جسٹس محسن اختر کیانی

Shahidlogs سے

جسٹس محسن اختر کیانی بطور وکیل اسلام آباد بار کے صدر تھے۔ ان پر الزام ہے کہ اپنے اسی اسرورسوخ کو استعمال کر کے وہ اسلام آباد ھائی کورٹ کے جج بنے۔

بطور صدر اسلام آباد بار اس نے اسلام آباد ھائی کورٹ سے خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ججوں کو نکالنے کے لیے بھی پیٹیشن دائر کی تھی۔ [1]

اسلام آباد ھائی کورٹ کا جج بننے کے بعد اس نے جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ ملکر متعدد عہدے اپنے پاس رکھے اور اسلام آباد ھائی کورٹ سے بلوچستان اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے کئی ججوں کو نکلوایا۔ [1]

اسلام آباد ھائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشنل کاؤنسل میں زمینوں پر قبضے، اثاثہ جات چھپانے اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا ریفرنس دائر کیا گیا۔ [2]

جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کاؤنسل میں دائر ریفرنس کے مطابق موصوف نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کی مالیت 5 سے 6 کروڑ روپے ظاہر کی جبکہ ان کے اصل اثاثوں کی مالیت ایک ارب 87 کروڑ 70 لاکھ روپے ہے۔ [2]

اسی ریفرنس کے مطابق غیر ملکی دوروں پر جسٹس محسن اختر کیانی نے 2 کروڑ روپے خرچ کیے۔ [2]

محسن اختر کیانی ان چھ ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایجنسیوں پر الزام لگایا کہ وہ ان پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ یہ الزام انہوں نے سپریم جوڈیشل کاؤنسل میں دائر ریفرنس کے ایک سال بعد لگایا۔

لیکن نچلی عدالتوں کے ججوں نے اسلام آباد ھائی کورٹ کے چیف جسٹس کو جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف خط لکھا کہ وہ ہمارے مقدمات میں بےجا مداخلت کرتا ہے اور اپنے مرضی کے فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالتا ہے۔ [1]

جسٹس محسن اختر کیانی پر جج ہونے کے باوجود ایک اپنے حامی وکلاء اور ججوں کا ایک پریشر گروپ بنانے کا الزام ہے۔ [1]

ان کا اصل نام جسٹس محسن اختر کیانی ہے۔ لیکن وکلاء برادری میں انکو 'محسن پلاٹیا' کہا جاتا ہے۔ [3]

اپنے چیمبر میں بلوا کر پلاٹوں کی ڈیلیں کرواتے ہیں۔

محسن اختر کیانی ایک سوسائیٹی کے مالک ہیں۔

800 کنال سی ڈی اے کی زمین پر قابض ہیں لیکن کسی کی مجال نہیں جو پوچھے۔ [3]

محسن اختر کیانی راولپنڈی اسلام آباد کے سب سے بڑے بدمعاش اور قبضہ گروپ تاجی کھوکھر کے درست راست کہلاتے تھے۔ اپنے چیمبر کے وکیلوں کو جج بنوا چکے ہیں۔ جن سے بعد میں بڑے بڑے 'کام' لیے جاتے ہیں۔

رفعت نامی خاتوں کے ساتھ انکا معاشقہ کافی مشہور ہوا۔ [3]

زانی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شراب نوشی بھی مشہور ہے۔

حوالہ جات