افغان سرخے
کمیونسٹ بنیادی طور پر خود کو عوام دوست اور غریب پرور گروہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کے معاشی مسائل حل کرنے کے دعویدار ہیں۔ اکثر چیزوں میں سرخ رنگ کو بطور علامت استعمال کرتے ہیں اور " سرخے" کہلاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مذہب بیراز طبقہ ہے اور انکی اکثریت ملحد ہوتی ہے۔ جہاں ان کا زور بڑھتا ہے وہاں دین بیزاری پھیل جاتی ہے۔
اپنی امن پسندی کے تمام تر دعوؤوں کے برعکس یہ سرخے ہمیشہ خونریز انقلابات پر یقین رکھتے ہیں اور فکری طور پر سخت انشار پسند ہوتے ہیں۔ جہاں جہاں ان کی سرگرمیاں بڑھ جائیں اور ان کو کچھ طاقت ملے وہاں انسانوں کا خون بہنے لگتا ہے۔ اسکی ایک مثال افغانستان ہے۔
70ء کی دہائی میں انہوں نے افغان فوج میں اپنے افکار پھیلانے شروع کیے اور 78ء میں جب انکو مطلوبہ طاقت حاصل ہوگئی تو انہوں نے افغانستان کے صدر سردار داوؤد کو اس کے پورے خاندان سمیت قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ بغاوت اتنی خونریز تھی کہ کابل کے صدارتی محل پر جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری کی گئی جس میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے۔ اسی کو یہ "ثور انقلاب" کہتے ہیں۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ طاقت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سردار داوؤد کے حامیوں اور اپنے نظریاتی مخالفین کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا۔ صرف ایک سال 78ء سے 79ء کے درمیانی عرصہ میں انہوں نے 27000 مخالفیں کو قتل کیا اور اس سے زیادہ تعداد کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔
اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان سرخوں کے بلند بانگ دعوے اور اعلی اخلاقیات دھری کی دھری رہ گئیں۔ صرف چند ماہ بعد ہی ان میں اقتدار کے لیے آپس میں ہی رسہ کشی شروع ہوگئی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے منصوبے بے نقاب ہونے لگے۔ اس کے نتیجے میں کئی وزراء کو جیلوں میں ڈال دیا گیا حتی کہ انقلاب کے اہم ترین کمانڈر جنرل عبدالقادر بھی قید کر دئیے گئے۔
جو معاشی خوشخبریاں انہوں نے عوام کو سنائی تھیں ان کی حالت یہ ہوئی کہ انقلاب کے ایک سال بعد ہی افغانستان کو اپنی 100 سالہ تاریخ کے پہلے قحط کا سامنا کرنا پڑا۔
لوگ اپنی جانوں اور کھانوں سے تو محروم ہو ہی گئے ساتھ ہیں اپنا ایمان بھی کھونے لگے جب انہوں نے ریاستی طاقت کے ذریعے زبردستی اپنے محلدانہ نظریات لوگوں پر مسلط کرنے شروع کیے۔ حتی کہ جھنڈے کا سبز اسلامی رنگ بھی تبدیل کر کے روس کی پیروی میں سرخ کر دیا۔
( اس تحریک کے سارے لیڈران محلد ہوگئے تھے بشمول حفیظ اللہ امین، ترکئی، ببرک کارمل اور نجیب اللہ وغیرہ)
ان سارے عوامل نے ملکر سردار داؤود کے سیکولر نظریات کے خلاف پہلے سے موجود تحریک کو مزید طاقت دی۔
جب اس ظالمانہ حکومت کے خلاف ملک میں جگہ جگہ عوامی بغاوتیں زور پکڑنے لگیں تو ان سرخوں نے خود اپنی ہی عوام کے خلاف روس سے مدد طلب کی اور اسکو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔
روس جو اسی انتظار میں تھا اپنی 5 لاکھ فوج لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا اوراسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لاکھوں افغانی اس سرخ انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 60 لاکھ افغانیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے جن میں سے 30 لاکھ کو پاکستان نے سنبھالا۔ سرخ انقلاب کی بدولت افغانی جان، مال ایمان اور اپنے گھروں سے بھی محروم ہوگئے۔
اسی دور میں مشہور کمیونسٹ سیکولر لیڈر ڈاکٹر نجیب کو روس نے کے جی بی کے نیچے کام کرنے والی افغان خفیہ ایجنسی " خاد " کا سربراہ بنا دیا۔ ڈاکٹر نجیب کو اسکی بے حسی کی وجہ سے ساتھیوں نے " غوا یا گائے " کا لقب دیا ہوا تھا۔
خاد نے ڈاکٹر نجیب کے زیرنگرانی افغانیوں کا دوبارہ قتل عام شروع کیا۔ افغانیوں کا اتنا قتل عام افغانستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نامی سرخے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ گرفتار ہونے والے افغان لیڈروں یا سیاسی مخالفین کو خود ٹارچر کرنا پسند کرتا تھا اور ان کی چیخیں سن کر خوش ہوتا تھا۔ اس نے خاد کے ملازمین کی تعداد 30 ہزار تک پہنچا دی اور اسکو روس کا افغانستان میں سب سے مضبوط بازو بنا دیا۔
اسی کارکردگی کی بنیاد پر روسی صدر میخایل گورباچوف کی ذاتی فرمائش پر کارمل کو ہٹا کو نجیب اللہ کو افغانستان کا صدر بنا دیا گیا۔ نجیب اللہ کے صدر بن جانے کے بعد افغانستان میں کرپشن اور رشوت خوری اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
روس کی افغانستان میں 5 لاکھ فوج کے ساتھ موجودگی پاکستان کے لیے خطرے کے گھنٹی تھی جسکی وجہ سے پاکستان روس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی مدد کرتا رہا۔ روس کے خلاف اس مزاحمت پر سب سے زیادہ تکلیف ڈاکٹر نجیب کو تھی جو اکثر پاکستان سے اس کا بدلہ لینے کی دھمکیاں دیتا رہتا تھا۔
روس کے جانے کے بعد افغانستان کے سرخے یتیم ہوگئے۔ عوامی حمایت سے وہ پہلے ہی محروم تھے۔ افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی تو انہوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو گرفتار کر کے ٹرک کے پیچھے باندھا اور کابل کی سڑکوں پر گھسیٹا بعد میں اسکو پھانسی پر چڑھا کر نشان عبرت بنا دیا۔
یہ سرخے خود کو کامریڈ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر اپنی ذات کے اسیر ہوتے ہیں۔ نظم و ضبط کی تمام تر صورتوں کو درہم برہم کر کے نئے سرے اپنی اپنی خیالی دنیا بسانے کے شوقین۔ لیکن انکی یہ خیالی دنیا ان کے لیے ہمیشہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے جن کے یہ حقوق کے دعویدار بن کر سامنے آتے ہیں!
کارل مارکس کے نظریات کی نت نئی تشریحات کر کے خوش ہوتے ہیں اور اس پر داد بھی طلب کرتے ہیں۔ اور حسب منشاء داد نہ ملے تو ان کے دل بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔
پاکستان میں یہ بیک وقت تمام قوم پرستانہ تحریکوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔
انہیں پاکستان کو تقسیم کرنے والی ہر تحریک بشمول جاگ پنجابی جاگ، آزاد بلوچستان، پشتنونستان، سندھ دھرتی ماں، آزاد کشمیر اور مہاجروں سے دلی ہمدردی ہے اور ہر ایک کو الگ الگ قوم پرستی کی پٹیاں پڑھاتے رہتے ہیں۔
یہ افغانستان کے سور یا ثور انقلاب نامی فوجی بغاوت کو آج بھی یاد کرتے ہیں ( جسکا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے ) اسکو مناتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ ہمیشہ جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے پیروکار اس وقت افغان اسٹیبشلمنٹ کی شکل میں افغان فوج اور ان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو کنٹرول کر رہے ہیں اور ان کی مدد سے پاکستان میں ایم کیو ایم، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور پی ٹی ایم جیسی کئی دہشت گرد گروہوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
یہ لوگ جب بھی پاکستان میں کسی دہشت گردی کی واردات میں کامیاب ہوتے ہیں تو فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ دیکھا نجیب نے کہا تھا کہ پاکستان کی جلائی ہوئ آگ ایک دن پاکستان کے اندر جائیگی۔
جلائی ہوئی اگ سے ان کی مراد "روس کا افغانستان پر قبضہ کیوں ختم کروایا"
بھٹو بھی سوشلسٹ تھا کمیونسٹ ہی سمجھ لیں۔ اس نے پاکستان میں خونریز سیاست کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کو دو ٹکڑے کیا اور اپنی احمقانہ معاشی پالیسیوں کی بدولت پاکستان کی معیشت کو اتنا تباہ کیا کہ وہ دوبارہ کبھی نہیں اٹھ سکی۔
میری ذاتی رائے میں یہ جو نظریاتی دنیا بسانا چاہتے ہیں اس کے لیے ان کا تیار کیا گیا فارمولہ تمام انسانوں پر اپلائی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ انسانوں کی فطرت میں فساد اور خود غرضی پائی جاتی ہے جسکا مظاہرہ خود ان کے اپنے لیڈر بھی کرتے رہتے ہیں۔
وسائل ہمیشہ انسانوں کی طلب کے مقابلے میں کم ہی رہینگے۔
وسائل کی کمی اور انسانی فطرے میں پائے جانے والے فساد کا علاج صرف اور صرف مذہب کے پاس ہے جس کا یہ سب سے پہلے انکار کرتے ہیں۔
میرے خیال میں اللہ کی ذات اور آخرت پر غیر متزلزل یقین نہ صرف آپ کو اخلاقیات اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ جو کچھ آپ کو میسر ہے اس پر قناعت کرنا بھی سکھاتا ہے۔ اور صرف اسی کے نیتجے ایک مطمئن اور پرسکون معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔