ارشد شریف کا قتل
23 اکتوبر 2022ء کو ارشد شریف کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ کینیا پولیس کا ابتدائی موقف تھا کہ وہ ناکہ توڑنے پر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ تاہم بعد میں آنے والے شواہد سے ظاہر ہوا کہ کینیا پولیس غلط بیانی کر رہی ہے اور ارشد شریف کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامی صحافیوں نے قتل کا الزام فوری طور پر پاکستانی فوج پر لگادیا۔ لیکن شواہد ظاہر کر رہے تھے کہ قتل میں کچھ دیگر قوتیں اور غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔
کینیا پولیس کا موقف
ارشد شریف پر حملہ اور ان کی موت کی خبر عام ہوتے ہی نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور '' غلط شناخت‘‘ کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے جانبحق ہو گئے۔
تاہم کینیا پولیس کے اس دعوے کو پاکستان کی حکومت، فوج اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔ بعد میں ملنے والے شواہد نے واضح کر دیا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا قتل تھا۔
ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی رپورٹ
اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا۔ انہوں نے پولیس اور ارشد شریف کے میزبان بھائیوں خُرم اور وقار احمد سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کے بعد مرتب کی گئی 592 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ نیز یہ کہ کینیا کی پولیس نے اس واقعے کے بعد متضاد بیانات جاری کیے۔
رپورٹ کے مطابق خُرم احمد نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کےہمراہ گاڑی میں گھر جا رہے تھے کہ فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔
خرم کے مطابق انہوں نے گاڑی سے باہر دیکھا تو پولیس نے روڈ بلاک کر رکھی تھی، جس پر انہوں(خرم) نے سمجھا کہ روڈ ڈاکوؤں کی طرف سے بلاک کی گئی ہے۔ اس کے بعد وہ رکے بغیر وہاں سے تیزی کے ساتھ گاڑی بھگانے لگے تو انہون نے گولیوں کی آوازیں سنی۔ خُرم احمد کے بقول اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو ان کے بھائی نے مشورہ دیا کہ وہ رُکے بغیر گاڑی چلاتے رہیں جب تک وہ اپنے خاندانی فارم ہاؤس تک نہیں پہنچ جاتے۔ یہ فارم ہاؤس کئی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچنے پر ان بھائیوں نے 'ارشد شریف کو مردہ پایا۔‘
اس رپورٹ میں اس امر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ آیا خرم احمد کے بیانات مشکوک معلوم ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس میں محض اتنا کہا گیا ہے کہ اس کیس میں کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘ کے طور پراستعمال ہوئی۔ تاہم اس بارے میں بھی رپورٹ میں کوئی وضاحت اور تفصیلات جو ان الزامات کے حق میں ٹھوس ثبوت کی حیثیت رکھتے ہوں، موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس گاڑی میں ارشد شریف سوار تھے پر فائرنگ دو ہتھیاروں سے کی گئی جس میں سے ایک سیون ایم ایم اور دوسری ایک اور گن سے فائرنگ کی گئی اور ان ہتھیاروں سے مجموعی طور پر نو گولیاں چلائی گئیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے زیر استعمال جو فون تھا وہ برآمد ہوا تو اس کو پاسورڈ لگا ہوا تھا اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس پاسورڈ کو کریک کرنے کی کوشش کی گئی تو فارنزک ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے اس فون میں موجود ڈیٹا ختم ہو جائے گا جو کہ تحقیقات میں کارآمد ہوسکتا ہے۔
اس رپورٹ میں وقار احمد اور ان کے بھائی خرم احمد کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ ان سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ارکان نے جو انٹرویو کیے تو ان کے بیانات ایک دوسرے سے نہیں مل رہے تھے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جس روز ارشد شریف کو قتل کیا گیا تو اس وقت ان کی گاڑی خرم احمد چلا رہے تھے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوبئی میں قیام کے بعد ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے جہاں پر وقار احمد کے ایک رشتہ دار جس کا نام جمیل بتایا جاتا ہے، اس نے ارشد شریف کا استقبال کیا اور ارشد شریف وقار احمد کے اپارٹمنٹ میں دو ماہ اور تین دن تک قیام پذیر رہے۔
وقار احمد نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ کینیا میں ویزے کے لیے انھوں نے ارشد شریف کو سپانسر لیٹر دیا تھا، تاہم انھوں نے اس لیٹر کی کاپی کمیٹی کے ارکان کو فراہم نہیں کی۔
فیکٹ فائنڈٖنگ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے تاہم اس کی تصدیق ہونے کے بارے میں رپورٹ میں کچھ نہیں کہا گیا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد کو جب فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے طلب کیا اور ان سے اس قتل سے متعلق متعدد سوالات کیے تو وقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جس روز ارشد شریف کو قتل کیا گیا اس وقت گاڑی چلانے والے خرم کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں اور کمیٹی کے ارکان نے جب خرم سے ارشد شریف سے ملاقات اور وہ ان کی سفری تفصیل کے بارے میں پوچھا گیا تو خرم اس سے متعلق کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
وقوعے سے متعلق بتایا گیا ہے کہ خرم جو کہ ارشد شریف کو لے کر گاڑی میں جارہے تھے کہ راستے میں انھیں سڑک پر پتھر نظر آئےجس پر خرم نے ارشد کو بتایا کہ ’یہ ڈاکو ہوں گے‘۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے بتایا کہ جیسے سے سڑک پر پڑے پتھروں کو پار کیا تو انھیں گولیوں کی آواز سنائی دی اور خرم گولیوں کی آواز سن کر بھاگ گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہےجس کے بعد خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا اور فارم ہاؤس وقوعہ سے 18کلو میٹر دور تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیااور اندر بھاگ گیا اور خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے ارشد کے سر میں گولی لگی تھی اور جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے پہلے فارم ہاؤس کی سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن پھر انھوں نے فوٹیج دینے سے معذرت کرلی۔
رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان دونوں افراد کے علاوہ ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے اور وہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے
واضح رہے کہ اسلام آباد میں ارشد شریف کے قتل کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں وقار احمد اور خرم احمد نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔