنگے تھرمل بجلی گھروں کو لانچ کیا جو زیادہ تر پرائیویٹ ہوتے ہیں۔
یہ تھرمل بجلی گھر نہایت مہنگے ہیں۔
نواز شریف نے اپنے حالیہ پانچ سالوں میں بجلی کے تمام متبادل منصوبے بند کروائے اور دبا کر میان منشاء سے تھرمل بجلی خریدی جس کے صرف تیل کا قرضہ پانچ سالوں میں 1000 ارب روپے یا 8 تا 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ یعنی سالانہ 2 ارب ڈالر۔
تقریباً اسی تناسب سے ہم 25 سال سے بے نظیر کے اس تحفے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اگر کالا باغ ڈیم بنتا تو ہمیں تھرمل بجلی کا خرچہ تقریباً نصف پڑتا۔
اس ضمن میں ہم نے سیدھا سیدھا کم و بیش 25 کھرب روپے یا 20 ارب ڈالر کا نقصان الگ سے کیا ہے۔
4۔ سیلاب پاکستان میں تقریباً ہر سال آکر اربوں ڈالرز کا نقصان کر دیتے ہیں۔ اگر کالاباغ ڈیم بنا ہوتا تو ہم وہ سارا پانی ذخیرہ کرلیتے اور سیلابوں سے بچے رہتے۔
اس کا اندازہ نہیں کہ ان 27 سالوں میں سیلابوں سے ہم کتنا نقصان کروا چکے ہیں۔
5۔ انڈیا نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے خلاف کشن گنگا کیس جیتا جس میں انڈیا کی یہ دلیل تسلیم کی گئی کہ "پاکستان میں ڈیم نہیں ہیں اور پانی سمندر میں ضائع کر رہا ہے۔"
اس دلیل کی بنیاد پر انڈیا نے ہمارے پانیوں پر اب تک چھوٹے بڑے 60 ڈیم بنا لیے ہیں اور مزید پر کام جاری ہے۔
انڈیا کے ان ڈیموں کے اثرات اب نظر آرہے ہیں اور ملک بھر میں خشک سالی نے تیزی سے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دئیے ہیں۔ پاکستان کے کئی دریا سوکھ چکے ہیں اور ان دریاوؤں پر آباد زمینیں تیزی سے بنجر ہو رہی ہیں۔
اگر ہمارے پاس کالاباغ جیسا بڑا ڈیم ہوتا تو انڈیا کبھی ہمارے پانیوں پر ڈیم نہ بنا پاتا۔ ہمارے پاس اس کو روکنے کا عالمی جواز ہوتا۔
اب انڈیا ایک قدم مزید آگے جا رہا ہے اور پاکستان آنے والے دریاؤوں کا رخ مکمل طور پر موڑنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو اپنی تاریخ کے پہلے اور بدترین قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ٹیوب ویلوں کا پانی صرف دو تین سال تک ساتھ دے گا جس کے بعد زیر زمین پانی اتنا نیچے چلا جائیگا کہ اس کو نکالنا ممکن نہیں رہے گا۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ ڈیم بنانے سے صوبائی ہم آہنگی کو خطرہ ہے۔ ان کا اس وقت کے بارے میں کیا خیال ہے جب پانی کی نایابی کی وجہ سے تمام صوبے بھوک اور پیاس کی حالت میں ایک دوسرے کو کھانے پر آمادہ ہو جائنگے؟
پاکستان جسے دنیا میں کوئی شکست نہیں دے سکا پیاس سے مر جائیگا!
یہ ایک سادہ اور مختصر سا جائزہ ہے کالاباغ ڈیم نہ بنانے کے نقصانات کا۔ یہ سارے نقصانات ہم اس لیے اٹھا رہے ہیں کہ ملک میں موجود چند ہزار قوم پرست سرخوں کو راضی کر سکیں؟؟
سنا ہے کہ اے این پی اور سندھی سرخوں کو ڈیم نہ بنوانے کے سالانہ کئی ارب روپے انڈیا دیتا ہے۔
چند ارب روپوں کے لیے پاکستان کا کھربوں روپے کا نقصان اور معاشی طور پر برباد کر کے رکھ دیا ان ظالموں نے۔ ان ہی کے لیے وہ مثال ہے کہ " اپنی ایک بوٹی کے لیے دوسروں کی گائے ذبح کروا دینا۔"
ہماری ذہنی پسماندگی کی حالت یہ ہے کہ ایک مشہور مولانا کا ڈیم کے خلاف بیان سنا۔ فرما رہا تھا کہ " مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ کالاباغ ڈیم کے کیا نقصانات ہیں، ہم نے تو اے این پی کو دیکھ دیکھ کر مخالفت شروع کی تھی، البتہ یہ کہوں گا کہ دو ڈیم پہلے ہی بنے ہیں اگر تیسرا بھی بن گیا تو ہم بیچ میں مینڈک کی طرح ٹر ٹر کرینگے۔"
اتفاق سے اس مولانا کا نام بھی "بجلی گھر" تھا۔ اس ظالم کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ڈیم کہاں واقعہ ہے اور اس کے کیا نقصانات یا فوائد ہیں۔ محض سرخوں کی مخالفت دیکھ کر مخالفت شروع کی۔
پوری دنیا میں پانی کو زندگی سمجھا جاتا ہے، پاکستانی کی سیاسی بدمعاشیہ اور سرخے دنیا کی واحد مخلوق ہے جو پانی کو موت سمجھاتی رہی اور ہم پر پانی کے تمام راستے بند دئیے۔
میں پشتون ہوں۔ میرے کرک، بنوں اور ڈی آئی خان محض اس لیے پانی سے محروم ہیں کہ ہم نے پشاور و مردان میں چند سرخوں کو راضی کرنا تھا یوں کالا باغ ڈیم جس سے بنوں، ڈی ائی خان اور کرک کی آٹھ لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہوتی وہ نہ ہوسکی اور ہمارے ان علاقوں کی عورتیں اج بھی دور جوہڑوں سے پانی کے گھڑے سروں پر رکھ کر پانی لانے پر مجبور ہیں۔
کیونکہ ہم سرخوں کو ناخوش نہیں کر سکتے۔
ہمارے آپس میں پانیوں پر جتنے بھی اختلافات ہوں لیکن بطور مسلمان کم از کم ایک دوسرے کو پیاسے نہیں مرنے دینگے، البتہ انڈیا کا ہندو ہمیں پیاسا مار دے گا۔ خدا کے لیے اس سے پانی چھین لو باقی بے شک آپس میں اس پر لڑتے رہو۔
اور چھیننے کے لیے ڈیم بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں!
سرخے جب لاجواب ہوجائیں تو ایک اور مکر بھی کرتے ہیں۔ کوئی مست سا نعرہ دے دیتے ہیں۔
مثلاً اپ ثابت کر دیں کہ ڈیم بننے میں پشتونوں کا کوئی نقصان نہیں صرف فائدہ ہی فائدہ ہے تو نعرہ دے دینگے کہ "ڈیم سونا بھی دے تب بھی ہم نہیں لینگے۔"
یا آپ منظور پسکین کی غداری اور منافقت ثابت کر دیں تو لاجواب ہو کر نعرہ لگا دینگے کہ "منظور غدار ہے تو ہمیں ایسی غداری پر فخر ہے یا منظور بےغیرت ہے تو ہمیں ایسی بےغیرتی پر فخر ہے۔" 😁
ان کے پیروکار بھی سوچے سمجھے بغیر پھر یہی نعرہ مارتے ہیں۔