عمران خان کی اداروں کے خلاف جنگ
عمران خان اور اس کی جماعت نے پاکستانی فوج کے خلاف پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی پروپیگنڈا مہم چلائی۔ اس میں بےپناہ جھوٹ بولا گیا۔ [1] اس مہم کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت جنرل باجوہ نے گرائی۔ اس کے بعد ارشد شریف کے قتل سے لے کر ظل شاہ کے قتل اور عدالت سے عمران خان کے خلاف ہونے والے ہر فیصلے کا ذمہ دار بھی فوج کو ٹہرایا۔
فوج کا موقف ہے کہ عمران خان کے تمام الزامات بےبنیاد اور محض قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔
عمران خان کا سوشل میڈیا سنبھالنے والے مشوانی کو پکڑا گیا تو انکشاف ہوا کہ وہ ٹویٹر پر چند ایسے بڑے اکاؤنٹس بھی چلا رہا تھا جن سے فوجی قیادت کو ننگی گالیاں دی جارہی تھیں۔
پی ٹی آئی پولیس اور ججوں کو دھمکیاں دیتی ہے۔ ان پر متعدد کیسز ہیں لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔ پولیس کو دھمکیاں دے چکے ہیں حتی کہ پولیس افسران کی تصاویر سوشل میڈیا پر سرکولیٹ کیں اور اپنے کارکنوں کو پولیس کے خلاف اکسایا۔
عمران خان پر تنقید کی جاتی ہے کہ عدلیہ سمیت دیگر اداروں کے صرف وہ فیصلے قبول کرتے ہیں جو ان کے حق میں ہوں۔ جو ان کے خلاف ہوں وہ قبول نہیں کرتے اور اداروں پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ عمران خان نے اپنی تقریروں میں اور اپنے کارکنوں کے ذریعے براہ راست ججوں کو ہراساں کیا۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ عمران خان نے پرویز الہی کی مدد سے ججوں کو خریدنے کی بھی کوشش کی۔
عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کو روکنے کے لیے جنرل باجوہ دوسری بار ایکسٹینشن دینے کی پیشکش کی۔ [2]
تحریک عدم اعتماد میں شکست کے بعد عمران خان مختلف قومی اداروں کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ دی۔ سب سے پہلے نشانہ اس کا فوج بنی۔ فوج کے خلاف عمران خان نے نہ صرف بہت بڑی سوشل میڈیا مہم شروع کی بلکہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر منظم حملے بھی کروائے۔ پولیس پر بھی حملے کروائے۔ اس کے علاوہ عدلیہ پر حملے کروائے اور ججوں کو ہراساں کیا۔ تحقیقات کے لیے آنے والی جے آئی ٹی کے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے ان کو انگلی کے اشارے سے دھمکی دی۔
پی ٹی وی پر حملہ
عدلیہ پر حملہ
الیکشن کمیشن
سندھ ھاؤس پر حملہ
جے آئی ٹی کو دھمکیاں