عاصمہ جہانگیر پر تنقید
شیخ مجیب نے پاکستان سے الگ ہونے کا اپنا 6 نقاطی ایجنڈا عاصمہ جہانگیر کے والد غلام جیلانی کے گھر تیار کیا تھا۔
بنگلہ دیش میں جب مکتی باہنی نے بغاوت کر دی اور ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہوا تو مغربی پاکستان میں اس آپریشن کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت عاصمہ جہانگیر کے باپ غلام جیلانی نے کی تھی۔
جب بغاوت قابو میں آنے لگی تو غلام جیلانی نے انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کو خط لکھا کہ آپ مغربی پاکستان پر حملہ کریں۔ ایکشن نہ لینے پر دوسرا خط لکھا۔ اندرا گاندھی نے تب بھی پاکستان پر حملہ نہ کیا تو غلام جیلانی نے اسکو تیسری بار چوڑیاں بھیج دیں۔ یہ خطوط ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوئے تھے۔
جب یحی خان نے ان حرکتوں پر اس کو گرفتار کر لیا تو عاصمہ جہانگیر نے اپنے باپ کو چھڑانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ جہاں اس وقت کے فوج مخالف بنگالی چیف جسٹس حمود الرحمن نے فوری طور پر غلام جیلانی کی رہائی کا حکم دیا (یہ وہی حمود الرحمن ہے جس نے بعد میں اپنی رپورٹ "حمود الرحمن کمیشن" میں سقوط ڈھاکہ کا سارا ملبہ پاک فوج پر ڈال دیا تھا)
عاصمہ جہانگیر نے 1982 میں جنرل ضیاء کے اسلامی قوانین نافذ کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ اس معاملے میں انکو سپریم کورٹ کی حمایت حاصل رہی ۔ موصوفہ نے اسلامی قوانین کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے عصر حاضر کے تقاضوں کے خلاف کہا اور ان میں تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کیا۔
12 فروری 1983 میں عاصمہ جہانگیر نے اپنے ساتھی وکلاء کے ساتھ ملکر " دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر " والے اسلامی قانون کے خلاف احتجاج کیا۔
کچھ عرصے بعد عاصمہ جہانگیر نے نیویارک ٹائمز کو ایک خط لکھا جس میں اس نے بتایا کہ پاکستان میں عورتوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے اور وہ بلکل بے یارومدد گار ہیں۔ ان کی حالت زار سے دنیا کو آگاہ کیا جائے ۔
اسکے علاوہ عاصمہ جہانگیر نے کئی بین الاقوامی فورمز پر پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے "ظلم" کے خلاف آواز بلند کی۔ اس نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے۔
18 مئی 1984ء کو اسلام آباد میں لبرل خواتین کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس نے حضور کی شان میں زبردست گستاخانہ الفاظ استعمال کیے جو یہاں نقل نہیں کیے جا سکتے۔ جس کے بعد کچھ لوگوں نے گھبرا کر اس کو ٹوکا اور وہیں اس بدبخت عورت کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اس پر روزنامہ جسارت نے پوری رپورٹ لکھی۔ اس گستاخی پر احسن اقبال کی والدہ نثار فاطمہ نےاس کے خلاف قومی اسمبلی میں باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا۔ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے معزز اراکین میں عبد الرحمن لودھی اور ظہیر احمد قادری ایڈووکیٹ نے سخت احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ عاصمہ جہانگیر گستاخانہ الفاظ واپس لے کر اس گستاخی پر معافی مانگے، لیکن اس نے انکار کیا۔
1987ء میں عاصمہ جہانگیر نے جسٹس دراب پٹیل کے ساتھ ملکر 'انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان' کی داغ بیل ڈالی۔ یہ کمیشن بعد میں پاکستان بھر میں سرخوں، گستاخان رسول اور ہر پاکستان دشمن کا محافظ بن گیا۔
1994ء میں سلامت مسیح اور رحمت مسیح پر توہین رسالت کا مقدمہ بنا اور جرم ثابت ہونے پر سلامت مسیح کو ایڈیشنل سیشن جج گوجرانوالہ نے موت کی سزا سنائی۔ جس پر عاصمہ جہانگیر اور اس کی بہن حنا جیلانی نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ میڈیا کے ذریعے اتنا دباؤ بڑھایا کہ اس وقت کی وزیراعظم بےنظیر بھٹو کی ذاتی مداخلت پر سلامت مسیح کو ضمانت مل گئی۔ اس پر برطانوی وزیر اعظم جان میجر نے خط میں پاکستانی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر کیا ''اگرچہ سلامت مسیح پر مذہبی توہین کا الزام برقرار ہے، مگر یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم بے نظیر کی ذاتی مداخلت کی بنا پر سلامت مسیح کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔'' (روزنامہ جنگ 9 اگست 1994ء)
1996 میں لاہور ھائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ کوئی خاتون "ولی" کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر نکاح نہیں کر سکتی ۔ عاصمہ جہانگیر نے ھائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فوری تحریک کا آغاز کیا جس میں وکلاء برادری نے اسکا بھرپور ساتھ دیا۔ اس نے یہ کیس عدالت کے اندر اور باہر دونوں جگہ لڑا اور بلاآخر مذکورہ عدالتی حکم کلعدم کروا دیا۔
عاصمہ جہانگیر حدود آرڈینینس کے ساتھ ساتھ توہین رسالت کے قانون کے بھی سخت خلاف رہیں۔ وہ اس قانون کے خلاف آواز اٹھانے والی سب سے متحرک شخصیت تھیں اور توہین رسالت کے الزام میں پکڑے گئے بہت سے لوگوں کا کیس اس نے مفت لڑا اور انکو رہائی دلوائی۔
وہ مسلسل دنیا کو بتاتی رہیں کہ پاکستانی مسلمان عیسائیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ جس پر تنگ آکر 11 مئی 1998ء کو پاکستان میں عیسائیوں کے چیف بشپ کیتھ نے روزنامہ آزاد کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہا کہ ۔۔ "عاصمہ جہانگیر پاکستان میں مسلمانوں اورعیسائیوں کو آپس میں لڑانا چاہتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر پاکستان میں عیسائیوں کے مقدمات اس لیے مفت لڑتی ہیں کہ اُنہیں باہر سے 'لمبے پیسے' مل جاتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے فرانسس جوزف نامی جس عیسائی کو ساتھ رکھا ہوا ہے یہ ایک چپڑاسی کی حیثیت سے ملازم تھا اور پیسے چوری کرنے پر نوکری سے نکالا گیا تھا۔ اب 13 لاکھ کی گاڑی میں پھر رہا ہے اور بچوں کی شادیوں پر لاکھوں خرچ کر رہا ہے۔"
سمجھوتہ ایکسپریس والے معاملے پر عاصمہ جہانگیر نے پاکستانی موقف کے برعکس انڈین موقف کی تائید کی۔ کچھ عرصے بعد جب ثابت ہو گیا کہ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ انڈین اینٹلی جنس کا کرنل پروہت تھا اور انڈین انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس اس میں شامل تھی تب بھی عاصمہ جہانگیر بدستور اپنی ضد پر قائم رہیں اور پاکستان کو ہی ان حملوں میں ملوث قرار دیتی رہیں ۔
2005 میں عاصمہ جہانگیر نے ایک مخلوط میراتھن ریس کروانے کا اعلان کیا۔ اس نے دعوی کیا کہ اس کے ذریعے لوگوں میں شعور آئیگا۔
عاصمہ جہانگیر اقوام متحدہ کے اس پینل کا حصہ رہیں جو سری لنکن فوج کی جانب سے لبریشن ٹائیگرز آف تامل کے خلاف کے گئے آپریشن کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ یاد رہے کہ مذکورہ تنظیم ایک دہشت گرد تنظیم تھی جسکی فنڈنگ انڈیا سے ہوتی تھی اور اسکا صفایا کرنے میں پاک فوج نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
غالباً انہی خدمات کے اعتراف میں آصف علی زرداری نے ان کو 2010ء میں ہلال امتیاز کے اعزاز سے نوازا اور نواز شریف نے انکا نام پنجاب کی نگران وزیراعلی کے لیے پیش کیا تھا اور بعد میں عبوری وزیراعظم کے لیے بھی پیش کیا تھا۔
2013ء میں بنگلہ دیش نے ان غیر بنگالیوں کو اعزازات دینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے پاکستان توڑنے یا بنگلہ دیش بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ اس سلسلے میں حامد میر کو ان کے والد وارث میر کے 'کردار' پر اور عاصمہ جہانگیر کے والد غلامی جیلانی کی 'خدمات' کے عوض اعزازات دئیے گئے۔ اسی تقریب میں عاصمہ جہانگیر نے بنگالی حکومت پر زور دیا کہ "آپ لوگ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔" مطلب ان لوگوں کو سزائیں دیں جنہوں نے پاکستان توڑنے میں مزاحمت کی تھی۔ جس کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے 80 اور 90 سال کے ان بزرگوں کو پھانسیاں دے دیں جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
پاکستان میں دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے معاملے میں پاکستانی عدلیہ کی مکمل ناکامی کے بعد پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی جس کے تحت آرمی کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروا دی۔ موصوفہ کی بدولت آرمی عدالتوں سے سزائیں پانے والے اکثر دہشت گردوں کی سزاوؤں ھائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کلعدم قرار دے دیا گیا۔ پاکستان میں وہ سزائے موت کے سخت خلاف رہیں۔
اور دہشتگردی سے یاد آیا کہ 'یہ جو دہشتگردی ہے اس پیچھے وردی ہے' نعرے کی خالق بھی عاصمہ جہانگیر ہیں۔ اسی نے یہ نعرہ سرخوں کو دیا جس کے بعد میں وزیرستانی سرخوں (پی ٹی ایم) نے اپنی تنظیم کا نعرہ بنا لیا۔
عاصمہ جہانگیر الطاف حسین کی وکیل رہی ہیں جس پر ہزاروں قتل، اغواء اور بھتہ خوری کے الزامات ہیں۔ الطاف حسین اپنی تقریروں میں باقاعدہ لوگوں کے سر کاٹنے اور ان کو بوریوں میں بند کرنے کے اعلانات کرتا تھا۔ جب کہ عاصمہ جہانگیر میڈیا پر مسلسل الطاف حسین سے پابندیاں ہٹوانے پر اصرار کرتی رہیں اور الطاف حسین کی بھتوں سے اپنی فیس کھری کرتی رہیں۔
2017ء میں پاکستانی سوشل میڈیا پر بھینسا اور موچی جیسے گستاخانہ پیجز چلانے والے بدترین گستاخان رسول وقاص گورایا، عاصم سعید اور سلمان حیدر کو گرفتار کیا گیا۔ تو سرخوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ جیو کے اینکر شاہزیب خانزادہ نے اس پر کئی پروگرام کیے اور کہا کہ اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ عاصمہ جہانگیر متحرک ہوئیں اور بیگم کلثوم نواز کی مدد سے نہ صرف ان کو چھڑایا بلکہ پولیس کی حفاظت میں ائر پورٹ تک بھی چھوڑا گیا۔
عاصمہ جہانگیر نے کبھی کشمیر میں انڈین مظالم، فلسطین میں اسرائیلی مظالم، افغانستان، شام اور عراق میں امریکی مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ کبھی سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیاری گینگ اور ایم کیو ایم کے ہاتھوں صحافیوں اور عوام کے قتل پر چوں بھی نہیں کی نہ اسے کبھی ن لیگ کی کرپشن پر کوئی تکلیف ہوئی۔
عاصمہ جہانگیر نے اکھنڈ بھارت کے تصور کو بڑھانےکیلئے بھارتی یوم آزادی پر واہگہ جا کر شمعیں جلانے کی رسم کا حصہ بنی رہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں ملوچ انتہا پسند ہندو دہشتگرد لیڈر بال ٹھاکرے سے ان کی ملاقاتیں بھی بھارتی میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ ملاقات کیلئے بطور خاص نارنجی رنگ کا لباس پہن کر گئیں جیسے ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کا لیڈر پہنتا تھا۔ عاصمہ جہانگیر دورہ بھارت کے دوران ماتھے پر تلک لگانے کا خصوصی اہتمام کرتیں۔
عاصمہ جہانگیر کا شوہر قادیانی ہے۔ اس حوالے سے اس کا موقف تھا کہ وہ قادیانیوں کو کافر قرار دیئے جانے سے پہلے شادی کر چکی تھیں۔ واضح رہے کہ عاصمہ جہانگیر کی شادی اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے پارلیمانی فیصلہ ماننے کو کبھی تیار نہ ہوئیں۔ پارلیمنٹ کے سپریم ہونےکا جھنڈا اٹھائے رکھنے کے باوجود عاصمہ کا یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ قومی اسمبلی کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا حق نہیں۔ اس کی بہن حنا جیلانی قادیانی ہونے کا اعتراف کرتی ہیں۔ جب کہ اس کی بیٹی منیزے جہانگیر کا شوہر ہیری عیسائی ہے۔
موصوفہ پاکستان میں جس سایسی شخصیت کی سب سب قریب رہیں ان کا نام میاں محمد نواز شریف ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے ڈٹ کر نواز شریف کی مبینہ کرپشن پر سپریم کورٹ کے فیصلوں تنقید کی اور کھل کر اس فیصلے کا ذمہ دار پاک فوج کو قرار دیا۔ موصوفہ نے اس فیصلے میں فرمایا تھا کہ انہیں "پاک فوج کے فٹ پرنٹس نظر آرہے ہیں۔" عاصمہ جہانگیر کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ نواز شریف سے بات کر رہی تھیں۔
شہباز شریف پر 56 کمپنیوں کا کیس بنا تو یہی موصوفہ ان کی وکیل بنیں اور انہی کی تیاری کر رہی تھیں جب فوت ہوئیں۔
نواز شریف اس خاتون پر مہربان رہا اور فضل الرحمن اسکے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ پاکستانی لبرل اور سرخے اس کو اپنی ماں مانتے ہیں۔