ظل شاہ کا قتل
پی ٹی آئی کارکن احمد بلال عرف ظل شاہ کی لاش کو ایک کالی ویگو اسپتال کے دروازے پر چھوڑ کر بھاگ گئی۔ جس کے کچھ دیر بعد پی ٹی ائی راہنما عمران خان نے ٹویٹ کی کہ ان کے کارکن کو پولیس نے تشدد کر کے مار دیا ہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا نے کالی ویگو کو ایجنسیوں کی گاڑی قرار دے کر فوج کو ذمہ دار ٹہرانا شروع کردیا۔ تاہم بعد میں لاش چھوڑ کر بھاگنے والے بندے پکڑے گئے تو پتہ چلا کہ کالی ویگو اور بندے پی ٹی آئی کے ہیں۔ اس کے اگلے دن ڈاکٹر یاسمین راشد نے ٹی وی پر اعتراف کیا کہ ان کو پہلے دن سے علم تھا کہ کالی ویگو اور بندے انکی اپنی پارٹی کے ہیں۔
پی ٹی آئی کا موقف
پی ٹی آئی نے فوری طور پر ظل شاہ کی موت کی ذمہ داری پولیس پر ڈالی۔ ساتھ ہی کالی ویگو کے حوالے سے ایجنسیوں کو بھی سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا۔ عمران خان نے ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ ملکر اس پر باقاعدہ پریس کانفرس کی۔ عمران خان نے ظل شاہ پولیس وین میں ایک ویڈیو شئیر کی اور بتایا کہ اس کو پولیس لے گئی تھی اور گرفتاری کے وقت ٹھیک تھا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا کہ اس پر تشدد کے نشانات تھے کہ اس کو پولیس نے تشدد کر کے قتل کیا تھا۔
پولیس کا موقف
حکومت پنجاب اور پولیس نے پی ٹی آئی کارکن احمد بلال عرف ظل شاہ کی موت کو حادثہ قرار دیا ہے۔ پولیس نے ابتدائی بیان دیا کہ 'ہم گاڑی اور بندوں کو ٹریک کر رہے ہیں۔ جب بندے اور گاڑی پکڑی گئی تو پولیس نے دوسرا بیان جاری کیا کہ پی ٹی آئی کی یاسمین راشد اور عمران خان پہلے دن سے جانتے تھے کہ ضل شاہ کی موت ایک حادثے کے نتیجے میں ہوئی اور اس کو اسپتال چھوڑ کر جانے والے لوگ اور گاڑی ان کی اپنی پارٹی کی ہے جس کی ٹکر سے ان کی موت ہوئی۔
آئی جی پنجاب نے اس واقعے پر تفصیلی پریس کانفرنس میں مزید کہا ’تمام ملزمان گرفتار ہو چکے جن کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ وارث شاہ روڈ سے گاڑی برآمد کی گئی۔‘
’ڈرائیور نے حلیہ بدلنے کے لیے داڑھی شیو کر دی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ ایکسیڈینٹ کا کیس ہے ان کو جان بوجھ کر قتل نہیں کیا گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ایک روز قبل مقتول علی بلال کے والد لیاقت علی نے ویڈیو پیغام میں مجھ سے اپیل کی کہ ان کے بیٹے کی موت کے بارے میں مکمل معلومات دی جائے، تفتیش کی جائے اور انصاف دیا جائے۔ ہماری یہ ذمہ داری تین روز قبل ہی شروع ہو گئی تھی جب 6 بج کر 52 منٹ پر ایک کالے رنگ کی ویگو نے علی بلال کی لاش سروسز ہسپتال پہنچائی۔
پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم میں ’بلنٹ ٹراما اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بہت زوردار ٹکر تھی۔ یہ اس طرح نہیں جو عام طور پر پولیس کے لاٹھی یا ڈنڈے سے مخصوص اعضا پر کیا گیا تشدد ہو۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ظل شاہ کی موت کے حوالے سے دونوں چیزو کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس کے جسم پر تشدد بھی ہوا ہے لیکن وہ تشدد ایسا نہیں کہ جس سے اس کی موت ہوسکتی ہے۔ تاہم اس پوسٹ مارٹم میں 'بلٹ ٹراما' اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کو زوردار ٹکر لگی تھی جس سے اس کی موت ہوئی۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کا اعتراف
ڈاکٹر یاسمین راشد نے جیو نیوز کے پروگرام 'نیا پاکستان' میں انکشاف کیا کہ ان کو دو دن پہلے سے پتہ تھا کہ گاڑی اور لوگ انکی اپنی پارٹی کے ہیں۔ اس پر میزبان شہزاد اقبال نے سوال کیا کہ جب آپ کو پتا تھا کہ ظل شاہ کو اسپتال پہنچانے والی گاڑی تحریک انصاف کے عہدے دار راجہ شکیل کی ہے تو میڈيا کو کیوں نہیں بتایا؟
اس سوال پر یاسمین راشد گڑبڑا گئيں اور غصے میں کہا کہ آپ کا خیال ہے کہ میں صرف بیٹھ کر سوشل میڈيا دیکتھی رہتی ہوں؟ میرے پاس اور بھی بہت کام ہوتے ہیں۔
ظل شاہ کے مبینہ قتل کے حوالے سے حقائق چھپانے پر ڈاکٹر یاسمین راشد پر مقدمہ بنایا گیا ہے۔ لیکن لاہور کی عدالت ان کو مسلسل عبوری ضمانتیں دے رہی ہے۔ جس پر ظل شاہ کے خاندان والے احتجاج بھی کر رہے ہیں۔
ظل شاہ کے والدین کا موقف
ظل شاہ کے والد نے کہا کہ میں کسی پر الزام نہیں لگاتا کیونکہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ ظل شاہ کی والدہ نے کہا کہ عمران خان کے اپنے بچے حفاظت سے ہیں، میرا بیٹا اس کے لیے قربان ہوگیا۔ مجھے انصاف چاہئے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ قتل تحریک انصاف والوں نے ہی کیا ہے۔ مجھے عمران خان سے بس یہ کہنا ہے مجھے میرا بیٹا دے دین۔
میرا بچہ مار دیا۔ پھر ڈالے میں لے کر پھرتے رہے۔ یاسمین راشد نے عمران خان کو کال کی۔ انہیں کال کرنے کے بجائے میرے بچے کو اسپتال پہنچاتے نا۔
ظل شاہ کے والدین نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی نے ہمارا منہ بند کرنے کے لیے ہمیں پیسوں کی پیشکش بھی کی۔
ظل شاہ کی موت کے حوالے سے چند سوالات
پی ٹی آئی کے نائب صدر راجا شکیل اس قتل کے اوقات میں کہاں تھے اور کر رہے تھے؟
ان کی کالی ویگو (جس پر فوج کو گالیاں دی گئیں) قلعے کے پاس کیا کر رہی تھی؟
اس کے ڈرائیور اور کارکنوں کو شدید زخمی یا فوت شدہ ظل شاہ ملا تو فوری طور پر انتظامیہ، پولیس یا اپنی اعلی قیادت کو آگاہ کیوں نہ کیا؟
اس کو اسپتال کے پاس پھینک کر کیوں بھاگ گئے؟
جب ظل شاہ کو گاڑی میں لے جایا جا رہا تھا تب وہ زندہ تھا کہ نہیں؟
اگر زندہ تھا تو کیا اس کی جان بچانے کی کوئی کوشش کی گئی؟
ڈاکٹر یاسمین راشد کو پتہ تھا کہ بدنام زمانہ کالی ویگو ان کے پارٹی کے راجا شکیل کی ہے اور اسپتال پہنچانے والے بندے ان کے اپنے ہیں تو یہ بات دو دن تک چھپائی کیوں؟
حتی کہ پریس کانفرنس میں بھی عمران خان اور یاسمین راشد نے یہ بات چھپائی، کیوں؟
یہ بات عجیب ہے کہ ظل شاہ کو نامعلوم شخص کے طور پر اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تو اس کے صرف ایک گھنٹے کے بعد عمران خان نے اس کے بارے میں ٹویٹ کیسے کر لی اور عمران خان کو کیسے پتہ چلا اسکا شناختی کارڈ، اس کی حالت اور قتل کی وجوہات وغیرہ؟
اگر اس کی موت ایکسیڈنٹ سے ہوئی ہے تو حادثے کی فوٹیج کہاں ہے؟
کیا گاڑی پر ایکسڈنٹ کے کوئی نشانات وغیرہ ہیں؟
فواد چودھری نے الزام لگایا کہ ان کے والد کو اغواء کیا گیا ہے تاکہ ان پر دباؤ ڈالا جائے۔ اس نے کہا کہ میں کسی پر الزام نہیں لگاتا کیونکہ کوئی گواہ موجود نہیں۔
اس پر پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ ان پر موقف تبدیل کر دیا گی ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔
پولیس ان لوگوں کو ڈھونڈ رہی تھی جو اس کو اسپتال چھوڑ کر گئے تھے۔
انہوں نے میرے بیٹے کا سارا بائیٹو ڈیٹا نکال لیا اتنی جلدی ۔۔ والدہ
عمران خان نے پولیس وین میں بنائی گئی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ظلِ شاہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ بالکل تندرست ہیں اور ان پر تشدد کے کوئی زخم نظر نہیں آ رہے ۔ عمران خان نے کہا "اس ویڈیو میں علی بلال، جسے پیار سے ظلِّ شاہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا، کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ تھانے منتقلی کے دوران وہ زندہ تھا۔ چنانچہ اسے پولیس کی حراست میں قتل کیا گیا۔ موجودہ سرکار اور پنجاب پولیس ایسی وحشت اور کُشت و خون پر آمادہ ہیں۔"
پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد نے اعتراف کرلیا کہ انہیں علم تھا کہ جس گاڑی میں جاں بحق ہونے والے پی ٹی آئی کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کی لاش لائی گئی اس کا مالک کون ہے۔ یاسمین راشد نےکہا کہ مجھے دو دن سے پتا تھا کہ ظل شاہ کو ہسپتال لانے والے کالے ڈالے کا مالک کون تھا۔نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے یاسمین راشد کا کہنا تھاکہ کہا آپ کا خیال ہے کہ میں بیٹھ کر صرف سوشل میڈیا دیکتھی رہتی ہوں،
میرے پاس اور بہت کام ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف کے مقتول کارکن ظل شاہ عرف علی بلال کے کیس میں مزید انکشافات سامنے آگئے۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق ظل شاہ کو وین سے اتارنے کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مقتول کارکن کو ساتھیوں سمیت ناکے سے پہلے اتارا گیا اور چار لوگ ڈیوائیڈر کراس کر کے دوسری طرف چلے گئے۔پل چڑھتے ہی سیاہ رنگ کی گاڑی نے ٹکر ماری جس کی زد میں مقتول کارکن آیا، ڈرائیور جہانزیب اور عمر نے گاڑی سائیڈ پر
روک کر ظل شاہ کو ویگو میں ڈالا اور پھر وہاں سے اسپتال روانہ ہوئے جہاں وہ لاش چھوڑ کر فرار ہوگئے۔گاڑی کی مختلف مقامات سے گزرنے کی فوٹیجز بھی پولیس نے حاصل کیں ۔واضح رہے کہ ایک روز قبل پولیس نے اسپتال چھوڑ کر جانے والے دو افراد کو گرفتار کر کے گاڑی کو حراست میں لیا تھا، تفتیش کے دوران ملزمان نے مبینہ طور پر انکشاف کیا تھا کہ علی بلال کی ہلاکت پولیس تشدد نہیں بلکہ حادثے کی وجہ سے پیش آئی۔ظل شاہ پولیس گاڑی سے نکل کر فورٹریس پل کی
طرف بھاگا تو ویگو ڈالے سے ٹکرا گیا تھا جس پر اسے سی ایم ایچ اسپتال لے جایا گیا ۔ اس کے بعد سروسز ہسپتال پہنچایا گیا اس دوران اس کی موت واقع ہوئی۔ پولیس نے ملزمان کو حراست میں لے کر مزید تفتیش شروع کردی ہے۔
واقعہ فورٹریس اسٹیڈیم پل پر پیش آیا، ملزمان کا بیان، تفتیشی ٹیم نے علی بلال کو لانے والی گاڑی کوبھی قبضے میں لے لیا
واقعہ فورٹریس اسٹیڈیم پل پر پیش آیا، ملزمان کا بیان، تفتیشی ٹیم نے علی بلال کو لانے والی گاڑی کوبھی قبضے میں لے لیا پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان سے مزید تفتیش کا عمل جاری ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں علی بلال کی
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان سے مزید تفتیش کا عمل جاری ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں علی بلال کی موت واقع ہوئی تھی، پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ کیا ہے کہ علی بلال پولیس تشدد سے جاں بحق ہوا۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں علی بلال کی موت کی وجہ تشدد سامنے آئی ہے جبکہ پولیس نے اسپتال چھوڑ جانے والے افراد کی تصاویر بھی جاری کی تھیں۔