سانحہ اے پی ایس
سانحہ اے پی ایس کو افغانستان کا پاکستان کو لگایا گیا سب سے گہرا زخم کہا جا سکتا ہے۔ یہ حملہ کرنے والے افغانی تھے، پلاننگ افغانستان میں ہوئی، حملے کے دوران رابطہ افغانستان سے تھا، پاکستان میں حملہ آوروں کے سہولت کار افغانی تھے، حملہ آور تنظیم کا مرکز بھی افغانستان تھا۔ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ خراسانی کو افغانستان نے چار گھر دے رکھے ہیں اور دوران اٹیک حملے کو لیڈ کرنے والا نعمان شاہ ہلمند بھی افغانی تھا۔ حملے پر پوری دنیا روئی لیکن افغانی واحد قوم ہیں جو اس حملے پر بھی " خواند ی شتہ" کے سٹیٹس سوشل میڈیا پر لگاتے نظر آئے۔
افغان اسٹیبلسمنٹ اور لر و بر کے علمبرداروں نے ستر سالوں میں پاکستانیوں اور خاص طور پر پشتونوں کو جو زخم لگائے ہیں ان میں اے اپی ایس پر حملہ سب سے گہرا زخم تھا جو شائد کبھی مندمل نہ ہوسکے۔
حملے میں مجموعی طور پر 149 لوگ شہید ہوئے جن 134 بچے تھے۔ جب کہ 121 زخمی ہوئے۔ سکول میں موجود 960 بچوں اور استاتذہ کو پاک فوج نے ریسکیو کر لیا تھا۔
جون 2014ء میں دہشت گردوں نے کراچی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر حملہ کر دیا۔ ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کی۔ جس کے جواب میں پاک فوج نے فاٹا میں آپریشن ضرب عضب کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف سب سے بڑا آپریشن لانچ کیا۔
اس آپریشن کے لیے ملک بھر میں جگہ جگہ سیکیورٹی پر تعئنات فوجیوں کی تعداد کم کر دی گئی اور زیادہ تر فوج آپریشن میں حصہ لینے وزیرستان پہنچ گئی۔
اس آپریشن میں دہشت گردوں سے تمام زیر قبضہ علاقے چھڑا لیے گئے، ان کے مراکز کا خاتمہ کر دیا گیا، کچھ مارے گئے، کچھ پکڑے گئے اور کچھ نے بھاگ افغانستان میں پناہ لے لی۔
اس کے جواب میں 16 دسمبر 2014ء کی صبح دس بجے کے وقت ٹی ٹی پی کے سات دہشت گردوں نے پشاور میں ورسک روڈ پر قائم اے پی ایس سکول پر حملہ کر دیا۔ یہ سکول پشاور کینٹ سے باہر ورسک روڈ پر واقع ہے۔
دہشت گرد آٹومیٹک گنوں، ہینڈ گرنیڈ اور مختلف طرح کے بموں سے لیس تھے۔ دہشت گردوں نے سکول میں گھستے ہی بے دریغ بچوں اور بڑوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔
پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کو پہنچنے میں شائد پندرہ سے بیس منٹ لگے ہونگے۔ کمانڈوز نے سکول میں داخل ہوتے ہی دہشت گردوں پر حملہ کر کے ان کو انگیج کر لیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ مزید بچوں کے پیچھے نہ جاسکے۔
ابتدائی حملے میں ہی تین دہشت گرد ہلاک کر دئے گئے جن میں سے ایک کو سنائپر نے نشانہ بنایا۔ اسی دوران پاک فوج بچوں اور استاتذہ کو مسلسل ریسکیو بھی کرتی رہی۔
اسی دوران پولیس اور پاک فوج کے جوانوں نے سکول کو حصار میں لے لیا تاکہ کوئی دہشت گرد بھاگ نہ سکے۔
باقی بچ جانے والے دہشت گرد مرکزی آڈیٹوریم کی طرف بھاگے جہاں کمروں میں بہت سے بچے ابھی موجود تھے۔
ایس ایس جی کمانڈوز برق رفتاری سے آڈیٹوریم پہنچے جہاں دہشت گردوں سے دوبدو مقابلہ ہوا۔ ان دہشت گردوں میں ایک خودکش حملہ آور تھا۔ اس مقابلے میں بچ جانے والے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
مقابلے میں دو آفیسرز سمیت پاک فوج کے سات جوان زخمی ہوئے۔
آپریشن کے فوراً بعد ایک سرچ آپریشن کیا گیا تاکہ اگر کہیں دہشت گردوں نے کوئی آئی ای ڈی وغیرہ لگائی ہے تو ان کو ڈی فیوز کیا جاسکے۔
حملے آورز کا پلان یہ تھا نیچے سے اوپر تک اس انداز میں جائنگے کہ کوئی ایک بچہ یا بندہ زندہ نہ بچے۔ وہ اس میں تو ناکام رہے لیکن پھر بھی بہت بڑا نقصان پہنچا گئے۔ سکول میں اس وقت کل بچوں اور سٹاف سمیت 1099 لوگ تھے جن میں سے 960 کو بچا لیا گیا۔
ٹی ٹی پی نے اعلان کیا کہ شہید ہونے والوں بچوں میں سے 50 کے قریب فوجیوں کے بچے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے فضل اللہ نے افغانستان کے علاقے سے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں اس حملہ کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کو ضرب عضب کا بدلہ قرار دیا۔
حملے کے اگلے ہی دن اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی افغانستان کے ایک طوفانی دورے پر گئے جہاں انہوں نے اشرف غنی اور نیٹو کمانڈر سے ملاقات کی۔
مختلف مصدقہ رپورٹس کے مطابق اس ملاقات میں غضبناک راحیل شریف نے اشرف غنی اور نیٹو کمانڈر کو دھمکی دی کہ مقررہ مدت کے اندر اندر حملے کے ذمہ داروں کے خلاف نتیجہ خیز کاروائی نہ ہوئی تو ہم ہر آپشن استعمال کرینگے اور اافغانستان کے اندر بھی کاروئیاں کرینگے۔
راحیل شریف کے الفاظ تھے " "Wipe out Taliban or we will"
یہ دھمکی کسی حد تک کام کر گئی۔ گو کہ افغانستان نے کچھ تعاون کیا لیکن پاک فوج نے اس کے باؤجود افغانستان میں دہشت گردوں پر براہ راست حملے کیے جس پر اشرف غنی نے احتجاج بھی کیا۔ انہی حملوں میں اے پی ایس کا ماسٹر مائنڈ مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والا عمر خالد خراسانی شدید زخمی ہوا۔ جس کے بارے میں احسان اللہ احسان نے انکشاف کیا تھا کہ اس کو افغان اسٹیبلشمنٹ نے افغانی کاغذات پر علاج کے لیے انڈیا بھیجا۔
پاکستان میں اس حملے کے تمام سہولت کاروں کو پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
اس حملے کے بعد دہشت گردوں کے لیے رہی سہی ہمدردیاں بھی ختم ہوگئیں۔
افغانیوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن ہوا جس کی وجہ سے پشاور سے کم از کم تیس ہزار افغانی واپس افغانستان چلے گئے جو کچھ عرصے بعد رفتہ رفتہ دوبارہ واپس آگئے۔
حملہ اس قدر ظالمانہ تھا کہ اس کے بعد خود ٹی ٹی پی میں بھی پھوٹ پڑ گئی۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس حملے پر مذمتی بیان جاری کیا جس پر خالد خراسانی نے اس کی سرزنش کی۔ جس کے بعد احسان اللہ احسان اور ٹی ٹی پی میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ یہ دوریاں اتنی بڑھیں کہ احسان اللہ احسان نے پاک فوج کے سامنے سرنڈر کر لیا۔
القاعدہ جیسی تنظیم نے اس حملے کی مزمت کی اور کہا کہ بچوں کو نشانہ بنانا غلط تھا۔
حملے کے بعد صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور پاک فوج کی جانب سے شہداء اور زخمیوں میں امدادی رقوم تقسیم کی گئیں۔
اے پی ایس نے جہاں پوری قوم کو جوڑا وہاں کچھ عجیب اور افسوسناک واقعات بھی ہوئے۔ امدادی رقوم پر جھگڑے ہونے لگے۔ فلاں کو زیادہ اور فلاں کو کم ملا جیسی باتیں۔ چند کرداروں نے ریاست کو مزید رقوم کے لیے بلیک میل کرنا شروع کیا۔ چھوٹے چھوٹے گروپس بنا کر سیاست کی گئی۔ چند ایک کروڑوں روپے لے کر بھی مزید رقوم کا تقاضا کرنے لگے۔ جب مطالبہ پورا نہ ہوسکا تو اسی فوج کے خلاف زہر اگلا جانے لگا جو ان دہشت گردوں کے خلاف ہمارا اکلوتا سہارا ہے۔
اے پی ایس افغانستان کا پاکستان میں سکول بچوں پر پہلا حملہ نہیں تھا۔
شائد کچھ لوگوں کو یاد ہو 1994ء میں بھی کچھ افغان دہشت گردوں نے ایک سکول بس میں ساٹھ سے ستر بچوں کو ہاسٹیج بنا لیا تھا۔ انہوں نے کئی لاکھ ڈالر رقم مانگی تھی ورنہ بچوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
اس وقت بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے آپریشن کیا تھا اور کسی ایک بچے کو بھی گزند پہنچائے بغیر ان دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا تھا۔
اے پی ایس نے ہمیں دہشت گردوں کے خلاف تو متحد کیا۔ لیکن ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی اصل طاقت افغان اسٹیبلشمنٹ کو ہم آج بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔