چھ ججوں کا خط
سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کی ہے کہ ہمیں گائیڈ کیا جائے کہ جب ہم پر ایجنسیاں دباؤ ڈالتی ہیں تو ان سے کیسے نمٹنا چاہئیے۔
نیز کہ انکوائری کرنے کا بھی مطالبہ کیا کہ کیا یہ ایجنسیوں کی مستقل پالیسی ہے؟
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی ایسا ہی الزام لگایا تھا کہ اینٹلی جنس ایجنسیاں میرے کیسز میں مجھ پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ جس پر سپریم جوڈیشل کونس ریفرنس بھیج کر اس کو برطرف کر دیا گیا۔
اس وقت یہ ججز شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ نہیں کھڑے تھے۔
سپریم کورٹ کے تمام ججز نے مشترکہ طور پر انکوائری کمیشن بنانے کا حکم دیا۔ جس کو پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔
خط میں لگائے گئے الزامات
خط میں نچلی عدالت کے ایک جج کی شکایت کا بھی قصہ شامل ہے۔ مبینہ طور پر جج موصوف نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے آئی ایس آئی اہلکاروں کی شکایت لگائی۔ بعد میں اس سیشن جج کو او سی ڈی بنا دیا گیا۔
جسٹس طاہر جہانگیری نے دعوی کیا کہ ایک سال پہلے میرے بیڈروم میں سے کیمرہ نکلا۔ یعنی اس نے لائٹ اتاری تو لائٹ کے نیچے کیمرہ اور سم لگی ہوئی تھی۔
ٹیریان وھائٹ کے کیس کا حوالہ دیا کہ ہمارے دو ججز اس کو ناقابل سماعت قرار دے رہے تھے لیکن پھر ایجنسیوں کا پریشر آیا اور ایک جج دباؤ میں آکر ہسپتال پہنچ گیا۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کو درخواست دی جس پر عطا بندیال نے کہا میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو فون کر دیا اب نہیں کرینگے تنگ۔
مئی 2023ء میں اسلام آباد کے ایک جج کے داماد کو اغواء کیا اور پھر چھوڑ دیا۔ اغواء کرنے والوں نے کہا کہ ہم آئی ایس آئی کے لوگ ہیں۔ تاہم خط میں یہ نہیں لکھا کہ کون سے جج کا داماد اغواء ہوا تھا۔
خط میں لکھا گیا کہ 12 فروری 2024 کو پانچ ججز نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو فل کورٹ میٹنگ بلانے کے لیے لکھا جو تاحال نہیں بلائی گئی۔
اس خط میں سوال کیا گیا کہ بتایا جائے کہ جج اس صورتحال سے کیسے نمٹیں؟
خط کے سیاسی پہلو
ججوں نے پیٹیشن دائر نہیں کی بلکہ کھلا خط لکھا جو چیف جسٹس تک پہنچنے سے پہلے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا نے وائرل کر دیا۔
خط ججوں نے ملنے سے تین گھنٹے پہلے ایک یوتھیے صحافی ثاقب بشیر کو دیا گیا جس نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کر اور یوں یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ثاقب بشیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو اطہر من اللہ نے خصوصی کمرہ دے رکھا ہے۔ [1]
ججوں نے تحقیقاتی کمیشن کے بجائے ججوں کے کنونشن کا مطالبہ کیا گویا کوئی سیاسی جلسہ ہو۔ یہ قانونی سے زیادہ سیاسی مطالبہ لگتا ہے۔
ججز پر الزامات
کئی ماہرین کے مطابق یہ ججز محض فوج اور عدلیہ کی لڑائی چاہتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی لیک ویو لین سوسائیٹی میں پارٹنر ہیں۔ جس پر ان کے خلاف تحقیقات شروع ہوچکی تھیں۔ اس میں اس کا سارا خاندان پارٹنر ہے۔ لیکن اس سوسائیٹی کی این او سی موجود نہیں۔ اس کے باؤجود اس سوسائیٹی کے 50 کروڑ روپے کے پلاٹوں کی سیل ہوچکی ہے۔ [2]
یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیسے ثابت ہوگا کہ کیمرہ لگا تھا اور آئی ایس آئی نے لگایا تھا۔
یہ سوال بھی اٹھا کہ کیمرے کے ساتھ یو ایس بی لگی ہوئی تھی؟ اگر کہیں سم کے ذریعے فوٹیج جارہی تھی تو یو ایس بی لگانے کی کیا ضرورت تھی؟
باقی تینوں ججز کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا گیا کہ وہ اس گروپ کا حصہ کیوں بنے ہیں۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ ججز پر اینٹلی جنس ایجنسیوں کے لوگ دباؤ ڈالتے ہیں جو اگر سچ ہے تو اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یعنی خود بھی علم نہیں کہ سچ ہیں یا جھوٹ؟
انکوائری کمیشن
حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ بار،پاکستان بار کاؤنسل اور پنجاب بار انکوائری کمیشن اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی حمایت کی۔
پی ٹی آئی تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں بنے کمیشن پر اعتراض کیا۔ جب کہ اسی تصدق حسین جیلانی کو عمران خان نے 2018ء میں نگران وزیراعظم کے لیے نامزد کیا تھا۔
دیگر
قانونی ماہرین کے مطابق ان ججز نے مس کنڈکٹ کیا ہے۔
یہ سوال تمام لوگ اٹھا رہے ہیں کہ ججز کے پاس قانونی طاقت ہے ایسے لوگوں کو سزا سنانے کی تو کیوں نہ سنائی؟
یہ خط سیاسی دنگل بن چکا ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی اس کو بھرپور سپورٹ کر رہی ہے جب کہ حکومت اس کو رد کرچکی ہے۔ ایسے میں جب ان ججز کا سارا تکیہ پی ٹی آئی پر ہے وہ پی ٹی آئی کے کیسز کیسے سن سکتے ہیں؟
اگر ان ججز نے فیصلے سیاسی دباؤ پر دئیے ہیں تو وہ ریسورس ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے 6 ججز، وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور وزیراعظم سے ملاقات کے بعد فل کورٹ کے مشورے سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
ان ججوں کو 5 سال کے بعد پتہ چلا کہ ایجنسیاں دباؤ ڈالتی ہیں۔ 5 سال کے بعد یہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپورٹ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کے پاس کیا اختیار ہے کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کوئی ایکشن لیں؟
یہ خط عمران خان کی عدالتی سہولت کاری کی کڑی قرار دی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی راہنما شیر افضل مروت نے اس پر سوال اٹھایا کہ اگر کوئی ان کے کام میں مداخلت کر رہا تھا تو انہوں نے ان کو توہین عدالت کے نوٹسز کیوں جاری نہیں کیے؟ [3]
محسن اختر کیانی نے ڈی جی رینجرز کو اپنی عدالت میں طلب کیا اور دو بار وزیراعظم کو طلب کیا تھا۔ لیکن ایک کرنل کے فون پر اس کو سمجھ نہیں آئی کہ کیا کریں اور دباؤ مٰیں آگئے؟ [4]
لاہور ہائیکورٹ کی سابق جج ناصرہ اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کی جج رہ چکی ہیں۔ ان سے قبل ان کے شوہر بھی جاوید اقبال بھی جج رہ چکے تھے۔ ان کے مطابق ان کے پاس کبھی کوئی آئی ایس آئی یا خفیہ ایجنسی کا اہلکار نہیں آیا اور نہ کبھی انھوں نے ایسا کوئی واقعہ اپنے شوہر سے گھر پر سنا ہے۔
جج ناصرہ اقبال نے کہا کوئی بھی دباؤ ڈالے تو اس پر توہین عدالت لگائی جاتی ہے۔ یہ سب ججز جانتے ہیں۔
ایک سال بعد خط کیوں لکھا؟
آپ جج ہیں آپ نے طلب کیوں نہیں کیا اور توہین عدالت کیوں نہیں لگائی؟
ججوں کی یونین نہیں ہوتی وہ آزاد زہن اپلائی کرتے ہیں۔ تو ان ججوں کی یونین کیسے فیصلے کر سکتی ہے؟
انہی ججوں نے فیصلہ سنایا تھا کہ جو ایف آئی آر ابھی عمران خان پر کٹی بھی نہیں ہے اس میں بھی اسکی ضمانت منظور کی جاتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ میں پانچ سال چیف جسٹس بلوچستان رہا لیکن میرے دور میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اعتراف کیا کہ میرے دور میں عدلیہ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ لاہور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی یہی کہا۔
اس دوران قاضی فائز عیسی نے سوال اٹھایا کہ بارز کے صدور جب ججوں سے ملتے ہیں تو کیا وہ بھی مداخلت کے زمرے میں آتا ہے؟