مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر شائد دنیا کا سب سے حساس ایشو ہے جو ایک ایٹمی جنگ کی مدد سے پوری دنیا کو راکھ میں تبدیل کر سکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور پس منظر
1846ء میں انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر کشمیر پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ لیکن اسی سال 16 مارچ 1846ء کو انگریزوں نے اپنے وفادار گلاب سنگھ ڈوگرا کو 12 بکریوں، ایک گھوڑے، چند شالوں اور 75 لاکھ نانک شاہی کے بدلے کشمیر کی ریاست بیچ دی!
برصغیر کی تقسیم کے وقت فیصلہ ہوا کہ خود مختار ریاستیں خود فیصلہ کرینگی کہ وہ کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہیں تاہم انگریز حکومت کے ماتحت علاقوں کے الحاق کا فیصلہ ہندو مسلم اکثریت کی بنیاد پر کیا جائیگا۔
یہ بات یاد رکھئے کہ 1846ء کے بعد کشمیر میں کئی ایسے واقعات ہوئے جن کے بعد کشمیر کی خود مختاری متنازع ہو چکی تھی۔
کشمیر میں غیر جانبدار ذرائع کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 77 فیصد تھی جبکہ کشمیر کی نمائندہ مسلمان جماعتوں کے مطابق مسلمان آبادی کا تناسب 90 فیصد تھا۔ تب اسکو تاج برطانیہ کے زیر تسلط علاقہ تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کا حصہ بنانا چاہئے تھا۔
کشمیر میں 1924ء میں ہندو ڈوگرا کے خلاف آزادی کی تحریک جنم لے چکی تھی جس نے بعد میں سیاسی مزاحمت کی شکل اختیار کر لی۔
مسلم کانفرس کے نام سے کشمیر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ اس جماعت نے 19 جوالائی 1947ء کو حامد اللہ خان کے زیر صدارت کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اس دن کو آج تک انڈیا میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کچھ عرصہ پہلے نواز شریف کی حکومت نے بھی اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا!
خانہ جنگی کا آغاز اور جہاد کشمیر
1947ء میں تقسیم کے فوراً بعد ہندو مہاراجا ہری سنگھ نے پاکستان کو ابتداء میں خود مختار رہنے کا جھانسہ دیا۔ اسی اثناء میں راولپندی اور سیالکوٹ سے بہت بڑی تعداد میں ہندوؤں نے کشمیر ہجرت کی اور وہاں کی مقامی ہندو آبادی کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی جھوٹی داستانیں سنائیں جس کے بعد فوارً ہی مسلمانوں کے خلاف مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندو، سکھ اور ہری سنگھ کی فوج نے ملکر کشمیر کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا۔
مشہور سکالر الیاس چھٹہ کے مطابق کشمیر کی ہندو ڈوگرا حکومت کا مقصد اس قتل عام کے ذریعے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔ پاکستان اور بھارت کی مقرر کردہ ایک غیر جانبدار برطانوی ٹیم کے مطابق صرف 2 مہینوں میں یعنی ستمبر تک قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 70 ہزار سے اوپر ہوچکی تھی جبکہ کشمیری مسلمانوں کے مطابق مقتولین کی تعداد 2 لاکھ سے اوپر تھی۔ 10اکتوبر1947ء کو لندن ٹاٰٰئمز نے 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کے نیست و نابود ہونے کی خبر شائع کی جبکہ 4 لاکھ نے مجبورا پاکستان ہجرت کی۔ زیادہ تر کشمیری پونچ اور میرپور میں آباد ہوئے۔ انہی نے بعد میں آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی۔
مسلمانوں نے اس قتل عام کے خلاف سردار ابراہیم کی قیادت میں مزاحمت شروع کر دی اور کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا۔ پاک فوج نے اس قتل عام کو روکنے کے لیے ڈوگرا فوج کی رسد کے راستے بند کر دئیے۔
قائد اعظم نے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام روکنے کے لیے انگریز جنرل گریسی کو کشمیر پر فوج کشی کا حکم دے دیا۔
ڈوگرہ فوج کی سپورٹ انڈین آرمی کر رہی تھی جس کی کمانڈ ابھی انگریز کے پاس تھی لہذا گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے معذرت کر لی۔
ظاہر ہے دو انگریز جنرل آپس میں نہیں لڑ سکتے تھے۔
جنرل اکبر خان جو کہ پشتون تھا ان دنوں برگیڈئر تھا۔ اس نے چھٹی لی اور قائد اعظم کی اجازت سے وزیراعلی کے پی کے کے ساتھ ملکر فاٹا سے قبائیلی لشکر تیار کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ کشمیر میں ہندو کے خلاف جہاد ہے، جو کچھ ہندو سے ہاتھ لگا وہ تمہارا مال غنیمت۔ قریباً تین سے بارہ ہزار کا لشکر تیار ہوا۔
لیکن آگے جانے سے پہلے ایک بہت اہم بات!
دوسری جنگ عظیم میں کشمیر سے ساٹھ ہزار کے قریب جوانوں کو برٹش آرمی میں بھرتی کیا گیا تھا جن کو بعد میں ہتھیاروں سمیت فارغ کیا گیا۔
ڈوگرا فوج کے خلاف ابتدائی بغاوت انہوں نے کی تھی۔ مری میں اپنا ہیڈکواٹر بنایا تھا۔ انگریز جنرل کو لاعلم رکھتے ہوئے جنرل اکبر نے ان کو چار ہزار مزید بدوقیں بھی دے دی تھیں۔ چند سو ریٹائرڈ فوجی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔
پاک فوج کے تین ہزار کے قریب جوانوں نے چھٹی لی لیکن گھر جانے کے بجائے ان کو کشمیر بھیجا گیا۔
قبائیلی لشکر کی آمد سے قبل ہی یہ باغی اور گوریلا وردی میں ملبوس پاک فوج پونچ اور میر پور سمیت کشمیر کے ایک بڑے حصے کو ڈوگرا فوج سے آزاد کرا چکے تھے۔
قبائیلی کمک آنے کے بعد شکست کے دھانے پر کھڑی ڈوگرا فوج کی اکثریت بھاگ گئی۔
بھگوڑے راجا کا الحاق
اپنی شکست دیکھتے ہوئے کشمیر کے بھگوڑے راجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر کو کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ کر دیا۔
جسے دوسرے دن ہی انڈین حکومت نے تسلیم کر لیا اور اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔
اس کے بعد انڈین فوجیں آئیں تو قبائیلیوں اور باغیوں دونوں کو پسپا ہونا پڑا۔ کئی اہم علاقے مجاہدین کے ہاتھوں سے چھوٹ گئے۔
تب تک پاک فوج کو انگریز کمانڈ منتقل کر چکے تھے۔ جس کے بعد پاک فوج کے باقاعدہ دستے کشمیر کے محاذ پر پہنچے اور انڈین فوج کی پیش قدمی کو روک دیا۔
تاہم 26 اکتوبر کو ہونے والے معاہدے میں بھی یہ شق موجود تھی کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام ہی کرینگے۔
یہاں کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قائداعظم کو نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بارہا رائے شماری کی پیشکشیں کیں جسے قائداعظم نے مسترد کر دیا اور کشمیر میں پہلے دخل اندازی کی بلکہ اس کو پاکستان کی شاہ رگ قرار دیا۔ تاہم یہ سارے لوگ حیدرآباد اور جوناگڑھ کے بارے میں خاموش رہتے ہیں۔
مسلم اکثریتی ریاست جوناگڑھ نے 15 اگست 1947 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ جسکو قائدعظم نے 16 ستمبر 1947ءکو تسلیم کر لیا۔ انڈیا نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا اور جوناگڑھ کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کر لی۔ جس کے بعد وہاں قحط کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اسی دوران وہاں ذولفقار علی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو جو دیوان کے عہدے پر تھے سے خفیہ مزاکرات جاری رکھے۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں شاہنواز بھٹو نے ایک خط کے ذریعے انڈیا کو نومبر میں جوناگڑھ کا کنٹرول سنبھالنے کی دعوت دی اور انڈیا نے 9 نومبر کو جوناگڑھ میں باقاعدہ اپنی فوجیں اتار کر قبضہ کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ جوناگڑھ کے پاکستان سے الحاق کے فیصلے کو انڈیا نے کس بنیاد پر مسترد کیا تھا ؟؟
اسی طرح حیدرآباد ایک کروڑ سے زائد آبادی اور کشمیر سے بڑے رقبے پر مشتمل ایک خودمختار ریاست تھی۔ وہاں کے مسلمان حکمران جس کو " نظام " کہا جاتا تھا نے 9 جولائی 1947 کو تاج برطانہ کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ حیدرآباد آزاد رہے گا۔ حیدرآباد حکومت کے اس فیصلے کو انڈیا نے فوری طور پر مسترد کر دیا۔ وہاں کے حکمران نے اقوام متحدہ سے بھی مدد طلب کی لیکن وہ بھی اس کے کسی کام نہ آسکی اور بلاآخر انڈین فوجوں نے حیدرآباد پر چاروں طرف سے ایک بھرپور حملہ کرکے قبضہ کر لیا۔ نظام کی 6000 کی مختصر سی فوج انڈین حملے کا مقابلہ نہ کر سکی۔ انڈیا کے اس حملے میں حیدرآباد کے بہت سے مسلمانوں کو مارا اور لوٹا گیا اور بہت سی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ انڈیا نے کس بنیاد پر اس " خود مختار " حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کیا تھا؟؟
جوناگڑھ اور حیدرآباد کے سلسلے میں انڈیا کی ہر دلیل پاکستان تو کیا دنیا کی ہر ریاست کو کسی بھی جگہ بزور طاقت قبضہ کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ انڈیا کی اس بدمعاشی کے مقابلے میں قائداعظم کی مسلمانوں کا قتل عام روکنے کے لیے کشمیر مجاہدین بھیجنے کی پالیسی بہت بڑی نیکی نظر آتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ قائداعظم رائے شماری کے لیے بھی مان گئے تھے لیکن اس شرط پر کہ رائے شماری صرف کشمیر اور جوناگڑھ میں کی جائے۔ اگر حیدرآباد نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کو آزاد رہنے دیا جائے۔ انڈیا نے قائداعظم کی اس شرط کو تسلیم نہیں کیا۔
اقوام متحدہ
1948ء کے اوائل میں جیسے ہی پاک فوج کے باقاعدہ دستے پہلی بار کشمیر پہنچانا شروع ہوئے انڈیا اس مسئلے کو فوری طور پر اقوام متحدہ لے گیا۔ اقوام متحدہ نے 21 اپریل 1948ء کو اپنی قرار نمبر 47 منظور کی جس کے تحت دونوں ممالک سے جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دے دیا۔
انڈیا نے شرط رکھی کہ پہلے پاکستان اپنی افواج اور مجاہدین واپس بلائے تب ہم فوج نکالینگے۔ قائداعظم اس معاملے میں انڈیا پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
بلاآخر 1949ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد کشمیر میں سیز فائر ہوگیا اور پاکستان کی اس وقت کی حکومت اور نہرو نے اقوام متحدہ کی کشمیر میں رائے شماری کے فیصلے کو تسلیم کر لیا۔ جس پر آج تک انڈیا نے عمل درآمد نہیں کیا اور پاکستان آج تک اس کا مطالبہ کر رہا ہے۔
روس نے پہلی بار کشمیر کے مسئلے کو 1957ء میں ویٹو کیا جواباً ایوب خان نے 1959ء میں روس کے خلاف امریکہ کو بڈھ بیر کا ہوائی اڈا استعمال کرنے کی اجازت دےدی۔
کشمیر کو آزاد کرانے کی کوششیں
پہلی جنگ کے بعد پاکستان نے کشمیر کو اب تک تین بار آزاد کروانے کی بڑی کوششیں کیں اور اس کے لیے انڈیا سے جنگ بھی مول لی۔
پہلی کوشش جنرل ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کی صورت میں کی جس کو ناکام بنانے کے لیے انڈیا نے بین الاقوامی سرحد عبور کرتے ہوئے 1965ء میں لاہور پر حملہ کر دیا اور یوں پاکستان اور انڈیا میں پہلی بڑی جنگ ہوگئی۔
دوسری کوشش جنرل ضیاء نے کی تھی جس نے نہ صرف کشمیری مجاہدین کی مدد کر کے تحریک آزادی کو عروج پر پہنچا دیا تھا بلکہ کشمیر کے بارڈر پر سکھوں کی خالصتان نامی ریاست بنانے کی مدد کی جو تقریباً کامیاب ہوگئی تھی۔ لیکن پھر بے نظیر بھٹو کی غداری کی نظر ہوگئی۔ خالصتان بن جانے کے بعد انڈیا کا کشمیر سے زمینی رابطہ کٹ جاتا اور کشمیر خود بخود آزاد ہوجاتا۔
کشمیر کو آزاد کرانے ی تیسری بڑی کوشش جنرل مشرف نے کی تھی جس نے 1999ء میں کارگل کی 6 چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس جنگ میں انڈیا کی 2 لاکھ فوج کو مٹھی بھر پاک فوج اور مجاہدین نے بے بس کر دیا تھا۔ پاکستان اس جنگ میں کس حد تک حاوی تھا اسکا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ قبضہ کی گئی 6 چوٹیوں میں سے صرف ایک پر جنگ ہو رہی تھی۔ انڈین فوج کی سپلائی لائن کاٹ دی گئی تھی اور یہ جنگ کچھ عرصہ اور جاری رہتی تو کشمیر میں موجود کئی لاکھ کی انڈین فوج کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔
کارگل کی جنگ انڈیا کے سیاچن پر ناجائز قبضے کا جواب تھا جس میں انڈیا نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سردیوں میں پاکستان کے خالی کیے گئے مورچوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
پاکستان نے کارگل میں عین وہی انڈین حکمت عملی اپناتے ہوئے ان کے خالی کیے گئے مورچوں پر جوابی قبضہ کیا تو انڈیا پوری دنیا کے سامنے چیخ پڑا اور تو اور سب سے زیادہ بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف نے بھی اسکو " انڈیا کی پٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف" قرار دیا ۔۔۔۔۔ !
کشمیر کاز کو ہونے والے نقصانات
کشمیر کاز کو پہلا اور بڑا نقصان ذولفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدے میں پہچایا جس میں اس نے نہایت احمقانہ انداز میں سیز فائر لائن کو نہ صرف لائن آف کنٹرول تسلیم کر لیا بلکہ یہ بھی مان لیا کہ مسئلہ کشمیر کو ہمیں کسی تیسرے فریق کو ملوث کیے بغیر حل کرنا چاہئے۔ بھٹو کی جانب سے یہ شق تسلیم کیے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کشمیر پر کم از کم ڈیڑھ درجن قرار دادیں پاس کر چکا تھا۔
بے نظیر نے خالصتان تحریک تباہ کر کے کشمیر کاز کو ناقابل نلافی نقصان پہنچایا۔
نواز شریف نے کارگل جنگ میں مجاہدین اور پاک فوج کو غیر مشروط پر طور پہاڑوں کی چوٹیوں سے واپس بلا کر ایک جیتی ہوئی جنگ کو ہار میں بدل دیا اور کشمیر کو آزاد کرانے کا سنہری موقع ضائع کر دیا۔
مولانا فضل الرحمن نے 2002ء میں اپنے انڈیا دورے کے موقعے پر نہ صرف کشمیر کو علاقائی تنازع قرار دیا بلکہ وہاں مجاہدین کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دے دیا۔
انہی مولانا کو کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنایا گیا تو کشمیر پر پاکستان کی آواز خاموش ہوگئی جس کے بعد نومبر 2010ء میں اقوام متحدہ نے کشمیر کو اپنے متنازع علاقوں کی فہرست سے نکال دیا۔ اس پر مولانا اور اس وقت کی جمہوری حکومت بلکل خاموش رہیں حتی کہ پاکستان میں بھی اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہ چلا کہ کتنا بڑا نقصان ہو چکا ہے۔
مشرف نے اپنے دور میں انڈیا کو لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کی اجازت دی جو کہ ایک غلط فیصلہ تھا۔
کشمیر سے بزورطاقت اب تک انڈیا کم از کم 15 لاکھ کشمیریوں کو علاقہ بدر کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں پچھلے کچھ سالوں سے بہت تیزی سے ہندوؤں کی آباد کاری کر رہا ہے جس کے بعد انڈین اعداوشمار کے مطابق لداخ اور جموں میں ہندؤوں کو مسلمانوں پر اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ اب اگر وہ صرف اپنے زیر قبضہ علاقوں میں رائے شماری کروائے تو انڈیا کشمیر جیت سکتا ہے!
انڈین مظالم جنوری 1989ء تا 2008ء
صرف اس عرصے میں پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک مقبوضہ کشمیر میں 92651 کو شہید
105657 مکانات تباہ
107208 بچے یتیم
22670 عورتیں بیوہ
9843 عورتوں کی بے حرمتی
بھارتی قبضے سے آج تک 15 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا جا چکا ہے!
اس ظلم عظیم کے باجود وہاں کے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ پہلے دن کی طرح تازہ ہے اسکا ایک ثبوت کشمیر کے موجودہ حالات ہیں جو پاکستان پوری طاقت سے دنیا کے سامنے پیش کر کے یہ ظلم بند کروا سکتا ہے۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت دی ہوئی ہے۔ اب اس شق کو ختم کر کے بھارت کا حصہ بنانے کے درپے ہے۔
لیکن یاد رکھئے!
کشمیر کو آج بھی اقوام متحدہ نے انڈیا کا حصہ تسلیم نہیں کیا ہے،
نہ ہی پاکستان نے،
اور نہ ہی کشمیری عوام نے۔
کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کی ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے جو پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ صرف اسی کو دیکھا جائے تو کشمیر اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اور حساس تنازع ہے جو ہمارے جمہوری حکمرانوں کی بے حسی کی نظر ہو رہا ہے!!