چھ ججوں کا خط

Shahidlogs سے

سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کی ہے کہ ہمیں گائیڈ کیا جائے کہ جب ہم پر ایجنسیاں دباؤ ڈالتی ہیں تو ان سے کیسے نمٹنا چاہئیے۔

نیز کہ انکوائری کرنے کا بھی مطالبہ کیا کہ کیا یہ ایجنسیوں کی مستقل پالیسی ہے؟

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی ایسا ہی الزام لگایا تھا کہ اینٹلی جنس ایجنسیاں میرے کیسز میں مجھ پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ جس پر سپریم جوڈیشل کونس ریفرنس بھیج کر اس کو برطرف کر دیا گیا۔

خط میں لگائے گئے الزامات

جسٹس طاہر جہانگیری نے دعوی کیا کہ میرے بیڈروم میں کیمرہ لگایا گیا تھا۔ یعنی اس نے لائٹ اتاری تو لائٹ کے نیچے کیمرہ اور سم لگی ہوئی تھی۔

ٹیریان وھائٹ کے کیس کا حوالہ دیا کہ ہمارے دو ججز اس کو ناقابل سماعت قرار دے رہے تھے لیکن پھر ایجنسیوں کا پریشر آیا اور ایک جج دباؤ میں آکر ہسپتال پہنچ گیا۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کو درخواست دی جس پر عطا بندیال نے کہا میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو فون کر دیا اب نہیں کرینگے تنگ۔

مئی 2023ء میں اسلام آباد کے ایک جج کے داماد کو اغواء کیا گیا۔

ہم نے 12 فروری کو چیف جسٹس اسلام آباد ھائی کورٹ کو اس معاملے کی شکایت لیکن انہوں نے کوئی ایکش نہیں لیا۔

خط کے سیاسی پہلو

ججوں نے پیٹیشن دائر نہیں کی بلکہ کھلا خط لکھا جو چیف جسٹس تک پہنچنے سے پہلے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا نے وائرل کر دیا۔

ججوں نے تحقیقاتی کمیشن کے بجائے ججوں کے کنونشن کا مطالبہ کیا گویا کوئی سیاسی جلسہ ہو۔ یہ قانونی سے زیادہ سیاسی مطالبہ لگتا ہے۔

دیگر

قانونی ماہرین کے مطابق ان ججز نے مس کنڈکٹ کیا ہے۔

یہ سوال تمام لوگ اٹھا رہے ہیں کہ ججز کے پاس قانونی طاقت ہے ایسے لوگوں کو سزا سنانے کی تو کیوں نہ سنائی؟

یہ خط سیاسی دنگل بن چکا ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی اس کو بھرپور سپورٹ کر رہی ہے جب کہ حکومت اس کو رد کرچکی ہے۔ ایسے میں جب ان ججز کا سارا تکیہ پی ٹی آئی پر ہے وہ پی ٹی آئی کے کیسز کیسے سن سکتے ہیں؟

اگر ان ججز نے فیصلے سیاسی دباؤ پر دئیے ہیں تو وہ ریسورس ہونے چاہئیں۔

چیف جسٹس نے 6 ججز، وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور وزیراعظم سے ملاقات کے بعد فل کورٹ کے مشورے سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

ان ججوں کو 5 سال کے بعد پتہ چلا کہ ایجنسیاں دباؤ ڈالتی ہیں۔ 5 سال کے بعد یہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپورٹ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

حوالہ جات