افغانیوں کی پاکستان دشمنی

Shahidlogs سے

پاکستان کو تسلیم نہ کرنا

جب پاکستان نے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی تو اقوام متحدہ کے 55 رکن ممالک میں سے افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ [1]

آج تک کسی افغان حکومت نے پاک افغان سرحد 'ڈیورنڈ لائن' کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ پاکستان کے کئی علاقوں پر دعوی کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے موجودہ وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ [2]

پاکستان پر حملے

30 ستمبر 1950 کو افغان فورسز نے کچھ افغان قبائلی جنگجوؤں کے ساتھ ملکر پاکستان پر پہلا حملہ کیا۔ یہ حملہ بلوچستان میں چمن کے پاس کیا گیا تھا۔ پاکستانی فوج پہنچی اور 6 دن کی لڑائی کے بعد افغان فورسز کو واپس دھکیل دیا گیا۔ [3]

1960ء اور 1961ء میں بلوچستان اور باجوڑ کی سرحدوں پر افغان فورسز نے متعدد حملے کیے۔ باجوڑ حملے میں وہ ٹینکوں کے ساتھ آئے تھے۔ جس کے جواب میں پاکستان نے ائرفورس استعمال کی اور ان کو مار بھگایا۔ [3]

1965ء میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر مہند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔ لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے مغرب کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا تھا۔ اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا تھا۔

پاکستان کے خلاف پراکسیز

قبائلی اضلاع میں پاکستان کے خلاف کی گئی فقیر ایپی کی پہلی شورش کو افغانستان کی مکمل مدد و حمایت حاصل تھی۔ [4]

1948ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنائے۔ جنہوں نے بلوچستان میں پہلی بار دہشتگردانہ حملوں کا آغاز کیا۔

پاکستان کے خلاف متحرک سب سے بڑی دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کی پشت پناہی اور فنڈنگ افغانستان کرتا ہے۔ افغانستان میں ہی ٹی ٹی پی کے مراکز ہیں۔

ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ نے شاہ محمود اور گل احمد نامی افغان دہشتگردوں کے اعترافی بیانات سوشل میڈیا پر شائع کیے۔ ان بیانات میں انہوں نے کئی حملوں میں افغانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔ [5]

چمن بارڈر پر افغانیوں نے پاک فوج پہ حملے کی ابتدا کی جسکی وجہ سے ایک نوجوان لڑکا (راہگیر) اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور دو دیگر زخمی ہوگئے۔ [6]

موجودہ افغان حکومت نے امریکہ کے نکلنے کے بعد جیلوں سے ان تمام دہشتگردوں کو رہا کر دیا جو پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں ملوث تھے۔ [7]

اسی موضوع پر تفصیلی صفحہ افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی

پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائیاں

جون 1949 کو ظاہر شاہ نے لویہ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بہت سخت باتیں کیں اور اعلان کیا کہ افغانستان قیام پاکستان سے قبل کے انگریز سے کئے گئے تمام معاہدے، مفاہمتیں اور سمجھوتے منسوخ کرنے کا اعلان کرتا ہے۔

اقوام متحدہ میں افغان طالبان کے مستقل نمائندے سہیل شاہین سے جب پوچھا گیا کہ کیا "وہ ڈیورنڈ لائن کو دونوں ریاستوں کے درمیان سرحد کے طور پر تسلیم کرتے ہیں؟" تو اس نے جواب دیا کہ ’’اسے سرحد نہیں، لائن کہا جاتا ہے۔ تو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس کی حیثیت کیا ہے۔‘‘

غنڈہ گردی اور بدمعاشی

کراچی میں افغانیوں نے بارہا پولیس پر حملے کیے۔ [8]

ایک جگہ پر افغانیوں نے پاک فوج کی گاڑی روکی اور جوانوں کو گالیاں دیں اور ان پر آوازے کسے۔ [9]

ایک نامعلوم جگہ پر افغانی فورسز پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔ [10]

اٹک افغانی رکشہ ڈرائیور کی ٹریفک آفیسر کے ساتھ بدتمیری گالم گلوچ پولیس آفیسر افغانی کے آگے بے بس نظر آیا۔ [11]

11 اکتوبر کر پشاور کے ایڈورڈز کالج کے قریب طالب علم حسان طارق سے موبائیل چھیننے کے دوران مزاحمت پر موٹرسائیکل سوار ڈاکوؤں نے انہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر پشاور سید اشفاق انور کے مطابق ایڈورڈز کالج کے طالب کے علم کے قتل میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ [12]

سمگلنگ

افغانستان پاکستان کا ٹرانزٹ روٹ استعمال کرتا ہے۔ سالانہ افغانستان ساڑھے 8 ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔ 1 ارب ڈالر اس کو برآمدات سے مل جاتا ہے۔ یہ ڈالر سارا پاکستان سے کھینچا جاتا ہے۔

دیگر

افغانستان کرکٹ کھلاڑی ابراہیم زادران نے اپنی جیت پاکستان سے واپس بھیجے جانے والے افغانیوں کے نام کی۔ [13]

بارڈر سیکیورٹی فورسز نے ایک افغانی کو پاکستان بھاری مقدار میں ڈرگز لاتے گرفتار کر لیا۔ [14]

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سرکولیٹ ہوئی جس میں ایک افغانی پاکستانی کرنسی کو لاتیں مار رہا ہے۔ [15]

افغانیوں کے پاکستان سے انخلاء کے وقت سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک پاکستان پولیس کی وردی پہلے ایک افغانی چند ساتھیوں کے ساتھ پاکستان کو گالیاں دیتے اور پاکستان پر عذاب کی دعا کرتے افغانستان جاکر نوکری کرنے کا کہہ رہا تھا۔ [16]

افغانستان سے آپریٹ ہونے والے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم “المرصاد” کافی عرصہ سے پاکستان کیخلاف لوگوں کو کئی طریقوں سے ورغلا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی رپورٹس کے مطابق اس کے لیے انڈیا افغانستان کی فنڈنگ کرتا ہے۔ [17]

حوالہ جات