لکی مروت میں پولیس کا احتجاج
لکی مروت میں پولیس تقریباً تمام مقامی ہے جو نہ صرف وہاں رہتے ہیں بلکہ ان کی طالبان کے ساتھ رشتے داریاں بھی ہیں۔
عمران خان کے دور میں ہزاروں طالبان کو واپس لایا گیا جن میں لکی مروت والے بھی واپس آگئے جس کے بعد وہاں دوبارہ حالات خراب ہوگئے۔
ان کی واپسی پر سول حکومت نے سوا سال پہلے دوبارہ ان علاقوں میں فوج طلب کی۔ فوج سخت آپریشنز پر طالبان نے مقامی پولیس اور ان کے رشتے دروں کو دھمکانا شروع کر دیا اور انکو فوج کا سہولت کار قرار دیا۔ طالبان کی کوشش تھی کہ مقامی پولیس کے ذریعے فوج پر دباؤ ڈالا جائے۔
جس کے بعد احتجاج کرنے والے پولیس والوں نے کہا کہ فوج کے بغیر ہم صرف تین ماہ میں دہشتگردی ختم کر دینگے۔ اس مضحکہ خیز دعوے پر کئی سوالات اٹھے کہ پولیس کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگی ہے جو وہ طالبان کو ختم کر دینگے۔ ان کے جب تھانوں پر حملے ہوتے ہیں تو یہ فوج کو مدد کے لیے طلب کرتے ہیں۔ اگر پورا ضلع ان کے حوالے کر دیا جائے تو کیا ہوگا؟ یہ درحقیقت ٹی ٹی پی کا مطالبہ ہے جس کے لیے فوج کو آگے کیا گیا ہے۔
انکا مطالبہ ہے کہ پاک فوج، ایف سی اور دیگر سیکیورٹی ادارے اس علاقے کو چھوڑ دیں۔
ڈی آئی جی، ڈی پی او اور ڈی سی ان سے مزاکرات کر رہے ہیں۔
دھرنے میں پی ٹی ایم شامل ہوگئی اور پی ٹی آئی نے بھی فوراً اسکو سوشل میڈیا پر اٹھانا شروع کر دیا۔
کچھ عرصہ پہلے ایف سی کی جانب سے اسمگلنگ والی گاڑیاں استعمال کرنے سے روکنے پے بھی جنوبی وزیرستان کی پولیس نے ہڑتال کر دی تھی۔
اس احتجاج میں اباخیل قبیلے کے وہ سابق ملازمین شامل ہیں جو اپنی ڈسپلنری ناکامیوں اور کرپشن کی وجہ سے پولیس سے نکالے گئے تھے۔
لکی مروت کے اس احتجاج پر پی ٹی آئی کی حکومت لاتعلق نظر آرہی ہے لیکن انکا سوشل میڈیا فوج کے خلاف خوب زہر اگل رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے سوشل میڈیا پے یہ پوسٹ اپلوڈ ہوئی جس میں ٹی ٹی پی کارندہ انعام اللہ جو کہ مچن خیل کا رہائشی ہے اور سولین ہے پولیس کی وردی پہن کر کہہ رہا ہے کہ ہم لکی مروت پولیس کے اتحادی ہیں کہ پاک فوج کو لکی مروت سے باہر بھیجیں گے۔