چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر تنقید
14فروری 1978 کی رات پاکستان کی مشہور ادارہ شبنم کے ہاں ڈکیتی کی ایک لرزہ خیز واردات ہوئی۔ ڈاکو آدھی رات کو اس کے گل برگ لاہور والے گھر میں داخل ہوئے۔ اداکارہ کے شوہر روبن گھوش اور بیٹے رونی کو تشدد کر کے رسیوں سے باندھا۔ جس کے بعد شوہر اور بیٹے کے سامنے ملزمہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔
وہ سات ڈاکو تھے جن کا سرغنہ محمد فاروق بندیال نامی ایک بااثر خاندان کا لڑکا تھا۔ گینگ ریپ کے بعد ڈاکو گھر سے نقدی اور سونا بھی لے گئے۔ اس واقعے پر ملک میں کہرام مچ گیا۔ چنانچہ پولیس نے بھاگ دوڑ کرکے واقعہ میں ملوث ملزمان گرفتار کرلئے۔
گینگ سرغنہ فاروق بندیال کا حقیقی ماموں فتح خان بندیال پنجاب کے چیف سیکٹری تھا۔ مجرموں کو ملٹری کورٹ نے موت کی سزا سنائی۔ لیکن فتح خان بندیال جنرل ضیاء کے بہت قریب تھے جس کی سفارش پر جنرل ضیاء نے سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔
اس ظلم کے بعد ادارہ اور اس کے خاندان نے پاکستان چھوڑ دیا کیونکہ بندیال خاندان کی طرف سے انکو مسلسل دھمکایا جارہا تھا۔
دوران تفتیش فاروق بندیال کے اس گینگ کی مزید تفصیلات سامنے آئیں کہ یہ ایسی ہی وارداتیں اداکارہ زمرد کے علاوہ کچھ دوسری اداکاراؤں کے ساتھ بھی کر چکے ہیں اور سب کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ لیکن ہو بےچاریاں ڈر کر چپ سادھ گئیں۔
40 سال بعد یہی فاروق بندیال نامی گینگ سرغنہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرتا ہے۔ فاروق بندیال کو ملٹری کورٹ کے پھانسی گھاٹ سے چھڑانے والا فتح بندیال موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا باپ ہے۔ وہی عطا بندیال جس نے مبینہ طور پر بیوی اور بیٹی کے دباؤ پر عمران خان کے حق میں فیصلہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور موصوف فرماتے ہیں کہ فل کورٹ بنایا تو عمران خان کے خلاف فیصلہ آسکتا ہے۔
عطا بندیال پر تنقید کی جارہی ہے کہ اس نے صوبائی الیکشن کے حوالے سے خود سوموٹو لیا اور پھر ہم خیال ججز کو ساتھ ملایا تاکہ پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ کیا جاسکے۔ حکومت نے فل کورٹ بنانے کیا درخواست کی اور عمران خان نے بھی کہا کہ انہیں فل کورٹ پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن محض اس خوف سے کہ پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ نہ آجائے یہ درخواست مسترد کر دی۔
پی ٹی آئی عطا بندیال پر تنقید کرتی رہی ہے کہ اس نے جنرل باجوہ کے حکم پر آدھی رات کو عدالت کھولی اور ہماری حکومت گرائی۔