عمران خان توشہ خانہ سکینڈل

Shahidlogs سے

توشہ خانہ سکینڈل ایک مشہور کیس ہے جس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو تین سال کی سزا اور نااہلی ہوئی۔ پی ڈی ایم حکومت نے اگست 2022ء میں کیس فائل کیا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سالانہ گوشواروں میں توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف ظاہر نہیں کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس پر فیصلہ سنانے کے بعد یہ کیس فوجداری مقدمے کے لیے ٹرائل کورٹ میں بھیجا۔ جہاں عمران خان کو سزا ہوئی۔ دوران ٹرائل اس کیس میں مزید کئی چیزیں سامنے آئیں۔

توشہ خانہ کیا ہے؟

توشہ خانہ یا سٹیٹ ریپازیٹری ایک سرکاری محکمہ ہے جو کیبنٹ ڈیوژن کے زیرنگرانی کام کرتا ہے۔ اس کا قیام 1974ء میں عمل میں آیا۔ یہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی۔

ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔

سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے۔ حکام کے مطابق اگر سربراہان مملکت یا وزرا یہ تحائف نہیں رکھتے تو پھر ان تحائف کی فہرست تیار کر کے انھیں توشہ خانہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔

توشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اگر اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں تو انھیں عام عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم ان قیمتی اشیا کو خریدتے ہیں انھیں اپنی ذرائع آمدن ڈیکلیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔

عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ کیس

اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی رانا انور خالد نے 2021ء انفارمیشن کمیشن میں ایک درخواست دی۔ اس درخواست میں مطالبہ کیا کہ مجھے عمران خان کو توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات دی جائیں۔ کمیشن نے اس کی درخواست منظور کی اور کیبنٹ ڈیوژن کو حکم دیا کہ صحافی کو معلومات فراہم کی جائیں۔ کیبنٹ ڈیوژن نے اس حکم کو ھائی کورٹ میں چلینج کر دیا کہ تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے سے مذکورہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ تاہم اپریل 2022ء میں کئی سماعتوں کے بعد ھائی کورٹ نے حکم دیا کہ مذکورہ معلومات فراہم کی جائیں۔

ریفرنس

یہ تفصیلات سامنے آئیں تو مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا اور چار دیگر اراکین نے عمران خان کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں انھیں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ ’بددیانت‘ ہیں، لہٰذا انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔ جس پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چار اگست کو الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت ریفرنس بھیج دیا۔ اس ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی۔

عمران خان کا جواب

الیکشن کمیشن کے استفسار پر عمران خان نے سات ستمبر کو توشہ خانہ ریفرنس میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا۔ عمران خان کے جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران انھیں اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔ ان تحائف میں زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انھوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادائیگی کر کے خریدا۔ اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں چار تحائف فروخت کیے تھے۔ سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انھوں نے دو کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے حاصل کردہ تحائف کی فروخت سے تقریباً پانچ کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے۔ ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر تحائف میں چار رولیکس گھڑیاں بھی شامل تھیں۔

فیصلہ

کئی سماعتوں کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ عمران خان کرپٹ پریکسٹس کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انھیں آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ’ہماری (الیکشن کمیشن) کی فائنڈنگز، ریکارڈ پر دستیاب مواد اور فریقین کے وکلا کے دلائل کی روشنی میں ہماری یہ رائے ہے کہ مدعا علیہ (عمران خان) کی آئین کے آرٹیکل 63 ون (پی) اور اس کے ساتھ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 137, 167 اور 173 کی روشنی میں یہ نااہلی کی گئی ہے۔‘

’اس کے نتیجے میں وہ (عمران خان) قومی اسمبلی کی نشست سے محروم ہو چکے ہیں اور یوں اُن کی نشست خالی ہو چکی ہے۔ کیونکہ انھوں (عمران خان) نے غلط بیانی کی اور اثاثہ جات کے درست گوشوارے جمع نہیں کرائے۔‘

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس وجہ سے وہ (عمران خان) کرپٹ پریکٹس کے مرتکب بھی ہوئے ہیں، جن کا ذکر الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 167 اور 173 میں درج ہے اور اس کی سزا اس ایکٹ کی دفعہ 174 میں درج ہے۔ دفتر کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اب (یہ جرائم ثابت ہونے پر) قانونی کارروائی کا آغاز کرے اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 190 ٹو کے مطابق فالو اپ ایکشن کو یقینی بنائے۔‘

فیصلے کے بعد

الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عمران خان نے 22 اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد ھائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ میں نے تحائف توشہ خانہ سے قانونی طریقے سے خریدے۔ ان کو بیچ کر سڑک بنائی جو میرے پڑوس میں رہنے والے دوسرے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مجھ سے پہلے اصل قیمت سے بہت کم مہنگے تحائف خریدے گئے۔ میں نے تو گھڑی خریدنے کے لیے 20٪ سے 50٪ رقم ضروری قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف عمران خان نے لانگ مارچ (2) کا اعلان کیا۔

عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کا فوجداری کیس

21 نومبر 2022ء کو عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے ٹرائل کورٹ کو ریفرنس بھیجا۔ الیکشن ایکٹ 137، 170 اور 167 کے تحت سیشن جج سے ریفرنس وصول کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی معلومات جمع کرائیں اور حقائق کو چھپا کر مذکورہ قوانین کی خلاف ورزی کی۔ عمران خان کرپٹ پریٹکسز کے مرتکب ہوئے۔

27 اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے کیبنٹ ڈیوژن کو حکم دیا کہ 1947ء سے لے کر آج تک تمام تحائف کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔ عمران خان نے توشہ خانہ کیس لڑنے کے یل خواجہ حارث نامی وکیل کو ھائر کیا۔ 10 مئی 2023 کو، خان پر ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے فرد جرم عائد کی۔ اسلام آباد ھائی کورٹ نے 8 جون تک ٹرائل روک دیا۔ ھائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 4 جولائی کو سیشن جج جسٹس دلاور کو حکم دیا کہ وہ 7 دن کے اندر عمران خان کی فوجداری کاروائی خارج کرنے کی درخواست کا دوبارہ جائزہ لیں۔ 9 جولائی کو جسٹس دلاؤر نے کیس قابل سماعت قرار دیتے ہوئے کاروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

5 اگست 2023 کو، اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 174 کے تحت "بدعنوانی" کا مجرم قرار دیا اور انہیں تین سال قید کے ساتھ ساتھ 1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ عمران خان کو اسی دن حراست میں لے لیا گیا اور اٹک جیل بھیج دیا گیا۔

توشہ خانہ کیس میں ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ملزم، یعنی عمران خان، کے خلاف توشہ خانے کے تحائف حاصل کرنے کے باوجود 2018-2019 اور 2019-2020 میں اثاثوں کی جعلی تفصیلات دینے کا الزام ثابت ہوا ہے۔ عمران خان نے سرکاری خزانہ سے فوائد حاصل کیے مگر اسے ’جان بوجھ کر چھپایا‘ جس سے وہ ’بدعنوانی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ انھوں نے توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کی معلومات چھپائی، (ان کی فراہم کردہ معلومات) بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی۔ ان کی بددیانتی بغیر کسی شک کے ثابت ہوتی ہے۔ اس عدالتی فیصلے میں الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 174 کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ انھیں یہ الزام ثابت ہونے پر تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جاتی ہے۔ ’اگر وہ (جرمانے کی) ادائیگی نہ کر سکے تو انھیں مزید چھ ماہ قید کی سزا دی جائے گی۔‘

عمران خان کی قانونی ٹیم نے 8 اگست کو سزا کے خلاف اپیل دائر کی۔ 29 اگست کو ھائی کورٹ کے دو رکنی بینج نے عمران خان کی سزا معطل کر دی۔

توشہ خانہ کیس میں دیگر الزامات

ہم نے توشہ خانہ 50٪ کا کیا۔ یہ عمران خان سمیت تمام پی ٹی آئی کہتی رہی۔

لیکن الیکشن کمیشن کے سامنے اعتراف کیا کہ 10 کروڑ کے تحائف 50٪ فیصد والے قانون کے تحت نہین بلکہ 20٪ والے قانون کے تحت خرید کر اپنے پاس رکھے۔

فواد چودھری نے 16 نومبر 2022ء کو بیان دیا کہ 10 کروڑ اس گھڑی کی قیمت کا اندازہ لگایا گیا۔ جس کا 20 فیصد ادا کر کے عمران خان نے تحفہ حاصل کیا۔

جس وقت عمران خان نے 20٪ پر گھڑی خریدی اس وقت تک نیا قانون لاگو ہوچکا تھا اور 35 دن بھی گزر چکے تھے۔ 22 جنوری 2019ء کو 2 کروڑ جمع کرائے جو 10 کروڑ کا 20 فیصد بنتا ہے۔ جب کہ دسمبر 2018ء کو وہ قانون بدل چکے تھے۔

دیگر حکمران جن کو توشہ خانہ کیسز کا سامنا ہے

عمران خان کے علاوہ پاکستان کے سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھی توشہ خانہ کیسز کا سامنا ہے۔

نیب ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انھوں نے قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔

نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 'Li' 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔ نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔

ریفرنس کے مطابق آصف زرداری یہ گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔

توشہ خانہ معاملے پر بحث

توشہ خانہ کیس کا فیصلہ متعصابانہ ہے وجہ جسٹس دلاؤر کی سوشل میڈیا پوسٹس

فئیر ٹرائل کے حق میں محروم رکھنا

اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کا موقع نہ دینا

وکلاء کو کیس کے دفاع سے محروم رکھنا

تیز رفتاری سے مقدمہ چلانا

پینتیس صفحات پر مشتمل فیصلہ تیس منٹ میں پیش کرنا

فیصلہ سنائے جانے کے پندرہ منٹ بعد لاہور رہائش گاہ سے عمران خان کی گرفتاری بغیر وارنٹ کے

سرنڈر کے باجود گھر پر دعوی اور دروزے کھڑکیاں توڑنا

بغیر سرچ وارنٹ کے گھر کی تلاشی

سماعت میں تاخیر عامر فاروق کا سماعت ملتوی کرنا

جیل حکام کا عداتل میں پیش نہ کرنا

تمام بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔

ٹوائلٹ چھوٹا اور کھلا ہے

انہیں جیل میں کھانے میں زہر دیا جا سکتا ہے۔

انہیں قانونی ٹیم سے ملنے کو بھی اجازت نیہں

وزن تیزی سے کم ہورہا ہے

لیکن ڈٹ کر کھڑا ہے

جیل سے پیغام دیا کہ میں ہزار سال بھی اس چھوٹے سے سیل میں رہنے کو تیار ہوں۔ حقیقی آزادی کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔

پی ٹی آئی نے کہیں بھی کیس میرٹ پر نہیں لڑا ۔۔ بلکہ ٹینیکل بنیادوں پر وہ عمران کان کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔

توشہ خانہ کا اصل کیس قومی احتساب بیورو میں چل رہا ہے جو زیادہ سنگین ہے۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ 'میرا تحفہ میری مرضی'۔ یعنی میں چاہوں میں رکھوں چاہوں تو فروخت کروں۔

توشہ خانہ کا جب پور ریکارد پبلک ہوا تو پی ٹی آئی نے ہر اس شخص کو چور کہنا شروع کر دیا جس جس نے توشہ خانے سے تحفہ خریدا۔

اس ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ  مالیت کی چیزیں زرداری نے خریدی ہیں، دوسرے نمبر پر عمران خان ہیں اور تیسرے نمبر پر نواز شریف ہیں۔

لیکن بات صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں بلکہ جرنیلوں، صحافیوں اور بیوروکریٹ نے بھی ان غیر ملکی تحائف پر ہاتھ صاف کیا ہے گو کہ ان کے حصے میں نسبتاً کم قیمت چیزیں آئیں۔  

پھر اس نے دس گنا قیمت پر وہ تحفہ دوبارہ بیچا تو ملنے والی رقم ڈکلئیر نہیں کی،

اور دو سال بعد تب ڈکلئیر کی جب یہ ایشو بن چکا تھا۔ یاد رکھیں نواز شریف کو دس ہزار درہم تنخواہ چھپانے پر نااہل کیا گیا تھا جس پر آج تک پی ڈی ایم روتی ہے کہ نواز شریف کو اس تنخواہ پر ہٹایا گیا جو اس نے کبھی لی ہی نہیں۔

جس مبینہ خریدار نے تحفہ خریدا اس کا دعوی ہے کہ میں نے 10 کروڑ نہیں بلکہ تقریباً 40 کروڑ روپے کے مساوی ادائیگی کی ہے۔ مخالف پارٹیاں اس کی بھی تحقیقات چاہتی ہیں۔ عمران خان نے اپنے کچھ آخری دوروں میں ایک بھی تحفہ توشہ خانے میں جمع نہیں کرایا۔ جس پر پی ڈی ایم کا دعوی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کو تحفے نہ ملیں ہوں۔ وہ اس پر بھی تحقیقات چاہتے ہیں۔

عمران خان نے تقریباً 6 ارب روپے مالیت کی گھڑی 9 لاکھ 35 ہزار روپے میں توشہ خانہ سے خریدی اور اس کو 60 کروڑ روپے میں بیچ دیا۔ لیکن کیس یہ نہیں کہ گھڑی کیوں خریدی!

اگر محض گھڑی خریدنے کا معاملہ ہوتا تو وہ قانون پیش کرتا اور کیس ختم ہوجاتا۔ اس کیس میں کچھ ایشوز اور ہیں جن کی وجہ سے عمران خان پھنس رہا ہے اور جن کی وجہ سے اس نے ایک سال تک کیس چلنے نہیں دیا اور مسلسل حاضری سے استثنی لیتے رہے۔ سپریم کورٹ اور ھائی کورٹ میں اپیلیں بھی دائر کیں کہ اس کیس کو چلنے سے روکا جائے۔

اس کیس میں درج ذیل ایشوز ہیں۔

عمران خان نے کروڑوں اربوں روپوں کی یہ گھڑی اپنے اثاثہ جات میں ظاہر نہیں کی۔ تب ظآہر کی جب سکینڈل میڈیا کی زینت بنا۔ یاد رہے کہ نواز شریف نے صرف چند ہزار درہم کی تنخواہ چھپائی تھی اور اس پر نااہل کر دیا گیا تھا۔

تحفے کی قیمت کا تخمینہ متعلقہ فورمز سے نہیں لگوایا۔ خود ہی تعئن کر کہ 9 لاکھ 35 ہزار کی قیمت لگا دی۔ جو اصل قیمت کا ہزارواں حصہ ہے شائد۔ یہ بہت بڑی بےایمانی تھی۔

قیمت بھی توشہ خانہ میں جعع نہیں کروائی۔ بلکہ پہلے گھڑی بیچی۔ اس میں ڈالرز کی موجودہ قیمت کے حساب سے 60 کروڑ پاس رکھ کر اس میں سے 9 لاکھ 35 ہزار توشہ خانے میں جمع کروا دیے۔

جمع کروائی گئی رقم بھی عمران خان کے اکاؤنٹس سے ٹرانسفر نہیں ہوئی۔

تحفہ اسی ملک میں بیچ دیا جہاں سے ملا تھا یوں پاکستان کی ریاستی سطح پر سبکی ہوئی۔

تحفہ بیرون ملک پرائیویٹ جہاز میں بھیجا اس طرح کسٹم قوانین کی خلاف ورزی بھی کی۔

تحفے سے حاصل ہونے والی رقم بھی بینکنگ چینل یا قانونی طریقے سے پاکستان نہیں آئی۔

ایک ہاتھ سے تیار کی گئی جعلی رسید پیش کی گئی۔ جس پر جعل سازی کا کیس الگ سے بنتا ہے۔

عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو جتنے بھی تحفے ملے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی توشہ خانہ میں نہیں رہنے دیا اور تمام کے تمام تحفے وہاں سے اٹھا چکے ہیں۔ لیکن ان سب میں سب سے قیمتی سعودی شاہی خاندان سے ملنے والی یہ گھڑی تھی جس کا کیس وہ بھگت رہا ہے۔ عمران خان پر ایک الزام بھی ہے کہ آخری کچھ دوروں میں ملنے والے تحفے اس نے توشہ خانہ بھیجنے کی زحمت بھی نہیں کی اور سیدھے بنی گالہ لے گئے۔

عمران خان کا اس کیس پر ابتدائی موقف یہ تھا کہ یہ کیس نہیں چلنا چاہئے دوست ممالک کے سامنے پاکستان کی سبکی ہوگی۔ اس کے بعد موقف اختیار کیا کہ میرا تحفہ ہے میری مرضی، چاہے بیچوں چاہے رکھوں۔ پھر دعوی کیا کہ میں سارے ثبوت عدالت میں دونگا۔ اب کہتے ہیں کہ میں لاعلم ہوں یہ تو فلاں نے کیا اور فلاں نے کیا۔ فیصلہ خلاف آیا تو موقف اختیار کریںگے کہ ہمارے گواہوں کو سنا نہیں گیا جنکا وہ کیس سے تعلق ہی ثابت نہیں کر سکے۔ پھر کہیں گے ہمیں وقت نہیں دیا گیا اپنی صفائی کا۔ جب کہ کیس سوا سال سے چل رہا ہے جو اپنی بےگناہی کے ثبوت پیش کرنے کو بہت کافی وقت ہوتا ہے۔

اسی معاملے پر بشری بی بی اور زلفی بخاری کی اڈیو لیک بھی موجود ہے کہ تحفے دراصل کیسے فروخت کیے جاتے تھے۔ اس کیس میں اثاثہ جات چھپانے، جعل سازی اور خردبرد کرنے کے کئی پہلو ہیں۔ یہ کیس عمران خان کو نااہل بھی کروا سکتا ہے اور جیل بھی بھجوا سکتا ہے۔

جج نے فہرست کیوں مسترد کی؟

تب تو یہ پارٹی میں ایکٹیو ہی نہی تھے؟ پارلیمنٹ ھاؤس میں داخل نہین ہوسکتے تھے۔ ورنہ یہ گواہ کب کے پیش کرچکے ہوتے۔ گواہ کہاں ہین؟ گواہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ آپ نے گواہ ساتھ کیوں نہیں لائے؟ ہمیں ٹائم دیں ہم گواہ تیار کرتے ہٰں۔ آپ صرف عدالت کا وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ حق گواہی سلب کروا لی۔ جج دبنگ جج ہین۔

غیر متعلق گواہوں کو پیش کرنے کے جرم میں حق گواہی سلب کی جاتی ہے۔

عمرا خان کا یارکر نو بال ثابت ہوا۔ وسیم چیمہ صاحب انوالو تھے۔ جس چیز کا علم نہ ہو تو نہیں کہنا چاہئے۔ بطور گواہ پیش ہی نہین کیا۔ اگر عدالت چاہے تو ملٹری سیکٹری کو بلا سکتی ہے۔

بشری بی بی اور زلفی بخاری بچا سکتے ہیں۔ اگر چاہیں تو۔ غیر متعلق گواہ ہیں۔ سیکٹری اطلاع بھی ڈال دیا جو اس وقت بیچ مٰں تھا ہی نہیں۔ سوائے کیس لٹاکنے کی کوشش کی۔ فیس بک پر پوسٹیں بھی جعل سازی ثابت ہوئی پی ٹی آئی۔ ایف آئی اے نے عدالت میں رپورٹ پیش کی ہے۔ سکرین شاٹس کا کوئی یو آر ایل موجود نہیں۔ لگتا ہے جیسے یہ سکرین شاٹ بنائی گئی ہیں بس۔ یہ تو کوئی بھی بنا سکتے ہیں۔ جج ہمایوں دلاؤر کے اکاؤنٹ میں کچھ بھی موجود نہیں۔ اس میں ان کی صرف ذاتی پوسٹیں موجود ہیں۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔

سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔

نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 'Li' 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔ نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔

اسی طرح واضح رہے کہ کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی طرح عمران خان پر توشہ خانہ کے حوالے سے ایک ہی جیسا کیس ہے جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ دوسرے حکمرانوں نے غیر اخلاقی کام کیے لیکن غیر قانونی کام نہیں کیے، کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق وہ ہر تحفے کی قیمت کا بیس فیصد ادا کرتے تھے لیکن عمران خان نے توشہ خانہ کے حوالے سے قانون کی بہت سی خلاف ورزیاں کیں۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اس 20 فیصد سلیب کو بڑھا کر 50 فیصد کر دیا، لیکن الزام ہے کہ قانون بننے کے بعد بھی عمران اور ان کے لوگوں نے 20 فیصد کے پرانے سلیب کے مطابق ادائیگی کی۔

دوسرا یہ کہ قانون کے مطابق ایک کمیٹی نے تحفے کی قیمت کا تخمینہ لگانا تھا لیکن انہوں نے اس کمیٹی سے کبھی تخمینہ نہیں لگوایا اور خود ہی قیمت کا تعین کرتے رہے۔ تیسرا یہ کہ ماضی کے حکمرانوں نے تحفے لیے اور اپنے پاس رکھے۔ چوتھا یہ کہ ماضی میں حکمرانوں نے اپنے پاس رکھے لیکن بیچنے کے ثبوت سامنے نہیں آئے، جبکہ عمران خان نے انہیں رکھنے کے علاوہ آگے بیچ دیا اور الزام ہے کہ بیرون ممالک میں بھی انہوں نے بیچے۔ پانچویں خلاف ورزی یہ تھی کہ تحفے کی رقم کا بیس فیصد عمران خان کے اکاؤنٹ سے خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی، بلکہ اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی، جسے انہوں نے اپنے اثاثوں میں الیکشن کمیشن کو ظاہر نہیں کیا۔ چھٹا یہ کہ عمران نے یہ تحائف بیرون ملک پرائیویٹ جہاز میں فروخت کے لیے بھیجے اور اس طرح کسٹم قوانین کی خلاف ورزی کی گئی اور فروخت سے حاصل ہونے والی رقم دبئی سے بینکنگ چینل کے ذریعے نہیں آئی۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی جانب سے قواعد کی خلاف ورزی کے کیس کا حوالہ د یتے ہوا کہا کہ عمران خان کو کئی کروڑ مالیت کی انتہائی مہنگی گھڑی تحفے کے طور پر ملی جسے ان کے دوستوں نے بیرون ملک میں فروخت کیا اور اس کے اوپر انہوں نے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک رسید پاکستان میں تیار کر کے جمع کرائی یعنی جعلسازی بھی کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان نے نہ صرف تحفہ فروخت کیا بلکہ بعد میں جعلی رسید بھی تیار کی۔

اس طرح اخلاقی لحاظ سے یکساں ہونے کے باوجود عمران خان کا کیس قانونی لحاظ سے دوسروں سے مختلف ہے۔ اسی لیے وہ عدالت میں پیش ہونے سے گریزاں ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس کیس کی وجہ سے ان کے لئے پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس کو سیاسی شکل دے کر اس سے اپنے لئے سیاسی فائدے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

رواں سال اگست میں الیکشن کمیشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایم این ایز کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔‘

ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔

س سے قبل سپریم کورٹ 2017 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنے بیٹے کی کمپنی ایف زیڈ ای سے قابل ادائیگی رقم ظاہر نہ کرنے پر نااہل کر چکی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق نواز شریف 2013 میں دائر کیے گئے کاغذات نامزدگی میں ایف زیڈ ای نامی کمپنی میں اپنے اثاثے ظاہر نہ کر کے صادق اور امین نہیں رہے۔

نوٹ ۔۔ جن قوانین کے تحت مقدمہ چلا وہ بھی درج کرنا مناسب رہے گا۔

دیگر

عمران خان اور اس کے وکلاء نے کیس لڑنے کے بجائے مسلسل لٹکانے کی کوشش کی اور تیکنیکی بنیادوں پر کیس سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ [1]