لیاقت علی خان کا قتل
زیر نظر تصویر سید اکبر خان ببرک نامی افغانی کی ہے جس نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کیا تھا۔
یہ بدبخت بھی پاکستان میں پناہ گزین تھا۔ امان اللہ کی فوج میں برگیڈئیر تھا۔ جب امان اللہ یورپ بھاگا تو یہ بھاگ کر یہاں آگیا۔ یہاں نہ صرف اس کو پناہ دی گئی بلکہ ریاست پاکستان اس کو 450 روپے ماہوار وظیفہ بھی دیتی تھی۔ اس وقت سونا 25 روپے تولہ تھا۔ اندازہ کریں آج کے حساب سے لاکھوں روپے ماہورا۔ اس کو اس کے خاندان سمیت ایبٹ آباد میں رہائش دی گئی تھی۔
سی آئی اے کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق لیاقت علی خان کا امریکہ اور افغانستان دونوں کا مجرم تھا۔
امریکہ لیاقت علی خان کی مدد سے ایرانی تیل کا کنٹرول لینا چاہتا تھا۔ لیاقت علی خان کے صاف انکار پر اس وقت کے امریکی صدر نےدھمکی دی تھی جس کے جواب میں لیاقت علی خان نے تمام امریکی طیارے پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔
جب کہ افغانی سرخوں کو لیاقت علی خان سے یہ شکایت تھی کہ اس نے نہ صرف بلوچستان پر افغانستان کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا تھا بلکہ وزیرستان جا کر فقیر ایپی (افغانستان اور انڈٖیا کی پہلی پراکسی) کی تحریک سے بھی ہوا نکال دی تھی۔
16 اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ راولپندی میں مسلم لیگ کا جلسہ تھا۔ سید اکبر خان ببرک کو اگلی نشتوں پہ جگہ دی گئی تھی۔ وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور صرف اتنا کہا " برادران ملت!"
کہ اس ملعون افغانی نے اپنے جرمن ساختہ پستول سے اس پر دو فائر کیے۔ ایک گولی پیٹ میں اور دوسری سیدھی ان کے دل میں لگی۔
"خدا پاکستان کی حفاظت کرے!" لیاقت علی خان کے آخری الفاظ تھے۔ ایک مرتے ہوئے شخص کے الفاظ یقیناً اس کے دل سے نکلے تھے۔ اسی دل سے جس میں گولی لگی ہوئی تھی۔
اسی دوران کوئی چیخا "دا چا ڈزے اوکڑے؟ اولہ" یعنی کس نے گولی چلائی ہے مارو اس کو۔ اور سید اکبر ببرک کو وہیں گولی مار دی گئی۔
سید اکبر ببرک شائد پہلا نمک حرام افغانی تھا۔ آج پاکستان میں پناہ گزین تمام افغانی اسی کے نقش قدم پر ہیں۔ پاکستان میں رہ کر پاکستان کا کھا کر پاکستان کو ہر ممکن طریقے سے ڈستے ہیں۔
(لیاقت علی خان کے علاوہ افغانی سرخوں نے جنرل ضیاء الحق اور بےنظیر کے قتل میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ پرویز مشرف پر کیے گئے دونوں حملے بھی افغانستان سے آپریٹ ہورہے تھے)