دبئی پراپرٹی لیکس
دبئی پراپرٹی لیکس انکشافات
سب سے پہلے 2018ء میں دبئی میں 894 پاکستانیوں کی 10 سے 11 ارب ڈالر کی جائدادوں کا انکشاف ہوا تھا۔ جس پر عمران خان نے ایمنسٹی سکیم دینے کا اعلان کیا تھا۔ [1] اس ایمنسٹی سکیم سے علیمہ خان اور فرح گوگی نے بھی فائدہ اٹھایا تھا۔ [2]
دبئی پراپرٹی لیکس میں دنیا بھر کے 204 ممالک کی اشرافیہ کے 386 ارب ڈالر کی جائدادوں کا انکشاف ہوا ہے۔
ان میں 11 ارب ڈالر پاکستانیوں کی ہیں اور پاکستان اس معاملے میں دوسرے نمبر پر ثابت ہوا۔ بھارتی اس معاملے میں پہلے نمبر پر ہیں۔ ان کی 17 ارب ڈالر کی جائدادیں ہیں۔ [3]
جنرل باجوہ کے بیٹے کی بھی پراپرٹی ہے جو اس نے عمران خان کے دور میں خریدی تھی۔ جنرل باجوہ کے بقول میرے پاس 2 لاکھ ڈالر تھے اور میں نے اسد عمر کا آگاہ کیا تھا کہ میں اس کی پراپرٹی خرید رہا ہوں۔ پھر حکومت سے اجازت لے کر سٹیٹ بینک کے ذریعے پیسے بھیج کر فلیٹ خریدا تھا۔
دبئی پراپرٹی لیکس میں پاکستانیوں کے نام
آصف زرداری کے تین بچے
فریال تالپور کے خانساماں کی (50 لاکھ درہم)
حسین نواز (2 لاکھ درہم کی پراپرٹی)
محسن نقوی کی اہلیہ
شرجیل میمن
فیصل واؤڈا (2 پراپرٹیز)
فرح گوگی
شیر افضل مروت
جنرل پرویز مشرف
جنرل باجوہ
شوکت عزیز
علیمہ خان (پہلے لیک میں علیمہ خان کی دبئی میں چھ جائدادیں نکلی تھیں)
افتخار چودھری
دیگر
دبئی پراپرٹی لیکس میں ملک ریاض کی کسی جائداد کا تذکرہ نہیں۔ حالانکہ وہ آج بھی دبئی میں مقیم ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دبئی میں اس کے اور اس کے بچوں کے نام سب سے زیادہ جائدادیں ہیں۔
جنگ اور جیو اس دبئی پراپرٹی لیکس کا حصہ تھیں۔ انہوں نے اس میں اپنے مالک میر شکیل الرحمن کا نام شامل نہیں کی۔ جس کی دونوں بیویوں کے نام پر دبئی ایمرٹس میں اربوں روپے کی پراپرٹیز موجود ہیں۔
جب سے پاکستان بنا ہے 2 ہزار لیفٹننٹ جنرلز بنے ہیں۔ ان میں سے 12 کی جائدادیں ہیں۔