عمران خان توشہ خانہ سکینڈل
توشہ خانہ سکینڈل ایک مشہور کیس ہے جس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو تین سال کی سزا اور نااہلی ہوئی۔ پی ڈی ایم حکومت نے اگست 2022ء میں کیس فائل کیا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سالانہ گوشواروں میں توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف ظاہر نہیں کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس پر فیصلہ سنانے کے بعد یہ کیس فوجداری مقدمے کے لیے ٹرائل کورٹ میں بھیجا۔ جہاں عمران خان کو سزا ہوئی۔ دوران ٹرائل اس کیس میں مزید کئی چیزیں سامنے آئیں۔
توشہ خانہ کیا ہے؟
توشہ خانہ یا سٹیٹ ریپازیٹری ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جس کا قیام 1974ء میں عمل میں آیا۔ یہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی۔
ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔
سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے۔ حکام کے مطابق اگر سربراہان مملکت یا وزرا یہ تحائف نہیں رکھتے تو پھر ان تحائف کی فہرست تیار کر کے انھیں توشہ خانہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔
توشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اگر اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں تو انھیں عام عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم ان قیمتی اشیا کو خریدتے ہیں انھیں اپنی ذرائع آمدن ڈیکلیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔
عمران خان کے خلاف توشہ کیس
اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی رانا انور خالد نے 2021ء انفارمیشن کمیشن میں ایک درخواست دی۔ اس درخواست میں مطالبہ کیا کہ مجھے عمران خان کو توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات دی جائیں۔ کمیشن نے اس کی درخواست منظور کی اور کیبنٹ ڈیوژن کو حکم دیا کہ صحافی کو مذکورہ معلومات فراہم کی جائیں۔ کیبنٹ ڈیوژن نے اس حکم کو ھائی کورٹ میں چلینج کر دیا کہ تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے سے مذکورہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ تاہم اپریل 2022ء میں کئی سماعتوں کے بعد ھائی کورٹ نے صحافی کے حق میں فیصلہ کردیا اور حکم دیا کہ اس کو مذکورہ معلومات فراہم کی جائیں۔
اتحادی حکومت کے ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چار اگست کو الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت ریفرنس بھیجا تھا جس میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کی سزا کی استدعا کی گئی تھی۔ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے عمران خان کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں انھیں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ ’بددیانت‘ ہیں، لہٰذا انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
پی ٹی آئی کے قائدین کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ عمران خان نے اپنے جواب میں وصول کیے گئے تحائف میں سے 4 تحائف بیچنے کا اعتراف کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے 21 ملین ڈالر کے تحفے خریدے تھے جن کو 58 ملین روپوں میں بیچ دیا تھا۔ ان تحائف میں گھڑی، کف لنکس، انگھوٹی اور رولیکس گھڑیاں شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ عمران خان کرپٹ پریکسٹس کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انھیں آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’ہماری (الیکشن کمیشن) کی فائنڈنگز، ریکارڈ پر دستیاب مواد اور فریقین کے وکلا کے دلائل کی روشنی میں ہماری یہ رائے ہے کہ مدعا علیہ (عمران خان) کی آئین کے آرٹیکل 63 ون (پی) اور اس کے ساتھ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 137, 167 اور 173 کی روشنی میں یہ نااہلی کی گئی ہے۔‘
’اس کے نتیجے میں وہ (عمران خان) قومی اسمبلی کی نشست سے محروم ہو چکے ہیں اور یوں اُن کی نشست خالی ہو چکی ہے۔ کیونکہ انھوں (عمران خان) نے غلط بیانی کی اور اثاثہ جات کے درست گوشوارے جمع نہیں کرائے۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس وجہ سے وہ (عمران خان) کرپٹ پریکٹس کے مرتکب بھی ہوئے ہیں، جن کا ذکر الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 167 اور 173 میں درج ہے اور اس کی سزا اس ایکٹ کی دفعہ 174 میں درج ہے۔ دفتر کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اب (یہ جرائم ثابت ہونے پر) قانونی کارروائی کا آغاز کرے اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 190 ٹو کے مطابق فالو اپ ایکشن کو یقینی بنائے۔‘
الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عمران خان نے 22 اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد ھائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ میں نے تحائف توشہ خانہ سے قانونی طریقے سے خریدے۔ ان کو بیچ کو سڑک گئی جو میرے قریب رہنے والے دوسرے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مجھ سے پہلے اصل قیمت سے بہت کم مہنگے تحائف خریدے گئے۔ میں نے تو گھڑی خریدنے کے لیے 20٪ سے 50٪ رقم ضروری قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف عمران خان نے لانگ مارچ (2) کا اعلان کیا۔
21 نومبر 2022ء کو عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے ٹرائل کورٹ کو ریفرنس بھیجا۔ الیکشن ایکٹ 137، 170 اور 167 کے تحت سیشن جج سے ریفرنس وصول کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی معلومات جمع کرائیں اور حقائق کو چھپا کر مذکورہ قوانین کی خلاف ورزی کی۔ عمران خان کرپٹ پریٹکسز کے مرتکب ہوئے۔
27 اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے کیبنٹ ڈیوژن کو حکم دیا کہ 1947ء سے لے کر آج تک تمام تحائف کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔ عمران خان نے توشہ خانہ کیس لڑنے کے یل خواجہ حارث نامی وکیل کو ھائر کیا۔ 10 مئی 2023 کو، خان پر ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے فرد جرم عائد کی۔ اسلام آباد ھائی کورٹ نے 8 جون تک ٹرائل روک دیا۔ ھائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 4 جولائی کو سیشن جج جسٹس دلاور کو حکم دیا کہ وہ 7 دن کے اندر عمران خان کی فوجداری کاروائی خارج کرنے کی درخواست کا دوبارہ جائزہ لیں۔ 9 جولائی کو جسٹس دلاؤر نے کیس قابل سماعت قرار دیتے ہوئے کاروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 5 اگست 2023 کو، اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 174 کے تحت "بدعنوانی" کا مجرم قرار دیا اور انہیں تین سال قید کے ساتھ ساتھ 1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ عمران خان کو اسی دن حراست میں لے لیا گیا اور اٹک جیل بھیج دیا گیا۔ جبکہ ان کی قانونی ٹیم نے 8 اگست کو سزا کے خلاف اپیل دائر کی۔ 29 اگست کو ھائی کورٹ کے دو رکنی بینج نے عمران خان کی سزا معطل کر دی۔
فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کا موقف
کل تک جو پی ٹی آئی توشہ خانہ سے خریداری کو ایک 'قانونی جائز' خریداری قرار دے رہی تھی توشہ خانے کا ریکارڈ پبلک ہونے کے بعد وہ ہر اس شخص کو چور کہہ رہی ہے جس نے کوئی ایک بھی چیز توشہ خانے سے خریدی ہے۔ اس ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ مالیت کی چیزیں زرداری نے خریدی ہیں، دوسرے نمبر پر عمران خان ہیں اور تیسرے نمبر پر نواز شریف ہیں۔
لیکن بات صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں بلکہ جرنیلوں، صحافیوں اور بیوروکریٹ نے بھی ان غیر ملکی تحائف پر ہاتھ صاف کیا ہے گو کہ ان کے حصے میں نسبتاً کم قیمت چیزیں آئیں۔
عمران خان نے ایک خلیجی ملک سے تحفہ وصول کر کے پھر اس کو کوڑیوں کے مول خرید کر پھر اسی ملک کی مارکیٹ میں دوبارہ بیچ دیا اور 'منافع' کمایا۔ لیکن اس پر بھی کوئی کیس نہیں بنتا کہ تحفہ خریدا کیوں اور بیچا کیوں؟
(گو کہ تھوڑا غیر اخلاقی تھا اسی ملک میں نہ بیچتا)
کیس یہ ہے کہ اس نے جن پیسوں سے تحفہ خریدا وہ اس کے اثاثوں میں ڈکلیئر نہیں تھے،
پھر اس نے دس گنا قیمت پر وہ تحفہ دوبارہ بیچا تو ملنے والی رقم ڈکلئیر نہیں کی،
اور دو سال بعد تب ڈکلئیر کی جب یہ ایشو بن چکا تھا۔ یاد رکھیں نواز شریف کو دس ہزار درہم تنخواہ چھپانے پر نااہل کیا گیا تھا جس پر آج تک پی ڈی ایم روتی ہے کہ نواز شریف کو اس تنخواہ پر ہٹایا گیا جو اس نے کبھی لی ہی نہیں۔
جس مبینہ خریدار نے تحفہ خریدا اس کا دعوی ہے کہ میں نے 10 کروڑ نہیں بلکہ تقریباً 40 کروڑ روپے کے مساوی ادائیگی کی ہے۔ مخالف پارٹیاں اس کی بھی تحقیقات چاہتی ہیں۔ عمران خان نے اپنے کچھ آخری دوروں میں ایک بھی تحفہ توشہ خانے میں جمع نہیں کرایا۔ جس پر پی ڈی ایم کا دعوی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کو تحفے نہ ملیں ہوں۔ وہ اس پر بھی تحقیقات چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان اس کیس کا ٹرائیل شروع نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ٹی وی پر اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ میں نے اس رقم سے بنی گالہ میں اپنے گھر تک سڑک بنائی جو باقی لوگوں کے بھی کام آرہی ہے۔ دیکھیں گے کہ عدالت میں اثاثے چھپانے کے خلاف یہ جواز قابل قبول ہوگا یا نہیں!
عمران خان توشہ خانہ کیس!
عمران خان نے تقریباً 6 ارب روپے مالیت کی گھڑی 9 لاکھ 35 ہزار روپے میں توشہ خانہ سے خریدی اور اس کو 60 کروڑ روپے میں بیچ دیا۔ لیکن کیس یہ نہیں کہ گھڑی کیوں خریدی!
اگر محض گھڑی خریدنے کا معاملہ ہوتا تو وہ قانون پیش کرتا اور کیس ختم ہوجاتا۔ اس کیس میں کچھ ایشوز اور ہیں جن کی وجہ سے عمران خان پھنس رہا ہے اور جن کی وجہ سے اس نے ایک سال تک کیس چلنے نہیں دیا اور مسلسل حاضری سے استثنی لیتے رہے۔ سپریم کورٹ اور ھائی کورٹ میں اپیلیں بھی دائر کیں کہ اس کیس کو چلنے سے روکا جائے۔
اس کیس میں درج ذیل ایشوز ہیں۔
عمران خان نے کروڑوں اربوں روپوں کی یہ گھڑی اپنے اثاثہ جات میں ظاہر نہیں کی۔ تب ظآہر کی جب سکینڈل میڈیا کی زینت بنا۔ یاد رہے کہ نواز شریف نے صرف چند ہزار درہم کی تنخواہ چھپائی تھی اور اس پر نااہل کر دیا گیا تھا۔
تحفے کی قیمت کا تخمینہ متعلقہ فورمز سے نہیں لگوایا۔ خود ہی تعئن کر کہ 9 لاکھ 35 ہزار کی قیمت لگا دی۔ جو اصل قیمت کا ہزارواں حصہ ہے شائد۔ یہ بہت بڑی بےایمانی تھی۔
قیمت بھی توشہ خانہ میں جعع نہیں کروائی۔ بلکہ پہلے گھڑی بیچی۔ اس میں ڈالرز کی موجودہ قیمت کے حساب سے 60 کروڑ پاس رکھ کر اس میں سے 9 لاکھ 35 ہزار توشہ خانے میں جمع کروا دیے۔
جمع کروائی گئی رقم بھی عمران خان کے اکاؤنٹس سے ٹرانسفر نہیں ہوئی۔
تحفہ اسی ملک میں بیچ دیا جہاں سے ملا تھا یوں پاکستان کی ریاستی سطح پر سبکی ہوئی۔
تحفہ بیرون ملک پرائیویٹ جہاز میں بھیجا اس طرح کسٹم قوانین کی خلاف ورزی بھی کی۔
تحفے سے حاصل ہونے والی رقم بھی بینکنگ چینل یا قانونی طریقے سے پاکستان نہیں آئی۔
ایک ہاتھ سے تیار کی گئی جعلی رسید پیش کی گئی۔ جس پر جعل سازی کا کیس الگ سے بنتا ہے۔
عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو جتنے بھی تحفے ملے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی توشہ خانہ میں نہیں رہنے دیا اور تمام کے تمام تحفے وہاں سے اٹھا چکے ہیں۔ لیکن ان سب میں سب سے قیمتی سعودی شاہی خاندان سے ملنے والی یہ گھڑی تھی جس کا کیس وہ بھگت رہا ہے۔ عمران خان پر ایک الزام بھی ہے کہ آخری کچھ دوروں میں ملنے والے تحفے اس نے توشہ خانہ بھیجنے کی زحمت بھی نہیں کی اور سیدھے بنی گالہ لے گئے۔
عمران خان کا اس کیس پر ابتدائی موقف یہ تھا کہ یہ کیس نہیں چلنا چاہئے دوست ممالک کے سامنے پاکستان کی سبکی ہوگی۔ اس کے بعد موقف اختیار کیا کہ میرا تحفہ ہے میری مرضی، چاہے بیچوں چاہے رکھوں۔ پھر دعوی کیا کہ میں سارے ثبوت عدالت میں دونگا۔ اب کہتے ہیں کہ میں لاعلم ہوں یہ تو فلاں نے کیا اور فلاں نے کیا۔ فیصلہ خلاف آیا تو موقف اختیار کریںگے کہ ہمارے گواہوں کو سنا نہیں گیا جنکا وہ کیس سے تعلق ہی ثابت نہیں کر سکے۔ پھر کہیں گے ہمیں وقت نہیں دیا گیا اپنی صفائی کا۔ جب کہ کیس سوا سال سے چل رہا ہے جو اپنی بےگناہی کے ثبوت پیش کرنے کو بہت کافی وقت ہوتا ہے۔
اسی معاملے پر بشری بی بی اور زلفی بخاری کی اڈیو لیک بھی موجود ہے کہ تحفے دراصل کیسے فروخت کیے جاتے تھے۔ اس کیس میں اثاثہ جات چھپانے، جعل سازی اور خردبرد کرنے کے کئی پہلو ہیں۔ یہ کیس عمران خان کو نااہل بھی کروا سکتا ہے اور جیل بھی بھجوا سکتا ہے۔
تحریر شاہد خان
جج نے فہرست کیوں مسترد کی؟
تب تو یہ پارٹی میں ایکٹیو ہی نہی تھے؟ پارلیمنٹ ھاؤس میں داخل نہین ہوسکتے تھے۔ ورنہ یہ گواہ کب کے پیش کرچکے ہوتے۔ گواہ کہاں ہین؟ گواہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ آپ نے گواہ ساتھ کیوں نہیں لائے؟ ہمیں ٹائم دیں ہم گواہ تیار کرتے ہٰں۔ آپ صرف عدالت کا وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ حق گواہی سلب کروا لی۔ جج دبنگ جج ہین۔
غیر متعلق گواہوں کو پیش کرنے کے جرم میں حق گواہی سلب کی جاتی ہے۔
عمرا خان کا یارکر نو بال ثابت ہوا۔ وسیم چیمہ صاحب انوالو تھے۔ جس چیز کا علم نہ ہو تو نہیں کہنا چاہئے۔ بطور گواہ پیش ہی نہین کیا۔ اگر عدالت چاہے تو ملٹری سیکٹری کو بلا سکتی ہے۔
بشری بی بی اور زلفی بخاری بچا سکتے ہیں۔ اگر چاہیں تو۔ غیر متعلق گواہ ہیں۔ سیکٹری اطلاع بھی ڈال دیا جو اس وقت بیچ مٰں تھا ہی نہیں۔ سوائے کیس لٹاکنے کی کوشش کی۔ فیس بک پر پوسٹیں بھی جعل سازی ثابت ہوئی پی ٹی آئی۔ ایف آئی اے نے عدالت میں رپورٹ پیش کی ہے۔ سکرین شاٹس کا کوئی یو آر ایل موجود نہیں۔ لگتا ہے جیسے یہ سکرین شاٹ بنائی گئی ہیں بس۔ یہ تو کوئی بھی بنا سکتے ہیں۔ جج ہمایوں دلاؤر کے اکاؤنٹ میں کچھ بھی موجود نہیں۔ اس میں ان کی صرف ذاتی پوسٹیں موجود ہیں۔
پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔
سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔
نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 'Li' 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔ نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔
اسی طرح واضح رہے کہ کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی طرح عمران خان پر توشہ خانہ کے حوالے سے ایک ہی جیسا کیس ہے جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ دوسرے حکمرانوں نے غیر اخلاقی کام کیے لیکن غیر قانونی کام نہیں کیے، کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق وہ ہر تحفے کی قیمت کا بیس فیصد ادا کرتے تھے لیکن عمران خان نے توشہ خانہ کے حوالے سے قانون کی بہت سی خلاف ورزیاں کیں۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اس 20 فیصد سلیب کو بڑھا کر 50 فیصد کر دیا، لیکن الزام ہے کہ قانون بننے کے بعد بھی عمران اور ان کے لوگوں نے 20 فیصد کے پرانے سلیب کے مطابق ادائیگی کی۔
دوسرا یہ کہ قانون کے مطابق ایک کمیٹی نے تحفے کی قیمت کا تخمینہ لگانا تھا لیکن انہوں نے اس کمیٹی سے کبھی تخمینہ نہیں لگوایا اور خود ہی قیمت کا تعین کرتے رہے۔ تیسرا یہ کہ ماضی کے حکمرانوں نے تحفے لیے اور اپنے پاس رکھے۔ چوتھا یہ کہ ماضی میں حکمرانوں نے اپنے پاس رکھے لیکن بیچنے کے ثبوت سامنے نہیں آئے، جبکہ عمران خان نے انہیں رکھنے کے علاوہ آگے بیچ دیا اور الزام ہے کہ بیرون ممالک میں بھی انہوں نے بیچے۔ پانچویں خلاف ورزی یہ تھی کہ تحفے کی رقم کا بیس فیصد عمران خان کے اکاؤنٹ سے خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی، بلکہ اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی، جسے انہوں نے اپنے اثاثوں میں الیکشن کمیشن کو ظاہر نہیں کیا۔ چھٹا یہ کہ عمران نے یہ تحائف بیرون ملک پرائیویٹ جہاز میں فروخت کے لیے بھیجے اور اس طرح کسٹم قوانین کی خلاف ورزی کی گئی اور فروخت سے حاصل ہونے والی رقم دبئی سے بینکنگ چینل کے ذریعے نہیں آئی۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی جانب سے قواعد کی خلاف ورزی کے کیس کا حوالہ د یتے ہوا کہا کہ عمران خان کو کئی کروڑ مالیت کی انتہائی مہنگی گھڑی تحفے کے طور پر ملی جسے ان کے دوستوں نے بیرون ملک میں فروخت کیا اور اس کے اوپر انہوں نے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک رسید پاکستان میں تیار کر کے جمع کرائی یعنی جعلسازی بھی کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان نے نہ صرف تحفہ فروخت کیا بلکہ بعد میں جعلی رسید بھی تیار کی۔
اس طرح اخلاقی لحاظ سے یکساں ہونے کے باوجود عمران خان کا کیس قانونی لحاظ سے دوسروں سے مختلف ہے۔ اسی لیے وہ عدالت میں پیش ہونے سے گریزاں ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس کیس کی وجہ سے ان کے لئے پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس کو سیاسی شکل دے کر اس سے اپنے لئے سیاسی فائدے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
رواں سال اگست میں الیکشن کمیشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایم این ایز کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا تھا۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔‘
ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔
س سے قبل سپریم کورٹ 2017 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنے بیٹے کی کمپنی ایف زیڈ ای سے قابل ادائیگی رقم ظاہر نہ کرنے پر نااہل کر چکی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق نواز شریف 2013 میں دائر کیے گئے کاغذات نامزدگی میں ایف زیڈ ای نامی کمپنی میں اپنے اثاثے ظاہر نہ کر کے صادق اور امین نہیں رہے۔
نوٹ ۔۔ جن قوانین کے تحت مقدمہ چلا وہ بھی درج کرنا مناسب رہے گا۔