مرزا علی خان عرف فقیر ایپی

Shahidlogs سے
نظرثانی بتاریخ 12:28، 22 مارچ 2023ء از Shahidkhan (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («فقیر ایپی افغانستان اور انڈیا کی پاکستان کے خلاف پہلی مشترکہ پراکسی تھی۔ اس نے بیک وقت پختونستان اور اسلام کے نام پر پاکستان کے خلاف جنگ کی۔ آگے جانے سے پہلے فقیر ایپی کا نہرو کے نام یہ خط دیکھیں ذرا! "بخدمت جناب والا شان، پنڈت جواہر لعل نہرو‘...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

فقیر ایپی افغانستان اور انڈیا کی پاکستان کے خلاف پہلی مشترکہ پراکسی تھی۔ اس نے بیک وقت پختونستان اور اسلام کے نام پر پاکستان کے خلاف جنگ کی۔

آگے جانے سے پہلے فقیر ایپی کا نہرو کے نام یہ خط دیکھیں ذرا!

"بخدمت جناب والا شان، پنڈت جواہر لعل نہرو‘

بادشاہ ہند، دام اقبالہ

گزارش بحضور انور ایں کہ مسمی اول حسن (فقیر ایپی کا نمائندہ) آن جناب سے بہت خوش ہو کر واپس آیا۔ میں بہت مشکور ہوں کہ جناب نے زبانی گفتگو کی۔ گزارش ہے کہ پاکستان نے بہت عرصے سے کشمیر میں تکلیف بنا رکھی ہے۔ خدا مجھے اور آپ کو توفیق دے کہ ہم اہالیان کشمیر کو اس آفت سے نجات دلائیں۔ خدا کے فضل سے اب پاکستان کمزور ہو گیا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جوں ہی آپ کی مدد پہنچ جاوے تو میں سرحدی لوگوں کو ایک دم لڑائی پر مجبور کر دوں گا کیونکہ کافی عرصہ سے پاکستان یعنی انگریز نے سرحد کے لوگوں کو بھوکا مارا اور ننگا کر رکھا ہے۔ جس وقت اپنے وطن میں آپ کا امداد پہنچ جاوے تب وہ معمولی تنخواہ پر میرے ساتھ شامل ہو سکیں گے اور آپ ہندوستان کی طرف سے حملہ کر دیں گے۔ اس بار اوّل حسن آپ کے پاس آ رہا ہے کیونکہ کابل کے بادشاہ نے سب سفیروں پر سخت پہرہ بٹھایا ہے، اس لیے آپ کے سفیر تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اوّل حسن آپ کے اختیار سے کابل میں آپ کے سفیر کے پاس جا سکے، تب وہاں سب کام تسلی بخش ہوگا۔ اوّل حسن آپ کی خدمت میں ضروری باتیں بیان کر دے گا۔

تسلیمات"

یہ بدبخت آزاد کشمیر کو پاکستان کا قبضہ قرار دے کر اس کو انڈیا کو واپس کرنے کی پیشکش کے علاوہ انڈیا کو پاکستان پر حملے کی دعوت بھی دیتا رہا۔

فقیر ایپی کے انڈین جرنیلوں کے ساتھ بھی  خط و کتابت تھی۔

فقیر ایپی اصلاً ایک مسجد کا پیش امام تھا۔

فقیر ایپی نے پہلی جنگ 1933ء میں افغانستان میں لڑی۔ یہ جنگ بادشاہ امان اللہ کی بحالی کے لیے تھی۔

امان اللہ افغانستان کو سیکولر بنانا چاہتا تھا اور ملحد ہوچکا تھا۔ شعائر اسلام کی اعلانیہ توہین پر اس کے خلاف بغاؤت اٹھی۔ تب اس کی مدد کو وزیرستانی لشکر گیا جس میں فقیر ایپی بھی تھا۔

سمجھیں فقیر ایپی کی پہلی جنگ افغانستان کو اسلامی سے سیکولر بنانے کے لیے لڑی۔

دوسری بار 1944ء میں بھی امان اللہ کو اقتدار دلانے کے لیے افغانستان میں دوبارہ "جہاد" فرمایا۔

لیکن اس کے بیچ میں 1936ء میں انگریز کے خلاف ایک ہندو لڑکی کے مسلمان ہونے کے تنازعہ پر وزیرستان میں ہونے والی بغاوت کی قیادت کی۔

خیال رہے کہ اس وقت فقیر ایپی کی عمر 40 کے قریب تھی اور انگریز ہندوستان میں شکست کھا کر بھاگنے کی تیاری میں تھا۔

اس جنگ میں وہ کبھی انگریز کے خلاف دوبدو نہیں لڑا۔ بلکہ گھات لگا کر حملے کیے۔ اپنے ساتھیوں سمیت اپنا علاقہ چھوڑ کر گورویک نامی مقام کا اپنا مرکز بنایا۔ اس بغاوت کو انگریز نے بڑی حد تک کچل ڈالا لیکن جب وہ واپس گئے تو مقامیوں اس کو اپنی فتح قرار دیا۔

تاہم فقیر ایپی کے اکا دکا حملے جاری رہے جس کے جواب میں انگریز مقامی آبادی پر بمباری کر کے تباہی پھیلا دیتا تھا۔

اسی جنگ میں فقیر ایپی کی کرامات مشہور کی گئیں کہ لکڑی سے بندوق اور پتھروں سے کارتوس بناتا تھا۔

اس دوران فقیر ایپی کے افغان سرخوں اور باچا خان وغیرہ سے مضبوط روابط استوار ہوچکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جب بنوں میں سرخوں نے اپنا مشہور جرگہ کیا تو اس میں فقیر ایپی بھی شریک ہوا۔

اس جرگے میں سرخوں نے فیصلہ کیا کہ یا ہم آزاد ہونگے یا افغانستان یا انڈیا کے ساتھ الحاق کرینگے۔

سرخوں کی وجہ سے فقیر ایپی کے روابط روس تک ہوگئے تھے۔ بلکہ افغانستان کے راستے اس کو جرمنی اور اٹلی سے بھی مدد آتی تھی۔

سرخوں کے جھانسے میں آکر پاکستان بن جانے کے بعد فقیر ایپی نے پاکستان کے اندر پختونستان بنانے کا اعلان کیا اور پاکستان کے خلاف دہشتگردانہ حملے شروع کیے۔ چن چن کر پاکستان کے حامی پشتونوں کو قتل کرنے لگا۔ فقیر ایپی کی اس بغاؤت کی ماسکو، دھلی اور کابل نے خوب تشہیر کی۔

افغانستان میں سیکولرازم کے نفاذ کے لیے جنگ کرنے والے فقیر ایپی نے پاکستان کو کافر ریاست قرار دیتے ہوئے یہاں اسلام کے نفاذ کا اعلان کیا۔  نئی بننے والی مللکت کا سرکاری عملہ بھی افغان سرخوں نے کابل سے وزیرستان بھیجا اور ان کی تنخواہیں بھی کابل سے آنی شروع ہوگئیں۔

فقیر ایپی کے ساتھی سرخ پوشے وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں پاکستان کے خلاف پراپگینڈا کرنے لگے اور نفرت انگریز پرچیاں بھی بانٹنی شروع کر دیں۔ جس کے لیے افغانستان نے پریس لگا کر دیا۔ سمجھیں پہلی ڈس انفارمیشن وار۔ (پی ٹی ایم اس کی تازہ ترین شکل)

تقریبات منعقد کی گئیں جس میں افغانی سرخوں نے فقیر ایپی کو پختونستان کا پہلا صدر قرار دیا۔ افغانستان کے سفیر "شاہ ولی خان" نے بھارت کے اخبار "دی ہندو" کو انٹرویو دیتے ہوۓ فرمایا کہ "پشتونستان میں ہم چترال، دیر، سوات، باجوڑ، تیراہ اور بلوچستان کے علاقے بھی شامل کرینگے۔"

سرخوں کے اس فساد کے جواب میں 1948ء کے پہلے مہینے میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے وزیرستان کا دورہ کیا۔ مقامی مشران کو یقین دلایا کہ پاکستان اسلامی ملک ہے اور اس میں قبائلیوں کا مستقبل روشن ہوگا۔ مقامی آبادی کی اکثریت نے ان کی حمایت کی اور فقیر ایپی کی تحریک بہت تیزی سے بےجان ہوگئی۔

فقیر ایپی کو اپنی شکست کا احساس ہونے لگا اور افغانیوں کی بےوفائیوں سے تنگ آگیا۔ اس کو یہ بھی احساس ہوا کہ پشتون کبھی بھی پاکستان سے کٹ کر افغانستان کا حصہ نہیں بنیں نہ افغانستان کے زیر اثر اپنی کمزور سی ریاست بناینگے۔

اس کے بعد اس نے کاروائیوں میں حصہ لینا چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اپنے مرکز سے لوئے پشتونستان کا جھنڈا بھی اتار لیا اور مکمل کنارہ کش ہوگیا۔

آج پی ٹی ایم سرنڈر کرنے والوں کو "سلانڈرا" اور امن لشکروں کو دہشتگرد کہتی ہے تو فقیر ایپی پہلا سلانڈرا بھی تھا اور پہلا دہشتگرد بھی۔ کیونکہ اس نے سرنڈر کیا تھا اور پھر لشکر بنا کر پاکستان کے خلاف لڑنے والے دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں بھی کی تھیں۔

جس کی وجہ سے پاکستان نے اس کے سارے گناہ معاف کر کے اس کو اپنی کتابوں میں ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا اور اسلام اباد میں اس کے نام سے ایک سڑک بھی منسوب کی۔

فقیر ایپی نے دوسلی کے مقام پر ایک بڑے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا "بھائیو افغانیوں نے اب تک مجھے سخت دھوکے میں ڈالے رکھا۔ اسلام کے نام پر مجھے بڑا فریب دیا۔ آئندہ اگر افغانستان میرے نام پر کسی قسم کا منصوبہ بنائے تو آپ نے ہرگز اس کا ساتھ نہیں دینا۔"

افغانستان نے شرمندہ ہوکر ایپی فقیر کو ایک کھلی وارننگ دی کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہر قسم کی سرگرمیوں سے باز آ جائیں۔ گویا یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہم اس کی پشت پناہی نہیں کر رہے۔

فقر ایپی کے کمانڈر ان چیف خلیفہ مہر دل خٹک نے 1954ء میں ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔ بعد میں اسی مہر علی نے ریڈیو پاکستان پر پاکستان اور پشتونوں کے خلاف افغانیوں کی سازشوں کی پوری تفصیل بھی بیان کی۔

بعد میں فقیر ایپی کو دمہ ہوا اور 1960ء میں بہت کسمپرسی کی حالت میں فوت ہوا۔

فقیر کی وفات کے بعد افغان سرخوں نے اس کے بیٹے کو انہی خطوط پر لانچ کرنے کی کوشسش کی۔ جو ناکام رہی۔ اس حوالے سے امریکن سفیر برائے انڈیا نے امریکہ کو خط لکھا جو بعد میں سی آئی اے نے ڈی کلاسیفائیڈ کیا۔

وزیرستان کو آگ اور خون میں جھونکنے والا ٹی ٹی پی کا مشہور کمانڈر حافظ گل بہادر اسی فقیر ایپی کا پوتا ہے۔ جس نے سب سے پہلے گھات لگا کر وزیرستان میں پاک فوج کے قافلے پر حملہ کیا اور سترہ جوانوں کو شہید کیا تھا۔

آج کل پی ٹی ایم فقیر اپی کے جھوٹے سچے قصے سنا سنا کر وزیرستانیوں کو پاکستان کے خلاف ایک اور جنگ کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور فقیر ایپی کو ان کے سامنے مثال کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

افغانی سرخوں اور پی ٹی ایم سے چند سوالات

اگر انگریز کے خلاف جنگ پر فقیر ایپی ہیرو ہے تو انگریز کے خلاف جنگ پر افغان طالبان ہیرو کیوں نہیں ہیں؟

اگر افغان طالبان افغان فورسز کو مارنے پر دہشت گرد قرار پاتے ہیں تو فقیر ایپی پاکستان کے خلاف جنگ کرنے پر دہشت گرد کیوں نہیں قرار پاتا؟

فقیر ایپی اور اس کے کمانڈر نے افغان سرخوں کے بارے میں جو انکشافات کیے تھے وہ پی ٹی ایم مانتی ہے یا نہیں؟؟

فقیر ایپی نے سرنڈر کیا تھا کیا پی ٹی ایم اس کو بھی "سلانڈرا" کہے گی؟